پاکستان پیپلز پارٹی اور آیندہ عام انتخابات
بی بی شہید کا ذکر کرتے ہوئے ایک فلم سی ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔
پانچ سالہ جمہوری دور اپنے اختتام کو پہنچا تو لاقانونیت، مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی لوٹ مار کے ستائے ہوئے مظلوم عوام نے سکھ کا سانس لیا کہ ''کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے''۔ واقعی جمہوریت سے بڑا انتقام اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی نے بے چارے عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ، جسم سے پھٹا پرانا لباس اور سر سے رہا سہا سائبان بھی چھین لیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ سابق حکمرانوں کا انتخابی نعرہ اب بھی وہی ''روٹی، کپڑا اور مکان'' ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ابتداء کے پورے پانچ سال گزرنے کے بعد بھی یہ نعرہ بدحالی کا شکار عوام کے لیے اپنے اندر مزید کسی کشش کا حامل ہے؟ اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔
تاہم اس بات سے انکار نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے یہی نعرہ بلند کرکے پاکستانی عوام کے اس حد تک دل جیت لیے تھے کہ وہ قائد عوام کہلائے۔ ان کے بعد ان کی جانشین ان کی بیٹی شہید بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے والد کی پیروی کرتے ہوئے اسی نعرے کو اپنی عوامی سیاست کی بنیاد بناکر عوام کے دلوں میں گھر کیا اور عوام نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ لیکن افسوس قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور ان کی مخالف قوتوں نے دونوں مرتبہ ان کی حکومت کو ناکامی سے دوچار کردیا، حتیٰ کہ ان کے وجود کو ہی صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا۔
بی بی شہید کا ذکر کرتے ہوئے ایک فلم سی ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ ان کے پہلے دور حکومت میں بھی ہمیں ریڈیو پاکستان کے نمایندے کی حیثیت سے ان کے عوامی جلوسوں کو کور کرنے کے مواقعے میسر آئے اور ہم نے دیکھا کہ تمام علاقوں کے عوام ان کی تقریریں سننے کے لیے نہایت جوش و خروش کے ساتھ دور دراز کے علاقوں سے چل چل کر آیا کرتے تھے۔
اگرچہ بی بی میں اپنے والد والی کرشماتی کشش تو نہیں تھی لیکن بھٹو کے عقیدت مندوں کو ان میں ان کے عظیم باپ کا عکس ضرور نظر آیا کرتا تھا۔ ہماری آنکھوں میں وہ مناظر آج بھی محفوظ ہیں جو ہم نے ان کے تاریخی دورہ بلوچستان میں ہر اس مقام پر دیکھے تھے جہاں جہاں انھوں نے عوام سے خطاب کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب بی بی شہید نے ملک کے اس پسماندہ ترین صوبے کا ایک طوفانی دورہ کیا تھا اور عوام کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر انھیں دیکھنے اور سننے کے لیے امڈ آیا تھا۔
بلاشبہ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی شخصیت اور ان کی شہید بیٹی سے عوام کا والہانہ لگاؤ ہی تھا کہ جس کے نتیجے میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا نادر موقع میسر آیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھیں پورے پانچ سال تک اقتدار پر مکمل کنٹرول بھی حاصل رہا اور افواج پاکستان اور عدلیہ نے بھی انھیں بلا روک ٹوک حکمرانی کا بھرپور موقع دیا۔ اتنے طویل عرصے تک حکومت چلانے کا موقع اس سے قبل کسی اور کو میسر نہیں آیا تھا، حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایسے سنہری موقعے سے محروم ہی رہے تھے۔
آصف علی زرداری کو اس لحاظ سے مقدر کا سکندر ہی کہا جاسکتا ہے کہ انھیں نہایت آسانی کے ساتھ مسند صدارت تک رسائی حاصل ہوئی اور پارٹی کی قیادت اپنی شہید بیوی سے ورثے میں حاصل ہوئی۔ یہ بات ان کے خواب و خیال میں بھی نہ آئی ہوگی کہ کبھی قسمت کی دیوی ان پر اس حد تک مہربان ہوگی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ انھیں ایسا سازگار ماحول بھی میسر آیا جو اس سے قبل پاکستان کے کسی اور سیاسی قائد کو بھی میسر نہ آیا تھا۔
انھیں نہ صرف پاکستان کے عوام اور اپنی پارٹی کی مکمل ہمدردی حاصل تھی بلکہ اپنی حلیف جماعتوں کے علاوہ اپنی حریف سیاسی جماعت مسلم لیگ(ن) کی سپورٹ بھی حاصل تھی۔ قدرت نے انھیں ایک ایسا شاندار موقع دیا تھا کہ وہ ماضی کے برعکس عوام کی بہترین خدمت کرکے بے حد مقبولیت حاصل کر سکتے تھے۔ عوام کو بھی ان سے یہی توقع تھی کہ وہ ان کی بے لوث خدمت کریں گے،مگر جو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس ہوا۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
ان سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ ان پر پورا نہیں اتر سکے۔ انھوں نے خوش بختی کے نتیجے میں حاصل ہونے والے انتہائی سنہری موقعے کو اپنی سیاسی مصلحتوں کی نذر کردیا۔ وہ جسے مفاہمت کا نام دیتے رہے وہ دراصل ان کی سیاست تھی۔ انگریزی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ آپ تھوڑے عرصے کے لیے تمام لوگوں کو بے وقوف بناسکتے ہیں، چند لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لیے تمام لوگوں کو بے وقوف نہیں بناسکتے۔ کاش! ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہوتا کہ لوگوں کو بے وقوف بنانا یا سمجھنا کاٹھ کی ہانڈی کے مترادف ہوتا ہے جو صرف ایک مرتبہ ہی چولہے کی آنچ کو برداشت کرسکتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کے گزرنے کے بعد بہت سا پانی پل کے نیچے سے گزر چکا ہے اور میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کی یلغار نے عوامی شعور کی توقع سے بڑھ کر بیدار کردیا ہے۔ لہٰذا آج کے دور میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ معاملات کو لوگوں کی نظروں سے چھپایا جائے یا حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا جائے۔ اس طرح کی حرکت موجودہ دور میں Back Fire ہی کیا کرتی ہے جس کے نتیجے میں فائدے کے بجائے الٹا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ چنانچہ عافیت اب اسی میں ہے کہ سابقہ فرسودہ سیاسی حربوں کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور وہی بات کی جائے جسے آسانی کے ساتھ نبھایا جاسکے۔
اب جب کہ عام انتخابات سر پر ہیں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی بڑی حد تک مشکلات سے دو چار نظر آرہی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ اس کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل ہوچکا ہے اور اس پر اب صرف سابقہ قیادت کی چھاپ ہی باقی رہ گئی ہے۔ پارٹی کے کارکنوں میں اب نہ وہ پہلے جیسا جذبہ موجود ہے اور نہ وہ لگاؤ ہے جو کبھی جیالوں کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔ اکثر کارکن یہ گلہ اور شکایات کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ
نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
صوبہ سندھ جو پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے وہاں بھی پارٹی کارکنان میں ایک بد دلی اور بیزاری کی سی کیفیت پائی جاتی ہے جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ پارٹی اندرونی انتشار اور خلفشار کا شکار ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا گزشتہ پانچ سالہ دور حکمرانی بحران در بحران اور طوائف الملوکی سے عبارت ہے۔ اس عرصے میں ہزاروں کارخانوں اور ملوں پر تالے پڑ گئے جب کہ غریبوں کے اکثر گھرانوں کو روٹیوں کے لالے پڑ گئے۔ ہوش ربا گرانی نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی اور مڈل کلاس زبوں حالی کا شکار ہوتے ہوتے لوئر مڈل کلاس میں تبدیل ہوگئی۔
پیپلز پارٹی کے حوالے سے زمینی حقائق نہایت تلخ اور سنگین ہیں اور اقتدار سے باہر ہوجانے کے بعد اس کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے یار دوست بھی اس کی جانب سے منہ پھیرتے جارہے ہیں اور پیپلز پارٹی سے اپنا رشتہ توڑ کر فنکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ ان حالات میں آیندہ عام انتخابات میں اپنی سابقہ پوزیشن کو برقرار رکھنا بھی پیپلز پارٹی کے لیے کسی غیر معمولی چیلنج سے کم نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کی قیادت کون سا نیا حربہ استعمال کرتی ہے۔