سر جھکائے انصاف ہوتا دیکھیے
مکمل انصاف کے حصول کی خاطر ہم نے پہلے ہی کافی شاندار روایات بھگت لی ہیں.
ہمارے ہاں انگریزی زبان میں لکھنے والے چند مخصوص افراد مضامین نہیں لکھتے، انتہائی پیچیدہ ریاستی امور کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے مشورے دیتے ہیں۔ ان کا بڑا پن یہ بھی ہے کہ بحران کے دنوں میں کسی صلے یا ستائش کی تمنا کیے بغیر وہ خیر کے راستے خیراتی انداز میں دان کیا کرتے ہیں۔
ساری زندگی 17 ویں گریڈ سے زینہ بہ زینہ اپنے افسروں یا سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں کی ہاں میں غلامانہ ہاں ملانے کے بعد یہ لکھنے والے بڑے سینئر عہدوں سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ اپنی نوکری کے دوران انھوں نے اپنی عقل کو تھوڑی سی خودی کے ساتھ استعمال کیا ہوتا تو شاید آج پاکستان دُنیا میں اتنا تنہا نہ ہوتا۔ ایک دوسری قسم ان لکھاریوں کی بھی ہے جو مسلح افواج کے مختلف اداروں میں بلندی کی انتہائی سطحوں تک نہ پہنچ پائے۔
مگر آج کل مشورے دیتے پائے جاتے ہیں کہ اس ملک کا دفاع کس طرح مضبوط تر کیا جاسکتا ہے۔ سول اور فوجی افسران کی قلم کاریوں کو سہتے سہتے اب ہمارے ہاں ''ماہرین ِقانون'' کی بھی ایک کھیپ تیار ہو گئی ہے جو فیس کے نام پر ایک پیسہ لیے بغیر بھی اپنے مضامین کے ذریعے آئین اور قانون کی باریکیوں کو بیان کیا کرتے ہیں۔ کسی بھی اہم عدالتی فیصلے کے اعلان کے بعد ہمارے سارے ٹی وی چینلز انھیں فون کر کے عقل و دانش کے موتی بکھیرنے پر مائل کرتے ہیں۔
ایسے ہی ''ماہرین آئین وقانون'' نے راجہ پرویز اشرف کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد اچانک دریافت کر لیا کہ عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب قومی اسمبلی کے ذریعے آنے والے وزیر اعظم کو عدلیہ کی طرف سے گھریلو ملازموں کی طرح فارغ کر دینے کی روایت چل نکلی تو ''سسٹم'' خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
کوئی ''درمیانی راستہ'' نکالنا چاہیے تا کہ ''وہ چٹھی'' بھی لکھی جائے اور راجہ پرویز اشرف بھی آیندہ انتخابات تک اپنے عہدے پر فائز رہیں۔ ''درمیانی راہ'' ڈھونڈنے والا اچھوتا خیال شاید قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے کی موت مرجاتا۔ مگر ''اس چٹھی'' کے معاملے پر ہونے والی ایک سماعت میں جسٹس کھوسہ صاحب اور اٹارنی جنرل عرفان قادر صاحب کے درمیان کچھ محبت بھرے فقروں کا تبادلہ ہوا۔ ''درمیانی راہ'' نکالنے والوں کے سر فخر سے بلند اور سینے رعونت کی ہوا سے چوڑے ہوگئے۔
ایک عام سا رپورٹر ہوتے ہوئے میں بار بار یاد دلاتا رہا کہ انصاف سب کے لیے برابر ہوا کرتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی سے خدانخواستہ سپریم کورٹ کا کوئی ذاتی جھگڑا تو نہیں تھا۔ انھیں چٹھی لکھنے کو کہا گیا۔ انکار ہوا تو فارغ کر دیے گئے۔ راجہ پرویز اشرف غازیوں کو جنم دینے والے گوجر خان میں محض پیدا ہو کر ملتان کے مخدوم سے بہتر سلوک کے مستحق نہیں ہو جاتے۔
میں نے چونکہ یہ بنیادی سوال کالاکوٹ اور ٹائی پہنے بغیر اُٹھایا تھا اور اسے جناتی انگریزی زبان میں بھی نہیں لکھا تھا اسی لیے کسی نے توجہ ہی نہ دی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ 8 اگست آ گیا۔ راجہ صاحب اب 27 اگست کو سر جھکا کر اسی طرح عدالت کے سامنے پیش ہوں گے جیسے یوسف رضا گیلانی ہوا کرتے تھے۔
ان کو ایک رعایت البتہ ضروری دے دی گئی ہے۔ موصوف عید کے روز وزیر اعظم والی خاص شیروانی پہنے مسلح افواج کے سربراہوں اور غیر ملکی سفارتکاروں سے مبارک باد ضرور وصول کر سکیں گے۔ ان کا اسی روز اپنے آبائی گائوں جانا بھی وہاں کے مکینوں کو عمر بھر یاد رہے گا۔ ''سسٹم'' کو بچانے کے لیے کچھ اور مشورے درکار ہیں۔
اگرچہ ابھی یہ طے کرنا باقی ہے کہ ہم کون سے''سسٹم'' کو بچانے کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ ''سسٹم'' سے مراد اگر یہ ہے کہ اس ملک کے بنیادی فیصلے صرف اور صرف منتخب افراد کو کرنا چاہئیں تو وہ اس ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد کبھی ہوئے ہی نہیں۔ زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر حال ہی کا واقعہ یاد کر لیجیے جس میں افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کے لیے پاکستانی راستوں سے جانے والی رسد پہلے بند کی گئی اور پھر کھول دی گئی۔
''سسٹم'' کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو کوئی غیر منتخب ادارہ یا فرد فارغ نہ کرے۔ اسی حوالے سے دیکھیں تو پہلے پاکستانی فوج کے سپہ سالار وزیر اعظموں کو گھر بھیجا کرتے تھے۔ پھر اس نیک کام کا بیڑا غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری نے اُٹھالیا۔ رفیق احمد تارڑ ان کے نقشِ قدم پر نہ چل پائے۔
جنرل مشرف کو خود ہی پستول دکھانا پڑی۔ اب فرق پڑا ہے تو صرف اتنا کہ بجائے کسی صدر یا چیف آف آرمی اسٹاف کے ہماری سپریم کورٹ نے ایک وزیر اعظم کو گھر بھیج کر دوسرے کے خلاف تیاری کر لی ہے۔ اس روایت کو پنپنے سے روکنے کی کوشش کریں گے تو ''توہین عدالت'' ہو جائے گی۔ لہذا سر جھکائے انصاف ہوتا دیکھئے۔ شاید اسی میں ہماری قوم کی بھلائی مضمر ہو۔
مگر نہ جانے کیوں میرے وسوسوں بھرے دل میں یہ خیال آرہا ہے کہ شاید گوجرخان کا راجہ ملتان کے مخدوم کی طرح سرجھکائے انصاف ہوتا ہوا دیکھنا نہیںچاہ رہا۔ موصوف کو27اگست کو طلب کیا گیا ہے ۔میرے اس کالم کے شروع کرنے سے تھوڑی ہی دیر پہلے ایک متحرک ''ماہر قانون'' کا فون آیا جو آج کل وزیروں وغیرہ کے ساتھ اپنی شامیں گزارا کرتے ہیں ۔انھوں نے میرے جیسے کم علم سے جاننا چاہا کہ وزیر اعظم کو کس قانون کے تحت طلب کیا گیا ہے ۔
ان صاحب کی نظر میں پاکستان کی منتخب پارلیمان نے توہین عدالت کا ایک قانون بنایا تھا ۔یہ قانون اُس قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کربنایا گیا تھا جو 2003ء میں لاگو ہوا تھا ۔یہ بات درست ہے کہ سپریم کورٹ نے اس قانون کو ماورائے آئین قرار دے کر ردکردیا ہے اور یہ کرنا اس کا حق تھا ۔مگر جس ماہر قانون نے میرے ساتھ بات کی ان کی نظر میں سپریم کورٹ کسی قانون کو خلاف آئین تو قرار دے سکتا ہے۔
لیکن اس کی جگہ لینے کے لیے اس قانون کو ''نافذ'' نہیں کرسکتی، جسے پارلیمان نے اپنے تئیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہو۔سچی بات ہے وہ ماہرقانون میرے ساتھ 20منٹ سے زیادہ گفتگو کرتے رہے ۔مگر مجھے سوائے اس بات کے جو میں نے بیان کرنے کی کوشش کی ہے کچھ اور چیز سمجھ ہی نہ آئی ۔یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے ان کی باتیں دوبارہ یاد آئیں اور اچانک میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کہیں راجہ پرویز اشرف 27اگست کو عدالت میں نہ جانے کے بہانے تو نہیں ڈھونڈرہے ۔
''سسٹم'' کے تحفظ کی خاطر میری درد بھرے دل کے ساتھ شدید خواہش ہے کہ میرا شک آخر میں غلط ثابت ہو۔وزیر اعظم کو ''بیلف''کے ذریعے بلواکر فارغ کرنے سے تو ایک اور نئی روایت چل پڑے گی ۔مکمل انصاف کے حصول کی خاطر ہم نے پہلے ہی کافی شاندار روایات بھگت لی ہیں ۔اب ذرا تھم جائیں۔''سسٹم'' کو بچانا بھی تو ہے ۔