ارشد پپو قتلایک سب انسپکٹر 2 اہلکارسرکاری گواہ بننے پرآمادہ

2ایف سی،ایک سب انسپکٹراوردیگر2اہلکاروں کوحراست میں لے کرشامل تفتیش کرلیاگیا


Staff Reporter April 05, 2013
اہلکاروں پر ارشد پپو قتل میں مدد دینے کا الزام، مزید پولیس افسران واہلکاروں کی گرفتاری متوقع. فوٹو ایکسپریس

ارشد پپو قتل کیس میں ایک سب انسپکٹراور 2 اہلکارسرکاری گواہ بننے پررضامند ہو گئے۔

پولیس نے ارشد پپو قتل کیس میں2قانون نافذ کرنے والے ادارے اورپولیس کے سب انسپکٹر سمیت 2 مزید اہلکاروں کو حراست میں لے کرشامل تفتیش کرلیا،ارشد پپو قتل کیس میں حراست میں لیے جانیوالوں کی تعداد 15 ہو گئی جس میں6پولیس افسران واہلکار بھی شامل ہیں، حراست میں لیے جانے والے پولیس سابقہ ایس ایچ او چاکیواڑہ انسپکٹریوسف بلوچ کوان کے اپنے پیٹی بندبھائیوں نے گولی مارکرزخمی کر دیاتھا۔ذرائع کے مطابق ارشدپپوقتل کے مقدمے میں تفتیش کیلیے حراست میں لیے جانے والے کلری تھانے کے سب انسپکٹرملک امیر ، کانسٹیبل حق نوازاورکانسٹیبل عامرعلی سرکاری گواہ بننے پر رضامندہوگئے ہیں۔

ذرائع نے بتایاکہ سب انسپکٹرملک امیرنے تفتیش کے دوران بتایاکہ ارشدپپوکے اغواکے وقت وہ پولیس موبائل کاڈرائیورتھاجبکہ اس کے ساتھ دیگرمتعددپولیس افسران بھی تھے جن کے نام اس نے تفتیشی افسران کوبتائے ہیں۔سب انسپکٹرملک امیرکوسرکاری گواہ بننے کے بعدمحکمے سے چھٹی دلواکرنامعلوم مقام پرمنتقل کر دیاگیاہے ،اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ نے ارشد پپو قتل کیس میں کلری تھانے کی حدودمیں پکٹ ڈیوٹی انجام دینے والے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے کے 2اہلکاروں اورکلری تھانے کے2 اہلکاروں کو حراست میں لے کر شامل تفتیش کر لیا۔

واضح رہے 16اور17مارچ کی درمیانی شب لیاری گینگ وار کے ملزمان نے ارشد پپو اس کے بھائی یاسرعرفات اوران کے ساتھی جمعہ شیرعرف شیرا پٹھان کو اغوا کر کے کلا کوٹ تھانے کی حدودلیاری افشانی گلی میں لے جا کربہیمانہ اندازمیں تشدد کا نشانہ بنایااوران کا سر تن سے جدا کر دیا اورلاش کی کئی ٹکڑے کر کے انہیں نذر آتش کر کے گٹرمیں بہادیے تھے جس کے بعد کلاکوٹ پولیس نے سرکاری مدعیت میں کلاکوٹ تھانے میں ارشدپپوسمیت مذکورہ تینوں افراد کے قتل کامقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کر لیا تاہم ارشد پپو کی اہلیہ اسماارشد نے کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخارچوہدری کو ایک درخواست دی تھی۔

17

جس میں اس نے ارشدپپو قتل کیس کا مقدمہ نامزد ملزمان کے خلاف درج کرنے اورملزمان کو گرفتار کر کے اسے انصاف دلانے کی اپیل کی تھی جس پر چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری کی آئی جی سندھ کوہدایت پر کلاکوٹ پولیس نے22 مارچ 2013کی شب10بجے ارشدپپو کی اہلیہ اسماارشد کی مدعیت میں کلاکوٹ تھانے میں کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیربلوچ،اس کے بھائی زبیر ، نور محمد عرف بابا لاڈلا،اس کے بھائی زاہد لاڈلا،آصف کانا ، فیصل پٹھان ، یاسر پٹھان ، ذاکر ڈا ڈا ، شاہجہاں بلوچ اورحبیب جان کے خلاف 392/34،297،109،302،365، 7ATAکے تحت ایف آئی آر نمبر23/13درج کرلی گئی تھی ، ارشد پپو کی اہلیہ نے چیف جسٹس کو اپنی درخواست میں ملزمان میں حبیب جان کے نام کی جگہ حبیب حسن کانام لکھا تھا۔

