کراچی میں نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری
پولیس اس نیٹ ورک میں ملوث گروہ کا ایک کارندہ پکڑسکی نہ ہی گروہ کا تعین کر سکی۔
ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی میں نوزائیدہ بچوں کی پے در پے لاشیں ملنے کا سلسلہ تاحال نہ تھم سکا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی حکومتی مؤثر کارروائی عمل میں لائی جاسکی ہے رواں سال ای تک شہر کے مختلف علاقوں سے نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملنے کے 23واقعات ریکارڈ ہوچکے لیکن پولیس اس نیٹ ورک میں ملوث گروہ کا ایک بھی کارندہ گرفتار نہیں کرسکی اور نہ ہی گروہ کا تعین کر سکی ہے۔
متعلقہ پولیس نے مختلف نوعیت کی کارروائیاں کرنے کے بعد معاملات سرد خانے کے حوالے کردیے ہیں جبکہ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ دائیوں اور میٹرنٹی ہومزپرنظررکھنے کیلیے محکمہ ہیلتھ کوکرداراداکرنا چاہیے، بدھ کو تاج کمپلیکس کے قریب کچراکنڈی سے مزید 3 نومولود بچوں کی لاشیں ملیں جنھیں سفاک ملزمان نے اپنا گناہ چھپانے کے لیے دنیا میں ہی موت کی نیند سلا دیا جب کہ پولیس ان درندہ صفت انسانوں اور جہاں یہ نومولود بچے جنم لیتے ہیں ان مقامات کا سراغ نہ لگاسکی ہے۔
شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ نومولود بچوں کو قتل کر کے لاشیں پھینکنے کا عمل سفاکیت کی انتہا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن ایسے واقعات پر کسی اعلیٰ شخصیات کی جانب سے نوٹس کیوں نہیں لیا گیا ؟آخر شہر میں ہو کیا رہا ہے ؟ پولیس کا انٹیلیجنس نیٹ ورک کہاں سویا ہوا ہے ؟ موٹر سائیکل کے کاغذات نہ ہوں تو پولیس پکڑ لیتی ہے لیکن ننھی جانوں کو قتل کر کے لاشیں پھینکنے والے کیوں پولیس کی آنکھوں سے اوجھل ہیں؟
تفتیشی افسروں کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ اور پری مچؤر بچوں کی لاشوں کے حوالے سے مختلف نوعیت کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے جو ڈاکٹر کی رپورٹ بچے کی عمر اور ملنے والی لاش کی نوعیت کودیکھ کرکی جاتی ہے اور دفعات لگائی جاتی ہیں ۔
تفتیشی افسران کا کہناتھا کہ ان واقعات کے پیچھے کئی اسباب ہیں جن کے سدباب کا سندھ حکومت کے پاس ابتک کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے، ایسے واقعات میں عموما میٹرنٹی ہومز واسپتالوں کا عملہ ملوث ہوتا ہے اور علاقائی سطح پر مقامی دائیوں کاکردار بھی ہے۔
تفتیش کاروں کا مطابق ان واقعات کو تقویت دینے میں سوشل میڈیا کا اہم کردارہے جس کی مختلف سائٹس پرعریانی اور فحاشی کے حوالے سے ہرقسم کا مواد موجود ہوتا ہے جو آجکل کے نوجوان نسل کے ہاتھوں میں اسمارٹ فونز کی صورت میں موجود ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مشاہدہ ہوا ہے کہ ایسی لاشیں اسپتالوں ، میٹرنٹی ہومز اورکچی اور گنجان رہائشی علاقوں کے آس پاس کچراکنڈی سے پائی جاتی ہیں۔ جہاں کسی کو بھی کچرے میں نوزائیدہ بچے کی لاش پھینکتے ہوئے کوئی شک کی نظر سے نہیں دیکھتا۔
پولیس افسران کا کہنا ہے کہ کچی آبادیوں سے شہر کے اپارٹمنٹس ، بنگلوں اور گھروں میں کام کاج کے لیے آنے والی خواتین بھی ایسے معاملات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جو ناصرف خفیہ طور ایسے حمل ضائع کرانے کے لیے دائیوں کا بندوبست بھی کرتی ہیں اور لاشیں بھی ٹھکانے لگادیتی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ایسا کوئی سسٹم موجود نہیں کہ ان دائیوں سے ریکارڈ یا تفصیلات حاصل کی جاسکے۔ کیونکہ یہ دائیاں کوئی ریکارڈ نہیں رکھتیں جبکہ پوچھ گچھ پرصرف یہی کہتی ہیں کہ ہم ایسا کام نہیں کرتے۔
شاہراہ فیصل تھانے کے تفتیشی افسرانسپکٹرنسیم فاروقی کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں دائیوں کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی یا سند نہیں ہوتی اور یہ بھی کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا کہ کون سے علاقے میں کون کون دائی ہے اس طرح میٹرنٹی ہومز بھی قائم ہیں جن کے باہر بڑے ڈاکٹروں کے نام اور سائن بورڈ ہوتے ہیں لیکن وہاں پر غیرتربیت یافتہ عملہ اور جعلی ڈاکٹرز ہوتے ہیں۔
دریں اثنا ایم اے جناح روڈ تاج کمپلیکس کے قریب کچرا کنڈی سے چادرمیں لپٹی ہوئی 3 نومولود بچوں کی لاشیں ملیں جس کی اطلاع پر بریگیڈ پولیس اور چھیپا کے رضا کار موقع پر پہنچ گئے جبکہ شہریوں کی بھی بڑی تعداد موقع پر جمع ہوگئی اور اس سفاکیت پر اپنے غم و غصے کا بھی اظہار کیا۔
ایس ایچ او نصر اللہ نے بتایا کہ قانونی کارروائی کے بعد تینوں نومولود بچوں کی لاشوں کو چھیپا سرد خانے منتقل کرادیا اور اس حوالے سے پولیس واقعے کا مقدمہ درج کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال گلستان جوہر سے ملنے والی 2 نومولود بچوں کی لاشیں ملنے کا مقدمہ شارع فیصل پولیس نے درج کیا تھا تاہم شہر کے مختلف علاقوں سے اب تک ملنے والی 23 نومولود بچوں کی لاشوں کو پھینکنے والے سفاک ملزمان تاحال قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔
متعلقہ پولیس نے مختلف نوعیت کی کارروائیاں کرنے کے بعد معاملات سرد خانے کے حوالے کردیے ہیں جبکہ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ دائیوں اور میٹرنٹی ہومزپرنظررکھنے کیلیے محکمہ ہیلتھ کوکرداراداکرنا چاہیے، بدھ کو تاج کمپلیکس کے قریب کچراکنڈی سے مزید 3 نومولود بچوں کی لاشیں ملیں جنھیں سفاک ملزمان نے اپنا گناہ چھپانے کے لیے دنیا میں ہی موت کی نیند سلا دیا جب کہ پولیس ان درندہ صفت انسانوں اور جہاں یہ نومولود بچے جنم لیتے ہیں ان مقامات کا سراغ نہ لگاسکی ہے۔
شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ نومولود بچوں کو قتل کر کے لاشیں پھینکنے کا عمل سفاکیت کی انتہا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن ایسے واقعات پر کسی اعلیٰ شخصیات کی جانب سے نوٹس کیوں نہیں لیا گیا ؟آخر شہر میں ہو کیا رہا ہے ؟ پولیس کا انٹیلیجنس نیٹ ورک کہاں سویا ہوا ہے ؟ موٹر سائیکل کے کاغذات نہ ہوں تو پولیس پکڑ لیتی ہے لیکن ننھی جانوں کو قتل کر کے لاشیں پھینکنے والے کیوں پولیس کی آنکھوں سے اوجھل ہیں؟
تفتیشی افسروں کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ اور پری مچؤر بچوں کی لاشوں کے حوالے سے مختلف نوعیت کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے جو ڈاکٹر کی رپورٹ بچے کی عمر اور ملنے والی لاش کی نوعیت کودیکھ کرکی جاتی ہے اور دفعات لگائی جاتی ہیں ۔
تفتیشی افسران کا کہناتھا کہ ان واقعات کے پیچھے کئی اسباب ہیں جن کے سدباب کا سندھ حکومت کے پاس ابتک کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے، ایسے واقعات میں عموما میٹرنٹی ہومز واسپتالوں کا عملہ ملوث ہوتا ہے اور علاقائی سطح پر مقامی دائیوں کاکردار بھی ہے۔
تفتیش کاروں کا مطابق ان واقعات کو تقویت دینے میں سوشل میڈیا کا اہم کردارہے جس کی مختلف سائٹس پرعریانی اور فحاشی کے حوالے سے ہرقسم کا مواد موجود ہوتا ہے جو آجکل کے نوجوان نسل کے ہاتھوں میں اسمارٹ فونز کی صورت میں موجود ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مشاہدہ ہوا ہے کہ ایسی لاشیں اسپتالوں ، میٹرنٹی ہومز اورکچی اور گنجان رہائشی علاقوں کے آس پاس کچراکنڈی سے پائی جاتی ہیں۔ جہاں کسی کو بھی کچرے میں نوزائیدہ بچے کی لاش پھینکتے ہوئے کوئی شک کی نظر سے نہیں دیکھتا۔
پولیس افسران کا کہنا ہے کہ کچی آبادیوں سے شہر کے اپارٹمنٹس ، بنگلوں اور گھروں میں کام کاج کے لیے آنے والی خواتین بھی ایسے معاملات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جو ناصرف خفیہ طور ایسے حمل ضائع کرانے کے لیے دائیوں کا بندوبست بھی کرتی ہیں اور لاشیں بھی ٹھکانے لگادیتی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ایسا کوئی سسٹم موجود نہیں کہ ان دائیوں سے ریکارڈ یا تفصیلات حاصل کی جاسکے۔ کیونکہ یہ دائیاں کوئی ریکارڈ نہیں رکھتیں جبکہ پوچھ گچھ پرصرف یہی کہتی ہیں کہ ہم ایسا کام نہیں کرتے۔
شاہراہ فیصل تھانے کے تفتیشی افسرانسپکٹرنسیم فاروقی کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں دائیوں کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی یا سند نہیں ہوتی اور یہ بھی کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا کہ کون سے علاقے میں کون کون دائی ہے اس طرح میٹرنٹی ہومز بھی قائم ہیں جن کے باہر بڑے ڈاکٹروں کے نام اور سائن بورڈ ہوتے ہیں لیکن وہاں پر غیرتربیت یافتہ عملہ اور جعلی ڈاکٹرز ہوتے ہیں۔
دریں اثنا ایم اے جناح روڈ تاج کمپلیکس کے قریب کچرا کنڈی سے چادرمیں لپٹی ہوئی 3 نومولود بچوں کی لاشیں ملیں جس کی اطلاع پر بریگیڈ پولیس اور چھیپا کے رضا کار موقع پر پہنچ گئے جبکہ شہریوں کی بھی بڑی تعداد موقع پر جمع ہوگئی اور اس سفاکیت پر اپنے غم و غصے کا بھی اظہار کیا۔
ایس ایچ او نصر اللہ نے بتایا کہ قانونی کارروائی کے بعد تینوں نومولود بچوں کی لاشوں کو چھیپا سرد خانے منتقل کرادیا اور اس حوالے سے پولیس واقعے کا مقدمہ درج کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال گلستان جوہر سے ملنے والی 2 نومولود بچوں کی لاشیں ملنے کا مقدمہ شارع فیصل پولیس نے درج کیا تھا تاہم شہر کے مختلف علاقوں سے اب تک ملنے والی 23 نومولود بچوں کی لاشوں کو پھینکنے والے سفاک ملزمان تاحال قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