بُک شیلف

مشاہیر اور مقبول شخصیات کے لکھے مکاتیب کی اپنی ایک تاریخ ہوتی ہے۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
صحیفہ
مکاتیب نمبر(حصہ دوم)
قیمت: 580 روپے
ناشر: مجلس ترقی ادب کلب روڈ، لاہور

مشاہیر اور مقبول شخصیات کے لکھے مکاتیب کی اپنی ایک تاریخ ہوتی ہے، کیونکہ یہ خطوط کوئی عام تحریر نہیں ہوتی کہ جسے کسی نے پڑھا اور کسی نے نہیں، اور نظرانداز کر دیا، یہ تو ادبی فن پارے ہوتے ہیں جن سے ناصرف ادب کی ترویج ہو تی ہے بلکہ مشاہیر کے باہمی روابط اور بعض چھپے گوشے بھی منظر عام پر آتے ہیں۔ آپ ایسے مکاتیب کو ایک طرح کی سوانح نگاری بھی کہہ سکتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ایسے مکاتیب سوانح نگاری میں ممد ومعاون ثابت ہوتے ہیں ۔ مجلس ترقی ادب نے مکاتیب نمبر چھاپنے کا سلسلہ شروع کر کے بہت بڑا کام کیا ہے بلکہ یوں کہیں کہ کمال کر دیا ہے۔

اس شمارے میں امیر مینائی، سید سلیمان ندوی، یاس یگانہ چنگیزی، فانی بدایونی، مولانا حامد علی خان، عبدالمجید قرشی، عطیہ فیضی، علامہ عنایت اللہ مشرقی، ڈاکٹر وزیر آغا ، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، رئیس امروہوی، سید ضمیر جعفری، قدرت اللہ شہاب، ڈاکٹر جاوید اقبال، عبداللہ حسین، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی اور دیگر نامور شخصیات کے چار سو سے زائد خطوط شامل کئے گئے ہیں۔ مکاتیب میں ادبی چاشنی، سلاست ، بے ساختگی، سادگی اور پر کاری نقطہ کمال پر ہے، جیسے امیر مینائی اپنے شاگرد رتن ناتھ سرشار کو لکھتے ہیں '' یار ستم ، سرشار ہو کر ہوشیار تمھیں کو دیکھا۔ تغافل کی ادا اگر داخل حسن تھی تو کبھی اپنے مطلب میں بھی بھول چوک ہوتی مگر نہیں ایسا کیوں ہونے لگا، سرشار بکار خویش ہشیار۔ اب کہو بے مروت تم ہو یا وہ جو تمھاری مثنوی دیکھنے سے انکار کرے اور میں انکار تو جب کرتا کہ تمھارا متوالا پن مجھے محبوب نہ ہوتا۔'' ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے صحیفہ کا مکاتیب نمبر خاصے کی چیز ہے۔

٭٭٭

دور کتنی ہے خورشید محشر کی لو
مصنف : ڈاکٹر عرفان احمد بیگ
قیمت: 1200روپے
صفحات: 294
ناشر: نیو کالج پبلی کیشنز،آرچر روڈ ،کوئٹہ

شہید زندہ ہوتے ہیں، ایسا صرف ہمارے مذہب اسلام میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام الہامی مذاہب میں یہی تصور ہے۔ پاکستان گزشتہ چند سالوں سے جس طرح سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے اس کی وجہ سے وقفے وقفے سے پورے ملک میں سانحات رونما ہوتے رہتے ہیں، تاہم پاک فوج کی کوششوں سے دہشت گردی کی لہر پر کافی حد قابو پا لیا گیا ہے۔ انھی سانحات میں سے ایک دلدوز سانحہ، سانحہ کوئٹہ ہے جو 8 اگست 2016ء کو پیش آیا جس میں سو کے قریب وکلاء شہید اور ڈیڑھ سو زائد زخمی ہوئے۔ زیر تبصرہ کتاب اسی سانحہ کوئٹہ کے شہداء کی یاد میں تحریر کی گئی ہے۔

جس کے لئے اس سانحے میں شہید ہونے والے ضیاء الدین ایڈووکیٹ کے والد سید عبدالرب نے کاوش کی، مصنف نے جب ان سے کہا کہ سانحے پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اتنی بھرپور کوریج کی ہے ایسے میں کتاب کی ضرورت نہیں رہ جاتی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے تمام شہید بیٹے تاریخ میں کتابی شکل میں محفوظ ہو جائیں۔ تاثراتی انداز تحریر بہت جاندار ہے، اس کے علاوہ عدالتی نظام کی تاریخ ، اقوام عالم اور پہلے عالمی قوانین ، پاکستان میں وکلاء تحریک، انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کا خلاصہ اور ایسے ہی موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ زخمی وکلاء اس سانحے کے بعد کس اذیت،کرب اور مسائل کا شکار ہیں وہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ شہید ہونے والے وکلا کا تعارف مع رنگین تصاویر اور زخمی ہونے والے وکلاء کی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔



٭٭٭

مٹتا ہوا لاہور
مصنف: منیراحمد منیر
قیمت:600 روپے
صفحات: 352
ناشر:آتش فشاں،علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور

قدیم لاہور کی سیر کرنا ہو تو اب کتابوں کو کنگھالنا پڑتا ہے، کیونکہ گزشتہ چار، پانچ عشروں میں لاہور یکسر بدل گیا ہے، اگر کوئی ایسا فرد جو تیس، چالیس سال قبل لاہور میں سکونت پذیر رہا ہو واپس آئے تو یقین کیجئے کہ پہلے تو وہ انگشت بدنداں رہ جائے گا، اس کے بعد قعطی انکار کر دے گا کہ یہ لاہور ہی ہے۔

منیر احمد منیر کمال کے لکھاری ہیں وہ آپ کو اپنی انگلی سے لگائے اس طرح قدیم لاہور کی سیر کراتے ہیں جیسے کوئی بچہ اپنے والد کے ساتھ میلہ دیکھنے آیا ہو، اور میلے جیسا خیال کیوں نہ آئے کیونکہ قدیم لاہور میلے جیسا ہی تھا، کم آبادی کشادہ سڑکیں، میلے ٹھیلے اور سینما کلچر، اوپر سے لاہوریوں کا آؤ بھگت کا مخصوص انداز، اسی لئے تو کہا جاتا ہے، جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ شائد اسی قدیم لاہور کے بارے میں کہا گیا تھا کیونکہ آج کے لاہور کو دیکھ کر تو یہ منہ سے نکلتا ہے۔

اتنا رش، اتنی آلودگی، یار ذرا کھلی جگہ پر نکل چلو کھل کر سانس تو لے لیں۔ بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل نے لاہور کا حسن گہنا دیا ہے۔کہاں اس دور کی مال روڈ جسے ٹھنڈی سڑک کہا جاتا تھا اور وہاں شام کو لاہورئیے چہل قدمی کرنے آتے تھے اور کہاں آج کی شاہراہ جسے پار کرنا محال ہو چکا ہے، سینکڑوں فٹ کھلی ہونے کے باوجود پیدل چلنا مشکل ہے۔ اور لاہور کی جو شاہراہیں کسی دور میں شام کو سناٹے کا منظر پیش کرتی تھیں وہ آج کل کمرشل مارکیٹوں اور ٹریفک کے رش سے بھری پڑی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور کی خوبصورت تاریخی یادگاریں اور مقامات بھی مٹتے جا رہے ہیں۔ کتاب میں ایسے مقامات کی تاریخی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ لاہور سے محبت رکھنے والوں کے لئے خاصے کی چیز ہے۔



توشیح ِ اسماء الحسنیٰ
شاعر : خورشید ناظر
صفحات: 248
ناشر : اردو مجلس، بہاول پور

خورشید ناظر کامر س گریجوایٹ ہیں لیکن اس کے باوجود زبان و ادب پر ان کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ اہل ِ زبان بھی رشک کرتے ہیں۔ وہ نثر اور نظم دونوں اصناف ِ سخن پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔ ان کا تازہ شعری مجموعہ حمدیہ شاعری پر مشتمل ہے اور '' توشیح ِ اسماء الحسنیٰ '' کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔ خورشید ناظر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس مجموعے میں اﷲ واحدہء لاشریک کے 154 اسما ئے گرامی کو صنعتِ توشیح میں اس حسن، خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ باری تعالیٰ کی محبت دل میں جاگزیں ہو جاتی ہے۔

خورشید ناظر کی اس منفرد تخلیق کے حوالے سے متعدد اہل قلم نے اپنی آراء دی ہیں ۔ جن میں پروفیسر ڈاکٹر انور صابر، پروفیسر ڈاکٹر شاہد حسن رضوی، مجیب الرحمان خان، پروفیسر ڈاکٹر آفتاب حسین گیلا نی، زاہد علی خان اور پروفیسر فہیم ،ڈاکٹر شفیق احمد ، پروفیسر محمد لطیف اور سید محمد نسیم جعفری شامل ہیں جنہوں نے کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں جو کلمات لکھے ہیں ان سب حضرات نے اس میں ان کی اس کاوش کو بھرپور انداز سے سراہا ہے اوران کی مہارت اور ہنر مندی اور ان کے پوتر جذبات و احساسات پر جس طرح ان کی تحسین کی گئی ہے وہ بجا طور پر اس کے مستحق ہیں۔ بلاشبہ ان کی یہ کتاب ایسی ہے کہ جس کو زیر مطالعہ لایا جائے تا کہ اس کے ذریعے نہ صرف شعری ذوق سے حظ اٹھایا جا سکے بلکہ روحانی بالیدگی بھی میسر آسکے۔

٭٭٭

تم
شاعرہ: ڈاکٹر شائستہ نزہت

صفحات: 205
قیمت: 350 / روپے
ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، لاہور

ڈاکٹر شائستہ نزہت سے تعلق و شناسائی برسوں پر محیط ہے کہ جب وہ صحافت سے وابستہ تھیں۔ تاہم جس دور میں چودہری برادران کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا اور پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے، شائستہ نزہت نے صحافت سے زقند بھری اور سول سرو س میں آگئیں ۔ وہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر ( پلاک ) کی ڈائریکٹر بن گئیں اور پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا وہ ترقی کی منازل طے کرتی چلی گئیں۔ لیکن اس تمام عرصہ کے دوران ان کا ادب کے ساتھ ناطہ برقرار رہا ۔

وہ صحافی کے ساتھ ساتھ ایک ادیبہ کے طور پر پہلے ہی متعارف تھیں اب بہ طور شاعرہ سامنے آئی ہیں۔ زیر تبصرہ شعری مجموعہ ان کی غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے اگرچہ حسن وعشق اور ہجرو وصال کے روائتی مضمون باندھے ہیں لیکن ان میں ایک شائستگی، رکھ رکھاؤ اور وضعداری کا عنصر اس قدر نمایاں اور غالب ہے کہ جذبات کا سمندر کہیں بھی کناروں سے باہر نہیں چھلک پاتا ۔ ان کی شاعری پیار کی کومل، خوب صورت ، معطر اور ملائم فضا قائم کرتی ہے جس میں محبت کی پھوار پڑتی محسوس ہوتی ہے۔ کتاب کا سر ورق معروف مصور زاہد رانا کے حسن تخلیق کا شاہکار ہے اور سانجھ پبلی کیشنز نے اسے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کرکے قارئین تک پہنچایا ہے۔ امید واثق ہے کہ '' تم '' کے بعد ان کا اگلا مجموعہ شاعری '' ہم '' کے نام سے آئے گا اور ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا ۔



٭٭٭

محبت روشنی ہے
شاعر : افتخار شوکت
صفحات: 128
قیمت: 300/ روپے
ناشر : نستعلیق مطبوعات ، اردو بازار ، لاہور

افتخار شوکت پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں لیکن ان کا دل محبت، پیار اور انسانی قدروں سے لبریز ہے۔ زیر نظر کتاب ان کی شاعری کا مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ان کے دو شعری انتخاب '' خوشبو تیرے نام '' ، '' غزلیں تیری آنکھوں جیسی '' اور ایک شعری مجموعہ '' پیار کی پہلی بارش '' شائع ہو چکے ہیں ۔ یہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو نظموں پر مشتمل ہے۔ یہ نظمیں '' اپنی ساخت '' کے اعتبار سے تو آزاد ہیں لیکن بعض مصرعے بڑے جاندار ہیں ۔ ایسے جان دار کہ ان پر کسی پابند نظم کے مصرعوں کا گمان ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک پیغام ہے جو صلح کل، محبت ، آشتی، پیار اورالفت کے پاک جذبات سے آراستہ ہے۔ انہوں نے سادہ اسلوب اور شاعرانہ انداز میں مافی الضمیر بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی بعض نظموں پر مکالموں کا گمان ہوتا ہے ۔'' کوزہ گر ''، '' محبت روشنی ہے '' ، '' ماں ''، '' نظریہ ضرورت ''، '' سوال '' ،'' یہاں کچھ پیڑ ہوتے تھے '' اور ایسی ہی بہت سی خوبصورت نظموں میں سے ہیں جو اس مجموعے میں شامل ہیں اور پڑھنے کے قابل ہیں ۔

٭٭٭

دیوان ِ محبت
شاعر : علی گوہر چوہان
صفحات: 136
قیمت : 400 / روپے
ناشر: بک ہوم، لاہور

'' دیوان ِ محبت '' جواں سال علی گوہر چوہان کی مناجات، نعتوں، غزلوں اور نظموں کا پہلا مجموعہ ہے جو ان کے زمانہ طالب علمی سے لے کر آج تک کے عرصہ پر محیط ہے۔ اس مجموعے میں انہوں نے اپنے جذبات واحساسات کو بڑی عمدگی کے ساتھ شاعری کے رنگ میں بیان کیا ہے۔ علی گوہر چوہان کی شاعری اگرچہ مزید مطالعہ، مشاہدہ اور ریاضت کا تقاضا کرتی ہے تاہم زیر نظر مجموعہ کلام میں شامل غزلوں، نظموں میں سلاست و روانی اور بیان میں سادگی و پرکاری ہے۔ بعض اشعار میں فنی کمزوریاں اور عروض کے نقائص بھی کھٹکتے ہیں لیکن ظاہر ہے پیہم کوشش اور ریاضت سے ان خامیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔کتاب کسی پیش لفظ یا '' سفارشی و تحسینی مضامین '' سے پاک ہے جو شاعر کی خود اعتمادی کی غمازی کرتی ہے۔ یہ خود اعتمادی ہی یقینا انہیں آگے بڑھنے میں مہمیز کاکام دے گی۔



٭٭٭

منظر آنکھوں میں ٹھہرے رہتے ہیں
شاعر : طاہر اسلم گورا
صفحات: 144
قیمت: 400 / روپے
ناشر : بک ہوم، لاہور

زیر تبصرہ کتاب طاہر اسلم گورا کی نثری اور آزاد نظموں کا مجموعہ ہے۔کتاب کا عنوان انہوںنے اپنی ایک خوبصورت نظم کے عنوان کو بنایا ہے۔ طاہر اسلم گورا کی پہچان ایک ناشر کی حیثیت سے ادبی حلقوںمیں رہی ہے لیکن اب وہ ادبی افق پر شاعر کے روپ میں جلو ہ گر ہوئے ہیں۔ بزر گ شاعر ظفر اقبال نے طاہر اسلم گورا کی شاعری پر اپنے مخصوص انداز میں ایک مبسوط مضمون تحریر کیا ہے (جو بجائے خود ایک دلچسپ عبارت کا درجہ رکھتا ہے) جس میں شاعری کے جدید رجحانات اور رویوں کی روشنی میں گورا کی شاعری کا محاکمہ بھی کیا ہے اور ان کے شعری ذوق ، مہارت اور بطور شاعر اظہار قدرت کی تحسین بھی کی ہے۔ اسی طرح افتخار عارف اور زاہد مسعود نے بھی گورا کو عہدحاضر کے نثری شاعری کرنے والوں میں نمایاں مقام کا حامل قراردیا ہے۔ ان آراء کے بعد اس پر مزید کوئی تبصرہ سعیء لاحاصل ہے۔ شاعری سے دل بستگی رکھنے والوں کو اس شعری مجموعہ کے مطالعہ سے مایوسی نہیں ہوگی ۔

دوٹوک
مصنف: ذوالفقار احمد چیمہ
قیمت : 750 روپے، صفحات: 296
ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز ، مال روڈ ، لاہور



بہت کم شخصیات زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا پاتی ہیں، ذوالفقار احمد چیمہ کا شمار ایسی ہی معدودے چند شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے زندگی کے جس بھی میدان میں قدم رکھا کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ ذوالفقار چیمہ قانون کے نفاذ ، انتظامی امور اور ٹریننگ کے میدان میں وسیع تجربہ رکھنے والے روشن ضمیر، با اصول اور نیک نام سول سرونٹ ہیں جو پوری سول سروس کے لئے رول ماڈل ہیں۔ ''دوٹوک ''کی تحریریں ہر ادارے کی رہنمائی کرتی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اللہ نواز کا کہنا ہے ''ذوالفقار چیمہ نے یہ کتاب دل سے لکھی ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ حرف خود کچھ بھی نہیں جب تک معاشرے کے لوگ حرف کی حرمت پر اکھٹے نہ ہو جائیں''۔ سینئر صحافی اور کالم نگار مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے '' عمومی طور پر کالموں کی زندگی کم ہوتی ہے لیکن ذوالفقار چیمہ کے کالم بار بار پڑھے جاتے ہیں اور سیاست ، صحافت اور سول سروس کیلئے مشعل راہ ہیں۔ ان میں یہ صلاحیت اور جرات ہے کہ چیف جسٹس ہو یا آرمی چیف یا وزیراعظم سب کو مخاطب کر کے دوٹوک انداز میںغلطیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کا کردار بے داغ اور ان کے دل میں صرف وطن کی محبت ہے''۔ ممتاز شاعر اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کہتے ہیں '' پولیس سروس میں نیک نامی کمانے کے بعد بطور کالم نگار اور دانشور ذوالفقار چیمہ کی صلاحیتوں سے خوشگوار حیرت ہوتی ہے ان کے کالموں میں کچھ تصویروں کو بہت احتیاط مہارت اور فکری گہرائی سے پینٹ کیا گیا ہے۔'' خدارا ! پاکستانیوں کو تقسیم نہ کریں، ملک کی تقدیر بدلنے کا نسخہ،پاکستانی قوم کو لاحق پانچ امراض '' موضوعات حاضر ہیں۔

چیف جسٹس کے نام اور آرمی چیف کے نام جیسے مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سے معاشرے کے ہر طبقے کی رہنمائی ہوتی ہے۔ '' ممتاز کالم نگار لطیف چوہدری کہتے ہیں '' ایڈیٹر ہونے کے ناطے کالم نگار کی تعریف کرنا مشکل ہوتا ہے مگر ذوالفقار چیمہ ایسے بے باک اور ذہین لکھاری ہیں جن کی تعریف کئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ وہ حساس موضوعات کا بھی بڑی خوبصورتی اور مہارت سے احاطہ کرتے ہیں''۔ ممتاز دانشوروں کے ارشادات کے بعد مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ بہرحال مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے ''دوٹوک'' تحفہ ہے۔
Load Next Story