توبہ نجات کی ضمانت
توبہ ایسی نیکی ہے جو اللہ کی بارگاہ میں جلد قبول ہوتی اور اللہ کو محبوب ہے۔
اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی صدق دل سے معافی مانگنا اور آئندہ ان سے بچنے کا پختہ عزم کرنا توبہ کہلاتا ہے۔
نفس و شیطان کے بہکاوے کے ساتھ انسان میں نسیان کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقے اور شریعت اسلامیہ کی پاکیزہ تعلیمات سے روگردانی کر بیٹھتا ہے۔
کبھی نفسانی خواہشات ، کبھی شیطانی وساوس، کبھی برے ماحول کی وجہ سے، کبھی جہالت اور لاعلمی کی بنیاد پر بدعملی اس سے سرزد ہو جاتی ہے۔ صد افسوس کہ ہم جس معاشرے میں پرورش پا رہے ہیں اس معاشرے میں علم دین، اسلامی تہذیب و تمدن، اخلاقیات و آداب اور احساسِ عبدیت و انسانیت ختم ہوتے جارہے ہیں، اس لیے معاشرے میں مسلسل بے سکونی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
آج ہمارے گھروں اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں باہمی نفرتیں، آپسی ناچاقیاں، دوریاں اور لڑائی جھگڑے، فسق و فجور، بری عادات و اطوار اور تہذیب و کلچر فروغ پا رہا ہے۔ یہ ہم سب کا مشترکہ المیہ ہے جس کا رونا ہم روتے تو رہتے ہیں لیکن اس مصیبت سے عملاً جان چھڑانے کی کوشش نہیں کرتے۔
علم سے دوری، بدعملی، بداخلاقی، بے امنی، بدتہذیبی، جہالت اور معاشرتی جرائم کا پورا معاشرہ بہ حیثیت قوم مجرم بن چکا ہے۔ ایسے حالات میں اپنے ماحول کو درست کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالیٰ سے باغی انسانیت کو پھر سے اللہ کے لطف و کرم، فضل و احسان، مہربانی اور رحمت کے قریب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اسے گناہوں کی دلدل سے نکال کر اطاعت و فرماں برداری کی شاہ راہ پر ڈالنا ہوگا جو شاہ راہ سیدھی جنت جاتی ہے۔اس کے لیے بنیادی طور جن اوصاف کی ضرورت ہے، ان میں سے ایک وصف یہ ہے کہ برائی اور اس پر ندامت گناہ اور اس پر شرمندگی کا احساس دلوں میں زندہ ہوجائے۔ یہی احساس انسان کو توبہ پر آمادہ ، نیکی پر ابھارتا اور شریعت پر چلاتا ہے۔ اسے باقی رکھنے کے لیے اپنی زندگی کا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہماری زندگی کس قدر شریعت کے مطابق اور کتنی شریعت کے مخالف گزر رہی ہے؟
اگر ہماری زندگی اس رخ پر چل رہی ہے جس پر اللہ اور اس کا رسولؐ چاہتے ہیں تو مقامِ شکر ہے اور اگر خدا نہ خواستہ ہماری زندگی شیطان کی مقرر کردہ پرخطر راہوں میں سے کسی بھیانک راہ پر چل رہی ہے تو مقامِ فکر ہے۔
ہر شخص اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے ضمیر کا فیصلہ سن سکتا ہے۔ حالات و واقعات اور زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پوری مسلم امہ گناہوں کے گرداب میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے، بداعمالیوں کا ایک طوفان ہے جو ہماری ٹوٹی پھوٹی نیکیوں کو بہائے لے جا رہا ہے، ہمارے نیک اعمال بھی بعض کبیرہ گناہوں کی وجہ سے مٹتے جا رہے ہیں، اس لیے ہمیں اپنے اندر احساس پیدا کرنا ہوگا تاکہ توبہ کی توفیق نصیب ہو۔
توبہ ایسی نیکی ہے جو اللہ کی بارگاہ میں جلد قبول ہوتی اور اللہ کو محبوب ہے۔ انسان جب گناہ کرتا ہے تو وہ کراماً کاتبین اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیتے ہیں، قیامت کے دن انسان کے اپنے وہ اعضاء جن سے اس نے گناہ کیا ہوگا، زمین کا وہ حصہ جس پر گناہ کیا ہوگا اور نامۂ اعمال سب کے سب اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اگر انسان صدق دل سے توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے معاف فرما دیتے ہیں۔
دنیاوی و اخروی مصائب و تکالیف سے اسی توبہ کی بہ دولت نجات ملتی ہے، اس سے اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ ہمیں توبہ کی کس قدر ضرورت ہے!دوسری بات یہ کہ اگر ایک بار توبہ ٹوٹ جائے تو پھر توبہ کریں، پھر ٹوٹ جائے پھر توبہ کریں، لاکھ مرتبہ بھی توبہ ٹوٹ جائے پھر بھی توبہ کریں۔ اس اندیشے کی وجہ سے توبہ نہ کرنا کہ کہیں ٹوٹ نہ جائے شیطانی دھوکا ہے اس سے خود کو بچائیں۔ توبہ کے حوالے سے آیات و احادیث تو بہ کثرت موجود ہیں لیکن ان میں سے صرف چند ملاحظہ ہوں۔
٭ زیادہ توبہ کرنے والے اللہ کے محبوب ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : بے شک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں۔
٭ توبہ سے کام یابیاں ملتی ہیں۔ ارشاد باری ہے: اے ایمان والو! تم سب کے سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو تاکہ تم کام یاب ہوجاؤ۔
٭ نزع اور سکرات کے وقت یعنی جب روح نکلنے لگے تو اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں ہے : ان گناہ گار لوگوں کی توبہ قابل قبول نہیں جب ان کی موت کا وقت سر پر آن پہنچے تو وہ کہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں۔
٭ توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے : مگر جنہوں نے توبہ کی اور اللہ کی بات کو مانا، نیک اعمال کیے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرتے اور گناہوں کو معاف فرماتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اللہ وہ ذات ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرمائیں گے جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تمہاری برائیاں اور بداعمالیاں اس قدر زیادہ ہوجائیں کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں اس کے باوجود بھی اگر تم توبہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرمائیں گے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ساری اولاد آدم (سوائے انبیاء کرام علیہم السلام کے) گناہ گار ہے اور سب سے اچھے گناہ گار وہ ہیں جو کثرت کے ساتھ توبہ کرنے والے ہیں۔
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناہ سے (صدق دل سے شرائط و آداب کے ساتھ ) توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپؐ نے فرمایا: مومن بندے کی توبہ سے اللہ تعالیٰ اس سے بھی کہیں زیادہ خوش ہوتے ہیں جیسے کوئی مسافر شخص کسی ایسی وادی میں پہنچا جو بالکل بیابان اور ہلاکت خیز تھی، اس کی سواری پر اس کا سامان، کھانا پینا وغیرہ موجود تھا، اسے نیند آئی وہ سوگیا جب نیند سے بیدار ہوا تو دیکھا کہ اس کی سواری موجود نہیں تھی، اس کی تلاش میں وہ گھوما ، گرمی اور پیاس نے اس کا بُرا حال کردیا، پھر وہ مایوس ہوکر واپس آگیا کہ اور یہ سوچ کر سوگیا کہ اب موت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اچانک اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری اس کے سامنے موجود ہے تو اس شخص کو جس قدر سواری کے مل جانے سے خوشی حاصل ہوئی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ (صحیح مسلم )
توبہ کی شرائط:
٭ سب سے پہلے تو اس گناہ کو چھوڑ دے۔
٭ ندامت کے ساتھ اللہ کے حضور معافی مانگے۔
٭ آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کی توفیق نصیب فرمائے اور ہماری توبہ کو قبول بھی فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
نفس و شیطان کے بہکاوے کے ساتھ انسان میں نسیان کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقے اور شریعت اسلامیہ کی پاکیزہ تعلیمات سے روگردانی کر بیٹھتا ہے۔
کبھی نفسانی خواہشات ، کبھی شیطانی وساوس، کبھی برے ماحول کی وجہ سے، کبھی جہالت اور لاعلمی کی بنیاد پر بدعملی اس سے سرزد ہو جاتی ہے۔ صد افسوس کہ ہم جس معاشرے میں پرورش پا رہے ہیں اس معاشرے میں علم دین، اسلامی تہذیب و تمدن، اخلاقیات و آداب اور احساسِ عبدیت و انسانیت ختم ہوتے جارہے ہیں، اس لیے معاشرے میں مسلسل بے سکونی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
آج ہمارے گھروں اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں باہمی نفرتیں، آپسی ناچاقیاں، دوریاں اور لڑائی جھگڑے، فسق و فجور، بری عادات و اطوار اور تہذیب و کلچر فروغ پا رہا ہے۔ یہ ہم سب کا مشترکہ المیہ ہے جس کا رونا ہم روتے تو رہتے ہیں لیکن اس مصیبت سے عملاً جان چھڑانے کی کوشش نہیں کرتے۔
علم سے دوری، بدعملی، بداخلاقی، بے امنی، بدتہذیبی، جہالت اور معاشرتی جرائم کا پورا معاشرہ بہ حیثیت قوم مجرم بن چکا ہے۔ ایسے حالات میں اپنے ماحول کو درست کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالیٰ سے باغی انسانیت کو پھر سے اللہ کے لطف و کرم، فضل و احسان، مہربانی اور رحمت کے قریب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اسے گناہوں کی دلدل سے نکال کر اطاعت و فرماں برداری کی شاہ راہ پر ڈالنا ہوگا جو شاہ راہ سیدھی جنت جاتی ہے۔اس کے لیے بنیادی طور جن اوصاف کی ضرورت ہے، ان میں سے ایک وصف یہ ہے کہ برائی اور اس پر ندامت گناہ اور اس پر شرمندگی کا احساس دلوں میں زندہ ہوجائے۔ یہی احساس انسان کو توبہ پر آمادہ ، نیکی پر ابھارتا اور شریعت پر چلاتا ہے۔ اسے باقی رکھنے کے لیے اپنی زندگی کا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہماری زندگی کس قدر شریعت کے مطابق اور کتنی شریعت کے مخالف گزر رہی ہے؟
اگر ہماری زندگی اس رخ پر چل رہی ہے جس پر اللہ اور اس کا رسولؐ چاہتے ہیں تو مقامِ شکر ہے اور اگر خدا نہ خواستہ ہماری زندگی شیطان کی مقرر کردہ پرخطر راہوں میں سے کسی بھیانک راہ پر چل رہی ہے تو مقامِ فکر ہے۔
ہر شخص اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے ضمیر کا فیصلہ سن سکتا ہے۔ حالات و واقعات اور زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پوری مسلم امہ گناہوں کے گرداب میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے، بداعمالیوں کا ایک طوفان ہے جو ہماری ٹوٹی پھوٹی نیکیوں کو بہائے لے جا رہا ہے، ہمارے نیک اعمال بھی بعض کبیرہ گناہوں کی وجہ سے مٹتے جا رہے ہیں، اس لیے ہمیں اپنے اندر احساس پیدا کرنا ہوگا تاکہ توبہ کی توفیق نصیب ہو۔
توبہ ایسی نیکی ہے جو اللہ کی بارگاہ میں جلد قبول ہوتی اور اللہ کو محبوب ہے۔ انسان جب گناہ کرتا ہے تو وہ کراماً کاتبین اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیتے ہیں، قیامت کے دن انسان کے اپنے وہ اعضاء جن سے اس نے گناہ کیا ہوگا، زمین کا وہ حصہ جس پر گناہ کیا ہوگا اور نامۂ اعمال سب کے سب اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اگر انسان صدق دل سے توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے معاف فرما دیتے ہیں۔
دنیاوی و اخروی مصائب و تکالیف سے اسی توبہ کی بہ دولت نجات ملتی ہے، اس سے اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ ہمیں توبہ کی کس قدر ضرورت ہے!دوسری بات یہ کہ اگر ایک بار توبہ ٹوٹ جائے تو پھر توبہ کریں، پھر ٹوٹ جائے پھر توبہ کریں، لاکھ مرتبہ بھی توبہ ٹوٹ جائے پھر بھی توبہ کریں۔ اس اندیشے کی وجہ سے توبہ نہ کرنا کہ کہیں ٹوٹ نہ جائے شیطانی دھوکا ہے اس سے خود کو بچائیں۔ توبہ کے حوالے سے آیات و احادیث تو بہ کثرت موجود ہیں لیکن ان میں سے صرف چند ملاحظہ ہوں۔
٭ زیادہ توبہ کرنے والے اللہ کے محبوب ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : بے شک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں۔
٭ توبہ سے کام یابیاں ملتی ہیں۔ ارشاد باری ہے: اے ایمان والو! تم سب کے سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو تاکہ تم کام یاب ہوجاؤ۔
٭ نزع اور سکرات کے وقت یعنی جب روح نکلنے لگے تو اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں ہے : ان گناہ گار لوگوں کی توبہ قابل قبول نہیں جب ان کی موت کا وقت سر پر آن پہنچے تو وہ کہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں۔
٭ توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے : مگر جنہوں نے توبہ کی اور اللہ کی بات کو مانا، نیک اعمال کیے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرتے اور گناہوں کو معاف فرماتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اللہ وہ ذات ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرمائیں گے جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تمہاری برائیاں اور بداعمالیاں اس قدر زیادہ ہوجائیں کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں اس کے باوجود بھی اگر تم توبہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرمائیں گے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ساری اولاد آدم (سوائے انبیاء کرام علیہم السلام کے) گناہ گار ہے اور سب سے اچھے گناہ گار وہ ہیں جو کثرت کے ساتھ توبہ کرنے والے ہیں۔
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناہ سے (صدق دل سے شرائط و آداب کے ساتھ ) توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپؐ نے فرمایا: مومن بندے کی توبہ سے اللہ تعالیٰ اس سے بھی کہیں زیادہ خوش ہوتے ہیں جیسے کوئی مسافر شخص کسی ایسی وادی میں پہنچا جو بالکل بیابان اور ہلاکت خیز تھی، اس کی سواری پر اس کا سامان، کھانا پینا وغیرہ موجود تھا، اسے نیند آئی وہ سوگیا جب نیند سے بیدار ہوا تو دیکھا کہ اس کی سواری موجود نہیں تھی، اس کی تلاش میں وہ گھوما ، گرمی اور پیاس نے اس کا بُرا حال کردیا، پھر وہ مایوس ہوکر واپس آگیا کہ اور یہ سوچ کر سوگیا کہ اب موت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اچانک اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری اس کے سامنے موجود ہے تو اس شخص کو جس قدر سواری کے مل جانے سے خوشی حاصل ہوئی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ (صحیح مسلم )
توبہ کی شرائط:
٭ سب سے پہلے تو اس گناہ کو چھوڑ دے۔
٭ ندامت کے ساتھ اللہ کے حضور معافی مانگے۔
٭ آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کی توفیق نصیب فرمائے اور ہماری توبہ کو قبول بھی فرمائے۔ آمین یا رب العالمین