نگراں حکومتوں میں شامل خواتین
خیبرپختونخواہ کے نگراں وزیرِاعلیٰ جسٹس (ر) طارق پرویزصاحب نے بھی اپنی نگراں کابینہ میں ایک خاتون کو شامل کیا ہے۔
2 اپریل 2013ء کو اسلام آباد میں 14وفاقی نگراں وزراء نے حلف اٹھایا تواُن میں اکلوتی وفاقی وزیرڈاکٹر ثانیہ نشتر صاحبہ بھی شامل تھیں۔اُنھیں تعلیم،آئی ٹی اور سائنس کی وزارتیں تفویض کی گئی ہیں۔لائق فائق ڈاکٹرثانیہ نشتر کا تعلیمی پسِ منظر اگر ہم پیشِ نگاہ رکھیں تو کہا جاسکتا ہے کہ اُنھیں تو وزارتِ صحت کا قلم دان سونپا جانا چاہیے تھا کہ اُن کی جملہ خدمات زیادہ تر شعبہء صحت کے لیے وقف ہیں۔اُن کا تعلق خیبرپختونخواہ سے ہے لیکن وہ گذشتہ کئی برسوں سے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ اُنھوں نے لندن کے معروف تعلیمی ادارے''کنگزکالج''سے میڈیسن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اُنھیں پاکستان کی پہلی ہارٹ سرجن ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
وہ ''ہارٹ فائل''نامی ایک این جی او کی بانی بھی ہیں اور اِس کی صدر بھی۔پاکستان میں صحت کے موضوع پر اُن کے انگریزی مضامین آئے روز شایع ہوتے رہتے ہیں۔وہ کلنٹن گلوبل انشی ایٹو،ورلڈ اکنامک فورم،ہیلتھ گلوبل سیشن ایسے عالمی شہرت یافتہ پلیٹ فارموں پر خطاب کرکے اپنے علم،تجربے اور شخصیت کا لوہامنواچکی ہیں۔اُنھیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ''ستارئہ امتیاز'' بھی مل چکا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے وہ سونے کے سولہ تمغے بھی حاصل کرچکی ہیں۔یوں کہاجاسکتا ہے کہ نگراں وزیرِاعظم جسٹس(ر)میرہزار خان کھوسونے ڈاکٹرثانیہ نشتر کو نگراں وفاقی کابینہ کا حصہ بنا کر جہاں ایک شاندار فیصلہ کیا ہے،وہاں یہ انتخاب اُن کی کابینہ کی وقعت اور اعتبارمیں اضافے کاسبب بھی بن گیاہے۔
پنجاب کے نگراں وزیرِاعلیٰ جناب نجم سیٹھی نے اپنے مختصر سی کابینہ میں محترمہ سلیمہ ہاشمی ایسی کلچرڈ خاتون کو شامل کرکے ایک مستحسن اقدام کیا ہے۔سلیمہ ہاشمی صاحبہ فن اور فنونِ لطیفہ کے دل دادہ لاہور شہر کی پہچان ہیں۔وہ وطنِ عزیز کے عالمی شہرت یافتہ شاعر،ادیب اور صحافی فیض احمد فیض صاحب کی بڑی صاحبزادی ہیں۔سلیمہ ہاشمی کے شوہر(شعیب ہاشمی)پاکستان کے ممتاز ماہرینِ معیشت اور فنکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔اکہتر سالہ سلیمہ ہاشمی پاکستان بھر میں آرٹسٹ بنانے کی شہرت رکھنے والے کالج (NCA) کی سربراہ بھی رہی ہیں۔اُنھیں صدرِ پاکستان کی طرف سے ''پرائیڈ آف پرفارمنس''کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
ہمیں اگراُن سے کوئی اختلاف ہے تو فقط یہ کہ وہ پاکستان کے ایٹم بم کے خلاف خیالات رکھنے والوں میں سے ایک ہیں۔ اِس میدان میں وہ اکیلی نہیں ہیں۔جناب پروفیسر ہودبھائی اور عمران خان کی تحریک انصاف سے عقیدت ومحبت رکھنے والے پاپ سِنگر جناب سلمان احمد بھی اِسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو بوجوہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی صلاحیت کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ بہرحال پنجاب کے نگراں وزیرِاعلیٰ نجم سیٹھی صاحب نے محترمہ سلیمہ ہاشمی کو اپنی کابینہ میں شامل کرکے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔اُن کے وزیرِ صحت وتعلیم بننے سے ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ پنجاب کے ان دونوں محکموں کی صحت پہلے سے بہتر ہوجائے گی۔
خیبرپختونخواہ کے نگراں وزیرِاعلیٰ جسٹس (ر) طارق پرویزصاحب نے بھی اپنی نگراں کابینہ میں ایک خاتون کو شامل کیا ہے۔ اطلاعات ،تعلیم اور سوشل ویلفیئر کے قلمدان اُن کے سپرد کیے جاچکے ہیں۔مسرت قدیم اِن محترمہ کا اسمِ گرامی ہے۔چارسدہ سے اُن کا تعلق ہے لیکن زیادہ تر اسلام آباد میں رہاکرتی تھیں کہ وفاقی دارالحکومت میں اُن کی ایک عدد این جی او''پیمان''کا دفتر بروئے کار ہے۔مسرت قدیم صاحبہ اتنی بھی قدیم نہیں کہ اُن کی عمر ابھی تو صرف پچاس سال بیان کی جاتی ہے۔اُن کے وزیرِتعلیم اور وزیرِاطلاعات بننے سے خیبر پختونخواہ کے اساتذہ کرام اور اخبار نویسوں نے اُن سے بلند توقعات وابستہ کرلی ہیں۔
غالباً اِسی وجہ سے پشاور میں ''کلچرجرنلسٹ فورم'' کے وابستگان اپنے لیڈر احتشام طورو اُن سے یکم اپریل کو خصوصی طور پر ملے جس میں محترمہ مسرت نے وفورِ مسرت سے فرمایا:''صوبے کی کلچرل پالیسی تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔''طالبان اقدامات سے متاثرہ خیبرپختونخواہ کی نگراں حکومت میں ایک خاتون کا وزیر بننا واقعی حیرت انگیز بھی ہے اور نگراں وزیراعلیٰ طارق پرویزصاحب کاجرات مندانہ اقدام بھی۔کہاجاتا ہے کہ اِس وقت ''کے پی کے'' میں سرکاری اسکولوں کی تعداد 27ہزار 4سو75ہے جن میں تقریباً چالیس لاکھ طلباء وطالبات زیرِتعلیم ہیں۔
''کے پی کے'' میں شرحِ خواندگی پچاس فیصد ہے۔اوپر سے ظالمان نے اسکولوں،خصوصاً بچیوں کے اسکولوں کو جس وحشت سے ہدف بنارکھا ہے،ایسے میں مسرت قدیم صاحبہ کو بطورِ وزیرِ تعلیم خاصے اہم اور حساس محاذوں کا سامنا ہے۔کے پی کے میں ملالہ ایسی بچیوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھاگیا،وہ بھی واضح ہے۔چنانچہ اِس پس منظر میں ''کے پی کے'' میں خواتین نے مسرت صاحبہ سے بلند توقعات وابستہ کرلی ہیں تو اِسے بے جا نہیں کہاجاسکتا۔ نگراں وزیرِتعلیم واطلاعات مسرت قدیم صاحبہ کی این جی او پرمبینہ طورپر ماضی میں الزامات بھی لگے ہیں۔
سندھ کے نگراں وزیرِاعلیٰ جسٹس(ر)زاہد قربان علوی صاحب کو خصوصی طور پر شاباش ملنی چاہیے کہ اُنھوں نے نگراں حکومت کے لیے اٹھارہ صوبائی وزراء کا انتخاب کرتے ہوئے بعض ایسے نام چُنے ہیں جن کا ادب،ترقی پسندانہ نظریات اور انسانی حقوق کی پاسداری سے گہرا اور بنیادی تعلق ہے۔انیس ہارون صاحبہ اور محترمہ نورالہدیٰ شاہ اِن میں سرِفہرست ہیں۔محترمہ انیس ہارون پاکستان کی ایک معروف این جی او''عورت فائونڈیشن'' کے بانی ارکان میں شامل ہیں۔ملک بھر میں جہاں جہاں عورت کی مذہب اور کلچر کے نام پر بے حرمتی کی گئی،انیس ہارون وہاں وہاں پہنچیں اور مظلوم ومقہور خواتین کی مقدور بھر دستگیری بھی کی اورانھیں ظالموں اور استحصالی ہاتھوں سے نجات بھی دلائی۔
وہ ''نیشنل کمیشن آف اسٹیٹس آف ویمن'' کی چیئرپرسن بھی رہی ہیں۔جنرل ضیاء الحق کے پُرتشدد دَور میں انھوں نے خصوصاً سندھ میں غربت اور بے چارگی کی گرفت میں جکڑی خواتین کے لیے جو خدمات انجام دیں،انھیں فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ وہ سندھ کی نگراں حکومت میں شامل ہوکر یادگار اور ناقابلِ فراموش خدمات انجام دے سکیں گی جو اُن کی عزت میں مزید عزت واحترام کا باعث بنیں گی۔اِسی طرح محترمہ نورالہدیٰ شاہ کاچنائو کرکے نگراں وزیراعلیٰ علوی صاحب نے اپنی کابینہ کے لیے فخریہ قدم اُٹھایا ہے۔وہ حیدر آباد کے ایک معروف سیدفیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔
نورالہدیٰ صاحبہ کا نام سندھ ہی میں نہیں،پورے پاکستان میں گونجتا ہے۔ادبی حلقوں میں وہ ممتاز بھی ہیں اور محترم بھی۔اپنے ڈراموں میں اُنھوں نے جاگیرداروں اور وڈیروں کے مظالم اور عورتوں کے استحصال کے بارے میں جو انکشافات کیے ہیں،اِس نے بہت سی آنکھیں حیرت سے کھول دیں۔اُن کے ڈراموں میں ''ماروی''... ''جنگل''... ''فاصلے''...''تپش'' نے دوام شہرت حاصل کررکھی ہے۔محترمہ نورالہدیٰ شاہ نے جس دردمندی سے یہ شاندار ڈرامے لکھے،اُمید رکھنی چاہیے کہ وہ اب اختیارملنے کے بعد عمل کے میدان میں بھی سندھ کی دیہی خواتین کی دستگیری کریں گی۔اُن کے دکھوں کو مقدور بھر کم کرنے کی اپنی سی سعی کرتی رہیں گی۔
وفاقی حکومت کے ساتھ سندھ،خیبرپختونخوا اور پنجاب کی نگراں صوبائی حکومتوں کا ذکر کیاجاچکا ہے۔اصولی طور پر اِس کالم میں رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی نگراں حکومت میں شامل خواتین یاخاتون وزیر کاذکر بھی ہونا چاہیے لیکن یہ سطور لکھنے تک بلوچستان میں نگراں حکومت کا سِرے سے ڈول ہی نہیں ڈالا گیا۔
وہ ''ہارٹ فائل''نامی ایک این جی او کی بانی بھی ہیں اور اِس کی صدر بھی۔پاکستان میں صحت کے موضوع پر اُن کے انگریزی مضامین آئے روز شایع ہوتے رہتے ہیں۔وہ کلنٹن گلوبل انشی ایٹو،ورلڈ اکنامک فورم،ہیلتھ گلوبل سیشن ایسے عالمی شہرت یافتہ پلیٹ فارموں پر خطاب کرکے اپنے علم،تجربے اور شخصیت کا لوہامنواچکی ہیں۔اُنھیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ''ستارئہ امتیاز'' بھی مل چکا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے وہ سونے کے سولہ تمغے بھی حاصل کرچکی ہیں۔یوں کہاجاسکتا ہے کہ نگراں وزیرِاعظم جسٹس(ر)میرہزار خان کھوسونے ڈاکٹرثانیہ نشتر کو نگراں وفاقی کابینہ کا حصہ بنا کر جہاں ایک شاندار فیصلہ کیا ہے،وہاں یہ انتخاب اُن کی کابینہ کی وقعت اور اعتبارمیں اضافے کاسبب بھی بن گیاہے۔
