آئی ایم ایف مانیٹرنگ رپورٹ ۔ مشتری ہشیار باش
پاکستانی حکومت کو نئے سرے سے سوچنا ہوگا کہ وہ ایڈہاک ازم کو ترک کرکے خود انحصاری پر مبنی معاشی پالیسیاں بنائے۔
پاکستانی معیشت کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار معاشی ماہرین مسلسل کر رہے تھے ، وہ درست ثابت ہورہے ہیں، بظاہر تو حکومتی سطح پر جی ڈی پی گروتھ میں اضافے کی نوید سابق وزیرخزانہ سناتے رہے اورقوم سر دھنتی رہی، کیونکہ اس معصوم قوم کو اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں کا کچھ علم نہیں۔
آئی ایم ایف کی پہلی پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائرکم ہوکر صرف بارہ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر رہ گئے ہیں، مالی بدنظمی سے کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ15.7سے فی صد سے بڑھنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے،اداروں کے نقصانات بارہ سو ارب تجاوز کرگئے ہیں۔
بیرونی ادائیگیوں کے شدید دباؤکی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پردباؤ بڑھ رہا ہے صرف ایک ماہ کے اندر زر مبادلہ ذخائر میں 93 کروڑ 49 لاکھ ڈالرکی کمی آئی ہے ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی بھی جمہوری یا آمرانہ حکومت نے ایسی اقتصادی اور معاشی پالیسیاں نہیں بنائیں جوکہ پاکستانی معیشت کو اپنے پاؤں پرکھڑا کرسکتیں اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری آتی ، بس ہر ایک نے قرض کی مئے پینے پراتفاق کیا اورعوام بیچارے فاقہ کشی سہنے پر مجبور رہے، ملک میں بے روزگاری کی شرح بڑھی تو دنیا بھر کے ملکوں میں پاکستانی غریب اور محنت کش طبقے نے غریب الوطنی اختیارکی۔
محنت و مزدوری کی سات سمندر کے ملکوں میں، دیارغیر سے جو رقم آج بھی یہی غریب محنت کش طبقہ اپنے اہل خانہ کو پاکستان بھیجتا ہے اسی کے سہارے معیشت کچھ چل بھی رہی ہے ، ورنہ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے جن ممالک میں اپنے پنجے گاڑھے وہ معاشی طور پر انتہائی کمزور ہوگئے۔
ملاحظہ کیجیے آئی ایم ایف نے بجلی صارفین پراضافی سرچارجز لگانے کی تجویزدی ہے، مانیٹری پالیسی سخت کرنے اور ایکس چینج ریٹ میں ایڈجسٹمنٹ کے لیے حکام کے اقدامات کو خوش آیند قراردیا ہے ۔ آسان لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ مزید مہنگائی بم عوام پر گرائے جائیں ، بجلی کے نرخ انتہائی بلندیوں کو چھو رہے ہیں ، غریب طبقہ تو بلوں کی ادائیگی میں ہی مٹتا جارہا ہے روپے کی قدر میں مزید کمی کردی جائے، تو وقتی طور پر توکچھ قرضہ ادا ہوجائے گا لیکن قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔
معاشی ماہرین کے لیے رپورٹ کے مندرجات چشم کشا ہیں، جب کہ داخلی سیاسی بے یقینی بھی اپنا حساب لے رہی ہے،آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کی بڑی وجہ درآمدات ہیں، سالانہ بنیادوں پر برآمدات میں 11فیصد جب کہ درآمدات میں 18.80 فیصد کا اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں کہاگیاکہ خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری اور تنظیم نو کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی اور پی آئی اے اور اسٹیل ملز کے مالی نقصانات بڑھنا شروع ہوگئے، گردشی قرضے دوبارہ 514 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پی آئی اے اور اسٹیل ملز میں سیاسی و اضافی بھرتیوں کے باعث مسائل میں اضافہ ہوا لیکن یہ عمل بھی درست نہیں کہ دونوں قومی ملکیت کے منصوبوں کو آئی ایم ایف کے کہنے پر پرائیوٹ سیکٹر کو بیچ کر اپنے ہاتھ پاؤں کاٹ لیے جائیں۔
رپورٹ میں صرف ایک امیدکی کرن دکھائی گئی ہے کہ سی پیک پر عمل درآمد، بجلی کے نئے منصوبوں کے آغاز اور زرعی شعبے کی بہتری کی وجہ سے جی ڈی پی گروتھ 5.6 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے جب کہ بی بی سی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی مستقبل قریب میں اقتصادی صورت حال بہتر نظر آتی ہے۔ اس سال ہونے والے الیکشن کی وجہ سے پاکستان کی آئی ایم ایف کو قرضے کی ادائیگی متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ الیکشن سے قبل خرچوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
اس کے علاوہ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور برآمدات کی بحالی نہ ہونا بھی قرضوں کی ادائیگی میں دشواری پیدا ہو سکتی ہے۔دوسری جانب وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ اگلے مالی سال میں سیلز ٹیکس اسکیم کو ٹیکس کی بنیاد بڑھانے میں استعمال کرے اور اس کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح کو سات فی صد کی سطح پر لایا جائے جب کہ درآمدی پیداواری سطح پر سیلز ٹیکس سنگل اسٹیج میں وصول کیا جائے ۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز نے ایک کروڑ بیس لاکھ گھروں کی قلت کے تناظر میں چینی کمپنیوں کو پاکستان میں مشترکہ سرمایہ کاری کی دعوت دے دی ہے۔ پاکستان میں بارہ ملین رہائشی یونٹس کی کمی ہے ، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک سو اسی ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
پاکستانی حکومت کو نئے سرے سے سوچنا ہوگا کہ وہ ایڈہاک ازم کو ترک کرکے خود انحصاری پر مبنی معاشی پالیسیاں بنائے جو ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے رہائی دلاسکیں ۔ ماہرین معیشت ، صنعتکاروں ، تاجروں سمیت ہر عام پاکستانی کو ملکی معیشت کے استحکام کے لیے خلوص نیت سے ٹیکس ادا کرنا چاہیے تاکہ ملک اپنی ضروریات کے مطابق خود کفیل ہوسکے۔
آئی ایم ایف کی پہلی پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائرکم ہوکر صرف بارہ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر رہ گئے ہیں، مالی بدنظمی سے کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ15.7سے فی صد سے بڑھنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے،اداروں کے نقصانات بارہ سو ارب تجاوز کرگئے ہیں۔
بیرونی ادائیگیوں کے شدید دباؤکی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پردباؤ بڑھ رہا ہے صرف ایک ماہ کے اندر زر مبادلہ ذخائر میں 93 کروڑ 49 لاکھ ڈالرکی کمی آئی ہے ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی بھی جمہوری یا آمرانہ حکومت نے ایسی اقتصادی اور معاشی پالیسیاں نہیں بنائیں جوکہ پاکستانی معیشت کو اپنے پاؤں پرکھڑا کرسکتیں اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری آتی ، بس ہر ایک نے قرض کی مئے پینے پراتفاق کیا اورعوام بیچارے فاقہ کشی سہنے پر مجبور رہے، ملک میں بے روزگاری کی شرح بڑھی تو دنیا بھر کے ملکوں میں پاکستانی غریب اور محنت کش طبقے نے غریب الوطنی اختیارکی۔
محنت و مزدوری کی سات سمندر کے ملکوں میں، دیارغیر سے جو رقم آج بھی یہی غریب محنت کش طبقہ اپنے اہل خانہ کو پاکستان بھیجتا ہے اسی کے سہارے معیشت کچھ چل بھی رہی ہے ، ورنہ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے جن ممالک میں اپنے پنجے گاڑھے وہ معاشی طور پر انتہائی کمزور ہوگئے۔