تاہم پولیس کواپنے بیان میں حبیب جان کانام لیا تھا، اسماء نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ شاہجہاں بلوچ اورحبیب جان کے کہنے پر مزکورہ ملزمان نے اپنے20ساتھیوں کے ہمراہ مل کراس کے شوہر کو اغوا کیا تھا اور اغوا کاعینی شاہد ارشد پپو کابیٹا ہے،گینگ وارملزمان کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد آئی جی سندھ کے حکم پرایس ایچ او کلاکوٹ کومعطل اوران کی ایک عہدہ تنزلی کر دی گئی اوراگلے روز ایس ایچ او کلری انسپکٹر جاویدبلوچ اور ایس ایچ او کلری انسپکٹر چاند خان نیازی کو معطل کر کے شو کاز نوٹس دیاگیاجس میں ان سے ارشدپپوکے اغوا کے موقع پران کی پولیس موبائلوں اورخود ان کی موجودگی کے مقام کے بارے میں پوچھا گیاتھا جس کا وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے تھے جس پرانہیں محکمہ پولیس سے نکال دیا گیااور پھر ان دونوں کوحساس ادارے نے ارشد پپو قتل کیس میں شامل تفتیش کرتے ہوئے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

جبکہ مقدمہ درج ہونے کے بعد تفتیشی پولیس نے سب سے پہلے سینٹرل جیل میں قید شاہجہاں بلوچ کو گرفتار کیا۔اس کے بعد پولیس اور رینجرز نے ایک منصوبہ بندی کے تحت لیاری کے مختلف علاقوں میں پے درپے چھاپے مارے تاہم ہرچھاپے میں انہیں ناکامی ہوئی جس پر پولیس کے اعلیٰ افسران نے لیاری کے رہائشی انسپکٹریوسف بلوچ کی خدمات حاصل کیں اورانہیں کہا کہ ارشد پپو قتل کیس میں کم سے کم دوافراد کو گرفتار کروادو تاکہ پولیس سپریم کورٹ کے سامنے جواب دینے کے قابل بن سکے جس پرانسپکٹر یوسف بلوچ جو ان دنوں محکمہ پولیس سے معطل ہیں۔

انھوں نے ایک سیاسی جماعت کے رہنما اور دیگر لیاری کے معززین کے ساتھ عذیرکے پاس جا کراس سے پولیس کی مدد کرنے کی بات کی جس پر عذیرتیارہوگیا اور اس نے اپنے بھائی زبیراور ایک ساتھی ذاکر ڈا ڈا کی قربانی دیتے ہوئے انہیں پولیس کے حوالے کر دیاجسے پولیس نے اپنی کار کردگی ظاہرکرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے خوب دادحاصل کی،زبیر اور ذاکر ڈا ڈا کی گرفتاری کے بعدپولیس نے سردار کریم ،عثمان غنی ، شفیع ڈا ڈا اورمجید اسٹیل کو بھی ارشد پپو قتل کیس میں حراست میں لے لیا۔بعد ازاں انسپکٹر یوسف بلوچ کو پولیس کے ایک تفتیشی ایجنسی کے سربراہ نے فون کر کے اپنے پاس دفتربلایا جب وہ وہاں پہنچا تو اسے بھی حراست میں لے لیا اوروہاں اس سے روایتی انداز میں تفتیش شروع کر دی بعد ازاں یوسف بلوچ کو تفتیش کے لیے بوٹ بیسن تھانے کی انویسٹی گیشن افسر انسپکٹرمبین کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔

یوسف بلوچ کو ایس ایچ او کلاکوٹ سب انسپکٹر اعظم خان کے حوالے کیاگیاکہ انہیں بوٹ بیسن تھانے پہنچایاجائے جب وہ اسے لے کر جا رہے تھے تو یوسف بلوچ کسی کام سے پولیس موبائل سے نیچے اتراتوموبائل میں سوار اہلکاروں نے ان کی ٹانگ میں دوگولیاں مار دیں اور شور مچا دیا کہ یوسف بلوچ فرار ہو رہا تھاحالانکہ یوسف بلوچ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں ، یوسف بلوچ کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ذرائع نے بتایا کہ لیاری سے مزیدپولیس افسران واہلکاروں کی گرفتاری متوقع ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |