دادو NA232 NA233 بااثر برادریوں کے چھوڑنے سے پیپلز پارٹی پریشان

11 مئی کوہونے والے انتخابات میں ضلع دادو میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کے درمیان ہی ہوگا۔


گلن بھنڈ April 05, 2013
11 مئی کوہونے والے انتخابات میں ضلع دادو میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کے درمیان ہی ہوگا۔ فوٹو: فائل

ضلع دادو کی دو قومی اور چار صوبائی نشستوں جن میں این اے 232 اوراین اے 233 جبکہ صوبائی اسمبلی کی پی ایس 74 ،پی ایس75،پی ایس76 اور پی ایس 77 شامل ہیں۔

2008 ء کے انتخابات میں این اے 232 میں کل رجسٹرڈووٹوں کی تعدادتین لاکھ 89 ہزار936 تھی جن میں سے ایک لاکھ 25 ہزار 414 پول ہوئے، ایک لاکھ 22ہزار 176 درست قرارپائے ۔اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے رفیق احمدجمالی نے پاکستان مسلم لیگ ق کے لیاقت علی خان جتوئی کے مقابلے میں87,467 ووٹ لیکرکامیابی حاصل کی، لیاقت جتوئی کو 34,019ووٹ ملے۔ 2002 ء کے انتخابات میں بھی اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے رفیق احمدجمالی کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے 56,814 ووٹ لیکرکامیابی حاصل کی تھی، ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ق کے احمدخان لنڈ 41,982 ووٹ لے کردوسرے نمبرپررہے تھے۔ ایم کیوایم کے حسین بخش سولنگی نے1,249 ووٹ لیے تھے۔

11 مئی کوہونے والے انتخابات میں ضلع دادو میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کے درمیان ہی ہوگا جبکہ فنکشنل لیگ کے دو امیدواروں پی ایس 74 دادو پر سید محمد شاہ بھی خاصی مقبولیت رکھتے ہیں۔ این اے 232دادو، جوہی پر26 امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے ہیں جبکہ این اے 233 پر 24 امیدوارمیدان میں آئے ہیں۔ پی ایس74 دادو پر 30، پی ایس 74 پر،50پی ایس 75جوہی پر 39،پی ایس 76 پر30اور پی ایس 77 میہڑ پر31 امیدوار میدان میں ہیں جبکہ سب سے زیادہ فارم پی ایس 74دادو پر جمع ہوئے ہیں۔

تاہم این اے 232پر مسلم لیگ (ن) کے کریم علی خان جتوئی، پی پی پی کے رئیس رفیق احمد جمالی،این اے233 پے مسلم لیگ ن کی جانب سے لیاقت علی جتوئی،پی پی پی کے حاجی ظفر علی لغاری، پی ایس 74 دادو پر مسلم لیگ (ن) کے انجینئر سید ظفر علی شاہ ، پی پی پی کے پیرمظہرالحق کے صاحبزادے پیر مجیب الحق ، فنکشنل لیگ کے سید محمد شاہ ، پی پی پی ( شہید بھٹو) کے کامریڈ علی محمد جمالی، سندھیانی تحریک کی امراء سموں، ایس یو پی کے احمد خان ملکانی آزادامیدوار میں سب سے زیادہ مقبول شمس الدیں عرف بابن خان پنھور۔پی ایس 75جوہی پر مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر بندہ علی لغاری، پی پی پی کے پیر سید غلام شاہ جیلانی، فنکشنل لیگ کے رئیس نادر علی عرف بولا خان شاہانی،پی ایس 76 پرمسلم لیگ ن کے لیاقت علی جتوئی، پی پی پی کی جانب سے لائے گئے نئے چہرے انجینئر عبدالعزیز جونیجوجبکہ پی ایس77پر مسلم لیگ ن کے صداقت علی جتوئی ، پی پی پی کے فیاض علی بٹ سمیت فنکشنل مسلم لیگ ، ایس یو پی، عوامی تحریک،کے ساتھ کئی آزاد امیدواروں نے نامزدگی فارم جمع کرائے ہیں۔

جن میں اصل دلچسپ مقابلہ لیاقت علی جتوئی اورانجینئر عبد العزیز جونیجوکے درمیان پی ایس 76خیرپورناتھن شاہ پر ہوگا۔ جبکہ نامزدگی فارم جمع کروانے کے بعد ایک طرف امیدواروں کا کچہ چٹھہ ظاہر کرنے کیلئے الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں نے اپنا کام شروع کردیا ہے تو دوسری جانب اس کے ساتھ ساتھ مخالف امیدواروں نے ایک دوسرے کے خلاف درخواستیں بھی جمع کروانا شرو ع کردی ہیں۔

جس میں مسلم لیگ ن کے پی ایس 74 کے امیدوار انجینئر سید ظفر علی شاہ نے پی پی پی امیدوار پیر مجیب الحق اورانکے کورنگ امیدوار ان کے والد پیر مظہرالحق کے خلاف ریٹرننگ آفیسر کے پاس درخواست جمع کروائی ہے کہ پیر مظہرالحق اور اس کے بیٹے پیر مجیب الحق نے فارم جمع کرانے کے دوران انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریلی کی شکل میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرتے ہوئے نعروں کے ساتھ پولیس پروٹوکول میں پرائیویٹ گارڈز جو جدید اسلحہ سے لیس تھے کے ہمراہ فارم جمع کروانے آئے، جس سے انہیں یہ خدشہ ہے کہ پیر مظہرالحق انتظامی مشینری کے بل بوتے پر انتخابات پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں ۔

محکمہ تعلیم کے کئی افسران سرکاری گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں اتار کر ریلی میں شامل تھے۔ اس سلسلے میں انجینئر سید ظفر علی شاہ اور کریم علی جتوئی نے پریس کانفرنس بھی کی۔اس کے جواب میں پیر مظہرالحق نے بھی دادو پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ختم ہوتے ہی انہوں نے تمام سکیورٹی اور پروٹوکول واپس کردیا تھا آئی جی سندھ پولیس نے سکیورٹی خدشات کے سبب پولیس ان کے پیچھے لگا رکھی ہے۔جس کا انہیں علم نہیں۔ باقی وہ بڑے عرصے کے بعد اپنے علاقے میں پہنچے تھے جس پر لوگوں نے اس کا استقبال کیا تھا۔

دوسری طرف لیاقت علی جتوئی نے اپنی سرگرمیاں انتہائی تیز کر دی ہیں ، جس کے نتیجے میں پی پی پی سے تعلق رکھنے والی کاچھوکی اہم شخصیت سابق ناظم نصر ت لغاری، پی پی پی ضلع دادو کے صدر اور سابق وزیرمملکت رفیق احمد جمالی کے قریبی رشتہ دار رئیس غلام محمد جمالی 40برسوں سے پی پی پی کا ساتھ نبھانے والی سولنگی ، چانڈیو، بھٹی، اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی مسیح برادری،جسکانی، پنھیار اور کئی دیگر برادریاں مسلم لیگ ن میں شامل ہوچکی ہیں جس سے پی پی پی ضلع دادو کی قیادت خاصی پریشان دکھائی دے رہی ہے۔

جبکہ پی پی پی سے تعلق رکھنے والی پنھور برادری جن کا دعویٰ ہے کہ ضلع دادو میں 80 ہزار ووٹ ان کے رجسٹرڈ ہیں ان میں بان خان پنھور اور آصف علی زرداری کے قریبی دوست زرعی بنک کے سابق ریجنل منیجر محمد بخش پنھور نے بھی پی ایس 74 اور 75جوہی پر آزادامیدوار کی حیثیت سے اپنے کاغذات جمع کروائے ہیں ۔وہ بھی اگر واپس پی پی پی میں نہ آئے تو پی پی پی پی کیلئے پر یشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم پھر بھی پی پی پی امیدوار او ر ان کی مقامی قیادت جنہیں انتخابی سیاست کا گرو مانا جاتا ہے وہ اپنے پتے کس طرح کھیلتے ہیں یہ حتمی انتخابی فہرست جاری ہونے کے بعد ہی پتا چل سکے گا۔ ضلع دادو کو سیاسی طور پر سندھ کا رہنما ضلع بھی سمجھا جاتا ہے کیونکہ 6 سو برس قبل شاہ بیگ ارغون سے لڑائی کے نتیجے میں شہید مخدوم بلاول سے لے کر ایم آر ڈی کی جدوجہد اور دہرے بلدیاتی نظام کی منظور ی تک دادو کو ویتنام کا درجہ حاصل ہے۔ سابقہ دور حکومت میں سندھ میں پیر مظہرالحق پارلیمانی لیڈر ہونے کے ساتھ سینئر صوبائی وزیر تعلیم

بھی تھے جن پراس ضلع کے عوام نالاں ہیں،لوگوں کا کہناہے کہ پیرمظہرالحق نے سندھ کی تعلیم کو تباہ کیا ہے اوردہرے بلدیاتی نظام کو سندھ اسمبلی میں پاس کروانے میں بھی ان کا اہم کردار تھا، ان کے وزیر تعلیم ہوتے ہوئے بھی ضلع کے اکثر سکولوں کو تالے لگے ہوئے تھے ،وہ کراچی کے تعلیمی اداروں میں اندروں سندھ کے طلبہ کو داخلہ نہیں دلا سکے ، سندھ یونیورسٹی حکومتی بدانتظامی کی وجہ سے مسلسل بند رہی۔ ضلع دادو کا تمام انتظام پیر مظہرالحق کے ہاتھ میں ہونے کے باوجود سیلاب زدگان اور بارش متاثرین بے یار و مددگار رہے، امن امان کی بدتر صورتحال، کرپشن، ناانصافیاں اور ملازمتیں من پسند لوگوں کو دینے یا بیچنے جیسے الزامات عائد بھی لگتے رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں