بُک شیلف

معروضیت اور منطقی طرزِ استدلال پر استوار ان کی فکر لفظوں میں اُترتی تو مکالمے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔

فوٹو : فائل

سلیم احمد، مشاہدے، مطالعے اور تاثرات کی روشنی میں

مصنف: خواجہ رضی حیدر
ناشر: ایوانِ محدثِ سورتی، نشرح فاؤنڈیشن، کراچی
صفحات: 268
قیمت:400 روپے



شاعر اور نقاد سلیم احمد کا شمار ان پاکستانی اہل ادب ودانش میں ہوتا ہے جن کے کام اور افکار تادیر ذہنوں کو مہکاتے اور زبانوں پر جاری رہتے ہیں۔

معروضیت اور منطقی طرزِ استدلال پر استوار ان کی فکر لفظوں میں اُترتی تو مکالمے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ زبان وادب کو ٹھوس فکری مواد فراہم کرنے کے ساتھ انھوں نے تخلیقی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں اور کتنے ہی ادبی تنازعات اور سوالات کے در ان کے قلم کی جنبش سے وا ہوئے۔

یہ کتاب سلیم احمد کے فکروفن اور شخصیت کا احاطہ کیے ہوئے ہے، جس کے مصنف خواجہ رضی حیدر علم ودانش کی دنیا کا ایک ممتاز نام ہیں۔ تخلیق سے تحقیق تک ان کی خدمات اور جہات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور ان کی تصانیف کی بڑی تعداد ہماری تاریخ کے دریچے ہونے کے باعث اپنی قدر رکھتی ہیں۔ سلیم احمد سے مصنف کا قربت کا تعلق بھی رہا اور عقیدت کا رشتہ بھی ہے، جس کی کہانی اس کتاب کا باب ''قرابت سے قُربت تک'' سناتا ہے۔

چناں چہ خواجہ رضی حیدر کو سلیم احمد کی فکر، فن اور شخصیت کا پس منظر اور ان کی فکری ساخت کے عناصر کو سمجھنے کا موقع ملا۔ یوں یہ کتاب سلیم احمد کی مختلف جہتوں سے آشنا کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ خواجہ رضی حیدر نے مختلف ابواب اور عنوانات کے تحت سلیم احمد کے ذاتی اوصاف سے ان کے تخلیقی خواص اور علمی وفکری اسلوب تک تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔

فکر فیض
مرتب: ڈاکٹر نثارترابی
ناشر: ملٹی میڈیا افیئرز۔21۔نند اسٹریٹ شام نگر، چوبرجی، لاہور
صفحات: 272
قیمت: 550روپے



اکثر لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ کتاب خواہ شاعری کا انتخاب ہو یا نثر کا، مرتب کرنا آسان کام ہے لیکن جو معیاری تخلیقی کام کرتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کام کس قدر مشکل ہے۔ معیاری کلام حاصل کرنا یا معیاری مضامین حاصل کرنے کے لیے کتنی کتنی بار صاحب مضمون سے مصنف کو بذریعہ خط وکتابت یا ٹیلی فون رابطہ کرنا پڑتا ہے، یہ وہی جانتا ہے یقیناً یہ کاردشوار ہے، اسے صرف ہمت والے ہی طے کرتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نثار ترابی کا نام اردو ادب کا ایک بڑا نام ہے، بحیثیت تنقید نگار بھی، بحیثیت شاعر بھی اور بحیثیت ایک استاد کے بھی۔

انہوں نے فیض احمد فیض کی فن وشخصیت پر مختلف ادبی شخصیات مثلاً ڈاکٹر محمد علی صدیقی، پروفیسر سحر انصاری، افتخارعارف، مسلم شمیم، ڈاکٹر طاہر تونسوی، احفاظ الرحمن، سرور جاوید، جمیل یوسف، ڈاکٹر نور احمد، ڈاکٹر عبدالکریم خالد، صبا اکرام، جاوید چوہدری، سائرہ غلام نبی اور دیگر افراد سے رابطہ کرکے مضمون حاصل کرکے فیض احمد فیض کو خراج عقیدت بہ صورت ''فکر فیض'' پیش کیا ہے، انہوں نے یہ کتاب انتہائی محنت سے، خلوص کے ساتھ خوب صورت انداز میں شائع کی ہے، فیض احمد فیض کے صد سالہ جشن کے حوالے سے جتنی بھی تخلیقات، ادبی پرچوں کے نمبرز سامنے آئے ہیں۔

