چـــولـسـتـانــی مــیلـہ روہی کے ثقافتی رنگوں کی قوس قزح بکھیرنے والے چین پیر میلے کی روداد

میلے کسی معاشرے میں اتحاد و یگانگت کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔


Basheer Wasiq April 05, 2013
میلے کسی معاشرے میں اتحاد و یگانگت کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

میلے کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت اور روایات کے عکاس ہوتے ہیں، اس سے جہاں ثقافت میں تنوع پیدا ہوتا ہے وہیں ان سے روایات بھی مضبوط ہوتی ہیں۔

میلے کسی معاشرے میں اتحاد و یگانگت کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان میں مختلف علاقوں کے لوگ بڑے جوش و جذبے سے شرکت کرتے ہیںمگر سب کے سب ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جیسے ایک تسبیح کے رنگ برنگے دانے ہوتے ہیں ۔ پاکستانی تہذیب و ثقافت میں ان میلوں ، ٹھیلوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس سے جہاں باہمی یگانگت کو فروغ ملتا ہے وہیں یہ تفریح کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہیں ۔

یوں تو میلے ملک بھر میں لگائے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے مگر چولستان میں لگنے والے میلے کا اپنا ہی ایک جداگانہ رنگ اور انداز ہے ۔ صحرا ، ریگستان یا دشت کا خیال ذہن میں آتے ہی جھلستی ریت اور بے آب و گیا ہ قریے کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے۔ عظیم شاعر فیض احمد فیض نے اسی لئے دشت کے استعارے کو کچھ ایسی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔

؎دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے،تیرے ہونٹوں کے سراب

یہ غزل مشہور مغنیہ اور گائیکہ اقبال بانو نے گائی ہے، جسے سنتے ہی بے پناہ وسعتوں کاحامل دشت اوراس کی تنہائی پوری شدت کے ساتھ تصور میں در آتی ہے۔

صحرا کی بھی عجب ہی دنیا ہوتی ہے ، ریگستانوں میں جہاں سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں یہ انسان کو وسعت نظر بھی عطا کرتے ہیں ۔ اسی لئے عظیم مفکر و شاعر علامہ اقبال کہتے ہیں
؎فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مرد کوہستانی

صحرا کے رہنے والوں کی اپنی ہی بالکل الگ تھلگ سی دنیا ہو تی ہے، سادہ مگر پر مشقت زندگی بسر کرنے والے صحرا نشین کسی بھی مسئلے کو حل کرنے میں ہر وقت مستعد نظر آتے ہیں۔ اور تو اور صحرائی خواتین بھی کسی سے کم نہیں ہوتیں اور میلوں دور سے روزانہ پانی بھر کر لانا ان کا معمول ہوتا ہے ، اس کے علاوہ گھر کے کام کاج بھی وہ بڑے اچھے انداز میں سرانجام دیتی ہیں جو کہ عام شہری زندگی سے کافی مشکل ہوتے ہیں۔کھانا پکانے کے لئے گھاس پھونس سے آگ جلانا ہی ایسا دشوار کام ہے جس کا شہروں کی رہنے والی گھریلو عورتیں تصور نہیں کر سکتیں۔ صحراؤں کی ایک اور اہم بات وہاں پر بنائے جانے والے سادہ سے مٹی کے گھر ہیں جن میں صحرا کے رہنے والے بڑی طمانیت سے گزر بسر کرتے ہیں ، ان گھروں کی اہم بات یہ ہے کہ گرمیوں میں یہ ٹھنڈے رہتے ہیں گویا کچے گھروں میں رہنا صحرا نشینوں کی مجبوری بھی ہے۔

چولستانی میلہ جنوبی پنجاب میں بہاولپور سے 65 کلومیٹر دور جنوب میں چولستان صحرا کے کنارے پر لگتا ہے، یہاں سے تحصیل یزمان تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے،گویا یزمان پہنچنے کے بعد صرف آدھا یا پون گھنٹہ سفر کرنا پڑتا ہے۔ آپ جیسے ہی میلے کے خاص مقام گاؤں چنن پیر کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو یزمان سے روانہ ہونے کے بعد چند کلومیٹر کے فاصلے سے ہی دھوپ میں چمکتی ریت آپ کا سواگت کرنے لگتی ہے جس سے آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ چولستان میں داخل ہو چکے ہیں۔

دور سے آپ کو چند کچے مکان نظر آتے ہیں یہی چنن پیر گاؤں ہے، یہیں پر حضرت چنن پیرؒ کا مزار شریف ہے اور انھی کی یاد میں یہ میلہ سات سو سال قبل شروع کیا گیا ۔ اس حوالے سے دو روایات زیادہ مشہور ہیں ، کہا جاتا ہے کہ حضرت چنن پیرؒ کو ان کے باپ ہندو راجہ سدھارن نے اسلام کی تبلیغ کرنے کی وجہ سے شہید کیا ، دوسری روایت کے مطابق جب ہندو راجہ کے سپاہیوں نے حضرت چنن پیرؒ کا پیچھا کیا تو وہ ریت میں غائب ہو گئے۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ ان کی تعلیمات سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ اسی لئے ان کے کلام میں جا بجا روہی کا حوالہ ملتا ہے۔

چولستانی میلہ 11فروری کو شروع ہو کر 10اپریل کو ختم ہوتا ہے مگر ان چھ ہفتوں کے دوران صرف جمعرات کو میلہ لگتا ہے، گویا سات جمعراتوں کو میلے کے لئے مخصوص کیا گیا ہے ۔ ان میں سے پانچویں جمعرات سب سے اہم شمار کی جاتی ہے اس دن سب سے زیادہ رش ہوتا ہے۔ میلے میں شرکت کے لئے لوگ بدھ کی رات کو پہنچتے ہیں، رات وہاں گزارتے ہیں اور جمعرات کو حاضری دینے کے بعد واپس روانہ ہوتے ہیں، اتنا طویل اور مخصوص دنوں کا میلہ شائد ہی پاکستان کے کسی خطے میں لگایا جاتا ہو۔

میلہ شروع ہوتے ہی چولستان کی ریت پر گویا مختلف ثقافتی رنگ بکھرنا شروع ہو جاتے ہیں، انسانوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ نظر آتے ہیں ۔ لوگ دور دور سے اونٹوں ، بیلوں اور گدھا گاڑیوں پر آتے ہیں ، کوئی دھمال ڈالتا آ رہا ہوتا ہے تو کوئی صوفیانہ کلام پڑھ رہا ہوتا ہے ، ان کے رنگ برنگے ملبوسات ، مردوں کے سروں پر پگڑیاں اورعورتوں کے گہرے رنگ کے ڈوپٹے اور چادریں دور سے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے صحرا میں قوس قزح کے رنگ اتر آئے ہوں، تب صحرا اپنی حیثیت سے ماورا ہو جاتا ہے اور کچھ اورہی دکھائی دیتا ہے۔



دور و نزدیک سے آنے والے یہ قافلے چنن پیر گاؤں کے قریب آ کر رکتے ہیں اور جہاں جگہ ملتی ہے پڑاؤ ڈال دیتے ہیں ۔ جو لوگ ہر سال اس میلے میں شرکت کے لئے آتے ہیں انھوں نے گاؤں کے مکانوں میں اپنی جگہ مخصوص کی ہوتی ہے اور وہ وہیں آ کر ٹھہرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ مکانوں کے مالکان بھی ان سے کوئی تعرض نہیں کرتے تاہم مکانوں میں ٹھہرنے والے اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ انکے وہاں ٹھہرنے سے مالکان کی روز مرہ کی زندگی متاثر نہ ہو اسی لئے وہ خود کو مکان کے احاطے تک محدود رکھتے ہیں اور کمروں کی طرف نہیں جاتے، مالکان نے بھی اس کا خصوصی بندوبست کیا ہوا ہے کہ ان احاطوں کے ساتھ چھوٹی سی دیوار بنا کر ایک سرحد قائم کر دی ہے، تاہم وہاں ٹھہرنے والوں سے کرایہ وغیرہ نہیں لیا جاتا۔ گاؤں چھوٹا ہونے کی وجہ سے تمام افراد تو ان احاطوں میں نہیں سما سکتے، اس لئے اکثریت چولستان کی ریت پر ہی ڈیرے ڈال دیتی ہے، یوں دشت میں ایک نیا شہر آباد ہو جاتا ہے۔

اس میلے کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی بھرپور شرکت کرتے ہیں اور ان کے بھی خاندانوں کے خاندان وہاں ڈیرے ڈالے رہتے ہیں ۔ درویشوں اور صوفیاء کا یہی کمال ہے کہ ہر رنگ و نسل اور مذہب کے لوگ ان کے برتاؤ کی وجہ سے ان سے محبت کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں، صدیوں قبل حضرت چنن پیرؒ نے جب ان ہندؤں کو اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کیا تو جو لوگ مسلمان نہ بھی ہوئے انھیں ان سے محبت و عقیدت ضرور ہو گئی اور یہی محبت اب ان کو یہاں کھینچ لاتی ہے اور وہ ناچتے ،گاتے میلے میں پہنچ جاتے ہیں ۔

یہ میلہ جہاں ثقافتی رنگ لئے ہوئے ہے وہیں بہت سی روایات کا بھی امین ہے ، جن لوگوں نے اپنی دعائیں پوری ہونے کے لئے منت ماننا ہوتی ہے تو وہ علامت کے طور پر جنڈ کے ایک قدیم درخت پر کپڑے کا ٹکڑا یا دھاگا باندھ دیتے ہیں، اگر کسی کی دعا پوری ہو جائے تو وہ اگلے سال میلے میں ایک بکرا لے کر آتا ہے اور گوشت کے دوحصے اپنے خاندان والوں کے لئے رکھتا ہے اور تیسرا حصہ دربار کے گدی نشین کو پیش کرتا ہے۔ میلے میں شرکت کرنے والے جھومر ڈانس کرتے ہیں جس میں مردوں کے ساتھ خواتین اور بچے بھی شرکت کرتے ہیں۔ خواجہ سرا بھی وہاں پر بڑی تعداد میں پہنچتے ہیں ۔ بچوں کی تفریح کے لئے جھولے لگائے جاتے ہیں۔ قریبی شہروں اور قصبوں کے رہنے والے نوجوان موٹر سائیکلوں پر بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں ، جس سے میلے میں ثفافتی رنگ کے ساتھ ساتھ جدید یت کا پہلو بھی در آتا ہے ، ورنہ وہاں آنے والوں کی اکثریت اونٹ اور گدھا گاڑیوں پر آتی ہے جو بڑی خوبصورتی سے سجائی گئی ہوتی ہے، حتیٰ کہ اونٹوں کے جسموں پر بھی ٹیٹو بنائے گئے ہوتے ہیں ، یہاں پر اونٹ ڈانس دیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے جوشہری علاقوں میں عرصہ دراز سے عنقا ہو چکا ہے۔

روہی یعنی چولستان کا ہمیشہ سے سب سے بڑا مسئلہ پانی رہا ہے اور اس میلے میں بھی اس مسئلے کو شدت سے محسوس کیا جاتاہے ، حالانکہ اس میلے کا سارا انتظام عرصہ دراز سے محکمہ اوقاف کے پاس ہے مگراس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ، پانی کی کمیابی کی وجہ سے میلے میں شرکت کے لئے آنے والوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ذرا اندازہ کریں کہ کہاں چند گھروں پر مشتمل چھوٹا سا گاؤ ں اور کہاں ہزاروں افراد کاہجوم اور پانی کا ذخیرہ وہی ، ایسے میں مسائل تو پیدا ہوں گے ۔ مگر تمام تر مسائل کے باوجود چولستانی میلے کی رنگا رنگی وہاں آنے والوں کو بار بار وہاں کھینچ لاتی ہے اور اس میلے کے دوران چولستان جیسا دشت انسانوں کے پرمسرت اور دھمال ڈالتے اجسام سے بھر جاتا ہے ، بالکل ایسے ہی جیسے موسم بہار میں بارشوں کے بعد صحرا میں کھلے رنگ برنگے پھول دعوت نظارہ دیتے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں