شام کی صورتحال حقائق کیا ہیں

شام میں بغاوت کو انقلاب کہنے والوں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ شام میں آخر ایسا کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے


Sabir Karbalai April 06, 2013

شام جو کہ ایک قدیم تاریخی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں بڑی اہمیت کا حامل بھی ہے۔ دو سال قبل شام میں شروع ہونے والی بغاوت کی اصل وجہ کیا ہے؟ حقائق کیا ہیں؟ کچھ عناصر شام کی موجودہ صورتحال کو انتہائی بگڑتی ہوئی صورتحال بتا رہے ہیں اور تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ شام میں بغاوت نہیں بلکہ انقلاب کی لہر آئی ہے اور اس انقلاب کو کچھ افراد تیونس، مصر اور دیگر ممالک کے انقلابوں اور اسلامی بیداری کی لہر سے ملانا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی انقلا ب میں عوام ہی عوام کو قتل کردیتے ہیں؟

میں ان تمام لوگوں سے پوچھتا ہوں جو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ تیونس، مصر اور لیبیا سمیت یمن، بحرین کی طرح شام میں بھی عوامی اور اسلامی بیداری ہی کا اثر ہے، ایسے سب افراد کے لیے میں ایک سادہ سا سوال چھوڑنا چاہتا ہوں اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا تیونس، مصر، یمن، بحرین میں عوام اسلحہ اٹھا کر اور عوام کا قتل عام کرکے انقلاب لائے ہیں؟ یقیناً پوری دنیا اس بات پر ایک ہی جواب دے گی کہ ''نہیں'' ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ تیونس، یمن، مصر اور بحرین میں چلنے والی انقلابی تحریکیں وہاں پر سامراجی نظاموں کے خلاف تھیں، وہ سامراجی نظام جو امریکا اور اسرائیل کے زیر تسلط تھے۔

تیونس کی حالت ہی دیکھ لیجیے کہ وہاں پر مسلمانوں کو اذان دینے پر پابندی تھی، حالانکہ مسلمان حکمران تھے۔ اسی طرح غربت، افلاس اور معاشرتی قتل عام وہ بنیادیں بنی کہ جنہوں نے عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور لوگ اپنے حقوق اور اپنی جانوں کے دفاع اور اپنی عزت و حمیت کی بقا کی خاطر اسلام کے پرچم تلے جمع ہوئے اور دنیا کے باطل اور طاغوتی نظاموں کو اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے چلے گئے۔

مصر میں کیا ہوا؟ کیا مصر میں شام کی طرح باغی گروہوں نے اسلحے کے زور پر عوام کا قتل عام کیا؟ یا عوام نے اپنی عوامی طاقت سے التحریر چوک انقلاب کی داغ بیل ڈالی۔ مصر میں بھی عوام ذلت اور پستی کا شکار تھے، مغربی استعمار ان کا استحصال ان ہی کے حکمرانوں سے کروا رہا تھا جس کی وجہ سے عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور سامراجی نظاموں کے پیروکاروں کو نکال باہر پھینکا۔اسی طرح بحرین میں دیکھیں وہاں کیا ہورہا ہے؟

وہاں کی حکومت مصر اور تیونس کی سابقہ دہشت گرد حکومتوں کی طرح عوام کا استحصال کررہی ہے لیکن عوام کے درمیان بھرپور ہم آہنگی اور یکجہتی برقرار ہے اور اسی وجہ سے آج دو برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی منامہ کی سڑکیں اور گلیاں بحرین کے مظاہرین سے بھری ہوئی نظر آرہی ہیں لیکن ایک چیز جو ہمیں نظر نہیں آرہی وہ باغیوں کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ ہے جو استعمال نہیں ہو رہا ہے کیونکہ یہ تمام تحریکیں خالصتاً اسلامی بیداری اور انقلابی تحریکیں ہیں جن میں دہشت گردی کا عنصر موجود ہی نہیں ہے۔