پنجاب کے نگراں وزیرِاعلیٰ جناب نجم سیٹھی نے اپنے مختصر سی کابینہ میں محترمہ سلیمہ ہاشمی ایسی کلچرڈ خاتون کو شامل کرکے ایک مستحسن اقدام کیا ہے۔سلیمہ ہاشمی صاحبہ فن اور فنونِ لطیفہ کے دل دادہ لاہور شہر کی پہچان ہیں۔وہ وطنِ عزیز کے عالمی شہرت یافتہ شاعر،ادیب اور صحافی فیض احمد فیض صاحب کی بڑی صاحبزادی ہیں۔سلیمہ ہاشمی کے شوہر(شعیب ہاشمی)پاکستان کے ممتاز ماہرینِ معیشت اور فنکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔اکہتر سالہ سلیمہ ہاشمی پاکستان بھر میں آرٹسٹ بنانے کی شہرت رکھنے والے کالج (NCA) کی سربراہ بھی رہی ہیں۔اُنھیں صدرِ پاکستان کی طرف سے ''پرائیڈ آف پرفارمنس''کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
ہمیں اگراُن سے کوئی اختلاف ہے تو فقط یہ کہ وہ پاکستان کے ایٹم بم کے خلاف خیالات رکھنے والوں میں سے ایک ہیں۔ اِس میدان میں وہ اکیلی نہیں ہیں۔جناب پروفیسر ہودبھائی اور عمران خان کی تحریک انصاف سے عقیدت ومحبت رکھنے والے پاپ سِنگر جناب سلمان احمد بھی اِسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو بوجوہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی صلاحیت کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ بہرحال پنجاب کے نگراں وزیرِاعلیٰ نجم سیٹھی صاحب نے محترمہ سلیمہ ہاشمی کو اپنی کابینہ میں شامل کرکے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔اُن کے وزیرِ صحت وتعلیم بننے سے ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ پنجاب کے ان دونوں محکموں کی صحت پہلے سے بہتر ہوجائے گی۔
خیبرپختونخواہ کے نگراں وزیرِاعلیٰ جسٹس (ر) طارق پرویزصاحب نے بھی اپنی نگراں کابینہ میں ایک خاتون کو شامل کیا ہے۔ اطلاعات ،تعلیم اور سوشل ویلفیئر کے قلمدان اُن کے سپرد کیے جاچکے ہیں۔مسرت قدیم اِن محترمہ کا اسمِ گرامی ہے۔چارسدہ سے اُن کا تعلق ہے لیکن زیادہ تر اسلام آباد میں رہاکرتی تھیں کہ وفاقی دارالحکومت میں اُن کی ایک عدد این جی او''پیمان''کا دفتر بروئے کار ہے۔مسرت قدیم صاحبہ اتنی بھی قدیم نہیں کہ اُن کی عمر ابھی تو صرف پچاس سال بیان کی جاتی ہے۔اُن کے وزیرِتعلیم اور وزیرِاطلاعات بننے سے خیبر پختونخواہ کے اساتذہ کرام اور اخبار نویسوں نے اُن سے بلند توقعات وابستہ کرلی ہیں۔
غالباً اِسی وجہ سے پشاور میں ''کلچرجرنلسٹ فورم'' کے وابستگان اپنے لیڈر احتشام طورو اُن سے یکم اپریل کو خصوصی طور پر ملے جس میں محترمہ مسرت نے وفورِ مسرت سے فرمایا:''صوبے کی کلچرل پالیسی تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔''طالبان اقدامات سے متاثرہ خیبرپختونخواہ کی نگراں حکومت میں ایک خاتون کا وزیر بننا واقعی حیرت انگیز بھی ہے اور نگراں وزیراعلیٰ طارق پرویزصاحب کاجرات مندانہ اقدام بھی۔کہاجاتا ہے کہ اِس وقت ''کے پی کے'' میں سرکاری اسکولوں کی تعداد 27ہزار 4سو75ہے جن میں تقریباً چالیس لاکھ طلباء وطالبات زیرِتعلیم ہیں۔
''کے پی کے'' میں شرحِ خواندگی پچاس فیصد ہے۔اوپر سے ظالمان نے اسکولوں،خصوصاً بچیوں کے اسکولوں کو جس وحشت سے ہدف بنارکھا ہے،ایسے میں مسرت قدیم صاحبہ کو بطورِ وزیرِ تعلیم خاصے اہم اور حساس محاذوں کا سامنا ہے۔کے پی کے میں ملالہ ایسی بچیوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھاگیا،وہ بھی واضح ہے۔چنانچہ اِس پس منظر میں ''کے پی کے'' میں خواتین نے مسرت صاحبہ سے بلند توقعات وابستہ کرلی ہیں تو اِسے بے جا نہیں کہاجاسکتا۔ نگراں وزیرِتعلیم واطلاعات مسرت قدیم صاحبہ کی این جی او پرمبینہ طورپر ماضی میں الزامات بھی لگے ہیں۔
سندھ کے نگراں وزیرِاعلیٰ جسٹس(ر)زاہد قربان علوی صاحب کو خصوصی طور پر شاباش ملنی چاہیے کہ اُنھوں نے نگراں حکومت کے لیے اٹھارہ صوبائی وزراء کا انتخاب کرتے ہوئے بعض ایسے نام چُنے ہیں جن کا ادب،ترقی پسندانہ نظریات اور انسانی حقوق کی پاسداری سے گہرا اور بنیادی تعلق ہے۔انیس ہارون صاحبہ اور محترمہ نورالہدیٰ شاہ اِن میں سرِفہرست ہیں۔محترمہ انیس ہارون پاکستان کی ایک معروف این جی او''عورت فائونڈیشن'' کے بانی ارکان میں شامل ہیں۔ملک بھر میں جہاں جہاں عورت کی مذہب اور کلچر کے نام پر بے حرمتی کی گئی،انیس ہارون وہاں وہاں پہنچیں اور مظلوم ومقہور خواتین کی مقدور بھر دستگیری بھی کی اورانھیں ظالموں اور استحصالی ہاتھوں سے نجات بھی دلائی۔
وہ ''نیشنل کمیشن آف اسٹیٹس آف ویمن'' کی چیئرپرسن بھی رہی ہیں۔جنرل ضیاء الحق کے پُرتشدد دَور میں انھوں نے خصوصاً سندھ میں غربت اور بے چارگی کی گرفت میں جکڑی خواتین کے لیے جو خدمات انجام دیں،انھیں فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ وہ سندھ کی نگراں حکومت میں شامل ہوکر یادگار اور ناقابلِ فراموش خدمات انجام دے سکیں گی جو اُن کی عزت میں مزید عزت واحترام کا باعث بنیں گی۔اِسی طرح محترمہ نورالہدیٰ شاہ کاچنائو کرکے نگراں وزیراعلیٰ علوی صاحب نے اپنی کابینہ کے لیے فخریہ قدم اُٹھایا ہے۔وہ حیدر آباد کے ایک معروف سیدفیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔
نورالہدیٰ صاحبہ کا نام سندھ ہی میں نہیں،پورے پاکستان میں گونجتا ہے۔ادبی حلقوں میں وہ ممتاز بھی ہیں اور محترم بھی۔اپنے ڈراموں میں اُنھوں نے جاگیرداروں اور وڈیروں کے مظالم اور عورتوں کے استحصال کے بارے میں جو انکشافات کیے ہیں،اِس نے بہت سی آنکھیں حیرت سے کھول دیں۔اُن کے ڈراموں میں ''ماروی''... ''جنگل''... ''فاصلے''...''تپش'' نے دوام شہرت حاصل کررکھی ہے۔محترمہ نورالہدیٰ شاہ نے جس دردمندی سے یہ شاندار ڈرامے لکھے،اُمید رکھنی چاہیے کہ وہ اب اختیارملنے کے بعد عمل کے میدان میں بھی سندھ کی دیہی خواتین کی دستگیری کریں گی۔اُن کے دکھوں کو مقدور بھر کم کرنے کی اپنی سی سعی کرتی رہیں گی۔
وفاقی حکومت کے ساتھ سندھ،خیبرپختونخوا اور پنجاب کی نگراں صوبائی حکومتوں کا ذکر کیاجاچکا ہے۔اصولی طور پر اِس کالم میں رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی نگراں حکومت میں شامل خواتین یاخاتون وزیر کاذکر بھی ہونا چاہیے لیکن یہ سطور لکھنے تک بلوچستان میں نگراں حکومت کا سِرے سے ڈول ہی نہیں ڈالا گیا۔