غیر فطری زندگی لمحہ فکریہ…
جدید ریسرچ کے مطابق بچوں کے مزاج میں چڑچڑا پن اور بے چینی کی سب سے بڑی وجہ جوسز، ٹافیوں ودیگر اشیاء میں۔۔۔
غیرفطری زندگی گزارنے کے طریقے زندگی کے لیے مستقل خطرہ بنتے جارہے ہیں،آج کے انسان کو بیک وقت بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس میں ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونیوالے خطرات سر فہرست ہیں۔ گلوبل وارمنگ یعنی گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے جو ہر سال نئی جانوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، ڈرون حملوں کی وجہ سے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال الگ فضاؤں کو غیرہموار کررہا ہے، سائنسی ایجادات نے جہاں زندگی کو آسان اور پرآسائش بنا دیا ہے وہاں انسانی زندگی کے لیے کئی اندیشے وخطرات بھی منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔
بعض الیکٹرانک اشیا کے استعمال سے بھی ذہنی دباؤ بڑھ رہا ہے ۔ بعض الیکٹرانک اشیا سے نکلنے والی تابکاری شعاعیں انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں، ان سے الیکٹرو میگنیٹ ایڈیشن کا اخراج انسانی ذہن و جسم کو متاثر کرسکتا ہے، ان سے مختلف بیماریوں کا احتمال رہتاہے، جس میں سفید سیلز کی کمی، دماغی بیماریاں، ہڈیوں کا جھرجھرا پن اورہائی بلڈ پریشر وغیرہ شامل ہیں، یہ ہائی فریکوئنسی والے آلات سے نکلنے والی الیکٹرو میگنیٹ فیلڈ Radon Gasکو اپنی طرف کھینچتی ہے جس سے کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، یورپ میں ہر جگہ ان الیکٹرانک آلات کے خلاف مظاہرے کیے جاتے رہے ہیں اور بتایاگیاکہ ان آلات کی وجہ سے بعض اسکولز کے بچوں کی صحت متاثر ہوئی، جس میں دماغی توازن کا اچانک کھوجانا، بصارت وسماعت سے محرومی اور نروس سسٹم پر مضر اثرات شامل ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بجلی کی تاروں کی فٹنگ زیر زمین ہوتی ہے ۔امریکا میں لکڑی کے پول بنائے گئے ہیں جب کہ ہمارے ہاں برسات کے دنوں میں بجلی کے پول کو چھونے سے پے در پے اموات ہوتی ہیں، ان پولز پر لگی تاریں ٹوٹنے سے الگ حادثے رونما ہوتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ گھروں میں استعمال ہونیوالے مائیکرو ویوز اور بجلی سے چلنے والی اشیاء صحت کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہیں، یہ تک کہا جاتا ہے کہ بیڈروم میں رکھا ہوا فرج بھی سکون میں خلل کا باعث بن سکتاہے، بجلی کی ان اشیاء سے جہاں سہولتیں بڑھی ہیں وہاں حرکت وجسمانی مشق کی کمی کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔
جسمانی ہلچل کی وجہ سے اینڈرو فین ہارمونز پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور جسم سکون سے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتارہتاہے، دماغ کو جن ہارمونز کی ضرورت ہوتی ہے، ورزش سے ان کی رسائی دماغ تک ہوتی رہتی ہے، کہا جاتا ہے کہ حیاتاتی خلیے120 سال تک کارآمد رہتے ہیں ، پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی اوسط عمر100 سال یا اس سے بھی زیادہ پائی جاتی ہے۔آج کل ترقی یافتہ ملکوں میں دوائیں کم سے کم دی جاتی ہیں جس کا متبادل پیدل چلنا یا ورزش بتائی جاتی ہے، ایک گھنٹے میں5 یا6 کلو میٹر پیدل چلنے کا مطلب ہے کہ400 کیلوریز خرچ ہوتی ہیں یعنی 30 منٹوں میں200 کیلوریز لیکن اگر 3 یا 4 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار سے پیدل چلا جائے تو 30 منٹوں میں140 کیلوریز خرچ ہوجاتی ہیں، اس سے وزن اعتدال پر رہنے کے ساتھ بہت سی بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے۔
جو لوگ زیادہ پیدل نہیں چل سکتے انھیں تنفس کی مشقیں بتائی جاتی ہیں جدید ریسرچ کے مطابق سانس لینے کا طریقہ اگر غلط ہو تو بھی صحت متاثر ہوتی ہے، ذہنی دباؤ، خوف و پریشانی میں سانس لینے کا عمل متاثر ہوتاہے جس کی وجہ سے آکسیجن کا بہاؤ جسم کے خلیوں تک نہیں پہنچ پتا، غذا اور دواؤں سے بھی زیادہ موثر سانس لینے کا صحیح طریقہ ہے، یہی وجہ ہے کہ صوفی ہوں یا یوگی انسان کو ہر حال میں پرسکون رہنے اور قناعت پسندی کی ترغیب دیتے ہیں، یوگا ومیڈیٹیشن (مراقبہ) میں گہری سانسوں کے طریقے بتائے جاتے ہیں جنھیں صحت مند ذہن وجسم کا پیش خیمہ سمجھاجاتاہے، جس کے لیے ایک نئی اصطلاح بھی ایجاد کی گئی ہے جسے Concious breathingشعوری طورپر محسوس کرکے سانس لینے کا عمل کہاجاتاہے۔
مصروفیت میں یہ عمل محسوس نہیں ہوتا جس کے لیے کہاجاتاہے کہ دن میں چند لمحے ایسے نکالیے جس میں گہری سانسیں لیتے ہوئے اس عمل کو محسوس کیاجائے، یوں چند لمحے حال میں واپس آنے سے ماضی اور مستقبل سے رابطہ منقطع ہوجاتاہے۔
جہاں تک ہماری غذا کا تعلق ہے تو لوگوں کو آج کل ہوٹلوں کے کھانے یا پھر Frozen Food منجمد غذا پر گزارا کرنا پڑتاہے جسے processed food (ایک کیمیائی عمل کے تحت محفوظ کی گئی غذا) کہاجاتاہے جس میں شامل بعض کیمیائی اجزا مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں جن میں کینسر بھی شامل ہے ۔جنک یا فاسٹ فوڈ بھی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہاہے، فاسٹ فوڈ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ وامریکا میں مقبول ترین کھانوں کا سلسلہ بنا، جس نے ایشیا کے ملکوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے، ان کھانوں میں بھی فریزڈ گوشت وسبزیاں استعمال ہوتی ہیں یہ کھانے مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
جدید ریسرچ کے مطابق بچوں کے مزاج میں چڑچڑا پن اور بے چینی کی سب سے بڑی وجہ جوسز، ٹافیوں ودیگر اشیاء میںSynltetic Food Colorsکا استعمال ہے، یہ تمام کیمیائی اجزا چاکلیٹ وغیرہ میں بھی پائے جاتے ہیں، کھانے یا گھر پر استعمال ہونیوالے کیمیکلز الرجی کا سبب بنتے ہیں۔ غذا سے ہونے والی الرجی آج کل عام ہونے لگی ہے، جدید کھانوں میں 3500کیمیائی اجزاء شامل کیے جاتے ہیں جو مصالحوں سے لے کر پروسیسڈ فوڈ بچوں کے کھانے کی تمام اشیاء، جوسز، سافٹ ڈرنکس کھانے کے تیل، خشک وپیکٹس کے دودھ میں پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں گھر کی صفائی کے لیے استعمال ہونے والی کیمیائی مصنوعات جن میں مچھر وکیڑے مارنے والی دوائیں بھی اکثر الرجی وغیرہ کا سبب بنتی ہیں، غذا میں ملاوٹ موجودہ دور کا سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اکثر وبائی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں، محکمہ صحت جنھیں قابو پانے میں اکثر ناکام رہتاہے گھروں کے سامنے، گلیوں، محلوں و راستوں اور سڑکوں پر کوڑے کرکٹ وگند کے انبار لگے دکھائی دیتے ہیں اور میونسپل کارپوریشنز ایسا لگتاہے گہری نیند سورہی ہوں، اس کوتاہی وغفلت کے نتیجے میں ہر سال بے شمار قیمتی جانیں ضایع ہوجاتی ہیں مگر کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آتا،حقیقتاً یہ سادہ کھانے اور ورزش گرتی ہوئی صحت میں بہتری لانے کا سبب بنتے ہیں، جدید تحقیق کے مطابق اگر روزانہ پانچ سبزیوں پر مشتمل سلاد کی پلیٹ کھائی جائے تو طبعی عمر میں دس سال کا اضافہ ہوسکتاہے۔
بعض الیکٹرانک اشیا کے استعمال سے بھی ذہنی دباؤ بڑھ رہا ہے ۔ بعض الیکٹرانک اشیا سے نکلنے والی تابکاری شعاعیں انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں، ان سے الیکٹرو میگنیٹ ایڈیشن کا اخراج انسانی ذہن و جسم کو متاثر کرسکتا ہے، ان سے مختلف بیماریوں کا احتمال رہتاہے، جس میں سفید سیلز کی کمی، دماغی بیماریاں، ہڈیوں کا جھرجھرا پن اورہائی بلڈ پریشر وغیرہ شامل ہیں، یہ ہائی فریکوئنسی والے آلات سے نکلنے والی الیکٹرو میگنیٹ فیلڈ Radon Gasکو اپنی طرف کھینچتی ہے جس سے کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، یورپ میں ہر جگہ ان الیکٹرانک آلات کے خلاف مظاہرے کیے جاتے رہے ہیں اور بتایاگیاکہ ان آلات کی وجہ سے بعض اسکولز کے بچوں کی صحت متاثر ہوئی، جس میں دماغی توازن کا اچانک کھوجانا، بصارت وسماعت سے محرومی اور نروس سسٹم پر مضر اثرات شامل ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بجلی کی تاروں کی فٹنگ زیر زمین ہوتی ہے ۔امریکا میں لکڑی کے پول بنائے گئے ہیں جب کہ ہمارے ہاں برسات کے دنوں میں بجلی کے پول کو چھونے سے پے در پے اموات ہوتی ہیں، ان پولز پر لگی تاریں ٹوٹنے سے الگ حادثے رونما ہوتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ گھروں میں استعمال ہونیوالے مائیکرو ویوز اور بجلی سے چلنے والی اشیاء صحت کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہیں، یہ تک کہا جاتا ہے کہ بیڈروم میں رکھا ہوا فرج بھی سکون میں خلل کا باعث بن سکتاہے، بجلی کی ان اشیاء سے جہاں سہولتیں بڑھی ہیں وہاں حرکت وجسمانی مشق کی کمی کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔
جسمانی ہلچل کی وجہ سے اینڈرو فین ہارمونز پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور جسم سکون سے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتارہتاہے، دماغ کو جن ہارمونز کی ضرورت ہوتی ہے، ورزش سے ان کی رسائی دماغ تک ہوتی رہتی ہے، کہا جاتا ہے کہ حیاتاتی خلیے120 سال تک کارآمد رہتے ہیں ، پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی اوسط عمر100 سال یا اس سے بھی زیادہ پائی جاتی ہے۔آج کل ترقی یافتہ ملکوں میں دوائیں کم سے کم دی جاتی ہیں جس کا متبادل پیدل چلنا یا ورزش بتائی جاتی ہے، ایک گھنٹے میں5 یا6 کلو میٹر پیدل چلنے کا مطلب ہے کہ400 کیلوریز خرچ ہوتی ہیں یعنی 30 منٹوں میں200 کیلوریز لیکن اگر 3 یا 4 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار سے پیدل چلا جائے تو 30 منٹوں میں140 کیلوریز خرچ ہوجاتی ہیں، اس سے وزن اعتدال پر رہنے کے ساتھ بہت سی بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے۔