ملاحظہ کیجیے آئی ایم ایف نے بجلی صارفین پراضافی سرچارجز لگانے کی تجویزدی ہے، مانیٹری پالیسی سخت کرنے اور ایکس چینج ریٹ میں ایڈجسٹمنٹ کے لیے حکام کے اقدامات کو خوش آیند قراردیا ہے ۔ آسان لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ مزید مہنگائی بم عوام پر گرائے جائیں ، بجلی کے نرخ انتہائی بلندیوں کو چھو رہے ہیں ، غریب طبقہ تو بلوں کی ادائیگی میں ہی مٹتا جارہا ہے روپے کی قدر میں مزید کمی کردی جائے، تو وقتی طور پر توکچھ قرضہ ادا ہوجائے گا لیکن قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔
معاشی ماہرین کے لیے رپورٹ کے مندرجات چشم کشا ہیں، جب کہ داخلی سیاسی بے یقینی بھی اپنا حساب لے رہی ہے،آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کی بڑی وجہ درآمدات ہیں، سالانہ بنیادوں پر برآمدات میں 11فیصد جب کہ درآمدات میں 18.80 فیصد کا اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں کہاگیاکہ خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری اور تنظیم نو کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی اور پی آئی اے اور اسٹیل ملز کے مالی نقصانات بڑھنا شروع ہوگئے، گردشی قرضے دوبارہ 514 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پی آئی اے اور اسٹیل ملز میں سیاسی و اضافی بھرتیوں کے باعث مسائل میں اضافہ ہوا لیکن یہ عمل بھی درست نہیں کہ دونوں قومی ملکیت کے منصوبوں کو آئی ایم ایف کے کہنے پر پرائیوٹ سیکٹر کو بیچ کر اپنے ہاتھ پاؤں کاٹ لیے جائیں۔
رپورٹ میں صرف ایک امیدکی کرن دکھائی گئی ہے کہ سی پیک پر عمل درآمد، بجلی کے نئے منصوبوں کے آغاز اور زرعی شعبے کی بہتری کی وجہ سے جی ڈی پی گروتھ 5.6 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے جب کہ بی بی سی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی مستقبل قریب میں اقتصادی صورت حال بہتر نظر آتی ہے۔ اس سال ہونے والے الیکشن کی وجہ سے پاکستان کی آئی ایم ایف کو قرضے کی ادائیگی متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ الیکشن سے قبل خرچوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
اس کے علاوہ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور برآمدات کی بحالی نہ ہونا بھی قرضوں کی ادائیگی میں دشواری پیدا ہو سکتی ہے۔دوسری جانب وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ اگلے مالی سال میں سیلز ٹیکس اسکیم کو ٹیکس کی بنیاد بڑھانے میں استعمال کرے اور اس کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح کو سات فی صد کی سطح پر لایا جائے جب کہ درآمدی پیداواری سطح پر سیلز ٹیکس سنگل اسٹیج میں وصول کیا جائے ۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز نے ایک کروڑ بیس لاکھ گھروں کی قلت کے تناظر میں چینی کمپنیوں کو پاکستان میں مشترکہ سرمایہ کاری کی دعوت دے دی ہے۔ پاکستان میں بارہ ملین رہائشی یونٹس کی کمی ہے ، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک سو اسی ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
پاکستانی حکومت کو نئے سرے سے سوچنا ہوگا کہ وہ ایڈہاک ازم کو ترک کرکے خود انحصاری پر مبنی معاشی پالیسیاں بنائے جو ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے رہائی دلاسکیں ۔ ماہرین معیشت ، صنعتکاروں ، تاجروں سمیت ہر عام پاکستانی کو ملکی معیشت کے استحکام کے لیے خلوص نیت سے ٹیکس ادا کرنا چاہیے تاکہ ملک اپنی ضروریات کے مطابق خود کفیل ہوسکے۔