جدید معیشت

جوان نظامِ سرمایہ داری کا اہم مہرہ ہے۔ جب کہ بوڑھا فرد معیشت کے لیے بوجھ کے مترادف ہے۔


Shaikh Jabir April 06, 2013
[email protected]

آج کے کاروبار کی غایت کواگر ایک جملے میں بیان کرنا ہو تووہ ہے''مکسا مائز دا پرافٹ'' یعنی آج ہر انفرادی یا اجتماعی کاروبار اپنے نفع کو لامحدود وسعت دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔یہ وہ مقصدِ حیات ہے جو ہر کثیرالقومی ادارے سے لے کر انفرادی شخص تک کو شعوری یا غیر شعوری طور پراپنانے پر مجبورکردیا گیا ہے۔ہر کاروباری، ہر ادارہ لامحدود نفع کمانے کی حرص لے کر کام شروع کرتا ہے۔ یہ سر تا سر اپنی مادی خدمت ہوتی ہے۔لیکن اشتہارات اور خوش نما الفاظ کے ذریعے دھوکا یہ دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ عوام کی خدمت کے لیے میدان میں آئے ہیں۔یہ ہی جدید مغربی علمیت،ذہنیت، روش اور جدید معیشت ہے۔

ایک دور تھا کہ روایتی تہذیبوں میں امانت دار ہوا کرتے تھے۔لوگوں کی امانتیں اُن کے پاس بغیر کسی معاوضے کے رکھی جاتی تھیں۔اِن امانتوں کو استعمال کرنا خیانت تصور کیا جاتا تھا۔بعینہ اِن امانتوں کی چوری کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ اُس زمانے میں بھی چور ڈاکو ہوا کرتے تھے لیکن ایسا اندھیر نہ تھا۔ایک اندازے کے مطابق انسانی تاریخ میں اتنے چور ڈاکو پیدا نہیں ہوئے جتنے گزشتہ صرف ایک صدی میں امریکا میں پیدا ہوئے ۔

سوال یہ ہے کہ اچانک اتنے چور ڈاکو اکیسویں صدی میں کیوں پیدا ہو گئے؟آخر ایسا کیوں ہے کہ آج کوئی فرد،کوئی ادارہ کسی فرد کی امانت اپنے پاس بغیر کسی معاوضے یا نفع کے رکھنے کو تیار نہیں؟کیا وجہ ہوئی جو بلا معاوضہ امانتیں رکھنے اور رکھوانے کا قدیم نظام ختم ہو گیا ؟کیا وہ انسان ہی مرگیا جو بغیر کسی لالچ کے لوگوں کی امانتیں اپنے پاس رکھتا تھا۔اِس کار کو کارِ خیر اور نیکی سمجھتا تھا۔وہ تہذیب ہی ختم ہو گئی یا کر دی گئی جہاں خدمات کا معاوضہ وصول کرنا حرام سمجھا جاتا تھا۔

خدمات کے نام پر اپنے کاروبار کو چمکانا ۔لوگوں کو دھوکا دینا،خوش نما الفاظ سے اُنہیں بے وقوف بنانا آج علم ،فن،سائنس اورکاروبار قرار پا گیا ہے۔آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ امانت کی رقم کی واپسی کے وقت کٹوتی کی جاسکے۔اپنی ہی رقم واپس لیتے ہوئے پچاس ہزار سے زائد پر پیسے منہا کر لیے جائیں۔امانت پر ٹیکس لگانے کا طریقہ کبھی کہیں رائج نہ تھا۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ امانتوں کو آگے بڑی بڑی ضمانتوں پر قرض دے کر مقررہ یا غیر مقررہ شرح سے نفع بٹورا جائے۔امانت کی رقم سے تخلیقِ زر تو آج ہی کا کاروبار ہے۔

کبھی کسی تہذیب میں آمدنی پر یورپ ،امریکا کی طرح پچاس پچپن فی صد ٹیکس عائد نہیں کیا گیا۔یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ظالم سے ظالم بادشاہ بھی رعایا کی آمدنی پر پچپن فی صد ٹیکس عائد نہیں کر سکتا تھا۔آج جدید معیشت کے نفاذ اور تمام تر ترقی کے بعد مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ اگر حکومتیں بھاری ٹیکس نہ لیں تو لوگوں کو سہولتیں کیسے فراہم کریں؟امریکا میں لاکھوں شہری ہر سال طبی سہولیات نہ ملنے کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔امریکا میں طبی سہولیات مفت نہیں ملا کرتیں۔جیسے کچھ عرصہ قبل تک ہمارے ہاں تھا ۔ لوگ سِول اسپتال یا سرکاری دواخانوں سے علاج کروایا کرتے تھے۔معائنہ بھی کیا جاتا ہے اور دوائیں بھی مفت ملا کرتی ہیں۔آج بھی یہ نظام موجود ہے۔ بے شمار افراد آج بھی اس سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

بہر حال امریکا میں طبی امداد مفت میں نہیں ملا کرتی انشورنس کے ذریعے ملتی ہے۔ امریکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2010 میں موجودہ صدر باراک اوباما نے بے سہارا لوگوں کے لیے مفت طبی انشورنس کا اعلان کیا۔( پیشنٹ پرو ٹیکشن اینڈ افورڈ ایبل کئیر ایکٹ،وغیرہ)برطانیہ اور یورپ میں طبی سہولیات ریاست کی ذمے داری ہے۔یورپ میں افزائش کی شرح منفی ہے۔وہاں طبی اخراجات ریاست برداشت کرتی ہے۔برطانیہ میں آبادی کسی درجہ زیادہ ہے۔وہاں یکساں مفت طبی سہولیات کے علی الرغم چند پیچیدہ مسائل سر اُبھار رہے ہیں۔ مثلاً اگر جوان اور بوڑھے کا آپریشن ہو توریاست جوان کو بوڑھے پر ترجیح دیتی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔

جوان نظامِ سرمایہ داری کا اہم مہرہ ہے۔ جب کہ بوڑھا فرد معیشت کے لیے بوجھ کے مترادف ہے۔ یورپ میں بوڑھے بڑھتے جا رہے ہیں۔مزید بچے پیدا نہیں ہو رہے۔ بوڑھوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر طبی اور دیگر مصارف بے پناہ آ رہے ہیں۔جوان اور حکومتیں ان مصارف سے پریشان ہیں۔یہاں تک کہ جوانوں کے دو ووٹ اور بوڑھوں کے ایک ووٹ کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔سہولیات کی فراہمی کے لیے فرانس میں بھاری ٹیکس عائد ہیں۔لیکن معیشت کی زبوں حالی کے باعث کئی سہولیات ختم کر دی گئی ہیں اورکئی سہولیات مثلاً پینشن ،مستقل ملازمت،طبی سہولیات وغیرہ میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کر دی گئی ہے۔کہنا یہ ہے کہ وہاں جوٹیکس وصول کیے جا رہے ہیں وہ کم پڑ رہے ہیں۔

ٹیکسوں کے بغیر معیارِ زندگی ممکن نہیں۔جہاں معیارِ زندگی شرحِ آبادی منفی کر کے حاصل کرلیا گیا وہاں چند لا ینحل مسائل نے ایسا سر اٹھایا ہے کہ تہذیب ہی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔وہ شدید ترین مسئلہ ہے زندگی کی معنویت کا اختتام۔سوئیڈن ،سوئزر لینڈ اور اسکینڈے نیویا میں عجیب صورتحال ہے۔وہاں جدید معیشت کے تحت یقینا ایک لحاظ سے بڑی ترقی اور کامیابی کا حصول ممکن ہوالیکن وہاں خود کشی کی شرح خطرناک ترین حدوں کو چھو رہی ہے۔وہاں شرحِ افزائش منفی ہے۔تمام تر ترقی نے،''سر پلس بجٹ'' نے خود زندگی کو بوجھ بنا دیا ہے۔ یہ کیسی زندگی ہے جو زندگی ہی کے درپے ہے؟نظریہ افادیت نے روپے پیسے اور سرمائے کے آگے ہر چیز کی افادیت کو ختم کر دیا ہے، یہاں تک کہ خود انسان کی افادیت بھی۔

