فروٹ کھلانے دودھ پلانے کی باتیں
ایک خاتون نے اتنا ہی دل کو چھو لینے والی ای میل بھیجی ہے جس کو پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
COLOMBO:
عزت دینے والا اور لینے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ کسی کی عزت کرے یا بے عزتی۔ کچھ لوگ پیسے کے بل پر سمجھتے ہیں کہ ہماری بہت عزت ہے توکچھ طاقت کا استعمال کر کے لوگوں کے حق کو دبا کر سمجھتے ہیں کہ اسی میں ہماری عزت ہے۔ لیکن اللہ پاک نے اپنے ہاں عزت کا معیارکچھ اور بنایا ہے۔ نہ اس نے دولت کو باعث عزت کہا نہ طاقت کے پرچارکو بہتر جانا۔ اصل طاقت کا منبع تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اسی لیے اس نے تقویٰ کو عزت کا معیار قرار دیا کہ جس میں جتنا تقویٰ ہو گا وہ ا تنا ہی صاحب عزت ہو گا۔
یعنی عزت کا معیار صاحب کردار ہونا قرار پایا اور تقویٰ جب آتا ہے جب انسان اپنے پاس موجود ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرتا بھی ہو اور جذبہ رکھتا ہو۔ مال و دولت کی حرص تو قارون کے ماننے والوں کو ہوتی ہے کیا شان تھی، اس کی دولت کی، چالیس اُونٹوں پر تو خزانوں کی صرف چابیاں ہوتی تھیں مگر کیا انجام ہوا؟ سب ریت کے طوفان میں دب گئے۔ کچھ کام نہ آیا بلکہ رہتی دنیا تک حرص و ہوس کا دوسرا نام قارون پڑ گیا۔ اس لیے کہتے ہیں کبھی کبھی کچھ چیزیں ا یسی وقوع پذیر ہو جاتی ہیں تو اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ منجانب اللہ ہیں۔
نواز شریف بھی جوتا کلب کے ممبر بن گئے۔ یہ نہ توکوئی خوشی کی بات ہے نہ ہی تبصرے کی بلکہ عبرت کا جائے مقام ہے، کیونکہ اس سے وہ کلچر مزید فروغ پائے گا جس میں فرعونیت کا جذبہ کار فرما ہو گا،آج بھی ہمارے دیہات اور جدید شہروں میں موجود ہے کہ اپنے مخالفین کو سر بازار رسوا کر دیا ہے تا کہ اُن پر دھاک بیٹھ جائے اور وہ کبھی سر اُٹھانے کا تصور بھی نہ کریں اور اس جوتا مار کلچر کے رویے بھی معاشرے کے بگڑے ہوئے رجحان کو مزید داغ دارکریں گے۔ کوئی بھی با شعورانسان اس بات یا عمل کی تائید نہیں کرے گا کیونکہ فرمان الہیٰ ہے کہ کسی کی مصبیت پر خوشی کا اظہار نہ کرو ہاں ایسے معاملات کے پیچھے چھپے پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اہل فکر، اہل نظر اس طرح کی چیزوں سے اپنے لیے دوسروں کے لیے سبق لیتے ہیں نصحیت پکڑتے ہیں۔
کچھ عرصے سے پا کستانی سیاست کو اس طرح داغ دار کیا جا رہا ہے کہ اس کا چہرہ مسخ ہو کر رہ گیا ہے۔ قانون کی بالادستی کو یکسر ختم کرنے کا رحجان پرورش پا رہا ہے، ایک طبقے کی بالادستی کو پروان چڑھا کر اور ملک کے اہم عہد ے تک پُہنچا کر سمجھے گا کہ کر لو جوکرنا ہے، جائز نا جائزکے فرق کو ختم کر دیا گیا۔ اس سے عام آدمی کی نفسیات پر فرق پڑا، اسی لیے جو جہاں ہے اسی سطح پر اپنی من مانی کر رہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی ڈر و خوف نہیں کیونکہ اُسے معلوم ہے کہ ہمارے بڑے اپنی سطح پر جو کام کر رہے اربوں کھربوں کھا کر بھی ڈ کار نہیں لیتے اور ان کا فرمان ہے کہ اگر ہمارے پاس اتنا پیسہ ہے تو کسی کا کیا جاتا ہے۔
بے شک کسی کا کچھ نہیں جاتا مگر عوام پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہمارے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والی یہ اشرافیہ دن بدن کیوں امیر سے امیر تر اور غریب بد ترین غربت کا شکارکیوں ہو گیا ہے۔ نیلم پروجیکٹ کا ٹیکس وصول کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ اس پر اربوں سے کھربوں کا سفرکیوں کر طے ہوا، میگا پروجیکٹ عوام کی ضرورت نہیں صاف پانی، خالص خوراک علاج معالجے کی سہولیات اور دو وقت روٹی اس سے زیادہ عوام کیا مانگتے ہیں۔
آج ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے ہزاروں خواتین زچگی کے دوران مر جاتی ہیں کیونکہ طبی سہولیات ان کی پہنچ سے دور ہیں۔ بھیڑ بکریو ں کی طر ح زندگی گزار کر ایک نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے جب مر جاتی ہے تو اللہ نے اتنی ہی عمر لکھی تھی کہہ کر صبرکر لیا جاتا ہے۔ غذائی قلت کا شکار ہو کر ہزاروں بچے مر جاتے ہیں اس میں قصورکس کا ہے یہ سب کو معلوم ہے۔ یہ حکمران سیاستدان ہماری زندگیوں سے قطرہ قطرہ نچوڑ رہے ہیں۔ ان حکمرانوں کو عوام کے دکھوں اور ان کے مصائب کا احساس ہوتا تو ملک کی یہ حالت نہ ہوتی کہ چیلنجز مگر مچھ کی طرح منہ کھولے سب کچھ ہڑپ کرنے کو تیار ہیں، عوام دوستی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
ایک خاتون نے اتنا ہی دل کو چھو لینے والی ای میل بھیجی ہے جس کو پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، وہ لکھتی ہیں میں ایک ماں ہوں، بیوی ہوں، میرا فرض ہے کہ میں اپنے بچوں اور شوہرکو اچھی غذا فراہم کروں مگرگھرکے ٹھنڈے چولہوں اور خالی برتنوں کو دیکھ کر ایک ''آہ'' سی دل سے نکلتی ہے، اسکول والے کہتے ہیں آپ کے بچے کی جسمانی ضروریات پوری نہیں ہو رہی ان کو فروٹ کھلائیں دودھ دیں۔ میں اُن کوکیا جواب دوں کہ یہ حکمران میرے گھرکے چولہے کوکھا گئے۔
پہلے فروٹ مختلف پکوان ہماری دسترس میں تھے آج جن کی کمائی دس ہزار ہو، کرائے کا گھر ہو وہ لوگ کہاں جائیں۔ اس جمہوری دور سے تو وہ بدنام زمانہ آمریت کا دور ہی اچھا تھا جب ہمارے بچے پیٹ بھرکرکھاتے تھے۔ سولہ روپے کلوآٹا اور ساٹھ روپے کلوگھی آتا تھا لیکن اس جمہوری دور میں سب خواب ہوگئے۔
عزت دینے والا اور لینے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ کسی کی عزت کرے یا بے عزتی۔ کچھ لوگ پیسے کے بل پر سمجھتے ہیں کہ ہماری بہت عزت ہے توکچھ طاقت کا استعمال کر کے لوگوں کے حق کو دبا کر سمجھتے ہیں کہ اسی میں ہماری عزت ہے۔ لیکن اللہ پاک نے اپنے ہاں عزت کا معیارکچھ اور بنایا ہے۔ نہ اس نے دولت کو باعث عزت کہا نہ طاقت کے پرچارکو بہتر جانا۔ اصل طاقت کا منبع تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اسی لیے اس نے تقویٰ کو عزت کا معیار قرار دیا کہ جس میں جتنا تقویٰ ہو گا وہ ا تنا ہی صاحب عزت ہو گا۔
یعنی عزت کا معیار صاحب کردار ہونا قرار پایا اور تقویٰ جب آتا ہے جب انسان اپنے پاس موجود ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرتا بھی ہو اور جذبہ رکھتا ہو۔ مال و دولت کی حرص تو قارون کے ماننے والوں کو ہوتی ہے کیا شان تھی، اس کی دولت کی، چالیس اُونٹوں پر تو خزانوں کی صرف چابیاں ہوتی تھیں مگر کیا انجام ہوا؟ سب ریت کے طوفان میں دب گئے۔ کچھ کام نہ آیا بلکہ رہتی دنیا تک حرص و ہوس کا دوسرا نام قارون پڑ گیا۔ اس لیے کہتے ہیں کبھی کبھی کچھ چیزیں ا یسی وقوع پذیر ہو جاتی ہیں تو اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ منجانب اللہ ہیں۔
نواز شریف بھی جوتا کلب کے ممبر بن گئے۔ یہ نہ توکوئی خوشی کی بات ہے نہ ہی تبصرے کی بلکہ عبرت کا جائے مقام ہے، کیونکہ اس سے وہ کلچر مزید فروغ پائے گا جس میں فرعونیت کا جذبہ کار فرما ہو گا،آج بھی ہمارے دیہات اور جدید شہروں میں موجود ہے کہ اپنے مخالفین کو سر بازار رسوا کر دیا ہے تا کہ اُن پر دھاک بیٹھ جائے اور وہ کبھی سر اُٹھانے کا تصور بھی نہ کریں اور اس جوتا مار کلچر کے رویے بھی معاشرے کے بگڑے ہوئے رجحان کو مزید داغ دارکریں گے۔ کوئی بھی با شعورانسان اس بات یا عمل کی تائید نہیں کرے گا کیونکہ فرمان الہیٰ ہے کہ کسی کی مصبیت پر خوشی کا اظہار نہ کرو ہاں ایسے معاملات کے پیچھے چھپے پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اہل فکر، اہل نظر اس طرح کی چیزوں سے اپنے لیے دوسروں کے لیے سبق لیتے ہیں نصحیت پکڑتے ہیں۔
کچھ عرصے سے پا کستانی سیاست کو اس طرح داغ دار کیا جا رہا ہے کہ اس کا چہرہ مسخ ہو کر رہ گیا ہے۔ قانون کی بالادستی کو یکسر ختم کرنے کا رحجان پرورش پا رہا ہے، ایک طبقے کی بالادستی کو پروان چڑھا کر اور ملک کے اہم عہد ے تک پُہنچا کر سمجھے گا کہ کر لو جوکرنا ہے، جائز نا جائزکے فرق کو ختم کر دیا گیا۔ اس سے عام آدمی کی نفسیات پر فرق پڑا، اسی لیے جو جہاں ہے اسی سطح پر اپنی من مانی کر رہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی ڈر و خوف نہیں کیونکہ اُسے معلوم ہے کہ ہمارے بڑے اپنی سطح پر جو کام کر رہے اربوں کھربوں کھا کر بھی ڈ کار نہیں لیتے اور ان کا فرمان ہے کہ اگر ہمارے پاس اتنا پیسہ ہے تو کسی کا کیا جاتا ہے۔
بے شک کسی کا کچھ نہیں جاتا مگر عوام پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہمارے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والی یہ اشرافیہ دن بدن کیوں امیر سے امیر تر اور غریب بد ترین غربت کا شکارکیوں ہو گیا ہے۔ نیلم پروجیکٹ کا ٹیکس وصول کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ اس پر اربوں سے کھربوں کا سفرکیوں کر طے ہوا، میگا پروجیکٹ عوام کی ضرورت نہیں صاف پانی، خالص خوراک علاج معالجے کی سہولیات اور دو وقت روٹی اس سے زیادہ عوام کیا مانگتے ہیں۔
آج ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے ہزاروں خواتین زچگی کے دوران مر جاتی ہیں کیونکہ طبی سہولیات ان کی پہنچ سے دور ہیں۔ بھیڑ بکریو ں کی طر ح زندگی گزار کر ایک نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے جب مر جاتی ہے تو اللہ نے اتنی ہی عمر لکھی تھی کہہ کر صبرکر لیا جاتا ہے۔ غذائی قلت کا شکار ہو کر ہزاروں بچے مر جاتے ہیں اس میں قصورکس کا ہے یہ سب کو معلوم ہے۔ یہ حکمران سیاستدان ہماری زندگیوں سے قطرہ قطرہ نچوڑ رہے ہیں۔ ان حکمرانوں کو عوام کے دکھوں اور ان کے مصائب کا احساس ہوتا تو ملک کی یہ حالت نہ ہوتی کہ چیلنجز مگر مچھ کی طرح منہ کھولے سب کچھ ہڑپ کرنے کو تیار ہیں، عوام دوستی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
ایک خاتون نے اتنا ہی دل کو چھو لینے والی ای میل بھیجی ہے جس کو پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، وہ لکھتی ہیں میں ایک ماں ہوں، بیوی ہوں، میرا فرض ہے کہ میں اپنے بچوں اور شوہرکو اچھی غذا فراہم کروں مگرگھرکے ٹھنڈے چولہوں اور خالی برتنوں کو دیکھ کر ایک ''آہ'' سی دل سے نکلتی ہے، اسکول والے کہتے ہیں آپ کے بچے کی جسمانی ضروریات پوری نہیں ہو رہی ان کو فروٹ کھلائیں دودھ دیں۔ میں اُن کوکیا جواب دوں کہ یہ حکمران میرے گھرکے چولہے کوکھا گئے۔
پہلے فروٹ مختلف پکوان ہماری دسترس میں تھے آج جن کی کمائی دس ہزار ہو، کرائے کا گھر ہو وہ لوگ کہاں جائیں۔ اس جمہوری دور سے تو وہ بدنام زمانہ آمریت کا دور ہی اچھا تھا جب ہمارے بچے پیٹ بھرکرکھاتے تھے۔ سولہ روپے کلوآٹا اور ساٹھ روپے کلوگھی آتا تھا لیکن اس جمہوری دور میں سب خواب ہوگئے۔