احتساب کے نام پر سیاسی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ کب تھمے گا

جو قوتیں اس ملک کے سیاہ و سفید کی اصل مالک ہیں، ان سے کوئی سوال ہوسکتا ہے اور نہ ہی قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے

پاکستان میں آج تک کوئی ایک بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے پایا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

WASHINGTON:
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، دو فقرے مسلسل سنتے آئے ہیں۔ پہلا فقرہ ''ملک اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے'' اور دوسرا جملہ ''ملک میں موجود تمام مسائل عہد حاضر کی موجودہ حکومت کی بدعنوانی اور کرپشن کے باعث ہیں اور اگر ملک کو بچانا ہے تو حکومت کو یا کسی ایک سیاسی جماعت کے رہنما کو گھر بھیجنا ہوگا۔'' نازک دور اور حکومت کی کرپشن کم بخت ایسے پرفریب لالی پاپ ہیں کہ انہیں خریدنے والے وطن عزیز میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔

پاکستان میں آج تک کوئی ایک بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے پایا۔ لیاقت علی خان سے لیکر نواز شریف تک، تمام وزرائے اعظم کی چھٹی کروا کر انہیں جبری طور پر عدلیہ یا اس دور کے سیاسی مہروں کے گٹھ جوڑ سے کبھی گھر، کبھی جیل اور کبھی سیدھا اوپر بھیجا جاتا رہا۔ اس کے برعکس وطن عزیز میں ایوب خان، ضیاالحق اور مشرف جیسے آمروں نے برس ہا برس بلا شرکت غیرے آمریت کے ساتھ اس ملک پر حکمرانی کی اور اسے مسائل کی دلدل میں دھنساتے ہی چلے گئے۔ لیکن کیا ہی عجب بات ہے کہ وطن عزیز کی تمام تر برائیوں اور مسائل کی جڑ صرف اور صرف سیاستدانوں کو قرار دیا جاتا ہے۔

وہ سیاستدان جو مختلف آمروں کے ادوار میں چار بائی چار کی کوٹھڑیوں میں زندگی بتاتے ہیں اور پشت پر کوڑے کھاتے ہیں، اور بدلے میں عوام کے دیئے گئے ووٹوں کی طاقت سے حکومت میں آتے ہیں تو آمروں کے ادارے سے ڈکٹیشن لینے کے پابند ٹھہرتے ہیں اور ڈکٹیشن نہ لینے کی صورت میں ذوالفقار علی بھٹو کی مانند دار پر چڑھا دیئے جاتے ہیں یا نواز شریف کی مانند ہائی جیکر قرار دے دیئے جاتے ہیں۔ وہ قوتیں جو اس ملک کے سیاہ و سفید کی اصل مالک ہیں... نہ تو ان سے کوئی سوال کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ کھاد، دلیہ، سیمنٹ، پلاٹ ہاؤسنگ کالونیوں کی فروخت اور بینک اور مالیاتی ادارے چلانے والوں کا نہ تو کوئی آڈٹ کسی باہر کے بندے سے کروانے کی اجازت ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کرپشن کے الزام کی سنوائی کرنے کی ہمت اس ملک کی معزز عدلیہ میں ہے۔

اوکاڑہ فارمز ہاؤس ہوں یا ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں مالیاتی خوردبرد کی شکایات، ایبٹ آباد سانحہ کی تحقیقاتی رپورٹ ہو یا گمشدہ افراد کا معاملہ، ججز کی نظر بندی کا معاملہ ہو یا آئین پر شب خون مارنے کا مقدمہ، اکبر بگٹی کا قتل ہو یا ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کراچی میں وکلا کو زندہ جلانے کا معاملہ، ان تمام پر نہ تو کسی بھی نام نہاد پیراشوٹ اینکر کو بات کرنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی آزاد منش جج کو ان مقدمات کی سنوائی کا خیال آتا ہے۔

لیکن سیاستدان، چاہے وہ شیخ مجیب ہو یا ذوالفقار بھٹو، ولی خان ہو یا بینظیر بھٹو یا پھر نواز شریف، ان سب کے معاملے میں پیراشوٹ اینکرز کا ضمیر بھی بیدار ہوجاتا ہے اور آزاد منش عدلیہ کو آزادی بھی یاد آ جاتی ہے۔ کیا عجیب اور گھناؤنا مذاق ہے کہ چونکہ جمہوریت اس وطن میں پنپ نہیں پائی اور اس کی جڑیں کمزور ہیں اس لیے اس سے وابستہ کسی بھی فرد کا احتساب چٹکی بھر میں کر کے فیصلہ بھی صادر ہو جاتا ہے جبکہ آمریت کے نام لیواؤں کے تلوے چاٹنے میں بھی فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ یہ متضاد اور منافقانہ رویّے دراصل ہمارے معاشرے کی اس اجتماعی نفسیات کی جانب اشارہ کرتی ہیں جس کی بنیاد شخصیت پرستی، اپنے سے طاقتور کو سلام اور پرفریب سرابوں کا پیچھا کرنے کی عادت ہے۔ مجموعی طور پر ہم لوگ بغیر سوچے سمجھے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے والا معاشرہ ہیں وگرنہ اس نکتے کو سمجھنے کےلیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ 1950 کی دہائی سے شروع ہونے والا احتساب کا ڈرامہ آج تک چہرے تبدیل کرنے اور منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کےلیے ہی چلایا جاتا رہا ہے۔

خیر! آج کے دور جدید میں جہاں معلومات اور حقائق تک رسائی چٹکی بجاتے ہوجاتی ہے، اگر آپ اب بھی احتساب کے چورن کو خریدتے ہوئے صدق دل سے نواز شریف کو چور، بھٹو اور شیخ مجیب کو غدار سمجھتے ہیں تو آپ دراصل وطن عزیز کی اس اکثریت کا حصہ ہیں جو آج تک اکیسویں صدی میں ذہنی اور شعوری طور پر داخل ہی نہیں ہونے پائی۔


آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ پاگل وہ ہوتا ہے جو ایک ہی کام کو بار بار ایک ہی طریقے سے سرانجام دے کر یہ سوچتا ہے کہ اب کی بار نتیجہ مختلف ہو گا۔ احتساب کے چورن کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے اور صدق دل سے بتائیے کہ کیا احتساب کے نام پر آج تک سوائے آمریت یا پتلی تماشے کے کچھ اور بھی حاصل ہونے پایا جو کہ اب کی بار حاصل ہوجائے گا؟ آئن اسٹائن کے اس قول کی روشنی میں تو احتساب کا چورن نسل در نسل خریدنے والے پاگل ٹھہرتے ہیں۔ خیر اب چونکہ بات احتساب کی ہورہی ہے تو پرویز مشرف کا ذکر لازم ہے۔

یہ سابق کمانڈو اور آمر آج تک بیرون ملک میں مزے سے زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن ہماری معزز عدلیہ کو اس کے جرائم کا انبار نظر ہی نہیں آتا۔ شاید راولپنڈی کی جانب دیکھنے سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں یا پھر بینائی متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب احتساب کا نعرہ مارنے والی سیاسی کٹھ پتلیاں ہوں یا پھر ایمانداری کے بھاشن دیتے اور کرپشن کی دہائیاں دیتے عام عوام، یہ سب بھی جو احتساب چاہتے ہیں اس کی حدود بھی کینٹ کی چھاؤنی سے کوسوں دور ختم ہوجاتی ہیں۔

صاحبو! احتساب کبھی بھی من پسند نہیں ہوا کرتا اور انصاف سب کےلیے برابر ہوا کرتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ بھٹو سولی پر چڑھایا جائے اور نواز شریف کو اٹک قلعے میں قید کر دیا جائے جبکہ سقوط ڈھاکہ کے مجرم جنرل یحیی خان اور وطن عزیز میں دہشت گردی کا ناسور پیدا کرنے والے آمر ضیاالحق کو قومی پرچموں میں لپیٹ کر عزت و تکریم سے دفن کیا جاتا رہے۔

نواز شریف کو ذاتی کاروبار کی دہائیوں پرانی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ پیش نہ کرنے پر برطرف کرنے کی سازش کی جاتی ہو لیکن مشرف، ایڈمرل منصور اور عدنان کیانی جیسے افراد کو پرتعیش زندگی گزارنے کےلیے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہو۔ اگر پاناما لیکس کے الزام میں ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجنے کی سازش کی جاسکتی ہے تو ہر دور آمریت میں آمروں کے ناجائز اقدامات کو قانونی تحفظ دینے والی عدلیہ اور بیوروکریسی کے خلاف آئین کے تحت کیوں مقدمات نہیں بنائے جاسکتے؟ سانحہ کارگل اور سانحہ ایبٹ آباد کے مجرموں کو کیوں انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکتا؟ اور ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں پیش پیش جنرل ریٹائرڈ شجاع پاشا سے بازپرس کیوں نہیں کی جاسکتی؟ نواز شریف کے پاس اس وقت کھونے کو کچھ زیادہ نہیں بچا جبکہ پس پشت قوتوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے پاس اس وقت ہارنے کو سب کچھ ہے۔

ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد اردگان ترکی کی سیاسی تاریخ کا مضبوط ترین رہنما بن کر ابھرا اور ناکام بغاوت کرنے والوں کا انجام بھی سب کے سامنے ہے۔ نواز شریف اور پس پشت طاقتوں کی اس جنگ کا انجام شاید تاریخ ہی بہتر طور پر دے پائے گی۔ لیکن احتساب اور کرپشن کے چورن کو بارہا عوام کو بیچ کر خود مقدس گائے کے رتبے پر فائز ہوکر ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والی قوتوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

احتساب کو بنیاد بنا کر سیاسی ٹارگٹ کلنگ کرنے والے نادیدہ ہاتھ جب تک اداروں اور نظام کو مضبوط نہیں ہونے دیں گے، تب تک اقتدار کے ایوانوں میں عوامی مسائل کے حل کے بجائے توجہ طاقت کی جنگ کو جیتنے پر مرکوز رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story