فن کار، سائنسدان، سودی کاروباری، ساہوکار، کھلاڑی، پہلوان،اداکار، ہیرو،ہیروئن،گلوکار، مداری، مسخرے یہ سب جدیدیت کے صنم خانے میں سجے بڑے بڑے بُت ہیں۔ جدید معیشت کا آزر نئے نئے صنم تراش رہا ہے۔پوری دنیا ان کی پرستش میں لگی ہے۔ان کی ہر ہر ادا لائقِ تقلید سمجھی جاتی ہے۔آج کھیل تماشا زندگی بن گیا ہے اور زندگی کو کھیل تماشا بنا دیا گیا ہے۔یہاں تک کہ کھلاڑیوں کے لباس بھی اشتہار ہوتے ہیں۔اشتہارات میں بھی کھلاڑی نظر آتے ہیں۔اِسے صحت مند تفریح قرار دیا جاتا ہے۔اولمپک کھیلوں کے دوران جتنی شراب پی جاتی ہے ،اتنی شراب یورپ کے بیس ملکوں میں ایک سال میں پی جاتی ہے۔قحبہ گری الگ ہے۔

جنوبی افریقا میں ہاکی کے کھیل کے سالانہ مقابلوں کے دوران قحبہ گری پر عائد پابندی ایک ہفتے کے لیے اُٹھا لی گئی۔اس سے بھاری آمدنی ہوئی۔جدید معاشیات سکھاتی ہے کہ اصل چیز تو آمدنی اور مضبوط معیشت ہے۔مضبوط معیشت کے سامنے عزت،آبرو، غیرت، حیا، عفت یہ سب بے معنی الفاظ و جذبات ہیں۔آج ہر ملک کھیلوں کی میزبانی کا خواہاں ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کرسکے۔اخلاق اور روایات کا معیشت سے کیا تعلق۔ یاد کیجیے چین میں جب اولمپک کھیل ہوئے تو بیجنگ کی فضائی آلودگی صاف کرنے کے لیے وہاں کے دھواں اُگلنے والے کارخانے تک بند کر دیے گئے۔چین اور بیجنگ کی فضائی آلودگی کی شرح بہت خطرناک ہے۔لہٰذا مہمانوں کے لیے اُسے کم کردیا گیا لیکن جوں ہی اولمپک ختم ہوئے آلودگی پھر شروع کر دی گئی۔

بات یہ نہیں کہ چین کے شہریوں کی جان کی کوئی قیمت نہیںاور مہمانوں کی جان قیمتی ہے۔ بات یہ ہے کہ اصل قیمت سرمائے کی ہے۔ آلودگی پھیلنے سے،کارخانے چلنے سے سرمائے میں اضافہ ہورہا ہے تو اس کے آگے انسانی جان بے قیمت ہے۔ اور جب مہمان کے آنے سے سرمایہ آئے گا اور آلودگی جاری رہی تو سرمایہ نہیں آسکے گا تو آلودگی کم کر دی گئی۔عزت مہمان کی نہیں ،انسان کی نہیں ،سرمائے کی ہے۔جدید معیشت وہ ہے جس کا مقصدصرف اور صرف سرمائے میںاضافے کو عام کرنا ہے۔سترہویں صدی کے بعد صرف ضروریات کے لیے روزی کمانے کے بجائے کام برائے منافع اور بڑھوتری سرمایہ برائے بڑھوتری سرمایہ ہی اصل مقصدِ زندگی بن گیا ہے۔

کبھی اصل قیمت انسان کی ہوا کرتی تھی۔مال و دولتِ دنیا انسان کے لیے تھا۔آج سرمایہ اصل ہے اور انسان۔۔۔وہ تو خود اپنے لیے بھی نہیں بچا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں