زرعی شعبے کی ترقی کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے زرعی شعبے کو ترقی دے کر اس کی پیداوار بڑھائی جائے۔
August 09, 2012
KARACHI:
پاکستان ایک زرعی معیشت والا ملک ہے جس کی آبادی کا کافی بڑا حصہ اسی شعبے سے وابستہ ہے اور ملکی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہی ہے۔ اس شعبے سے ہمیں سال بھر کی خوراک ملتی ہے' صنعتی سیکٹر کو خام مال دستیاب ہوتا ہے اور کسانوں کی محنت سے حاصل ہونے والی نقد آور فصلوں کی برآمد سے زرمبادلہ ملتا ہے تاہم اس زمینی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم اپنے زرعی سیکٹر سے بھرپور پیداوار نہیں لے رہے اور ہماری فی ایکڑ پیداوار کی شرح اس خطے کے کئی ممالک سے بھی کم ہے۔
اس کی بنیادی وجہ تو آبپاشی کے لیے پانی کی قلت ہے جب کہ کاشت کے جدید طریقے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے بھی ہم اپنے اس شعبے کو بھرپور ترقی نہیں دے سکے ہیں حالانکہ یہ بالکل واضح ہے کہ تھوڑی سی توجہ دے کر ہم اپنی زرعی پیداوار بڑھا سکتے ہیں جس کے مثبت اثرات ہماری معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے زرعی شعبے کو ترقی دے کر اس کی پیداوار بڑھائی جائے۔ اس سلسلے میں پنجاب کی سطح پر کچھ مناسب اقدامات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب ایگریکلچر ریسرچ بورڈ نے مالی سال 2012-13 میں زرعی تحقیق کے نئے و جاری منصوبہ جات کے لیے 450 ملین روپے مالیت کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔ پنجاب کی سطح پر یہ اقدامات خوش آیند ہیں لیکن چونکہ ہمارے چاروں صوبوں میں وسیع و عریض زرعی رقبے ہیں اس لیے مناسب یہی ہے کہ دیگر تینوں صوبوں کی حکومتیں بھی ایسے ہی اقدامات اور فیصلوں کے بارے میں سوچیں۔
تاکہ کسان دوست پالیسیوں کو فروغ دے کر گندم، چاول، مکئی، گنا' کپاس اور دیگر فصلوں کی ریکارڈ پیداوار حاصل کی جا سکے۔اور اس حقیقت سے تو سبھی آگاہ ہیں کہ زرعی شعبہ جنگلات میں اضافے اور لائیو اسٹاک بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور اس میں ریسرچ کے عمل کو اہمیت و فوقیت دی جائے۔ بلاشبہ ایسی زرعی اجناس پر تحقیق کی اشد ضرورت ہے جو بدلتے ہوئے شدید موسمی تقاضوں کا مقابلہ اور پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کر سکیں۔