واہ واہ شاباش لڑکے واہ واہ

کیا فائدہ کہ ادھر وہ شرمسار ہوں اور ادھر ہم ان کا نام اچھال کر...


Intezar Hussain August 10, 2012
[email protected]

14 اگست کو بس آیا سمجھو۔ مطلب یہ ہے کہ مبارکبادیوں کا موسم سر پہ آیا کھڑا ہے۔ سرکاری سطح پر جو انعامات کا اعلان ہو گا اس ذیل میں کچھ انعامات ادیبوں دانشوروں کے حصے میں بھی تو آئیں گے۔ ہم بس تیار بیٹھے تھے کہ انعامات کا اعلان ہو اور ہم انعام یافتہ عزیز ہمعصروں کو مبارکبادیاں بھیجیں۔ مگر مبارکبادیوں کا موسم تو عجب ہے کہ 14 اگست سے پہلے ہی شروع ہو گیا۔

آج کی تاریخ کتنی خوشی کی خبر لے کر آئی ہے۔ ابھی ابھی ہم نے روزنامہ ایکسپریس میں یہ قیامت خیز مسرت انگیز خبر پڑھی ہے کہ ہمارے امجد اسلام امجد پاکستان بھر کے ادیبوں میں مقبولیت کے لحاظ سے سب پر سبقت لے گئے۔ اب وہ نمبر ون ہیں یعنی نمبر ایک۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ خبر کے مطابق ''گیلپ پاکستان سروے کے مطابق چاروں صوبوں میں قومی سطح پر نمایندگی کرنے والے افراد سے پوچھا گیا کہ آپ کس ادیب کو زیادہ پسند کرتے ہیں''۔ ادھر سے دور و نزدیک سے آواز آئی امجد اسلام امجد' امجد اسلام امجد' امجد اسلام امجد۔ ادھر ہمارے منہ سے بیساختہ نکلا۔ مبارک' مبارک' مبارک

واہ واہ شاباش لڑکے واہ واہ
تو جواں مردوں سے بازی لے گیا

جن جواں مردوں سے یہ نوجوان بازی لے گیا ان میں سب سے بڑھ کر تو وہ ہیں جو اس سروے کے حساب سے کسی شمار قطار ہی میں نہیں ہیں۔ ان کا ذکر بعد میں۔ پہلے ان کا ذکر ہونا چاہیے جو شمار قطار میں ہیں لیکن امجد اسلام کے مقابلے میں پھسڈی نکلے۔ ان میں سب سے پہلے احمد ندیم قاسمی کا ذکر ہونا چاہیے اور ان کے بعد اشفاق احمد کا۔ یہ سروے کہتا ہے کہ 26 فی صد نے امجد اسلام کے حق میں اپنا ووٹ ڈالا۔

13 فیصد نے احمد ندیم قاسمی کے حق میں اور 13 فیصد ہی نے اشفاق احمد کے حق میں ووٹ ڈالا۔ یہ تو مرحومین تھے۔ زندوں میں جو شمار قطار میں آ سکے وہ ہیں حسینہ معین اور مستنصر حسین تارڑ۔ حسینہ معین کے حق میں 11 فی صد نے ووٹ ڈالے۔ سب سے پھسڈی نکلے مستنصر حسین تارڑ جنھیں صرف 6 فیصد نے ووٹ دیا۔

اب ہمارے جو ادیب اس سروے کے اعتبار سے کسی شمار قطار ہی میں نہیں ہیں وہ ہیں اولاً فیض صاحب۔ منٹو صاحب' منیر نیازی' احمد فراز' حبیب جالب' پروین شاکر۔ زندوں میں جو پھسڈی نکلے اور جو اس سروے کے حساب سے اب تین میں ہیں نہ تیرہ میں ان میں سب سے پہلے جن کا نام ہمارے دھیان میں آیا وہ ہیں مشتاق احمد یوسفی۔ اور بھی نام ہمارے ذہن میں آ رہے ہیں مگر ہم اب مزید کوئی نام نہیں گنائیں گے۔ کیا فائدہ کہ ادھر وہ شرمسار ہوں اور ادھر ہم ان کا نام اچھال کر شرمسار ہوں۔ لیجیے اقبال کا کیا خوب شعر یاد آیا

روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر

اب ہم سوچ رہے ہیں کہ ہمیں کم از کم فیض صاحب کا ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جب شعر و شاعری میں ان کا دفتر عمل پیش ہوا تو وہ امجد اسلام سے کوسوں پیچھے کھڑے نظر آ رہے ہیں بلکہ نظر بھی کہاں آ رہے ہیں۔ سروے والوں نے مرحومین میں سے احمد ندیم قاسمی کو شمار کیا' اشفاق احمد کو شمار کیا۔ فیض صاحب ان سروے والوں کے حساب سے کسی گنتی ہی میں نہیں تھے۔ کیا بتاتے کہ انھیں کتنے فی صد نے ووٹ دیئے۔

اس پر ہمارے ایک دوست کو تجسس ہوا۔ پوچھنے لگا کہ یہ سروے کرنے والے کون لوگ ہیں اور کیا بیچتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ جو کچھ بیچتے ہیں وہ تو آپ کے سامنے ہے۔ وہ واقعی نابغہ روزگار ہی ہوں گے کہ ان کی دور رس نگاہ نے فیض ایسی شخصیتوں کو فراموش کر کے گوہر یک دانہ کہاں سے ٹٹول کر برآمد کیا ہے۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ پھر بھی پتہ تو چلنا چاہیے کہ یہ کونسا ادارہ ہے اور کون لوگ اس میں شامل ہیں۔ ایک ستم ظریف بولا کہ پھر امجد اسلام ہی سے چل کر پوچھنا چاہیے۔ یہ جس رنگ کا بھی خرگوش ہے اسی عزیز کی ٹوپی سے برآمد ہو گا۔

ہم نے کہا کہ یارو کس بحث میں پڑ گئے۔ ہمیں آم کھانے سے مطلب ہے نہ کہ پیڑ گننے سے۔ سروے کالے چور نے کیا ہو ہمیں اس سے کیا۔ معاملہ کی بات یہ ہے کہ سروے ہوا اور امجد اسلام امجد چشم زدن میں ہماری دنیائے ادب کے نمبر ون بن گئے۔ یارو اغیار اب مار پیچھے پکار کرتے رہیں۔ ہونی ہو کر رہی ع

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

اب ہمیں چاہیے کہ تہہ دل سے امجد اسلام کو مبارکباد دیں۔ باقی مبارک باد کے مستحق تو وہ بھی ہیں جنھیں امجد کے بعد نمبر2 کی حیثیت ملی ہے۔ قاسمی صاحب اور اشفاق احمد مگر وہ تو یہ مرتبہ پانے سے پہلے ہی سدھار گئے۔ مبارکباد ہم انھیں کیسے دیں۔ بس اب مبارکباد کے نام ان کی روحوں کو ثواب ہی پہنچایا جا سکتا ہے۔ زندوں میں جن کا ایک مقام امجد کے بعد ہمارے ادب میں متعین ہوا ہے وہ ہیں حسینہ معین اور مستنصر حسین تارڑ۔

اس پر ایک یار نے استفسار کیا کہ مستنصر کو مبارکباد دینی چاہیے یا ان سے اظہار ہمدردی کرنا چاہیے۔
ایک یار نے اس سارے قصے میں ایک اور ہی ٹکڑا لگایا ''بولا عجب بات ہے اس وقت چاروں طرف چرچا تھا ابن صفی کا۔ ان کی شہرت و مقبولیت کا اور ان کے ادبی مرتبہ کا مضمون ہر چہار طرف باندھا جا رہا تھا اور اس مقبولیت کا ایک نقشہ رضا علی عابدی نے کھینچا تھا کہ وہ کیا مبارک زمانہ تھا جب ابن صفی کے ناولوں سے بھرا ٹرک چھاپے خانے سے نکل کر سیدھا کراچی کے ریگل چوک پر پہنچتا تھا اور شائقین اس طرح اس پر ٹوٹتے تھے کہ ٹرک دم کے دم میں خالی ہو جاتا تھا۔ صحیح کہا۔ مگر قبول عام کا تاج رکھا گیا امجد اسلام کے سر پر۔

پھر ہم نے کہا کہ ''دیکھئے رضا علی عابدی لکھنوی ہیں۔ لکھنویوں کے مزاج میں تھوڑا مبالغہ تو ہوتا ہے۔ آخر داستان امیر حمزہ اس شہر میں پروان چڑھی تھی جہاں یہ عالم ہے کہ ایرج تورج دم کے دم میں جادوگروں کی صفیں کی صفیں صاف کر دیتے ہیں مگر اس میں شک نہیں کہ ابن صفی ہمارے آپ کے زمانے کے بیسٹ سیلروں سے بڑھ کر بیسٹ سیلر تھے۔ داد دیجیے امجد اسلام کو۔ وہ چھپے رستم نکلے۔ جو تاج ابن صفی کے سر کو زیب دیتا تھا وہ ان کے سر پر آ کر سج گیا۔

بہرحال قصہ مختصر۔ یار باتیں بناتے رہیں۔ معاملہ کی بات یہ ہے کہ ع
ہماری باتیں ہی باتیں سید کام کرتا ہے

اب ایسی ساری باتیں مار پیچھے پکار کے ذیل میں آتی ہیں معاملہ کی بات وہ ہے جو ہے ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ع
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں