عاصمہ جہانگیر کے بعد
ایک بہت بڑا مسئلہ جب حکومت حل نہ کر سکی تو عاصمہ جہانگیر نے تن تنہا اسے انتہائی آسانی سے حل کر کے دکھا دیا۔
SYDNEY:
نوے کی دہائی میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں صدیوں سے وڈیروں کی قید میں غلامی کی زندگی گزارنے والے نچلی ذات کے ہندوؤں اور ان کے بیوی بچوں کی آزادی کا علم بلندکیا تو عاصمہ جہانگیر اس صف میں سب سے آگے نظر آئیں۔ وڈیروں کے کھیتوں میں خون پسینے سے ہریالی لانے والے ان ہاریوں کو رات کے وقت ڈھور ڈنگروں کی طرح زنجیروں سے باندھ دیا جاتا یا تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں قید کر دیا جاتا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے نہ صرف بونڈڈ لیبر کے خاتمے اور نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ان بے زبان ہاریوں کی آزادی کا بیڑہ اٹھایا بلکہ پنجاب کے کئی مرکزی شہروں میں قائم اینٹو ںکے بھٹوں پر برسوں سے مشقت کرنے والے ایسے خاندانوں کی آزادی کے لیے بھی آواز بلند کی جن کا بال بال مالکان کے ایسے قرضوں میں جکڑا ہوا تھا جو انھوں نے کبھی لیے ہی نہیںتھے۔
تپتی دوپہر ہو رات ہو یا دن سندھ کی وڈیروں کی قید سے بچوں اور خواتین کو آزادی دلوانے کے لیے شکیل پٹھان مرحوم، پروفیسر ڈاکٹر بدر سومرو،آفتاب چوہدری مرحوم، نور ناز آغا، نسرین شکیل پٹھان اور علی حسن کے ساتھ جب دوسرے سیکڑوں کارکن آگے بڑھتے تو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مرکزی دفاتر سے آنے والے آئی اے رحمن، افراسیاب خٹک، عاصمہ جہانگیر اور اقبال حیدر مرحوم بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے۔
ہمیں وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی تحریک سے ہزاروں کولہی ، بھیل، میگواڑ، باگڑی اور شیڈول کاسٹ کے دیگر قیدی آزاد تو ہوگئے، مگر ان کی آباد کاری ، روزگار اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ سب کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا تھا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے مسیحی برادری کی طرف سے ماتلی میں ''مریم کیمپ'' کے نام سے ہاریوں کی رہائش گاہ کا انتظام کیاگیا اوراس کے بعد سکندر آباد، ٹنڈوغلام حیدر اورکوٹری میں بھی ایسے ہی کیمپ بنائے گئے ۔ کچھ عرصے کے بعد عاصمہ جہانگیر کو انسانی خدمات پر یورپ سے ایک ایوارڈ ملا تو انھوں نے اس رقم سے حیدرآباد کے قریب واقع ہوسٹری کے علاقے میں زمین خرید کر آزاد ہونے والے ہاریوں کے لیے ''آزاد ہاری نگر'' کے نام سے ایک گوٹھ آباد کر دیا۔
حیدر آباد کے قریب بننے والے کیمپ میں آباد ہندو ہاریوں نے بعد میں آس پاس کے علاقے میں تعمیر ہونے والی عمارتوں میں راج، مزدور اور کاریگرکی حیثیت سے کام کیا اور کچھ نے سبزی اور پھل فروشی کا کاروبار اپنا کر اپنے جسم سے غلامی کے نشان مٹانے کا آغاز کیا۔ ہاریوں کی رہائی کی کوشش پر مقامی وڈیرے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مخالف اور عاصمہ جہانگیر کی جان کے دشمن بن گئے اور شکیل پٹھان کو قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ قید سے آزاد ہونے والے کئی ہاریوں پر تشدد بھی ہوا اور انھیں دوبارہ اغوا کر لیا گیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے عاصمہ جہانگیر نے ایک ہاری منو بھیل کے خاندان کی رہائی کے لیے قانونی جنگ کا آغاز کیا، لیکن تاحال منو بھیل کا خاندان اس سے نہ مل سکا۔ ہزاروں ہاریوں کو جب وڈیروں کی نجی جیلوں سے رہائی نصیب ہوئی تو ملک کے بہت سارے شہریوں کو پہلی دفعہ اس بات کا بھی علم ہوا کہ سندھ میں کتنے ہندو قبیلے آباد ہیں، ان کی کتنی ذاتیں ہیں اور وہ کن مشکلات سے دوچار ہیں۔
اسی دوران سندھ میں ایک اور وبا پھیلی یعنی کارو کاری کے تحت کئی خواتین پر جھوٹے الزام لگا کر انھیںقتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے عاصمہ جہانگیر نے اس لعنت کے خاتمے کے لیے قانونی راستہ اپناتے ہوئے ایسے واقعات کی وجوہات جاننے اور انھیں ختم کرنے کا آغاز کیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی اور لاپتہ افراد کی تلاش کے سلسلے میں جواقدامات کیے انھیں بھی سراہا گیا اور ملک بھر سے لاپتہ ہونے والے نوجوانوں کی رہائی کے لیے آواز بلند ہوئی تو اس کا مرکزی کردار بھی عاصمہ جہانگیر ہی بنیں۔
عاصمہ جہانگیر کے انتقال کے کچھ دن بعد معروف کمیونسٹ رہنما اور فقیر منش انسان جام ساقی بھی اس دنیا کو خیرآباد کہا تو ملک بھر میں بائیں بازو کی پارٹیوں اور روشن خیال حلقوں نے ان کی یاد میں کئی تقریبات کا اہتمام کیا۔ بائیں بازو کی دوسری پارٹیوں کے علاوہ عوامی ورکرز پارٹی نے بھی خواتین کے عالمی دن کی تقریبات کو عاصمہ جہانگیر کے نام سے ہی منسوب کرتے ہوئے انھیں بھر پور خراج عقیدت پیش کیا۔
اس موقعے پر معروف صحافی، دانشور اور عاصمہ جہانگیر کے دیرینہ رفیق کار آئی اے رحمن بھی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے منعقدہ ایک پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لائے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے خیال میں'' اگر حکومت عاصمہ جہانگیر کی شخصیت سے فائدہ اٹھاتی تو بلوچستان کے بہت سارے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ ماضی میں دہشتگردی سے جڑا ایک بہت بڑا مسئلہ جب حکومت حل نہ کر سکی تو عاصمہ جہانگیر نے تن تنہا اسے انتہائی آسانی سے حل کر کے دکھا دیا جس سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اختلافات کے باوجود عاصمہ جہانگیر کی شخصیت بہت سارے دھڑوں کے لیے قابل قبول تھی۔''
عاصمہ جہانگیر کا تعلق ایک متمول طبقے سے تھا، مگر ان کی پوری زندگی ہاریوں، بھٹہ مزدوروں اور اقلیتوں کے حقوق کی لڑائی لڑتے ہوئے گزری۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ ایک خاص طبقے کی نمایندہ تھیں، مگر جب ان کی یاد میں منعقدہ پروگر ام میں منو بھیل، ویرو کولہی اور نوو کولہی جیسی خواتین نے روتے ہوئے کہا کہ عاصمہ لاکھوں ہاریوں اور اقلیتیوں کی آواز تھی اور اس کے بعد ہم لاوارث ہو گئے ہیں تویہ بات کمزور ثابت ہوئی۔
اس موقعے پر نوو کولہی نے اپنے ساتھ کھڑی اور روتی ہوئی ویرو کولہی کو مخاطب کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ ''رونے کی ضرورت نہیں ہمیں ہمت سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا، اگر عاصمہ چلی گئی تو کیا ہوا اس پروگرام میں بیٹھی ساری لڑکیاں عاصمہ ہی کا تو روپ ہیں۔'' تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
نوے کی دہائی میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں صدیوں سے وڈیروں کی قید میں غلامی کی زندگی گزارنے والے نچلی ذات کے ہندوؤں اور ان کے بیوی بچوں کی آزادی کا علم بلندکیا تو عاصمہ جہانگیر اس صف میں سب سے آگے نظر آئیں۔ وڈیروں کے کھیتوں میں خون پسینے سے ہریالی لانے والے ان ہاریوں کو رات کے وقت ڈھور ڈنگروں کی طرح زنجیروں سے باندھ دیا جاتا یا تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں قید کر دیا جاتا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے نہ صرف بونڈڈ لیبر کے خاتمے اور نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ان بے زبان ہاریوں کی آزادی کا بیڑہ اٹھایا بلکہ پنجاب کے کئی مرکزی شہروں میں قائم اینٹو ںکے بھٹوں پر برسوں سے مشقت کرنے والے ایسے خاندانوں کی آزادی کے لیے بھی آواز بلند کی جن کا بال بال مالکان کے ایسے قرضوں میں جکڑا ہوا تھا جو انھوں نے کبھی لیے ہی نہیںتھے۔
تپتی دوپہر ہو رات ہو یا دن سندھ کی وڈیروں کی قید سے بچوں اور خواتین کو آزادی دلوانے کے لیے شکیل پٹھان مرحوم، پروفیسر ڈاکٹر بدر سومرو،آفتاب چوہدری مرحوم، نور ناز آغا، نسرین شکیل پٹھان اور علی حسن کے ساتھ جب دوسرے سیکڑوں کارکن آگے بڑھتے تو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مرکزی دفاتر سے آنے والے آئی اے رحمن، افراسیاب خٹک، عاصمہ جہانگیر اور اقبال حیدر مرحوم بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے۔
ہمیں وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی تحریک سے ہزاروں کولہی ، بھیل، میگواڑ، باگڑی اور شیڈول کاسٹ کے دیگر قیدی آزاد تو ہوگئے، مگر ان کی آباد کاری ، روزگار اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ سب کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا تھا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے مسیحی برادری کی طرف سے ماتلی میں ''مریم کیمپ'' کے نام سے ہاریوں کی رہائش گاہ کا انتظام کیاگیا اوراس کے بعد سکندر آباد، ٹنڈوغلام حیدر اورکوٹری میں بھی ایسے ہی کیمپ بنائے گئے ۔ کچھ عرصے کے بعد عاصمہ جہانگیر کو انسانی خدمات پر یورپ سے ایک ایوارڈ ملا تو انھوں نے اس رقم سے حیدرآباد کے قریب واقع ہوسٹری کے علاقے میں زمین خرید کر آزاد ہونے والے ہاریوں کے لیے ''آزاد ہاری نگر'' کے نام سے ایک گوٹھ آباد کر دیا۔
حیدر آباد کے قریب بننے والے کیمپ میں آباد ہندو ہاریوں نے بعد میں آس پاس کے علاقے میں تعمیر ہونے والی عمارتوں میں راج، مزدور اور کاریگرکی حیثیت سے کام کیا اور کچھ نے سبزی اور پھل فروشی کا کاروبار اپنا کر اپنے جسم سے غلامی کے نشان مٹانے کا آغاز کیا۔ ہاریوں کی رہائی کی کوشش پر مقامی وڈیرے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مخالف اور عاصمہ جہانگیر کی جان کے دشمن بن گئے اور شکیل پٹھان کو قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ قید سے آزاد ہونے والے کئی ہاریوں پر تشدد بھی ہوا اور انھیں دوبارہ اغوا کر لیا گیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے عاصمہ جہانگیر نے ایک ہاری منو بھیل کے خاندان کی رہائی کے لیے قانونی جنگ کا آغاز کیا، لیکن تاحال منو بھیل کا خاندان اس سے نہ مل سکا۔ ہزاروں ہاریوں کو جب وڈیروں کی نجی جیلوں سے رہائی نصیب ہوئی تو ملک کے بہت سارے شہریوں کو پہلی دفعہ اس بات کا بھی علم ہوا کہ سندھ میں کتنے ہندو قبیلے آباد ہیں، ان کی کتنی ذاتیں ہیں اور وہ کن مشکلات سے دوچار ہیں۔
اسی دوران سندھ میں ایک اور وبا پھیلی یعنی کارو کاری کے تحت کئی خواتین پر جھوٹے الزام لگا کر انھیںقتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے عاصمہ جہانگیر نے اس لعنت کے خاتمے کے لیے قانونی راستہ اپناتے ہوئے ایسے واقعات کی وجوہات جاننے اور انھیں ختم کرنے کا آغاز کیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی اور لاپتہ افراد کی تلاش کے سلسلے میں جواقدامات کیے انھیں بھی سراہا گیا اور ملک بھر سے لاپتہ ہونے والے نوجوانوں کی رہائی کے لیے آواز بلند ہوئی تو اس کا مرکزی کردار بھی عاصمہ جہانگیر ہی بنیں۔
عاصمہ جہانگیر کے انتقال کے کچھ دن بعد معروف کمیونسٹ رہنما اور فقیر منش انسان جام ساقی بھی اس دنیا کو خیرآباد کہا تو ملک بھر میں بائیں بازو کی پارٹیوں اور روشن خیال حلقوں نے ان کی یاد میں کئی تقریبات کا اہتمام کیا۔ بائیں بازو کی دوسری پارٹیوں کے علاوہ عوامی ورکرز پارٹی نے بھی خواتین کے عالمی دن کی تقریبات کو عاصمہ جہانگیر کے نام سے ہی منسوب کرتے ہوئے انھیں بھر پور خراج عقیدت پیش کیا۔
اس موقعے پر معروف صحافی، دانشور اور عاصمہ جہانگیر کے دیرینہ رفیق کار آئی اے رحمن بھی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے منعقدہ ایک پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لائے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے خیال میں'' اگر حکومت عاصمہ جہانگیر کی شخصیت سے فائدہ اٹھاتی تو بلوچستان کے بہت سارے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ ماضی میں دہشتگردی سے جڑا ایک بہت بڑا مسئلہ جب حکومت حل نہ کر سکی تو عاصمہ جہانگیر نے تن تنہا اسے انتہائی آسانی سے حل کر کے دکھا دیا جس سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اختلافات کے باوجود عاصمہ جہانگیر کی شخصیت بہت سارے دھڑوں کے لیے قابل قبول تھی۔''
عاصمہ جہانگیر کا تعلق ایک متمول طبقے سے تھا، مگر ان کی پوری زندگی ہاریوں، بھٹہ مزدوروں اور اقلیتوں کے حقوق کی لڑائی لڑتے ہوئے گزری۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ ایک خاص طبقے کی نمایندہ تھیں، مگر جب ان کی یاد میں منعقدہ پروگر ام میں منو بھیل، ویرو کولہی اور نوو کولہی جیسی خواتین نے روتے ہوئے کہا کہ عاصمہ لاکھوں ہاریوں اور اقلیتیوں کی آواز تھی اور اس کے بعد ہم لاوارث ہو گئے ہیں تویہ بات کمزور ثابت ہوئی۔
اس موقعے پر نوو کولہی نے اپنے ساتھ کھڑی اور روتی ہوئی ویرو کولہی کو مخاطب کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ ''رونے کی ضرورت نہیں ہمیں ہمت سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا، اگر عاصمہ چلی گئی تو کیا ہوا اس پروگرام میں بیٹھی ساری لڑکیاں عاصمہ ہی کا تو روپ ہیں۔'' تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