انٹرنیٹ کو پابندیوں کے جال سے بچاتے لوگ
وہ تنظیمیں اور ادارے جو علم کے اس خزینے کو بے جا قوانین سے محفوظ بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
اظہار رائے کی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اگلے وقتوں میں تحریروتقریر کی آزادی ہی آزادی رائے کے زمرے میں شمار کی جاتی تھی۔
تاہم 1980 کی دہائی میں کمپیوٹرز کے استعمال اور پھر انٹرنیٹ کے آجانے سے آزادی اظہار کی تعریف ہی بدل گئی اور آج کتابی شکل میں پیش کیے گئے خیالات سے زیادہ کمپیوٹر پر لکھی گئی تحریروں یا ترسیلی پیغامات پر کڑی نظر رکھنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، بل کہ انٹرنیٹ کے نظام کو مزید بہتر اور تیز رفتار بنانے کے ساتھ ساتھ بعض ترقی یافتہ ممالک میں اس نظام پر اپنا اثر و رسوخ اور عالمی سطح پر بالا دستی رکھنے کی جنگ شروع ہوچکی ہے، بالخصوص امریکا اور بہت سے یورپی ممالک اس حوالے سے سرگرم ہیں، جس کے لیے نت نئے سافٹ ویئر، مانیٹرینگ سسٹم اور آپریٹنگ سسٹم بنائے جارہے ہیں، تو دوسری طرف انٹرنیٹ سسٹم پر اپنی دسترس رکھنے کے لیے من پسند قوانین تشکیل دیے جارہے ہیں۔
اس صورت حال میں جب کہ انٹرنیٹ کا استعمال ناگزیر ہوچکا ہے اور انٹارکیٹیکا کے برف پوش علاقوں سے لے کر افریقہ کے صحرائے صحارا کے تپتے میدانوں اور سمندروں کی گہرائیوں سے کائنات کی تاریکیوں تک، ہر جگہ انٹرنیٹ تحقیق اور جستجو کے متلاشیوں کے لیے ہراول دستے کا کام سرانجام دے رہا ہے، قابل تاسف امر یہ ہے کہ اطلاعات، معلومات، پیغامات اور اعتراضات سمیت ہر پہلو کو محض انگلیوں کی جنبش سے عام کرنے والے اس اہم ترین ٹول کو خاص و عام کی دسترس سے نہ صرف دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، بل کہ عوام کی ذاتی معلومات اور کوائف پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔
لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ان منفی کوششوں کے سامنے کچھ ایسی قوتیں یا ادارے سیسہ پلائی دیوار بن چکے ہیں جو عوامی سطح پر انٹرنیٹ کے استعمال میں کچھ ممالک کے بڑھتے ہوئے بے جا اثرو رسوخ کو کم کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ زیرنظر تحریر میں انہی کوششوں کے حوالے سے سرگرم عمل اہم اداروں یا تنظیموں کے بارے میں معلومات دی جارہی ہیں۔
٭الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن(EFF)
صارف کی برقی ترسیلات مثلاً کمپیوٹر بیسڈ ایس ایم ایس، ای میل، ویب سرفنگ اور بلاگ وغیرہ کے استعمال اور رسائی کے دوران اظہاررائے اور شخصی آزادی کے لیے سرگرم عمل EFFکا تعلق امریکا سے ہے۔ 1990کی دہائی میں حادثاتی طور پر تشکیل پانے والے اس ادارے کے روح رواںMitch Kapor ہیں، جو مشہور زمانہ لوٹس 123پروگرام کے خالق اور Mozilla ویب براؤزر فاؤنڈیشن کے اولین چیئرمین کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ان کے علاوہ بانی اراکین میں John Perry Barlow اور John Gilmore ہیں۔
بنیادی طور پر اس ادارے کی بنیاد 10جولائی 1990کو اس وقت رکھی گئی جب ایک غلط فہمی کے باعث امریکا کے سیکوریٹی کے ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے Barlow پر میکنٹوش کمپیوٹر کے سورس کوڈ اور ڈیٹا کی چوری کے لیے تحقیق کی تو اس وقت انہیں اندازہ ہوا کہ FBIکے افسران کمپیوٹر کی تیکنیکی معلومات سے نابلد ہیں جس کے باعث ''جان بارلو'' کو خود کو معصوم ثابت کرنے میں سخت مشکلات آئیں۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے کمپیوٹر پروگرامر ''میچ کپور'' سے رابطہ کیا، وہ بھی ایسی ہی صورت حال سے گزر چکے تھے۔
دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ انٹرنیٹ یوزر کی سائبر اسپیس میں تحریر اور تقریر کی آزادی میں سیکرٹ سروس کی مداخلت روکنے کے لیے قوانین کا تحفظ پیدا کریں گے اور عام افراد کو اس حوالے سے قانونی مدد اور مشورے فراہم کریں گے۔ اس مرحلے پرJohn Gilmoreنے ان کا ساتھ دیتے ہوئے مالی اعانت کا وعدہ کیا۔
یہ وہی وقت تھا جب کمپیوٹر گیمز کے اولین تخلیق کار ''اسٹیو جیکسن '' کے ادارے ''اسٹیو جیکسن گیمز'' پر ڈیٹا چوری کا الزام لگاتے ہوئے امریکی سیکرٹ سروس ان کے دفاتر پر چھاپے مار رہی تھی، جس کے جواب میں اسٹیو جیکسن نے امریکی سیکرٹ سروس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی تھی کہا جاتا ہے کہ اس معاملے میں EFF کی جانب سے ''اسٹیو جیکسن گیمز ''کی پوشیدہ طور پر قانونی معاونت کی گئی تھی، جس کے باعث یہ ادارہ مقدمہ جیتنے میں کام یاب ہوا تھا۔ ِ واضح رہے کہ اس کیس کے فوراً ہی بعد EFF سائبر اسپیس استعمال کرنے والوں کو تحفظ دینے کے حوالے سے فعال ہوگئی تھی۔
الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن نہ صرف انٹرنیٹ صارفین اور ٹیلی مواصلات سے متعلق قانونی معاملات میں عوام کی معاونت کرتی ہے، بل کہ وہ ان تمام نئی ٹیکنالوجیز کو عام فرد کے استعمال کے لیے بھی یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے جنھیں حکومتی یا بعض نجی ادارے اپنے تصرف میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سےEFFحکومتی اداروں کی بے جا مداخلت کے بارے میں قانونی چارہ جوئی بھی کرتی ہے یا پس پردہ رہنے والے کمپیوٹر پروگرامر یا کمپیوٹر سافٹ ویئر اداروں کے تحفظ کے لیے عدالت جاتی ہے۔
واضح رہے کہ EFFاپنی تشکیل کے وقت سے اب تک تقریباً 300عدالتی کارروائیوں میں ڈیجیٹل شخصی آزادی کے لیے آواز اٹھانے میں مختلف اداروں اور عوام کے شانہ بشانہ رہی ہے۔ ان شعبوں میں نامعلوم افراد کی جانب سے حکومتی اداروں پر تنقید کے بعد حکومتی اداروں کی جانب سے ان افراد پر مقدمات قائم کرنے کی صورت میں EFFکا ان افراد اور ان کے مقاصد کا دفاع کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ بلاگرز کے تحریری حقوق کی آزادی میں رکاوٹ بننے والے قوانین کے خلاف چارہ جوئی، ثنائی(Digital) حقوق کی تقسیم میں آزادی، ڈیٹا کی ترسیل کے دوران فائل شیئرنگ کے حقوق کی آزادی، سائبر اسپیس میں آزادی تقریر، نئی تیکنیکی تخلیقات پر اداروں کی اجارہ داری روکنا، دانش وارنہ حقوق یا کاپی رائٹ کو نجی اداروں کی جانب سے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے استعمال کرنا سمیت متعدد شعبوں میں مقدمات کے ذریعے EFFنے سائبر اسپیس کے عام صارفین کو ان کے حقوق دلائے ہیں EFF نے بلاگر حضرات کو صحافی کا درجہ دیتے ہوئے ان کے حقوق کے حوالے سے ایک گائیڈ ''لیگل گائیڈ برائے بلاگر'' بھی تیار کی ہے۔ اسی طرح EFFنے بلاگرز کے سیاسی بلاگز پر حکومتوں کی جانب سے قدغن لگانے کے خلاف بھی قانونی ردعمل ظاہر کیا ہے، جس کے نتیجے میں بہت سے ممالک اپنے سائبر قوانین میں ردو بدل کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