جو لوگ زیادہ پیدل نہیں چل سکتے انھیں تنفس کی مشقیں بتائی جاتی ہیں جدید ریسرچ کے مطابق سانس لینے کا طریقہ اگر غلط ہو تو بھی صحت متاثر ہوتی ہے، ذہنی دباؤ، خوف و پریشانی میں سانس لینے کا عمل متاثر ہوتاہے جس کی وجہ سے آکسیجن کا بہاؤ جسم کے خلیوں تک نہیں پہنچ پتا، غذا اور دواؤں سے بھی زیادہ موثر سانس لینے کا صحیح طریقہ ہے، یہی وجہ ہے کہ صوفی ہوں یا یوگی انسان کو ہر حال میں پرسکون رہنے اور قناعت پسندی کی ترغیب دیتے ہیں، یوگا ومیڈیٹیشن (مراقبہ) میں گہری سانسوں کے طریقے بتائے جاتے ہیں جنھیں صحت مند ذہن وجسم کا پیش خیمہ سمجھاجاتاہے، جس کے لیے ایک نئی اصطلاح بھی ایجاد کی گئی ہے جسے Concious breathingشعوری طورپر محسوس کرکے سانس لینے کا عمل کہاجاتاہے۔
مصروفیت میں یہ عمل محسوس نہیں ہوتا جس کے لیے کہاجاتاہے کہ دن میں چند لمحے ایسے نکالیے جس میں گہری سانسیں لیتے ہوئے اس عمل کو محسوس کیاجائے، یوں چند لمحے حال میں واپس آنے سے ماضی اور مستقبل سے رابطہ منقطع ہوجاتاہے۔
جہاں تک ہماری غذا کا تعلق ہے تو لوگوں کو آج کل ہوٹلوں کے کھانے یا پھر Frozen Food منجمد غذا پر گزارا کرنا پڑتاہے جسے processed food (ایک کیمیائی عمل کے تحت محفوظ کی گئی غذا) کہاجاتاہے جس میں شامل بعض کیمیائی اجزا مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں جن میں کینسر بھی شامل ہے ۔جنک یا فاسٹ فوڈ بھی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہاہے، فاسٹ فوڈ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ وامریکا میں مقبول ترین کھانوں کا سلسلہ بنا، جس نے ایشیا کے ملکوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے، ان کھانوں میں بھی فریزڈ گوشت وسبزیاں استعمال ہوتی ہیں یہ کھانے مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
جدید ریسرچ کے مطابق بچوں کے مزاج میں چڑچڑا پن اور بے چینی کی سب سے بڑی وجہ جوسز، ٹافیوں ودیگر اشیاء میںSynltetic Food Colorsکا استعمال ہے، یہ تمام کیمیائی اجزا چاکلیٹ وغیرہ میں بھی پائے جاتے ہیں، کھانے یا گھر پر استعمال ہونیوالے کیمیکلز الرجی کا سبب بنتے ہیں۔ غذا سے ہونے والی الرجی آج کل عام ہونے لگی ہے، جدید کھانوں میں 3500کیمیائی اجزاء شامل کیے جاتے ہیں جو مصالحوں سے لے کر پروسیسڈ فوڈ بچوں کے کھانے کی تمام اشیاء، جوسز، سافٹ ڈرنکس کھانے کے تیل، خشک وپیکٹس کے دودھ میں پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں گھر کی صفائی کے لیے استعمال ہونے والی کیمیائی مصنوعات جن میں مچھر وکیڑے مارنے والی دوائیں بھی اکثر الرجی وغیرہ کا سبب بنتی ہیں، غذا میں ملاوٹ موجودہ دور کا سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اکثر وبائی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں، محکمہ صحت جنھیں قابو پانے میں اکثر ناکام رہتاہے گھروں کے سامنے، گلیوں، محلوں و راستوں اور سڑکوں پر کوڑے کرکٹ وگند کے انبار لگے دکھائی دیتے ہیں اور میونسپل کارپوریشنز ایسا لگتاہے گہری نیند سورہی ہوں، اس کوتاہی وغفلت کے نتیجے میں ہر سال بے شمار قیمتی جانیں ضایع ہوجاتی ہیں مگر کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آتا،حقیقتاً یہ سادہ کھانے اور ورزش گرتی ہوئی صحت میں بہتری لانے کا سبب بنتے ہیں، جدید تحقیق کے مطابق اگر روزانہ پانچ سبزیوں پر مشتمل سلاد کی پلیٹ کھائی جائے تو طبعی عمر میں دس سال کا اضافہ ہوسکتاہے۔