ان میں ''فکر فیض'' ایک معتبر اضافہ اضافہ ہے جو اپنے پڑھنے والے کو فیض کی شاعری وشخصیت کے حوالے سے فیض یاب کرتا چلاجاتا ہے۔ اردو ادب کے طلباء کے لیے بھی یہ کتاب فیض کے حوالے سے کافی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔272صفحات پر مشتمل ''فکر فیض'' میں37اہم ادیبوں کے تحریر کردہ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ کتاب کا انتخاب بھی ''فیض صاحب کے سبھی چاہنے والوں کے نام'' کیا گیا ہے، مجموعی طور پر یہ فیض پر لکھی گئی ایک قابل قدر تخلیقانہ کام ہے۔

بیت اﷲ پر دستک
شاعرہ: شاہدہ لطیف
ناشر: الحمد پبلی کیشنز، رانا چیمبرز، سیکنڈ فلور، چوک پُرانی انارکلی، لیک روڈ، لاہور
صفحات: 160
قیمت:300روپے



شاہدہ لطیف ایک زودگو شاعرہ کی حیثیت سے ہمارے سامنے آئی ہیں ''بیت اﷲ پر دستک'' ان کے عمرے کے دوران محسوسات وکیفیات پر مشتمل شاعری ہے، جسے انہوں نے ''منظوم سفر نامے'' کا نام دیا ہے۔ یہ کسی حد تک درست ہے، لیکن مجموعی طور پر نہیں۔ اس مجموعے میں مختلف کیفیات ملتی ہیں بعض جگہ یقیناً سفر کے مراحل، مقدس ومتبرک مقامات پر حاضری کے عمل کو منظوم کیا ہے۔

تاہم اس سے ہٹ کر اس میں ''حمدیہ'' اور نعتیہ طرز کی شاعری ملتی ہے، بعض جگہ ایسی شاعری بھی ملتی ہے جسے وہ کسی بھی مشاعرے میں بحیثیت غزل بھی پڑھ سکتی ہیں۔ اس لحاظ سے انہوں نے کئی گوشوں کو احاطہ تحریر میں لانے کی کام یاب سعی کی ہے۔ شاہدہ لطیف نے اپنا ادبی سفر انتہائی اعتماد سے طے کیا ہے۔ ان کے اس سے قبل شاعری ودیگر موضوعات پر12کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔

وہ اوورسیز انٹرنیشنل کی مدیرہ بھی ہیں۔ یوں وہ بیک وقت صحافی، شاعرہ، لکھاری کی حیثیت سے کام کررہی ہیں اور ہر جگہ ان کی حیثیت مُسَلّم ہے۔ بیت اﷲ پر دستک انتہائی اہتمام سے خوب صورت انداز میں شائع کی گئی ہے۔ اس میں شاہدہ لطیف کا کلام پڑھنے میں لطف بھی ملتا ہے اور اس عقیدت کا احساس بھی ہوتا ہے جس عقیدت سے شاہدہ لطیف نے اسے تخلیق کیا ہے ''ایک تصویر نایاب'' نامی نظم کا یہ بند ملاحظہ کریں:
''زیر سایہ خانہ کعبہ جو میرا عکس ہے
میں قسم کھاتی ہوں رب پاک کی
اس سے بہتر کوئی بھی تصویر البم میں نہیں
حاصل عمر رواں میری یہی تصویر ہے،،
یا پھر نظم ''خانہ کعبہ کا سپاہی'' کی یہ لائنیں ملاحظہ ہوں۔
میں نے دل میں یہ کہا طائر خوش بخت وجواں
یہ تیرے بخت کہ ہے خانۂ کعبہ کا مکیں
اور اک ہم کہ ہیں مہمان طواف کعبہ
چادر نور ہے آنکھوں کو غلاف کعبہ
کاش میں تیری طرح ایک کبوتر ہوتی
روز وشب نکہت کعبہ سے معطر ہوتی
درج بالا ہی کی طرح کئی نظمیں، کئی اشعار ہمیں بھی اس فضاء میں لے جاتے ہیں جہاں سے شاہدہ لطیف ہوکر آچکی ہیں۔ شاہدہ لطیف کو حال ہی میں ''پرائڈ آف پرفارمنس'' ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا ہے، جو یار حرم میں ان کی مانگی ہوئی دعا اور ان کی محنت کا ثمر لگتا ہے۔

وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام
مصنف: ڈاکٹر سعید منہاس
ناشر: کلاسک پرنٹر
صفحات: 97
قیمت200روپے



لکھنے لکھانے کا شوق قدرتی ودیعت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں لکھاری افراد ہمیں ملتے ہیں۔

صحت کے شعبے میں بھی ایسی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ڈاکٹر سعید منہاس جو بنیادی طور پر ایک آرتھوپیڈک سرجن ہیں، اس ضمن میں ایک قابل قدر اضافہ ہیں۔ درج ذیل تبصرہ کتاب ''وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام'' دوران علاج وتشخیص مختلف اقسام زبان ونسل کے مریضوں سے کی گئی گفتگو کے ان دل چسپ نکات پر مشتمل ہے جو ان کی سماعت کو اچھے لگے، انوکھے لگے اور دل چسپ لگے۔

ان تمام جملوں کو جنہوں نے بعض دل چسپ امور کو لطیفوں کو، قصوں کو جنم دیا، کچھ نے انگریزی کو تو کچھ نے اردو کی ٹانگ توڑی، ان تمام واقعات کو ان کی سماعت اور یادداشت نے کتابی شکل میں جمع کردیا، یہ ایک انتہائی دل چسپ کتاب ہے، جو اپنے پڑھنے والے کو کسی بھی مرحلے پر بور نہیں ہونے دیتی۔ چند جملے آپ بھی ملاحظہ کریں:
''مریض کا آپریشن کمر سُن کرکے ہورہا تھا۔ ایک ٹیکنیشن نے دوسرے سے دو نمبر کا دھاگا مانگا، مریض بولا دو نمبر نہیں ایک نمبر کا استعمال کریں پیسے کی فکر نہ کریں۔''

''خاتون: بازو میں راڈ لگادیا ہے، استری کرنے سے کرنٹ وغیرہ تو نہیں لگے گا۔''
''ڈاکٹر صاحب! قبض بہت ہے، تین تین دن تک پروگرام نہیں بنتا۔''

ایک بلوچ مریض جس کی ران کا آپریشن کیا تھا دوبارہ معائنے کے لیے آیا۔ جب اس کا معائنہ ہوچکا وہ جانے لگا تو اس نے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب کیا ہم برائی کا کام کرسکتا ہے؟ ڈاکٹر کیا مطلب؟ مریض نہیں نہیں، میرا مطلب ہے میں شادی شدہ ہوں...۔''

''ڈاکٹر مریضہ سے: اپنا وزن کم کرو گٹھنے گھس گئے ہیں اور کہا کہ سبزی سلاد کھایا کرو مریضہ فوری بولی، ہم بکری تھوڑی ہے کہ صرف سبزی کھائے۔''


ڈاکٹر سعید منہاس نے جہاں جہاں ضرورت پڑی اردو ادب کے خزانے سے ڈھونڈ کر اشعار بھی موضوع کے لحاظ سے پیوست کردیے۔ اس سے قبل ''حادثات اور ناگہانی چوٹ اور آفات اور ایمرجینسی کی تربیت کے حوالے سے 2کتابیں ڈاکٹر سعید منہاس کی شائع ہوچکی ہیں تاہم یہ کتاب ادبی پس منظر کو سمیٹے زیادہ وقیع ومعتبر انداز لیے ہوئے ہے۔ معروف ہندکو تحقیق نویس، شاعر سلطان سکون اور سماجی راہ نما وشاعر مظہر ہانی کے مضامین بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ کتاب ہر لحاظ سے معیاری ہے۔ یقیناً اسے ہر لائبریری میں قاری کے مطالعے کے لیے ہونا چاہیے۔

ہمارے ہیں حسینؓ (انتخابِ سلام)

مرتب: علی رضا
ناشر: علی عون پبلی کیشنز، قادری کالونی، والٹن روڈ، کینٹ، لاہور
صفحات: 208
قیمت: 300روپے



علی رضا، پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر لاہور کے شعبہ حالات حاضرہ سے بحیثیت پروڈیوسر وابستہ ہیں، شاعر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب سے قبل نعتیہ شاعری کا انتخاب ''درود ان پر سلام ان پر'' سید تجمل عباس کی شخصیت کے تناظر میں مرتب شدہ کتاب ''مرد خود آگاہ'' کے ساتھ ساتھ ذاتی شعری مجموعہ'' مفہوم'' بھی منظر عام پر لاچکے ہیں۔

''ہمارے ہیں حسینؓ'' جیسا کہ نام سے واضح ہے حضرت امام حسینؓ کو خراج تحسین وعقیدت پیش کرنے والے شعراء کے سلاموں کا انتخاب ہے۔ بقول آفتاب اقبال ''علی رضا نے بڑی کاوش کے بعد برصغیر کے نام ور اہل قلم کے لکھے ہوئے سلام حاصل کرکے کتاب کی شکل میں ''ہمارے ہیں حسینؓ '' کے نام سے عاشقان امام کی خدمت میں پیش کیے ہیں۔''

علی رضا نے حروف تہجی کے لحاظ سے جوش ملیح آبادی، پیر نصیر الدین، عبدالحمید عدم، ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی، وزیرآغا، پروین شاکر سے لے کر آصف ثاقب، نثار ترابی، غرض ہر طبقہ فکر ونسل کے186شعراء کے کلام کو اس انتخاب میں شامل کرکے قاری تک پہنچایا ہے۔ انتخاب کے حوالے سے یقیناً علی رضا کا یہ کام نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی اس قسم کے مواد پر مشتمل کئی انتخاب حتیٰ کہ ادبی پرچوں کے نمبر بھی ملتے ہیں۔ انہی میں ایک اضافہ علی رضا نے کیا ہے، کتاب اہتمام سے شائع کی گئی ہے اور ہر صفحے پر علی رضا کی محبت، عقیدت، خلوص اور محنت جھلکتی ملتی ہے، گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک مکمل عقیدت بھرا انتخاب ہے، جو خصوصی اہتمام اور لگن سے ترتیب دیا گیا ہے۔

 

ہجر کے آدمی ہیں ہم

شاعر: سرور جاوید
پیش کش واہتمام طباعت: آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی
قیمت: 350روپے



ناشر: رائٹرز بک فائونڈیشن، B-6نازش باغ سادات امروہہ سوسائٹی، کراچی
سرور جاوید کا نام ادبی حلقوں میں بحیثیت نقاد وشاعر کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ایک مدت سے شاعری کررہے ہیں۔ سرور جاوید کی نہ تو شاعرانہ صلاحیتوں سے انکار ممکن ہوسکتا ہے اور نہ ہی ان کی تنقیدانہ فکر سے۔ کئی بار مشکل آن پڑتی ہے یہ فیصلہ کرنے میں کہ سرورجاوید مضبوط نثر نگار، تنقید نگار ہیں یا شاعر، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ انہوں نے کمال خوبی سے دونوں میدانوں میں خود کو منوایا ہے۔ تنقیدی مضامین پر مشتمل ان کی ایک کتاب ''متاع نظر'' شائع ہوچکی ہے۔ میں نے جب1984میں شعر وادب کی دنیا میں قدم رکھا تو سرور جاوید مشاعروں پر چھایا ہوا تھا، اس کے درج ذیل اشعار کی گونج موجود تھی:

ہوا کے عشق میں نکلے ہیں اور پوچھتے ہیں
متاع جاں کو کہاں تک سفر میں رکھا جائے
۔۔۔۔
کچھ مل گیا تھا مگر اختیار شوق نے بھی
تمام عمر کی محرومیوں کا پاس کیا
۔۔۔
میں ساری عمر ان کوچوں کی ویرانی سے گزرا ہوں
جنہیں اکثر گروہِ عاشقاں آباد رکھتا ہے
سرور جاوید نے ''عجز بیانی میری'' میں گو کئی شعراء سے متاثر ہونے کا ذکر کیا ہے، تاہم مجھے ماسوائے عزیز احمد مدنی کے وہ کسی اور کے زیر اثر نہیں لگے، بلکہ بیشتر جگہ انہوں نے اپنے انداز میں اپنے تجربات کو شعری پیراہن عطا کیا ہے۔ ان کی شاعرانہ مجذوبیت عمر رواں کے تجربوں کو سمیٹے اشعار میں در آتی ہے:

زیست کی لہروں میں کچھ لمحوں کی عمر
مختصر بھی ہے بے اندازہ بھی ہے

سرور جاوید کی شاعری میں ایک بنیادی وصف یا استعارہ مشق ہے، محبت ہے، روحانی طرز کی شاعری بھی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے مختلف انداز فکر کے ساتھ شاعری میں اپنی جگہ بہ جگہ جا بہ جا ملتی ہے:

شکست عشق کا قصہ نیا نہیں رکھتے
مگر ہم اس کے سوا تجربہ نہیں رکھتے
اذیتوں کے علاوہ ہماری عمر کے لوگ
محبتوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے

مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ سرور جاوید کی شاعری اپنے قاری کو مایوس نہیں کرتی۔

وہ صورت گر کچھ خوابوں کا
مصنف: ڈاکٹر شیر شاہ سید، حمیر اشتیاق
قیمت: 500 روپے
ناشر: شہرزاد، گلشن اقبال، کراچی


''وہ صورت گر کچھ خوابوں کا'' ڈاکٹر شیرشاہ سید نے اپنے والد گرامی ابو ظفر آزاد کے حالات زندگی کے بارے میں تحریر کی ہے۔ حمیر اشتیاق اس کتاب کے ساتھی مصنف ہیں۔ ڈاکٹر شیرشاہ سید نے اپنے آباو اجداد کے حالات سے اس کتاب کا آغاز کیا ہے۔

صوبہ بہار کی تاریخ اور انگریزوں کے خلاف ان کے اجداد کی جدوجہد اور اس جدوجہد کے سرخیل میربھوجا جنہیں پھانسی کی سزا دی گئی، کے ذکر سے کتاب کا آؑعاز ہوتا ہے ۔ ابوظفر آزاد گاندھی جی کے پیروکار اور ابوالکلام آزاد کے انتہائی معتقد تھے۔ ان کے نام کے ساتھ آزاد ان کی مو لا نا آزاد سے عقیدت کا اظہار ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ابو ظفر آزاد پاکستان چلے آئے اور لیاری جیسے پس ماندہ علاقے کو اپنا مسکن بنایا۔
رزق حلال کی جدوجہد میں وہ ڈاک خانے کے باہر لوگوں کی چٹھیاں اور درخواستیں لکھنے لگے اور بعدازاں انہوں نے لیاری میں محمد بن قاسم اسکول کی بنیاد رکھی۔ ابو ظفر کا مقصد پیسہ کمانا کبھی نہیں رہا۔ اس دوران انہوں نے اپنی بیگم عطیہ کو ادیب فاضل کا امتحان دلایا اور پھر انگریزی کا پرچہ دینے کے بعد انہوں نے میٹرک کرلیا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا وہ اپنی بیگم عطیہ کو ڈاکٹر بناکر رہے۔ اس کے لیے انہیں سارے گھر والوں کو سلہٹ بھیجنا پڑا۔ کتاب میں ان کی جفاکشی، ہمت اور اپنے کی مقصد کے حصول میں کام یا بی کے لیے کی جانے والی جد و جہد کی تفصیل موجود ہے۔

ابوظفر نے اپنے تمام بچوں کو ڈاکٹر بنانے کا تہیہ کیا اور پھر وہ اپنے مشن کے لیے سراپا جدوجہد بن گئے۔ آخر ان کے تمام بچے ڈاکٹر بن گئے۔ عطیہ اسپتال کے پاس انہوں نے میڈیکل اسٹور کھولا اور غریبوں کو مفت دوائیں دینے اور ان کے روزمرہ کے مسائل حل کرنے لگے۔ تعلیم ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد رہا۔ وہ تعلیم کو ترقی کی بنیاد سمجھتے تھے۔ ابو ظفر آزاد جیسے لوگ نایاب ہوتے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب لائق مطالعہ ہے۔

ایسی کتاب جسے پڑھ کر جینے کی امنگ پیدا ہوتی، ہم دردی اور غم گساری کے جذبات مہمیز پاتے ہیں۔ ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کا تذکرہ اب شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شیرشاہ سید، حمیر اشتیاق نے یہ کتاب ترتیب دے کر ہمارے سماج کو روشن راہیں دکھانے کی سعی کی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے نہ صرف پڑھا جائے بلکہ اسے نصاب کا حصہ بناکر نئی نسل کی تربیت بھی کی جائے۔ کتاب میں خاندان بھر کی نادر تصاویر بھی ہیں۔ جو سادگی وپرکاری کا نمونہ ہیں۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کا علاقائی زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے۔

پارہ پارہ، پروین شاکر: سوانح حیات، فکروفن اور یادیں
مصنفہ: نصرت زہرا
ناشر: مسز فہمیدہ امانت علی، ایمان زہرا پبلی کیشنز، کراچی
صفحات:240
قیمت:300روپے


نثر کار ہو یا سخن ور، یہ کہنا غلط ہے کہ لفظ اس پر اُترتے ہیں، یہ اس کی جیون گیتی پر اُگتے ہیں۔ زندگی کی زمین پر سرسوں پھولے، سرسبز کھیت لہلہائے، گُلاب کِھلیں، گھنے جنگل اگیں یا کانٹے چبھیں، عکس اور سایہ بنے تخلیق کا سامان ہوجاتے ہیں۔ اور جب پروین شاکر پر گزرتے لمحوں نے گُھل کر لفظوں کا روپ دھارا تو اردو شاعری کی دنیا میں نسائی جذبوں کے کرب اور کوملتا کو زبان ملی۔ یہ کتاب ان ہی لمحوں کی کہانی ہے، جسے نصرت زہرا نے اسی مہک اور گداز لیے اسلوب میں لکھا ہے جو پروین شاکر کی لفظیات کا خاصہ ہے۔

ہمارے سنگی سماج میں ذہانت اور حساسیت کی قسمت کھروچوں سے بھرجانا اور کرچی کرچی ہونا ہے۔ اگر فکر وخیال سے منور ذہن اور روئی ریشم سے احساسات بھرا دل کسی نسوانی وجود کا حصہ ہوں تو ایک مصلوب زندگی وجود میں آتی ہے۔ پروین شاکر کی یہ کتھا ایسی ہی زندگی کی داستان ہے۔ نصرت زہرا نے یہ سوانح لکھتے ہوئے سحرزدہ کرتی افسانوی زبان اختیار کی ہے، جس کا لفظ لفظ پروین شاکر سے ان کی محبت میں گندھا ہوا ہے، مگر اس کتاب کے مواد میں کہیں کوئی افسانہ طرازی نہیں، بلکہ بڑی محنت سے پروین شاکر کے متعلق حقائق جمع کیے اور ان کی شیرازہ بندی کی گئی ہے۔

واقعات کی لڑیاں پروتے ہوئے پروین شاکر کے خطوط کی سطور جا بہ جا پیش کئی گئی ہیں۔ کتاب میں سوانح کے ساتھ پروین شاکر سے متعلق مختلف افراد کی تحریریں بھی شامل ہیں، جنھوں نے ان کی یادوں کے دیے روشن کیے ہیں۔ ''پروین کی یادیں'' کے زیرِعنوان اس باب میں پروین شاکر کی بہن ڈاکٹر نسرین شاکر، یاورمہدی، دُرشہوار، پروین قادر آغا، خالدہ حسین کی تحریریں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ پروین شاکر کا غیرمطبوعہ کلام، ان کے خطوط اور ان کی تصاویر اور کالموں کے عکس بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔ پروین شاکر کے اسکیچ سے مزین کتاب کا سرورق اس جادوبیاں شاعرہ کی کرب ناک زندگی اور الم ناک موت کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے۔ یہ خوب صورت کتاب پروین شاکر کی شاعری کے پرستاروں کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے۔ نصرت زہرا نے جس محنت اور لگن سے یہ کتاب تصنیف وتالیف کی ہے اس پر وہ داد کی مستحق ہیں۔
Load Next Story