بحرین میں کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح فرقہ وارانہ بنیادوں پر عوام کو تقسیم کیا جائے اور اس انقلابی تحریک کو سبوتاژ کیا جائے لیکن بحرین میں بسنے والی تمام اکائیاں بحرین میں موجود امریکی و اسرائیلی ایجنٹ حکمرانوں سے تنگ آچکی ہیں اور حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ یاد رہے یہاں پر دو سال کی تحریکی تاریخ میں عوام نے کسی قسم کا تشدد والا راستہ اختیار نہیں کیا ہے جب کہ حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات کیے گئے ہیں کہ جو تاریخ میں انسانیت کے منہ پر سیاہ دھبے کی مانند ہیں۔

اب ذرا شام کی صورتحال پر غور کیجیے! شام میں بغاوت کو انقلاب کہنے والوں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ شام میں آخر ایسا کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے اور اس کے پس پردہ عناصر اب تو کھل کر بھی سامنے آچکے ہیں۔ شام کی صورتحال کے خراب ہونے کا ایک الگ ہی پس منظر ہے۔ شام جو کہ لبنان کی سرحد کے ساتھ موجود ہے اور زمینی راستہ بھی ہے۔ شام کی خارجہ پالیسی کی مماثلت ایران اور لبنان سے پائی جاتی ہے جس میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی نابودی اور فلسطین و مسجد اقصیٰ و بیت المقدس کی آزادی بنیادی عنصر کے طور پر موجود ہے۔

شام اور ایران کے اچھے تعلقات ہونے کے ساتھ ساتھ لبنان میں موجود اسرائیل اور امریکا مخالف تنظیم حزب اﷲ کے ساتھ بھی شام کے اچھے تعلقات ہیں اور ان تعلقات کا مرکز و محور صرف اور صرف فلسطین کی آزادی اور فلسطینیوں کا حق ان کو دلوانا ہے۔ غرض یہ کہ شام کی حکومت ایک ایسی حکومت ہے جو امریکی کٹھ پتلی نہیں بلکہ امریکا مخالف اور بالخصوص اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اسرائیل کا وجود غیر قانونی ہے لہٰذا اسرائیل کو نابود ہونا چاہیے اور فلسطین کو آزاد ہونا چاہیے۔ فلسطین جو کہ نہ صرف عربوں بلکہ مسلم امہ اور پوری انسانیت کا ایک ایسا اہم ترین مسئلہ ہے جو گزشتہ 65 برسوں سے حل طلب ہے اور فلسطین میں غاصب اسرائیل کی بربریت اور ظلم کی داستانیں پوری دنیا اچھی طرح سے جانتی ہے۔

2003 میں امریکی وزیر خارجہ کولن پائول عراق سے اپنے دورے کے بعد شا م پہنچے اور شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کے دوران انھوںنے بشار الاسد سے مطالبہ کیا کہ شامی حکومت دمشق میں فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے والی اسلامی مزاحمتی تحریکوں بشمول ''حماس، جہاد اسلامی اور حزب اﷲ'' کے دفاتر کو بند کردے اور ان کے مجاہدین کو امریکا کے حوالے کردے۔

کولن پائول کے جواب میں بشار الاسد نے کہا کہ یہ امریکا کا خواب ہے، شا م کسی صورت بھی فلسطین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوگا اور فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے والی فلسطینی تنظیموں کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، ان کے دفاتر جس طرح پہلے کام کر رہے تھے اسی طرح کرتے رہیں گے۔یہ وہ پہلا موقع تھا کہ جب امریکا کو براہ راست مشرق وسطیٰ میں اپنے ناپاک مقاصد میں واضح اور بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2004 میں لبنان میں کام کرنے والی تحریک آزادی فلسطین کی تنظیم حزب اﷲ نے جرمنی کی ثالثی کے معاہدے کے تحت اسرائیل سے ساڑھے چار سو فلسطینی و لبنانی اور شامی قیدیوں کو آزاد کروا لیا اور بدلے میں دو فوجیوں کی لاشیں اسرائیل کو دی گئیں جو ایک آپریشن کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔

2006 میں اسرائیل نے امریکا کی بھرپور مدد کے ساتھ لبنان پر حملہ کردیا اور یہ جنگ 33 روز تک جاری رہی، اس جنگ میں شا م نے لبنان کی بھرپور مدد جاری رکھی اور آخر کار اسرائیل کو جنگ ختم کرنا پڑی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل امریکا نے شام پر عالمی دبائو ڈال کر لبنان میں موجود شامی فوجوں کی واپسی کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن یہ کامیابی اسرائیل کو فائدہ نہ پہنچاسکی۔ اسی طرح 2008ء میں بھی اسرائیل نے فلسطین کے علاقے غزہ پر زبردست حملہ کر کے جنگ کا آغاز کردیا اور یہ جنگ بھی 22 روز جاری رہنے کے بعد اسرائیل کی ناکامی اور پسپائی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی اور اس جنگ کے دوران بھی شامی حکومت نے فلسطینیوں کی دل کھول کر مدد کی اور نہ صرف مالی مدد بلکہ مسلح مدد بھی کی گئی۔

بالآخر 2010 کے آخری اور 2011 کے ابتدائی ایام میں مشرق وسطیٰ کے ممالک میں شروع ہونے والی انقلابی تحریکوں نے جنم لیا اور عالمی استعمار امریکا اور اسرائیل سمیت مغربی دہشت گردوں نے منصوبہ بندی کی کہ اب شام کو بھی شکار کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ شام کے ایک علاقے میں پولیس والے اور ایک ٹیکسی ڈرائیور کے درمیان ہونے والی ''تو تو میں میں'' کو ایک گھنٹے میں بینرز اور پوسٹروں پر اس طرح ہوا دی گئی کہ گویا اس کی تیاری برسوں سے کی جا چکی ہے۔ اس معاملے پر شروع ہونیوالے احتجاج نے بہت تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع کردیا لیکن اس احتجاج کا ''ریورس گیئر'' اس وقت دیکھنے میں آیا کہ احتجاج کی آڑ میں چھپے امریکا اور اسرائیل کے دہشت گردوں نے اسلحے کا استعمال شروع کردیا اور شامی شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کیا اور الزام عائد کیا کہ پولیس نے ان شہریوں کو قتل کیا ہے۔ البتہ مظاہرین حقیقت سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ ماجرا کیا ہے۔

رفتہ رفتہ مظاہروں کا سلسلہ ختم ہوگیا لیکن دہشت گرد جو امریکا، اسرائیل اور دیگر ممالک سے مالی مدد کے ساتھ ساتھ جدید اسلحہ سے لیس تھے وہ کس طرح واپس ہوسکتے تھے البتہ انھوں نے کھلے عام شامی سیکیورٹی فورسز پر حملے شروع کردیے اور شامی شہریوں کو محلوں اور علاقوں میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور شام میں موجود مقدس مقامات کو بھی تباہ کرنے کے لیے حملے کیے گئے، حال ہی میں ایک مسجد میں بم دھماکا کیا گیا جس میں معروف سنی عالم دین سمیت درجنوں معصوم شامی شہری شہید ہوئے۔بہرحال ان تمام لوگوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جو لوگوں کو غلط معلومات فراہم کررہے ہیں اور شام کی صورتحال کو بے روزگاری اور دیگر مسائل کے خلاف انقلاب کا نام دیتے ہیں کیونکہ ایسا کوئی مسئلہ اگر ہوتا تو ہمیں عوامی احتجاج تو نظر آتا لیکن شام میں عوام نہیں بلکہ عوام کے قاتل ہیں جو دوسرے ممالک سے درآمد کیے گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں