پارٹی تحریک کی راکھ سے ہی جنم لیتی ہے
اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پورے نظام کو دائو پر لگا دیا تھا تاکہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ برقرار رہے
ISLAMABAD:
یہ پہلا موقع نہیں کہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) آف انڈیا نے حکومت کے ایک سکینڈل میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے۔لیکن اس مرتبہ وزیراعظم منموہن سنگھ پر بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے کوئلے کے ذخائر میں 1.45 لاکھ کروڑ روپے (پندرہ کھرب کے لگ بھگ) کے فراڈ کے بارے میں جاری کی جانے والی سی اے جی کی رپورٹ کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا۔
وزیراعظم نے اس سال 23 مئی کو پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ سی اے جی کی رپورٹ محض ایک ڈرافٹ (خاکہ) ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ فائنل رپورٹ 11 مئی کو ہی حکومت اور ایوان صدر دونوں کو موصول ہو گئی تھی۔جہاں تک سی اے جی کی رپورٹوں کا تعلق ہے تو اس ضمن میں حکومت کا کردار محض ایک 'فارورڈنگ ایجنسی' کا ہے۔ وہ حکومت کے ذریعے براہ راست پارلیمنٹ کو رپورٹ کرتے ہیں جیسا کہ کوئلے کی کرپشن کے معاملے پر کیا تھا۔
یہ ایک ایسا اختیار ہے جو براہ راست وزیراعظم کے پاس ہے لیکن وہ کسی تاخیر کا کیا جواز پیش کرتے ہیں یہ ان پر منحصر ہے ویسے بھی وہ اس کام میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود کرپشن کا معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بعض پرائیویٹ پارٹیوں اور افراد کو فوائد دیئے گئے ہیں۔
ظاہر ہے انھوں نے بھی تو حکمران پارٹی کی دامے درمے کوئی خدمت کی ہی ہو گی۔افسوسناک بات یہ ہے کہ جب کرپشن کے خلاف تحریک کی اصل ضرورت تھی تو گاندھی کے پیروکار انا ہزارے نے، جو اس کی قیادت کر رہے تھے' اپنی حکمت عملی تبدیل کر دی اور اب وہ 2014ء میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ رہے ہیں۔
اگرچہ وہ متذبذب ہے اور عوام میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے لیکن ان لوگوں کے لیے انا کی یقینا بہت اہمیت ہے جن کی نگاہیں ہمیشہ انتخابی سیاست پر مرکوز رہتی ہیں۔ ان میں سے ممکن ہے کہ بعض اس ٹیم کے اراکین بھی ہوں جسے ہزارے نے اب کالعدم قرار دیدیا ہے۔
تاہم ایک ایسی تحریک کو، جس سے سول سوسائٹی کو اپنے دل کا غبار نکالنے کا موقع ملا تھا' درمیان میں ہی ختم کر دیا گیا۔ یہ درست ہے کہ حکومت رکاوٹیں پیدا کر رہی تھی کیونکہ وہ ایک بہت مضبوط لوک پال (محتسب) کے قیام کے حق میں نہیں تھی، اور یہ بات بھی اتنی ہی سچ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں لاتعلقی کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ یہ تمام چیزیں اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں کہ لوک پال کے قیام کے لیے چلائی جانے والی تحریک کو اور زیادہ تیز کیا جاتا۔
بعض اراکین کی بھوک ہڑتال کے باعث صحت خراب ہو گئی تھی جس کی وجہ سے تحریک کو روکنا پڑا تاکہ بھوک ہڑتال کے ختم کرنے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھوک ہڑتال کرنا ہی غلط حکمت عملی ہے۔ مہاتما گاندھی کی بھوک ہڑتال کبھی کسی شخص کے خلاف نہیں ہوتی تھی وہ ہمیشہ اپنے مطالبے میں مثبت رہتے تھے اور وہ انگریز کے ہاتھ سے اقتدار چھیننے کی جدوجہد میں مصروف رہے جو اقتدار چھوڑنا نہیںچاہتا تھا۔
اب چونکہ کرپشن کے حوالے سے حکومت کے سامنے کوئی فوری چیلنج نہیں رہا لہذا حکومت نے سی بی آئی (سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن) کی جانب سے یو پی کی سابق وزیراعلیٰ مایاوتی کے خلاف قائم ناجائز اثاثے رکھنے کے کیس مسترد ہونے پر اپیل نہ کرنے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔
لوک سبھا میں مایاوتی کے 21 ووٹ ہیں لیکن پارلیمنٹ میں اکثریت قائم رکھنے کے لیے منموہن سنگھ حکومت کے نزدیک ان ووٹوں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اور یہ بات اب واضح نظر آتی ہے کہ کانگریس اپنی باقی ماندہ مدت جو تقریباً 22 مہینے کی ہے حکومت پر برقرار رہے گی ۔
خواہ اسے کوئی خلاف اصول کام بھی کیوں نہ کرنے پڑیں جیسا کہ اس نے کوئلے کے ذخائر کے بارے میں سی اے جی کی رپورٹ پر کیا، یا مایاوتی کے اثاثوں کے بارے میں آنکھیں بند کر کے کیا۔ مایا وتی کے بارے میں مبینہ طور پر تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس نے 2003ء سے لے کر بعد کے عرصے تک 116 کروڑ روپے کی مالیت کی خورد برد کی ہے۔
بیشک انا ہزارے کے لیے سیاسی میدان میں آنے کا یہ بہترین وقت ہے لیکن کیا ایک پارٹی ایک ایسی تحریک کی راکھ سے جنم لے سکتی ہے جس نے اہل دانش کی تمام تر توجہ حاصل کر لی اور میڈیا کی نگاہیں بھی 18 مہینے تک اسی پر لگی رہیں؟
اگر ہم ٹھوس بنیادوں پر تجزیہ کریں تو تحریک کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا لیکن سول سوسائٹی کا بیدار ہو جانا اپنے اندر ایک کامیابی کی دلیل ہے۔
لیکن کیا انا ہزارے اس بیداری کو ووٹ ڈالنے کے عمل میں بدل سکیں گے، اس کا اندازہ وقت آنے پر ہو گا۔ ایک چیز جو اس کی حمایت میں جاتی ہے وہ یہ کہ اب اسے کانگریس یا بی جے پی کے متبادل کے طور پر بھی دیکھا جانے لگا ہے۔ لوگ ایک تبدیلی چاہتے ہیں اور متذکرہ دونوں جماعتوں میں سے کسی کو دوبارہ اقتدار میں دیکھنے کے حق میں نہیں ہیں۔
گاندھی کے پیروکار جے پرکاش نرائن (جے پی) کو بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہوا تھا لیکن انھوں نے بی جے پی کی پیشرو جنا سنگھ کو قبول کر لیا کیونکہ جنا سنگھ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آر ایس ایس سے تعلقات منقطع کر لے گی۔ اگرچہ انھیں دھوکا دیا گیا تھا مگر اسی دوران جنا سنگھ کو غیر فرقہ وارانہ تنظیم ہونے کی ساکھ حاصل ہو گئی۔
آسام میں بھی اسی قسم کی صورتحال پیدا ہوئی جو انا کو درپیش ہے۔ تب بابا رام دیو متضاد چیزوں کو اکٹھا کرنا چاہتے تھے یعنی وہ سیکولر ازم کو علاقائی عصبیت کے ساتھ شامل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ جے پرکاش کی غلطی تھی جس سے علاقائیت پر یقین رکھنے والی قوتوں کو فروغ حاصل ہوا۔
انا ہزارے کو یہ راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں اکیلا کھڑا ہونا چاہیے۔ جب بابا رام دیو اور اس کے طاقتور ساتھیوں نے مشترکہ موقف اپنانے کی کوشش کی تو انھیں احساس ہوا کہ ان کی ثقافت مختلف تھی جسے اختیار کرنے کے لیے سول سوسائٹی تیار نہیں تھی۔ جے پرکاش کا مقام اب انا ہزارے کو حاصل ہو گیا ہے لیکن جے پرکاش نے عوام کو بیدار کرنے کے لیے پورے ملک کا دورہ کیا تھا تاکہ انھیں متبادل قیادت مل سکے اور وہ حکمرانوں کو شکست دینا چاہتے تھے۔
جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پورے نظام کو دائو پر لگا دیا تھا تاکہ ''اسٹیٹس کو'' برقرار رہے اور اقتدار پر ان کے قبضے کو کوئی چیلنج نہ کر سکے۔ میں اس بات کے خلاف نہیں ہوں کہ انا ہزارے انتخابات میں کیوں حصہ لے رہا ہے بلکہ اب وہ خود بھی اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کر رہا ہے لیکن یہ بہت بہتر ہوتا اگر وہ مدھا پدکر اور ارونا رائے جیسے اپنے مشیروں سے وسیع طور پر صلاح مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرتے۔
انا ہزارے کو چاہیے تھا کہ وہ تمام تحریکوں کو باہم اکٹھا کر لیتے خواہ کوئی تحریک کتنی چھوٹی ہی کیوں نہ ہوتی اور اس مقصد کے لیے گراس روٹ تک جانا چاہیے تھا۔ یہی فعال کارکن ایسے ہیں جو اس تبدیلی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں جس کے لیے انا ہزارے کوشش کر رہے ہیں۔
ممکن ہے کہ یہ کام کسی سیاسی پارٹی کے بجائے ایک سیاسی پلیٹ فارم سے کیا جائے تاکہ وسیع تر مقاصد کا حصول ممکن ہو سکے۔ کچھ لوگ تحریکیں چلاتے رہے اور کچھ لوگ انتخابات میں حصہ لیتے رہے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ اصل طاقت کا سرچشمہ یہی لوگ ہیں۔ مہاتما گاندھی نے تعمیراتی کارکنوں کو ان سے علیحدہ کر دیا تھا جو قانون سازی کے میدان میں مصروف تھے۔
جے پرکاش نے انتخابات جیتنے تک اپنی پارٹی کے قیام کا اعلان نہیں کیا تھا تاہم اس بات کا انھیں واضح شعور تھا کہ ان کے امیدواروں کو ایک ہی علامت کے تحت انتخاب لڑنا چاہیے۔ لیکن ان کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے جن امیدواروں کو کھڑا کیا وہ صحیح نہیں تھے۔ وہ ایسے لوگ نہیں تھے جو تبدیلی پر اثر انداز ہوتے بلکہ وہ اس نظام سے صرف اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتے تھے اور پھر جے پرکاش کی صحت خراب ہو گئی اور وہ عوام سے رابطے کے لیے بھی باہر نہ نکل سکے۔
انا ہزارے کو بھی اپنی صحت کے بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ انھیں بہت دھیرے دھیرے اپنی حمایت اکٹھی کرنی چاہیے اور ان کے ساتھی ایسے ہونے چاہئیں جو بنیادی اقدار پر مکمل یقین رکھتے ہوں۔ اس مرتبہ اسے ناکام نہیں ہونا چاہیے۔ سیاست بری چیز نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت جو لوگ سیاست پر حاوی ہیں انھوں نے اس کا نام بدنام کر دیا ہے۔
(ترجمہ: مظہرمنہاس)
یہ پہلا موقع نہیں کہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) آف انڈیا نے حکومت کے ایک سکینڈل میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے۔لیکن اس مرتبہ وزیراعظم منموہن سنگھ پر بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے کوئلے کے ذخائر میں 1.45 لاکھ کروڑ روپے (پندرہ کھرب کے لگ بھگ) کے فراڈ کے بارے میں جاری کی جانے والی سی اے جی کی رپورٹ کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا۔
وزیراعظم نے اس سال 23 مئی کو پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ سی اے جی کی رپورٹ محض ایک ڈرافٹ (خاکہ) ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ فائنل رپورٹ 11 مئی کو ہی حکومت اور ایوان صدر دونوں کو موصول ہو گئی تھی۔جہاں تک سی اے جی کی رپورٹوں کا تعلق ہے تو اس ضمن میں حکومت کا کردار محض ایک 'فارورڈنگ ایجنسی' کا ہے۔ وہ حکومت کے ذریعے براہ راست پارلیمنٹ کو رپورٹ کرتے ہیں جیسا کہ کوئلے کی کرپشن کے معاملے پر کیا تھا۔
یہ ایک ایسا اختیار ہے جو براہ راست وزیراعظم کے پاس ہے لیکن وہ کسی تاخیر کا کیا جواز پیش کرتے ہیں یہ ان پر منحصر ہے ویسے بھی وہ اس کام میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود کرپشن کا معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بعض پرائیویٹ پارٹیوں اور افراد کو فوائد دیئے گئے ہیں۔
ظاہر ہے انھوں نے بھی تو حکمران پارٹی کی دامے درمے کوئی خدمت کی ہی ہو گی۔افسوسناک بات یہ ہے کہ جب کرپشن کے خلاف تحریک کی اصل ضرورت تھی تو گاندھی کے پیروکار انا ہزارے نے، جو اس کی قیادت کر رہے تھے' اپنی حکمت عملی تبدیل کر دی اور اب وہ 2014ء میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ رہے ہیں۔
اگرچہ وہ متذبذب ہے اور عوام میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے لیکن ان لوگوں کے لیے انا کی یقینا بہت اہمیت ہے جن کی نگاہیں ہمیشہ انتخابی سیاست پر مرکوز رہتی ہیں۔ ان میں سے ممکن ہے کہ بعض اس ٹیم کے اراکین بھی ہوں جسے ہزارے نے اب کالعدم قرار دیدیا ہے۔
تاہم ایک ایسی تحریک کو، جس سے سول سوسائٹی کو اپنے دل کا غبار نکالنے کا موقع ملا تھا' درمیان میں ہی ختم کر دیا گیا۔ یہ درست ہے کہ حکومت رکاوٹیں پیدا کر رہی تھی کیونکہ وہ ایک بہت مضبوط لوک پال (محتسب) کے قیام کے حق میں نہیں تھی، اور یہ بات بھی اتنی ہی سچ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں لاتعلقی کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ یہ تمام چیزیں اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں کہ لوک پال کے قیام کے لیے چلائی جانے والی تحریک کو اور زیادہ تیز کیا جاتا۔
بعض اراکین کی بھوک ہڑتال کے باعث صحت خراب ہو گئی تھی جس کی وجہ سے تحریک کو روکنا پڑا تاکہ بھوک ہڑتال کے ختم کرنے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھوک ہڑتال کرنا ہی غلط حکمت عملی ہے۔ مہاتما گاندھی کی بھوک ہڑتال کبھی کسی شخص کے خلاف نہیں ہوتی تھی وہ ہمیشہ اپنے مطالبے میں مثبت رہتے تھے اور وہ انگریز کے ہاتھ سے اقتدار چھیننے کی جدوجہد میں مصروف رہے جو اقتدار چھوڑنا نہیںچاہتا تھا۔
اب چونکہ کرپشن کے حوالے سے حکومت کے سامنے کوئی فوری چیلنج نہیں رہا لہذا حکومت نے سی بی آئی (سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن) کی جانب سے یو پی کی سابق وزیراعلیٰ مایاوتی کے خلاف قائم ناجائز اثاثے رکھنے کے کیس مسترد ہونے پر اپیل نہ کرنے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔
لوک سبھا میں مایاوتی کے 21 ووٹ ہیں لیکن پارلیمنٹ میں اکثریت قائم رکھنے کے لیے منموہن سنگھ حکومت کے نزدیک ان ووٹوں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اور یہ بات اب واضح نظر آتی ہے کہ کانگریس اپنی باقی ماندہ مدت جو تقریباً 22 مہینے کی ہے حکومت پر برقرار رہے گی ۔
خواہ اسے کوئی خلاف اصول کام بھی کیوں نہ کرنے پڑیں جیسا کہ اس نے کوئلے کے ذخائر کے بارے میں سی اے جی کی رپورٹ پر کیا، یا مایاوتی کے اثاثوں کے بارے میں آنکھیں بند کر کے کیا۔ مایا وتی کے بارے میں مبینہ طور پر تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس نے 2003ء سے لے کر بعد کے عرصے تک 116 کروڑ روپے کی مالیت کی خورد برد کی ہے۔
بیشک انا ہزارے کے لیے سیاسی میدان میں آنے کا یہ بہترین وقت ہے لیکن کیا ایک پارٹی ایک ایسی تحریک کی راکھ سے جنم لے سکتی ہے جس نے اہل دانش کی تمام تر توجہ حاصل کر لی اور میڈیا کی نگاہیں بھی 18 مہینے تک اسی پر لگی رہیں؟
اگر ہم ٹھوس بنیادوں پر تجزیہ کریں تو تحریک کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا لیکن سول سوسائٹی کا بیدار ہو جانا اپنے اندر ایک کامیابی کی دلیل ہے۔
لیکن کیا انا ہزارے اس بیداری کو ووٹ ڈالنے کے عمل میں بدل سکیں گے، اس کا اندازہ وقت آنے پر ہو گا۔ ایک چیز جو اس کی حمایت میں جاتی ہے وہ یہ کہ اب اسے کانگریس یا بی جے پی کے متبادل کے طور پر بھی دیکھا جانے لگا ہے۔ لوگ ایک تبدیلی چاہتے ہیں اور متذکرہ دونوں جماعتوں میں سے کسی کو دوبارہ اقتدار میں دیکھنے کے حق میں نہیں ہیں۔
گاندھی کے پیروکار جے پرکاش نرائن (جے پی) کو بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہوا تھا لیکن انھوں نے بی جے پی کی پیشرو جنا سنگھ کو قبول کر لیا کیونکہ جنا سنگھ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آر ایس ایس سے تعلقات منقطع کر لے گی۔ اگرچہ انھیں دھوکا دیا گیا تھا مگر اسی دوران جنا سنگھ کو غیر فرقہ وارانہ تنظیم ہونے کی ساکھ حاصل ہو گئی۔
آسام میں بھی اسی قسم کی صورتحال پیدا ہوئی جو انا کو درپیش ہے۔ تب بابا رام دیو متضاد چیزوں کو اکٹھا کرنا چاہتے تھے یعنی وہ سیکولر ازم کو علاقائی عصبیت کے ساتھ شامل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ جے پرکاش کی غلطی تھی جس سے علاقائیت پر یقین رکھنے والی قوتوں کو فروغ حاصل ہوا۔
انا ہزارے کو یہ راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں اکیلا کھڑا ہونا چاہیے۔ جب بابا رام دیو اور اس کے طاقتور ساتھیوں نے مشترکہ موقف اپنانے کی کوشش کی تو انھیں احساس ہوا کہ ان کی ثقافت مختلف تھی جسے اختیار کرنے کے لیے سول سوسائٹی تیار نہیں تھی۔ جے پرکاش کا مقام اب انا ہزارے کو حاصل ہو گیا ہے لیکن جے پرکاش نے عوام کو بیدار کرنے کے لیے پورے ملک کا دورہ کیا تھا تاکہ انھیں متبادل قیادت مل سکے اور وہ حکمرانوں کو شکست دینا چاہتے تھے۔
جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پورے نظام کو دائو پر لگا دیا تھا تاکہ ''اسٹیٹس کو'' برقرار رہے اور اقتدار پر ان کے قبضے کو کوئی چیلنج نہ کر سکے۔ میں اس بات کے خلاف نہیں ہوں کہ انا ہزارے انتخابات میں کیوں حصہ لے رہا ہے بلکہ اب وہ خود بھی اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کر رہا ہے لیکن یہ بہت بہتر ہوتا اگر وہ مدھا پدکر اور ارونا رائے جیسے اپنے مشیروں سے وسیع طور پر صلاح مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرتے۔
انا ہزارے کو چاہیے تھا کہ وہ تمام تحریکوں کو باہم اکٹھا کر لیتے خواہ کوئی تحریک کتنی چھوٹی ہی کیوں نہ ہوتی اور اس مقصد کے لیے گراس روٹ تک جانا چاہیے تھا۔ یہی فعال کارکن ایسے ہیں جو اس تبدیلی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں جس کے لیے انا ہزارے کوشش کر رہے ہیں۔
ممکن ہے کہ یہ کام کسی سیاسی پارٹی کے بجائے ایک سیاسی پلیٹ فارم سے کیا جائے تاکہ وسیع تر مقاصد کا حصول ممکن ہو سکے۔ کچھ لوگ تحریکیں چلاتے رہے اور کچھ لوگ انتخابات میں حصہ لیتے رہے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ اصل طاقت کا سرچشمہ یہی لوگ ہیں۔ مہاتما گاندھی نے تعمیراتی کارکنوں کو ان سے علیحدہ کر دیا تھا جو قانون سازی کے میدان میں مصروف تھے۔
جے پرکاش نے انتخابات جیتنے تک اپنی پارٹی کے قیام کا اعلان نہیں کیا تھا تاہم اس بات کا انھیں واضح شعور تھا کہ ان کے امیدواروں کو ایک ہی علامت کے تحت انتخاب لڑنا چاہیے۔ لیکن ان کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے جن امیدواروں کو کھڑا کیا وہ صحیح نہیں تھے۔ وہ ایسے لوگ نہیں تھے جو تبدیلی پر اثر انداز ہوتے بلکہ وہ اس نظام سے صرف اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتے تھے اور پھر جے پرکاش کی صحت خراب ہو گئی اور وہ عوام سے رابطے کے لیے بھی باہر نہ نکل سکے۔
انا ہزارے کو بھی اپنی صحت کے بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ انھیں بہت دھیرے دھیرے اپنی حمایت اکٹھی کرنی چاہیے اور ان کے ساتھی ایسے ہونے چاہئیں جو بنیادی اقدار پر مکمل یقین رکھتے ہوں۔ اس مرتبہ اسے ناکام نہیں ہونا چاہیے۔ سیاست بری چیز نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت جو لوگ سیاست پر حاوی ہیں انھوں نے اس کا نام بدنام کر دیا ہے۔
(ترجمہ: مظہرمنہاس)