٭اوپن نیٹ انیشی ایٹو(OpenNet Initiative)
انٹرنیٹ کے وسیع سے وسیع تر ہوتے نظام میں غیرضروری سرکاری مداخلت اور آزادی اظہار کی راہ میں قدغن لگانے والے اقدامات کی بیخ کنی کے لیے اوپن نیٹ انیشی ایٹو (ONI)نہایت اہم کردار ادا کررہاہے۔ ONIکا بنیادی ہدف حکومتی اداروں کی جانب سے ویب سائٹس پر خفیہ انداز میں کی جانے والی نگرانی کے نظام کو ڈھونڈنا اور انہیں تلف کرنا ہے۔ بہت سے ایسے ممالک جو اپنی سرکاری پالیسیوں پر تنقید سے ڈرتے ہوئے مختلف سماجی ویب سائٹ پر سنسر یا فلٹر لگاتے ہیں، ONIکے ماہرین ان فلٹر ز کو ختم کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں، تاکہ سماج کی حقیقی بنیادوں پر عکاسی ہوسکے اور مسائل کا ادراک ہوسکے۔ اس مقصد کے لیے ONIکے شانہ بشانہ جامعہ ٹورنٹو کے ''بین الااقوامی منک اسٹڈی سینٹر کی سٹیزن لیب، ہاروڈ لا اسکول کا برکمین سینٹر برائے انٹرنیٹ اور سوسائٹی، جامعہ آکسفورڈ کا
آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ اور جامعہ کیمبرج کا SecDevگروپ'' بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ تمام ادارے علمی اور تحقیقی بنیادوں پر سال بھر ایسے پروگرام اور طریقے تخلیق کرنے میں مصروف رہتے ہیں جو فلٹرنگ کے نظام کو قابو میں رکھ سکیں۔ اس کے علاوہ ان ماہرین کی کوشش ہوتی ہے کہ فلٹرنگ کے نظام میں جکڑی ہوئی ویب سائٹس کے مالکان کو ویب سائٹس کو محفوظ طریقے سے چلانے کے لیے نئی حکمت عملی اختیار کرنے کے سلسلے میں مشاورت دی جائے۔ حکومتوں کی جانب سے لگائی گئی سنسر شپ کو بائی پاس کرکے عام انٹرنیٹ صارف کے خیالات ایک دوسرے تک پہنچانے میں سب سے اہم کردار Psiphonسافٹ ویئر کا ہے۔ یہ ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جو انٹرنیٹ کو سنسر یا بلیک آئو ٹ کرنے کے لیے لگائے ہوئے خفیہ سافٹ ویئرز کو بہ آسانی اپنے جال میں پھنسا کر صارفین کو ایک دوسرے سے معلومات شیئر کرنے کا راستہ کھول دیتا ہے۔
ONIکا یہ سب سے اہم ہتھیار جامعہ ٹورنٹو کی سٹیزن لیب کے ماہرین کا کارنامہ ہے۔ONIکے زیراہتمام تسلسل سے ایسا تحقیقی مواد بھی شائع کیا جاتا ہے، جس میں دنیا بھر میں سنسر شپ سے متاثرہ ممالک کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کی جاتی ہے اور سنسر شپ یا فلٹریشن کے حوالے سے بلاک کیا گیا مواد بھی شائع کیا جاتا ہے یا پھر اس کی نوعیت کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ ONIکے زیراہتمام اب تک تین معلوماتی کتابیں بھی شائع کی جاچکی ہیں، جن میں اول کتاب میں سیاسی بنیادوں پر انٹرنیٹ فلٹرنگ پر روشنی ڈالی گئی ہے، جب کہ دوسری کتاب سائبر اسپیس میں صارف کے حقوق اور قوانین سے متعلق ہے اور تیسری کتاب شناخت، تحفظ اور صارف کے ردعمل کے حقوق کے بارے میں ہے۔
یہ تینوں کتابیں آن لائن پڑھی کی جاسکتی ہیں۔ONIکی ویب سائٹ پر موجود فلٹرنگ ڈیٹا کے لنک پر سرچنگ کے ذریعے دنیا کے تقریباً تمام قابل ذکر ممالک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے کی صورت حال کی نہ صرف جانچ کی جاسکتی ہے، بل کہ ہر ملک کی انٹرنیٹ استعمال کرنے کی مکمل تاریخ سے بھی آگاہی حاصل کرنے کی سہولت موجود ہے۔ ONIکے مرکزی ماہرین میں جامعہ ٹورنٹو کے ڈاکٹرRon Deibert، جامعہ ہارورڈ کے John Palfreyاور SecDevگروپ کے پروفیسرRafal Rohozinskiاور برکمین سینٹر برائے انٹرنیٹ و سوسائٹی کے پروفیسر Jonathan Zittrain قابل ذکر ہیں ۔
٭گلوبل نیٹ ورک انیشی ایٹو(Global Network Initiative)
اوپن نیٹ انیشی ایٹو کی طرح ''گلوبل نیٹ ورک انیشی ایٹوGNI'' بھی انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے سرگرم ہے۔ اس حوالے سے GNIکا سب سے اہم قدم سرکاری سطح پر انٹرنیٹ سنسر شپ کو روکنا ہے اور صارفین کی آن لائن سرگرمیوں میں پرائیویسی کو یقینی بنانا ہے GNIانسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر 2008میں قائم کی گئی تھی۔ تنظیم کے اراکین میں گوگل، یاہو اور مائیکروسافٹ جیسے اداروں کے نمائندگان بھی شامل ہیں، جب کہGNI کو اپنی سرگرمیوں میں ہیومن رائٹس واچ، کمیٹی برائے تحفظ صحافت، ورلڈ پریس فریڈم کمیٹی، انٹر نیوز اور الیکٹرانک فرنٹیئر فائونڈیشن جیسی اہم NGOs کی معاونت اور مشاورت بھی حاصل ہے۔
٭ڈیجیٹل سول رائٹس یورپ(Digital Civil Rights in Europe)
جون2002میں تشکیل دیا جانے والا یہ گروپ یورپ بھر کے شہری حقوق کی32تنظیموں کا نمائندہ گروپ ہے، جو انٹر نیٹ سیکیوریٹی اور صارفین کی پرائیویسی کے لیے آواز بلند کرنے میں مصروف ہے۔ فرانسیسی زبان میں EDRi کے مخفف سے پہچانے جانے والے اس گروپ کے دفاتر یورپ کے بیس ممالک میں قائم ہیں، جہاں موجود قانونی ماہرین یورپ میں انٹرنیٹ صارفین کے حقوق اور آزادی اظہار کے لیے قانونی جنگ لڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔ انتہائی تعلیم یافتہ یہ ماہرین کمپیوٹر پر لکھے گئے مضامین کے کاپی رائٹس کے تحفظ کو بھی یقینی بنانے میں کوشاں رہتے ہیں۔ EDRiکی جانب سے ایک پندرہ روزہ رسالہEDRI-gramبھی نکالا جاتا ہے،۔
جس میں انٹرنیٹ سیکوریٹی اور صارف کو آن لائن اظہار کی آزادی یقینی بنانے کے حوالے سے تازہ ترین معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ EDRiنہ صرف انٹرنیٹ صارف کے حقوق کے تحفظ کے لیے متحرک ہے، بل کہ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے ایسے قوانین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جو کسی بھی زاویے سے انٹرنیٹ صارف کے حقوق کو متاثر کرتے ہیں۔ اس تناظر میں EDRiصارف کے شناختی حقوق، مسافروں کا ڈیٹا، کیمرا شناسی، مواصلاتی ڈیٹا، ٹیلی فون ٹیپنگ،کاپی رائٹس، جدید ٹیکنالوجی، سسٹم وائرسز، سیکیوریٹی اور انٹرنیٹ انتظامات کے معاملات میں انٹرنیٹ صارف کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔
٭انٹرنیٹ سوسائٹی(ISOC)
امریکا کے انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے بنائی جانے والی یہ سوسائٹی انٹرنیٹ کے استعمال سے متعلق تیکنیکی معیار، پالیسی اور تیکنیکی تعلیم کے حوالے سے اپنی منفرد شناخت رکھتی ہے۔ 1992میں واشنگٹن میں تشکیل دی جانے والی اس سوسائٹی کا مرکزی دفتر جینوا میں ہے لگ بھگ 130تنظیموں اور پچاس ہزار انفرادی ممبران پر مشتمل اس سوسائٹی کا دائرہ کار پاکستان سمیت دنیا کے نوے ممالک تک پھیلاہوا ہے۔ ISOCکے دفاتر جو چیپٹرز(Chapters) کہلاتے ہیں۔ مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر انٹرنیٹ کی ترقی اور ترویج کے لیے سمپوزیم، سیمینار، کانفرنس، ورکشاپس اور دیگر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ سوسائٹی کے روح رواں بابائے انٹرنیٹ کی شہرت رکھنے والے امریکا کے کمپیوٹر سائنٹسٹVint Cerf اور Robert Bob Kahn ہیں ان دونوں حضرات نے انٹرنیٹ کو عوامی سطح پر روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ ان دونوں ماہرین نے ٹرانسمیشن کنٹرول پروٹوکول(TCP) اور انٹرنیٹ پروٹوکول (IP)جیسے بنیادی طریقے تخلیق کیے جو انٹرنیٹ کے استعمال میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ سرکاری دبائو پر بہت سی ISP کمپنیاں جو سرکاری بے ضابطگیوں کی پردہ پوشی کے لیے سیلف سنسر شپ کے ٹولز استعمال کرتی ہیں، انٹر نیٹ سوسائٹی ایسی تمام ISPsپر بھی نظر رکھتی ہے۔
٭NO CCTVتحریک
برطانیہ سے تعلق رکھنے والا یہ گروپ اپنی تحریک کو '' NOسی سی ٹی وی'' اور Privicay Internationalکے بینر تلے پھیلا رہا ہے۔ اگرچہ اس گروپ کا تعلق انٹرنیٹ پر نگرانی کی روک تھام سے نہیں ہے۔ تاہم یہ گروپ شخصی آزادی میں ٹیکنالوجی کے ذریعے سرکاری اور نجی مداخلت کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ ''جرائم میں کمی ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال سے نہیں آتی، بل کہ بہتر سماجی سوچ اور مُنظّم معاشرے سے آتی ہے۔'' اس حوالے سے اس تحریک کے سرکردہ راہ نما Charles Farrier کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیںکہ برطانیہ اور دیگر ممالک میں نگرانی کے لیے لگائے گئے Cs TVکیمروں کا استعمال ختم کیا جائے، کیوں کہ یہ کیمرے فرد کی آزادی میں زبردست طریقے سے مداخلت کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ برطانیہ دنیا میں ان ممالک میں سر فہرست ہے، جہاں قدم قدم پر جاسوسی یا نگرانی کا نظام موجود ہے، اس کے باوجود برطانیہ میں جرائم کی شرح بلند سے بلند تر ہوتی جارہی ہے۔ اس گروپ کے سرکردہ راہ نماCC TV کیمرے کے استعمال کو انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ ستمبر2012میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں گذشتہ چار سال میں پانچ سو پندرہ ملین پونڈ مالیت کے CCTVکیمرے نصب کیے گئے ہیں، جن کی تعداد 51600ہے۔ ان کیمروں کی مالیت کے علاوہ ان کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے 4121افراد پر مشتمل عملہ تعینات کیا گیا ہے۔
اپنے قیام سے لے کر اب تکNo CCTVگروپ کی جانب سے عوام الناس میں اپنے حقوق کے شعور کے لیے متعدد اجتماعات کیے گئے ہیں اور بیداری مہم چلائی گئی ہے۔ برطانیہ سے باہر بھی اجتماعات منعقد کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے گذشتہ سال بیلجیئم کے شہر برسلز میں Freedom not Fearکا انعقاد کیا گیا۔ یورپی یونین کے دارالحکومت برسلز میں ایک ہفتے تک منعقد ہونے والے اس اجتماع کا مقصد یورپی یونین ممالک کے عوام کی زندگیوں میں حکومتی اداروں کی بیجا مداخلت کو روکنا اور پوری دنیا کو ان مداخلتوں سے آگاہ کرنا تھا۔ اس سلسلے کا دوسرا اجتماع جرمنی کے شہر برلن میں منعقد کیا گیا۔ اسی طرح ایک اور شان دار اجتماع لندن میں بھی منعقد کیا گیا، جس کا موضوع'' Life is too short to be controlled"تھا، جس میں صحافیوں اور شہری حقوق کی تنظیموں کے راہ نمائوں نے تقاریر کیں ۔
اس کے علاوہ برمنگھم شہر میں بھی Anti-Spycam ریلی میں No CCTVگروپ کے مقاصد پر بھرپور روشنی ڈالی گئی، جب کہ مئی کے مہینے میں Lancasterیونیورسٹی میں ایک عوامی مباحثہ بعنوان Watching the Watchesمنعقد کیا گیا، جس میں طالب علموں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا۔ 2007میں شروع ہونے والی یہ تحریک بہت تیزی سے یورپ میں پھیل رہی ہے۔ NO CC TVتحریک کے تناظر میں اگر ہم گذشتہ دو سال کے عرصے میں پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والی اُن وارداتوں پر نظر ڈالیں جن کی ریکارڈنگ CC TV کیمرے کے ذریعے ہوگئی تھی تو واضح ہوتا ہے کہ ریکارڈنگ کے باوجود ان تمام وارداتوں کے مجرم ابھی تک پکڑے نہیں گئے ہیں، جو CC TVکیمرے کی افادیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
انٹرنیٹ اور امریکا کی بالادستی
امریکا نے عالمی سطح پر انٹرنیٹ کی ترسیل میں غیر ضروری اجارہ داری قائم کررکھی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ امریکا کی جانب سے ویب سائٹ کے لیے ڈومین نیم سسٹم(DNS)پر اجارہ داری سائبر ورلڈ میں دوسرے ممالک کی خودمختاری پر زبردستی قبضہ ہے۔ واضح رہے کہ ہر ویب سائٹ کے بظاہر دکھائی دینے والے حرفی پتے کے پیچھے ایک مخصوص عددی پتہ ہوتا ہے جو امریکی حکومت کے زیر نگرانی کام کرنے والا ایک ادارہ ''انٹرنیٹ کارپوریشن فار آسائن نیم اینڈ نمبرز (ICANN)'' تشکیل دیا ہے۔ اس عددی پتے پر صرفICANN کی دسترس ہوتی ہے۔ دوسرے معنوں میں ہر ویب ایڈرس یا انٹرنیٹ پروٹوکول پر امریکا کا کنٹرول ہوتا ہے۔
اس تناظر میں گذشتہ سال دسمبر میں دبئی میں منعقد ہونے والی ''ورلڈوائیڈ کانفرنس آن انٹرنیشنل کمیونی کیشن'' میں امریکا کی ٹیلی کیونی کیشن اور سائبر اسپیس کے شعبے میں اجارہ داری محدود کرنے کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔ مذکورہ کانفرنس اقوام متحدہ کی زیلی ایجنسی ''انٹرنیشنل ٹیلی کمیونی کیشن(ITU)'' کے زیراہتمام منعقد کی گئی تھی۔ کانفرنس میں 1988میں تشکیل دیے گئے۔ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونی کیشن معاہدے پر نظر ثانی کی سفارش بھی کی گئی ہے، جو در حقیقت عالمی سطح پر ٹیلی کمیونی کیشن نظام میں امریکا کی بالادستی کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔
کانفرنس کے ایک اہم مندوب متحدہ عرب امارات کے ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ''محمدنصیر الغینم'' جو کانفرنس کے ایک سیشن کے چیئرمین تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں شریک بیشتر ممالک انٹرنیٹ سسٹم پر امریکا کی بالادستی میں کمی کے خواہاں نظر آئے ہیں۔ تاہم کچھ ممالک جو امریکا کے ہمنوا ہیں وہ چاہتے ہیں کہ انٹرنیٹ نظام پر امریکا کی بالادستی اور کنٹرول قائم رہے، تاکہ وہ ہر اس ویب سائٹ کو جو امریکا اور اس کے حواریوں کی منفی سرگرمیوں کو طشت از بام کرنے کا باعث ہو دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھ سکیں ۔
سراغ رسانی اور مختلف ممالک
اگر ہم حکومتی سطح پر انٹرنیٹ سنسر شپ کے حوالے سے نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ دنیا کی مقتدر ترین تجزیاتی آرگنائزیشن اوپن نیٹ انیشی ایٹو، رپورٹرز ودھ آئوٹ بارڈر، فریڈم ہائوس اور ہیومن رائٹس تنظیم کی رپورٹس کے مطابق مختلف وجوہات اور سیاسی حالات کے باعث2012 تک ''انٹرنیٹ دشمن ممالک'' کی فہرست میں بحرین، بیلا روس، برما، چین، کیوبا، ایران، شمالی کوریا، سعودی عرب، شام، ترکمانستان، ازبکستان اور ویت نام شامل ہیں۔
ان ممالک میں چین کی حکومت انٹرنیٹ کی آزادی پر پابندی اور انٹرنیٹ صارفین پر نگرانی کے سافٹ ویئراستعمال کرنے میں سرفہرست ہے، جب کہ وہ ممالک جہاں انٹرنیٹ پر مخصوص مفادات کے تحت سرکاری نگرانی کی جاتی ہے، ان میں آسٹریلیا، مصر، اریٹریا، فرانس، انڈیا ، قازقستان، ملائیشیا، روس، جنوبی کوریا، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیونس، ترکی اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ آرگنائزیشن کی رپورٹس کے مطابق وہ ممالک جہاں پر انٹرنیٹ کے استعمال پر سرکاری سطح پر نگرانی نہیں ہے۔
ان میں افغانستان، الجیریا، ارجنٹائن، بنگلادیش، بیلجئیم ، برازیل، کینیڈا ، چلی، کولمبیا، کروشیا، چیک ری پبلک، ڈنمارک، اسٹونیا، فجی، فن لینڈ، جرمنی، گھانا، گوئٹے مالا، ہنگری، آئس لینڈ، عراق، آئرلینڈ، اسرائیل، جاپان، کینیا، لائوس، لٹویا، لبنان، ملاوی، میکسیکو، نیپال، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ، نائیجریا، ناروے، پیراگوئے، پیرو، فلپائن، پولینڈ، رومانیہ، روانڈا، سلوانیا، جنوبی افریقہ، سوئیڈن، یوگنڈا، یوکرائن، برطانیہ، امریکا، وینزویلا اور زمبابوے شامل ہیں۔ واضح رہے کہ انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھنے والی تجزیاتی آرگنائزیشنز کے مطابق ان ملکوں میں سیاسی، سماجی اور اختلافی مسائل اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کے ٹولز سرکاری پابندیوں سے آزاد ہیں۔ تاہم دوسری جانب یہ حقیقت بھی زیر نظر رہے کہ ان ممالک میں انٹرنیٹ سروس پرووائڈر کو صارفین کے بارے میں معلومات جمع کرنے کا پابند کیا جاتا ہے۔
مثلاً امریکا کا وفاقی تحقیقاتی ادارہ FBIانٹرنیٹ صارفین کے ذاتی کوائف تک رسائی حاصل کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ مشہور سرچ انجن گوگل کے مطابق گذشتہ سال کے ابتدائی نو ماہ میں گوگل کو مختلف ممالک کی جانب سے تقریباً اکیس ہزار ایسی درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جن میں ویب سائٹ یا مخصوص مواد کو ہٹانے کی استدعا کی گئی تھی۔ امریکا کی جانب سے اس حوالے سے آٹھ ہزار ایسی درخواستیں تھی جس میں سرچ کرنے والے کے کوائف جاننے کی کوشش کی گئی تھی، جب کہ گوگل پر سے مواد یا ویب ایڈرس ہٹانے کی درخواستوں کے حوالے سے ترکی سرفہرست تھا۔ انہی سرگرمیوں کے بعد گوگل اور دیگر مشہور سرچ انجنز انٹرنیٹ صارف کی آن لائن سرگرمیوں کے تحفظ کی خاطر اپنے ویب برائوزر میں'' ڈو ناٹ ٹریک'' بٹن کے فیچر کا اضافہ کرچکے ہیں، جس کے استعمال سے اب انٹرنیٹ صارف کی سرچنگ کو خفیہ رکھا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں بھی ''فیئر ٹرائل بل 2012'' کی منظور ی کے بعد تحقیقاتی اداروں کو یہ اختیار مل چکا ہے کہ وہ ایس ایم ایس اور ای میل کی نگرانی کرسکیں، بل کہ منظور ی کے بعد تحقیقاتی اداروں کو صارف کے ''انٹرنیٹ پروٹوکول ڈیٹیل ریکارڈ (IPDR)'' پر دسترس حاصل ہوچکی ہے۔ تاہم، اس کے لیے وہ عدالتی احکامات کے پابند ہوں گے۔ دوسری جانب بل کی منظور ی کے فوراً بعد عام انٹرنیٹ صارف اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بل کے استعمال کی شفافیت پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ قانون دہشت گردوں اور شرپسندوں کے سائبر اسپیس نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے ہے۔ تاہم پاکستان میں رائج منفی سیاسی کلچر کی وجہ سے اس بل کو سیاسی دشمنیاں نکالنے میں استعمال کرنے کا زیادہ امکان نظر آرہا ہے۔
وکی پیڈیا، بلیک آئوٹ
دنیا کے سب سے بڑے آن لائن انسائیکلو پیڈیا ''وکی پیڈیا'' بھی امریکی حکومت کی جانب سے پابندیوں کا شکار ہوچکا ہے اور بطور احتجاج جنوری2012میں وکی پیڈیا نے اپنے انگلش ایڈیشن کا صفحہ چوبیس گھنٹے کے لیے بند کردیا تھا۔ امریکی حکومت نے یہ پابندی اسٹاپ آن لائن پائریسی ایکٹ اور پروٹیکٹ انٹیلکچوئل پراپرٹی ایکٹ کے تحت لگائی تھیں۔ تاہم وکی پیڈیا نے ان اقدامات کو آزاد ویب کے خلاف تباہ کن قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا تھا بعد ازاں حکومت امریکا نے یہ پابندی ہٹا دی تھی۔
انٹرنیٹ، بنیادی حق
براڈ کاسٹنگ کے معروف ادارے BBCنے گذشتہ برس انٹرنیٹ خدمات پر تسلط یا کنٹرول کے حوالے سے رائے شماری کا اہتمام کیا تھا، جس میں عوام کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا کہ انٹرنیٹ پر حکومت یا نجی اداروں میں سے کس کا کنٹرول ہونا چاہیے رائے شماری میں حصہ لینے والے ایک ہزار چھے سو آٹھ افراد میں سے ایک ہزار چھیاسٹھ افراد نے انٹرنیٹ پر نجی اداروں کے کنٹرول کے حق میں رائے دی تھی۔ ان افراد میں سے بیشتر کا خیال تھا کہ اگر انٹرنیٹ کو حکومتی نگرانی میں دے دیا جائے تو ابلاغ کا یہ مفید ذریعہ محض حکومتی پروپیگنڈا مشینری کا حصہ بن کر رہ جائے گا۔ اسی طرح BBCکا ایک اور سروے جو 30نومبر 2009سے 7فروری2010 تک جاری رہا۔ اس سروے میں شریک 26ممالک کے 27,973انٹرنیٹ صارفین میں سے نصف نے انٹرنیٹ کے استعمال کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا تھا، جب کہ29فیصد نے اس حق کے استعمال کو مناسب حد تک ضروری قرار دیا تھا اور محض نو فیصد نے اس رائے سے اختلاف کیا تھا۔
تاہم 1980 کی دہائی میں کمپیوٹرز کے استعمال اور پھر انٹرنیٹ کے آجانے سے آزادی اظہار کی تعریف ہی بدل گئی اور آج کتابی شکل میں پیش کیے گئے خیالات سے زیادہ کمپیوٹر پر لکھی گئی تحریروں یا ترسیلی پیغامات پر کڑی نظر رکھنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، بل کہ انٹرنیٹ کے نظام کو مزید بہتر اور تیز رفتار بنانے کے ساتھ ساتھ بعض ترقی یافتہ ممالک میں اس نظام پر اپنا اثر و رسوخ اور عالمی سطح پر بالا دستی رکھنے کی جنگ شروع ہوچکی ہے، بالخصوص امریکا اور بہت سے یورپی ممالک اس حوالے سے سرگرم ہیں، جس کے لیے نت نئے سافٹ ویئر، مانیٹرینگ سسٹم اور آپریٹنگ سسٹم بنائے جارہے ہیں، تو دوسری طرف انٹرنیٹ سسٹم پر اپنی دسترس رکھنے کے لیے من پسند قوانین تشکیل دیے جارہے ہیں۔
اس صورت حال میں جب کہ انٹرنیٹ کا استعمال ناگزیر ہوچکا ہے اور انٹارکیٹیکا کے برف پوش علاقوں سے لے کر افریقہ کے صحرائے صحارا کے تپتے میدانوں اور سمندروں کی گہرائیوں سے کائنات کی تاریکیوں تک، ہر جگہ انٹرنیٹ تحقیق اور جستجو کے متلاشیوں کے لیے ہراول دستے کا کام سرانجام دے رہا ہے، قابل تاسف امر یہ ہے کہ اطلاعات، معلومات، پیغامات اور اعتراضات سمیت ہر پہلو کو محض انگلیوں کی جنبش سے عام کرنے والے اس اہم ترین ٹول کو خاص و عام کی دسترس سے نہ صرف دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، بل کہ عوام کی ذاتی معلومات اور کوائف پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔
لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ان منفی کوششوں کے سامنے کچھ ایسی قوتیں یا ادارے سیسہ پلائی دیوار بن چکے ہیں جو عوامی سطح پر انٹرنیٹ کے استعمال میں کچھ ممالک کے بڑھتے ہوئے بے جا اثرو رسوخ کو کم کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ زیرنظر تحریر میں انہی کوششوں کے حوالے سے سرگرم عمل اہم اداروں یا تنظیموں کے بارے میں معلومات دی جارہی ہیں۔
٭الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن(EFF)
صارف کی برقی ترسیلات مثلاً کمپیوٹر بیسڈ ایس ایم ایس، ای میل، ویب سرفنگ اور بلاگ وغیرہ کے استعمال اور رسائی کے دوران اظہاررائے اور شخصی آزادی کے لیے سرگرم عمل EFFکا تعلق امریکا سے ہے۔ 1990کی دہائی میں حادثاتی طور پر تشکیل پانے والے اس ادارے کے روح رواںMitch Kapor ہیں، جو مشہور زمانہ لوٹس 123پروگرام کے خالق اور Mozilla ویب براؤزر فاؤنڈیشن کے اولین چیئرمین کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ان کے علاوہ بانی اراکین میں John Perry Barlow اور John Gilmore ہیں۔
بنیادی طور پر اس ادارے کی بنیاد 10جولائی 1990کو اس وقت رکھی گئی جب ایک غلط فہمی کے باعث امریکا کے سیکوریٹی کے ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے Barlow پر میکنٹوش کمپیوٹر کے سورس کوڈ اور ڈیٹا کی چوری کے لیے تحقیق کی تو اس وقت انہیں اندازہ ہوا کہ FBIکے افسران کمپیوٹر کی تیکنیکی معلومات سے نابلد ہیں جس کے باعث ''جان بارلو'' کو خود کو معصوم ثابت کرنے میں سخت مشکلات آئیں۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے کمپیوٹر پروگرامر ''میچ کپور'' سے رابطہ کیا، وہ بھی ایسی ہی صورت حال سے گزر چکے تھے۔
دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ انٹرنیٹ یوزر کی سائبر اسپیس میں تحریر اور تقریر کی آزادی میں سیکرٹ سروس کی مداخلت روکنے کے لیے قوانین کا تحفظ پیدا کریں گے اور عام افراد کو اس حوالے سے قانونی مدد اور مشورے فراہم کریں گے۔ اس مرحلے پرJohn Gilmoreنے ان کا ساتھ دیتے ہوئے مالی اعانت کا وعدہ کیا۔
یہ وہی وقت تھا جب کمپیوٹر گیمز کے اولین تخلیق کار ''اسٹیو جیکسن '' کے ادارے ''اسٹیو جیکسن گیمز'' پر ڈیٹا چوری کا الزام لگاتے ہوئے امریکی سیکرٹ سروس ان کے دفاتر پر چھاپے مار رہی تھی، جس کے جواب میں اسٹیو جیکسن نے امریکی سیکرٹ سروس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی تھی کہا جاتا ہے کہ اس معاملے میں EFF کی جانب سے ''اسٹیو جیکسن گیمز ''کی پوشیدہ طور پر قانونی معاونت کی گئی تھی، جس کے باعث یہ ادارہ مقدمہ جیتنے میں کام یاب ہوا تھا۔ ِ واضح رہے کہ اس کیس کے فوراً ہی بعد EFF سائبر اسپیس استعمال کرنے والوں کو تحفظ دینے کے حوالے سے فعال ہوگئی تھی۔
الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن نہ صرف انٹرنیٹ صارفین اور ٹیلی مواصلات سے متعلق قانونی معاملات میں عوام کی معاونت کرتی ہے، بل کہ وہ ان تمام نئی ٹیکنالوجیز کو عام فرد کے استعمال کے لیے بھی یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے جنھیں حکومتی یا بعض نجی ادارے اپنے تصرف میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سےEFFحکومتی اداروں کی بے جا مداخلت کے بارے میں قانونی چارہ جوئی بھی کرتی ہے یا پس پردہ رہنے والے کمپیوٹر پروگرامر یا کمپیوٹر سافٹ ویئر اداروں کے تحفظ کے لیے عدالت جاتی ہے۔
واضح رہے کہ EFFاپنی تشکیل کے وقت سے اب تک تقریباً 300عدالتی کارروائیوں میں ڈیجیٹل شخصی آزادی کے لیے آواز اٹھانے میں مختلف اداروں اور عوام کے شانہ بشانہ رہی ہے۔ ان شعبوں میں نامعلوم افراد کی جانب سے حکومتی اداروں پر تنقید کے بعد حکومتی اداروں کی جانب سے ان افراد پر مقدمات قائم کرنے کی صورت میں EFFکا ان افراد اور ان کے مقاصد کا دفاع کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ بلاگرز کے تحریری حقوق کی آزادی میں رکاوٹ بننے والے قوانین کے خلاف چارہ جوئی، ثنائی(Digital) حقوق کی تقسیم میں آزادی، ڈیٹا کی ترسیل کے دوران فائل شیئرنگ کے حقوق کی آزادی، سائبر اسپیس میں آزادی تقریر، نئی تیکنیکی تخلیقات پر اداروں کی اجارہ داری روکنا، دانش وارنہ حقوق یا کاپی رائٹ کو نجی اداروں کی جانب سے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے استعمال کرنا سمیت متعدد شعبوں میں مقدمات کے ذریعے EFFنے سائبر اسپیس کے عام صارفین کو ان کے حقوق دلائے ہیں EFF نے بلاگر حضرات کو صحافی کا درجہ دیتے ہوئے ان کے حقوق کے حوالے سے ایک گائیڈ ''لیگل گائیڈ برائے بلاگر'' بھی تیار کی ہے۔ اسی طرح EFFنے بلاگرز کے سیاسی بلاگز پر حکومتوں کی جانب سے قدغن لگانے کے خلاف بھی قانونی ردعمل ظاہر کیا ہے، جس کے نتیجے میں بہت سے ممالک اپنے سائبر قوانین میں ردو بدل کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
٭اوپن نیٹ انیشی ایٹو(OpenNet Initiative)
انٹرنیٹ کے وسیع سے وسیع تر ہوتے نظام میں غیرضروری سرکاری مداخلت اور آزادی اظہار کی راہ میں قدغن لگانے والے اقدامات کی بیخ کنی کے لیے اوپن نیٹ انیشی ایٹو (ONI)نہایت اہم کردار ادا کررہاہے۔ ONIکا بنیادی ہدف حکومتی اداروں کی جانب سے ویب سائٹس پر خفیہ انداز میں کی جانے والی نگرانی کے نظام کو ڈھونڈنا اور انہیں تلف کرنا ہے۔ بہت سے ایسے ممالک جو اپنی سرکاری پالیسیوں پر تنقید سے ڈرتے ہوئے مختلف سماجی ویب سائٹ پر سنسر یا فلٹر لگاتے ہیں، ONIکے ماہرین ان فلٹر ز کو ختم کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں، تاکہ سماج کی حقیقی بنیادوں پر عکاسی ہوسکے اور مسائل کا ادراک ہوسکے۔ اس مقصد کے لیے ONIکے شانہ بشانہ جامعہ ٹورنٹو کے ''بین الااقوامی منک اسٹڈی سینٹر کی سٹیزن لیب، ہاروڈ لا اسکول کا برکمین سینٹر برائے انٹرنیٹ اور سوسائٹی، جامعہ آکسفورڈ کا
آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ اور جامعہ کیمبرج کا SecDevگروپ'' بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ تمام ادارے علمی اور تحقیقی بنیادوں پر سال بھر ایسے پروگرام اور طریقے تخلیق کرنے میں مصروف رہتے ہیں جو فلٹرنگ کے نظام کو قابو میں رکھ سکیں۔ اس کے علاوہ ان ماہرین کی کوشش ہوتی ہے کہ فلٹرنگ کے نظام میں جکڑی ہوئی ویب سائٹس کے مالکان کو ویب سائٹس کو محفوظ طریقے سے چلانے کے لیے نئی حکمت عملی اختیار کرنے کے سلسلے میں مشاورت دی جائے۔ حکومتوں کی جانب سے لگائی گئی سنسر شپ کو بائی پاس کرکے عام انٹرنیٹ صارف کے خیالات ایک دوسرے تک پہنچانے میں سب سے اہم کردار Psiphonسافٹ ویئر کا ہے۔ یہ ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جو انٹرنیٹ کو سنسر یا بلیک آئو ٹ کرنے کے لیے لگائے ہوئے خفیہ سافٹ ویئرز کو بہ آسانی اپنے جال میں پھنسا کر صارفین کو ایک دوسرے سے معلومات شیئر کرنے کا راستہ کھول دیتا ہے۔
ONIکا یہ سب سے اہم ہتھیار جامعہ ٹورنٹو کی سٹیزن لیب کے ماہرین کا کارنامہ ہے۔ONIکے زیراہتمام تسلسل سے ایسا تحقیقی مواد بھی شائع کیا جاتا ہے، جس میں دنیا بھر میں سنسر شپ سے متاثرہ ممالک کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کی جاتی ہے اور سنسر شپ یا فلٹریشن کے حوالے سے بلاک کیا گیا مواد بھی شائع کیا جاتا ہے یا پھر اس کی نوعیت کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ ONIکے زیراہتمام اب تک تین معلوماتی کتابیں بھی شائع کی جاچکی ہیں، جن میں اول کتاب میں سیاسی بنیادوں پر انٹرنیٹ فلٹرنگ پر روشنی ڈالی گئی ہے، جب کہ دوسری کتاب سائبر اسپیس میں صارف کے حقوق اور قوانین سے متعلق ہے اور تیسری کتاب شناخت، تحفظ اور صارف کے ردعمل کے حقوق کے بارے میں ہے۔
یہ تینوں کتابیں آن لائن پڑھی کی جاسکتی ہیں۔ONIکی ویب سائٹ پر موجود فلٹرنگ ڈیٹا کے لنک پر سرچنگ کے ذریعے دنیا کے تقریباً تمام قابل ذکر ممالک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے کی صورت حال کی نہ صرف جانچ کی جاسکتی ہے، بل کہ ہر ملک کی انٹرنیٹ استعمال کرنے کی مکمل تاریخ سے بھی آگاہی حاصل کرنے کی سہولت موجود ہے۔ ONIکے مرکزی ماہرین میں جامعہ ٹورنٹو کے ڈاکٹرRon Deibert، جامعہ ہارورڈ کے John Palfreyاور SecDevگروپ کے پروفیسرRafal Rohozinskiاور برکمین سینٹر برائے انٹرنیٹ و سوسائٹی کے پروفیسر Jonathan Zittrain قابل ذکر ہیں ۔
٭گلوبل نیٹ ورک انیشی ایٹو(Global Network Initiative)
اوپن نیٹ انیشی ایٹو کی طرح ''گلوبل نیٹ ورک انیشی ایٹوGNI'' بھی انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے سرگرم ہے۔ اس حوالے سے GNIکا سب سے اہم قدم سرکاری سطح پر انٹرنیٹ سنسر شپ کو روکنا ہے اور صارفین کی آن لائن سرگرمیوں میں پرائیویسی کو یقینی بنانا ہے GNIانسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر 2008میں قائم کی گئی تھی۔ تنظیم کے اراکین میں گوگل، یاہو اور مائیکروسافٹ جیسے اداروں کے نمائندگان بھی شامل ہیں، جب کہGNI کو اپنی سرگرمیوں میں ہیومن رائٹس واچ، کمیٹی برائے تحفظ صحافت، ورلڈ پریس فریڈم کمیٹی، انٹر نیوز اور الیکٹرانک فرنٹیئر فائونڈیشن جیسی اہم NGOs کی معاونت اور مشاورت بھی حاصل ہے۔
٭ڈیجیٹل سول رائٹس یورپ(Digital Civil Rights in Europe)
جون2002میں تشکیل دیا جانے والا یہ گروپ یورپ بھر کے شہری حقوق کی32تنظیموں کا نمائندہ گروپ ہے، جو انٹر نیٹ سیکیوریٹی اور صارفین کی پرائیویسی کے لیے آواز بلند کرنے میں مصروف ہے۔ فرانسیسی زبان میں EDRi کے مخفف سے پہچانے جانے والے اس گروپ کے دفاتر یورپ کے بیس ممالک میں قائم ہیں، جہاں موجود قانونی ماہرین یورپ میں انٹرنیٹ صارفین کے حقوق اور آزادی اظہار کے لیے قانونی جنگ لڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔ انتہائی تعلیم یافتہ یہ ماہرین کمپیوٹر پر لکھے گئے مضامین کے کاپی رائٹس کے تحفظ کو بھی یقینی بنانے میں کوشاں رہتے ہیں۔ EDRiکی جانب سے ایک پندرہ روزہ رسالہEDRI-gramبھی نکالا جاتا ہے،۔
جس میں انٹرنیٹ سیکوریٹی اور صارف کو آن لائن اظہار کی آزادی یقینی بنانے کے حوالے سے تازہ ترین معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ EDRiنہ صرف انٹرنیٹ صارف کے حقوق کے تحفظ کے لیے متحرک ہے، بل کہ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے ایسے قوانین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جو کسی بھی زاویے سے انٹرنیٹ صارف کے حقوق کو متاثر کرتے ہیں۔ اس تناظر میں EDRiصارف کے شناختی حقوق، مسافروں کا ڈیٹا، کیمرا شناسی، مواصلاتی ڈیٹا، ٹیلی فون ٹیپنگ،کاپی رائٹس، جدید ٹیکنالوجی، سسٹم وائرسز، سیکیوریٹی اور انٹرنیٹ انتظامات کے معاملات میں انٹرنیٹ صارف کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔
٭انٹرنیٹ سوسائٹی(ISOC)
امریکا کے انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے بنائی جانے والی یہ سوسائٹی انٹرنیٹ کے استعمال سے متعلق تیکنیکی معیار، پالیسی اور تیکنیکی تعلیم کے حوالے سے اپنی منفرد شناخت رکھتی ہے۔ 1992میں واشنگٹن میں تشکیل دی جانے والی اس سوسائٹی کا مرکزی دفتر جینوا میں ہے لگ بھگ 130تنظیموں اور پچاس ہزار انفرادی ممبران پر مشتمل اس سوسائٹی کا دائرہ کار پاکستان سمیت دنیا کے نوے ممالک تک پھیلاہوا ہے۔ ISOCکے دفاتر جو چیپٹرز(Chapters) کہلاتے ہیں۔ مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر انٹرنیٹ کی ترقی اور ترویج کے لیے سمپوزیم، سیمینار، کانفرنس، ورکشاپس اور دیگر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ سوسائٹی کے روح رواں بابائے انٹرنیٹ کی شہرت رکھنے والے امریکا کے کمپیوٹر سائنٹسٹVint Cerf اور Robert Bob Kahn ہیں ان دونوں حضرات نے انٹرنیٹ کو عوامی سطح پر روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ ان دونوں ماہرین نے ٹرانسمیشن کنٹرول پروٹوکول(TCP) اور انٹرنیٹ پروٹوکول (IP)جیسے بنیادی طریقے تخلیق کیے جو انٹرنیٹ کے استعمال میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ سرکاری دبائو پر بہت سی ISP کمپنیاں جو سرکاری بے ضابطگیوں کی پردہ پوشی کے لیے سیلف سنسر شپ کے ٹولز استعمال کرتی ہیں، انٹر نیٹ سوسائٹی ایسی تمام ISPsپر بھی نظر رکھتی ہے۔
٭NO CCTVتحریک
برطانیہ سے تعلق رکھنے والا یہ گروپ اپنی تحریک کو '' NOسی سی ٹی وی'' اور Privicay Internationalکے بینر تلے پھیلا رہا ہے۔ اگرچہ اس گروپ کا تعلق انٹرنیٹ پر نگرانی کی روک تھام سے نہیں ہے۔ تاہم یہ گروپ شخصی آزادی میں ٹیکنالوجی کے ذریعے سرکاری اور نجی مداخلت کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ ''جرائم میں کمی ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال سے نہیں آتی، بل کہ بہتر سماجی سوچ اور مُنظّم معاشرے سے آتی ہے۔'' اس حوالے سے اس تحریک کے سرکردہ راہ نما Charles Farrier کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیںکہ برطانیہ اور دیگر ممالک میں نگرانی کے لیے لگائے گئے Cs TVکیمروں کا استعمال ختم کیا جائے، کیوں کہ یہ کیمرے فرد کی آزادی میں زبردست طریقے سے مداخلت کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ برطانیہ دنیا میں ان ممالک میں سر فہرست ہے، جہاں قدم قدم پر جاسوسی یا نگرانی کا نظام موجود ہے، اس کے باوجود برطانیہ میں جرائم کی شرح بلند سے بلند تر ہوتی جارہی ہے۔ اس گروپ کے سرکردہ راہ نماCC TV کیمرے کے استعمال کو انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ ستمبر2012میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں گذشتہ چار سال میں پانچ سو پندرہ ملین پونڈ مالیت کے CCTVکیمرے نصب کیے گئے ہیں، جن کی تعداد 51600ہے۔ ان کیمروں کی مالیت کے علاوہ ان کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے 4121افراد پر مشتمل عملہ تعینات کیا گیا ہے۔
اپنے قیام سے لے کر اب تکNo CCTVگروپ کی جانب سے عوام الناس میں اپنے حقوق کے شعور کے لیے متعدد اجتماعات کیے گئے ہیں اور بیداری مہم چلائی گئی ہے۔ برطانیہ سے باہر بھی اجتماعات منعقد کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے گذشتہ سال بیلجیئم کے شہر برسلز میں Freedom not Fearکا انعقاد کیا گیا۔ یورپی یونین کے دارالحکومت برسلز میں ایک ہفتے تک منعقد ہونے والے اس اجتماع کا مقصد یورپی یونین ممالک کے عوام کی زندگیوں میں حکومتی اداروں کی بیجا مداخلت کو روکنا اور پوری دنیا کو ان مداخلتوں سے آگاہ کرنا تھا۔ اس سلسلے کا دوسرا اجتماع جرمنی کے شہر برلن میں منعقد کیا گیا۔ اسی طرح ایک اور شان دار اجتماع لندن میں بھی منعقد کیا گیا، جس کا موضوع'' Life is too short to be controlled"تھا، جس میں صحافیوں اور شہری حقوق کی تنظیموں کے راہ نمائوں نے تقاریر کیں ۔
اس کے علاوہ برمنگھم شہر میں بھی Anti-Spycam ریلی میں No CCTVگروپ کے مقاصد پر بھرپور روشنی ڈالی گئی، جب کہ مئی کے مہینے میں Lancasterیونیورسٹی میں ایک عوامی مباحثہ بعنوان Watching the Watchesمنعقد کیا گیا، جس میں طالب علموں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا۔ 2007میں شروع ہونے والی یہ تحریک بہت تیزی سے یورپ میں پھیل رہی ہے۔ NO CC TVتحریک کے تناظر میں اگر ہم گذشتہ دو سال کے عرصے میں پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والی اُن وارداتوں پر نظر ڈالیں جن کی ریکارڈنگ CC TV کیمرے کے ذریعے ہوگئی تھی تو واضح ہوتا ہے کہ ریکارڈنگ کے باوجود ان تمام وارداتوں کے مجرم ابھی تک پکڑے نہیں گئے ہیں، جو CC TVکیمرے کی افادیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
انٹرنیٹ اور امریکا کی بالادستی
امریکا نے عالمی سطح پر انٹرنیٹ کی ترسیل میں غیر ضروری اجارہ داری قائم کررکھی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ امریکا کی جانب سے ویب سائٹ کے لیے ڈومین نیم سسٹم(DNS)پر اجارہ داری سائبر ورلڈ میں دوسرے ممالک کی خودمختاری پر زبردستی قبضہ ہے۔ واضح رہے کہ ہر ویب سائٹ کے بظاہر دکھائی دینے والے حرفی پتے کے پیچھے ایک مخصوص عددی پتہ ہوتا ہے جو امریکی حکومت کے زیر نگرانی کام کرنے والا ایک ادارہ ''انٹرنیٹ کارپوریشن فار آسائن نیم اینڈ نمبرز (ICANN)'' تشکیل دیا ہے۔ اس عددی پتے پر صرفICANN کی دسترس ہوتی ہے۔ دوسرے معنوں میں ہر ویب ایڈرس یا انٹرنیٹ پروٹوکول پر امریکا کا کنٹرول ہوتا ہے۔
اس تناظر میں گذشتہ سال دسمبر میں دبئی میں منعقد ہونے والی ''ورلڈوائیڈ کانفرنس آن انٹرنیشنل کمیونی کیشن'' میں امریکا کی ٹیلی کیونی کیشن اور سائبر اسپیس کے شعبے میں اجارہ داری محدود کرنے کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔ مذکورہ کانفرنس اقوام متحدہ کی زیلی ایجنسی ''انٹرنیشنل ٹیلی کمیونی کیشن(ITU)'' کے زیراہتمام منعقد کی گئی تھی۔ کانفرنس میں 1988میں تشکیل دیے گئے۔ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونی کیشن معاہدے پر نظر ثانی کی سفارش بھی کی گئی ہے، جو در حقیقت عالمی سطح پر ٹیلی کمیونی کیشن نظام میں امریکا کی بالادستی کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔
کانفرنس کے ایک اہم مندوب متحدہ عرب امارات کے ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ''محمدنصیر الغینم'' جو کانفرنس کے ایک سیشن کے چیئرمین تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں شریک بیشتر ممالک انٹرنیٹ سسٹم پر امریکا کی بالادستی میں کمی کے خواہاں نظر آئے ہیں۔ تاہم کچھ ممالک جو امریکا کے ہمنوا ہیں وہ چاہتے ہیں کہ انٹرنیٹ نظام پر امریکا کی بالادستی اور کنٹرول قائم رہے، تاکہ وہ ہر اس ویب سائٹ کو جو امریکا اور اس کے حواریوں کی منفی سرگرمیوں کو طشت از بام کرنے کا باعث ہو دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھ سکیں ۔
سراغ رسانی اور مختلف ممالک
اگر ہم حکومتی سطح پر انٹرنیٹ سنسر شپ کے حوالے سے نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ دنیا کی مقتدر ترین تجزیاتی آرگنائزیشن اوپن نیٹ انیشی ایٹو، رپورٹرز ودھ آئوٹ بارڈر، فریڈم ہائوس اور ہیومن رائٹس تنظیم کی رپورٹس کے مطابق مختلف وجوہات اور سیاسی حالات کے باعث2012 تک ''انٹرنیٹ دشمن ممالک'' کی فہرست میں بحرین، بیلا روس، برما، چین، کیوبا، ایران، شمالی کوریا، سعودی عرب، شام، ترکمانستان، ازبکستان اور ویت نام شامل ہیں۔
ان ممالک میں چین کی حکومت انٹرنیٹ کی آزادی پر پابندی اور انٹرنیٹ صارفین پر نگرانی کے سافٹ ویئراستعمال کرنے میں سرفہرست ہے، جب کہ وہ ممالک جہاں انٹرنیٹ پر مخصوص مفادات کے تحت سرکاری نگرانی کی جاتی ہے، ان میں آسٹریلیا، مصر، اریٹریا، فرانس، انڈیا ، قازقستان، ملائیشیا، روس، جنوبی کوریا، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیونس، ترکی اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ آرگنائزیشن کی رپورٹس کے مطابق وہ ممالک جہاں پر انٹرنیٹ کے استعمال پر سرکاری سطح پر نگرانی نہیں ہے۔
ان میں افغانستان، الجیریا، ارجنٹائن، بنگلادیش، بیلجئیم ، برازیل، کینیڈا ، چلی، کولمبیا، کروشیا، چیک ری پبلک، ڈنمارک، اسٹونیا، فجی، فن لینڈ، جرمنی، گھانا، گوئٹے مالا، ہنگری، آئس لینڈ، عراق، آئرلینڈ، اسرائیل، جاپان، کینیا، لائوس، لٹویا، لبنان، ملاوی، میکسیکو، نیپال، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ، نائیجریا، ناروے، پیراگوئے، پیرو، فلپائن، پولینڈ، رومانیہ، روانڈا، سلوانیا، جنوبی افریقہ، سوئیڈن، یوگنڈا، یوکرائن، برطانیہ، امریکا، وینزویلا اور زمبابوے شامل ہیں۔ واضح رہے کہ انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھنے والی تجزیاتی آرگنائزیشنز کے مطابق ان ملکوں میں سیاسی، سماجی اور اختلافی مسائل اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کے ٹولز سرکاری پابندیوں سے آزاد ہیں۔ تاہم دوسری جانب یہ حقیقت بھی زیر نظر رہے کہ ان ممالک میں انٹرنیٹ سروس پرووائڈر کو صارفین کے بارے میں معلومات جمع کرنے کا پابند کیا جاتا ہے۔
مثلاً امریکا کا وفاقی تحقیقاتی ادارہ FBIانٹرنیٹ صارفین کے ذاتی کوائف تک رسائی حاصل کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ مشہور سرچ انجن گوگل کے مطابق گذشتہ سال کے ابتدائی نو ماہ میں گوگل کو مختلف ممالک کی جانب سے تقریباً اکیس ہزار ایسی درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جن میں ویب سائٹ یا مخصوص مواد کو ہٹانے کی استدعا کی گئی تھی۔ امریکا کی جانب سے اس حوالے سے آٹھ ہزار ایسی درخواستیں تھی جس میں سرچ کرنے والے کے کوائف جاننے کی کوشش کی گئی تھی، جب کہ گوگل پر سے مواد یا ویب ایڈرس ہٹانے کی درخواستوں کے حوالے سے ترکی سرفہرست تھا۔ انہی سرگرمیوں کے بعد گوگل اور دیگر مشہور سرچ انجنز انٹرنیٹ صارف کی آن لائن سرگرمیوں کے تحفظ کی خاطر اپنے ویب برائوزر میں'' ڈو ناٹ ٹریک'' بٹن کے فیچر کا اضافہ کرچکے ہیں، جس کے استعمال سے اب انٹرنیٹ صارف کی سرچنگ کو خفیہ رکھا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں بھی ''فیئر ٹرائل بل 2012'' کی منظور ی کے بعد تحقیقاتی اداروں کو یہ اختیار مل چکا ہے کہ وہ ایس ایم ایس اور ای میل کی نگرانی کرسکیں، بل کہ منظور ی کے بعد تحقیقاتی اداروں کو صارف کے ''انٹرنیٹ پروٹوکول ڈیٹیل ریکارڈ (IPDR)'' پر دسترس حاصل ہوچکی ہے۔ تاہم، اس کے لیے وہ عدالتی احکامات کے پابند ہوں گے۔ دوسری جانب بل کی منظور ی کے فوراً بعد عام انٹرنیٹ صارف اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بل کے استعمال کی شفافیت پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ قانون دہشت گردوں اور شرپسندوں کے سائبر اسپیس نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے ہے۔ تاہم پاکستان میں رائج منفی سیاسی کلچر کی وجہ سے اس بل کو سیاسی دشمنیاں نکالنے میں استعمال کرنے کا زیادہ امکان نظر آرہا ہے۔
وکی پیڈیا، بلیک آئوٹ
دنیا کے سب سے بڑے آن لائن انسائیکلو پیڈیا ''وکی پیڈیا'' بھی امریکی حکومت کی جانب سے پابندیوں کا شکار ہوچکا ہے اور بطور احتجاج جنوری2012میں وکی پیڈیا نے اپنے انگلش ایڈیشن کا صفحہ چوبیس گھنٹے کے لیے بند کردیا تھا۔ امریکی حکومت نے یہ پابندی اسٹاپ آن لائن پائریسی ایکٹ اور پروٹیکٹ انٹیلکچوئل پراپرٹی ایکٹ کے تحت لگائی تھیں۔ تاہم وکی پیڈیا نے ان اقدامات کو آزاد ویب کے خلاف تباہ کن قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا تھا بعد ازاں حکومت امریکا نے یہ پابندی ہٹا دی تھی۔
انٹرنیٹ، بنیادی حق
براڈ کاسٹنگ کے معروف ادارے BBCنے گذشتہ برس انٹرنیٹ خدمات پر تسلط یا کنٹرول کے حوالے سے رائے شماری کا اہتمام کیا تھا، جس میں عوام کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا کہ انٹرنیٹ پر حکومت یا نجی اداروں میں سے کس کا کنٹرول ہونا چاہیے رائے شماری میں حصہ لینے والے ایک ہزار چھے سو آٹھ افراد میں سے ایک ہزار چھیاسٹھ افراد نے انٹرنیٹ پر نجی اداروں کے کنٹرول کے حق میں رائے دی تھی۔ ان افراد میں سے بیشتر کا خیال تھا کہ اگر انٹرنیٹ کو حکومتی نگرانی میں دے دیا جائے تو ابلاغ کا یہ مفید ذریعہ محض حکومتی پروپیگنڈا مشینری کا حصہ بن کر رہ جائے گا۔ اسی طرح BBCکا ایک اور سروے جو 30نومبر 2009سے 7فروری2010 تک جاری رہا۔ اس سروے میں شریک 26ممالک کے 27,973انٹرنیٹ صارفین میں سے نصف نے انٹرنیٹ کے استعمال کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا تھا، جب کہ29فیصد نے اس حق کے استعمال کو مناسب حد تک ضروری قرار دیا تھا اور محض نو فیصد نے اس رائے سے اختلاف کیا تھا۔