’’آپ سب نا اہل ہیں بالکل نکمے ‘‘
ہوا خوری کو نکلتے تو بھی موٹر پر، شہری بس سے سفر کرنے کا شاید پہلا اتفاق تھا۔
زورؔ صاحب خوش وضع اور خوش مزاج انسان تھے۔ زود رنج بھی تھے۔ میں نے انھیں بہت جلد بگڑتے اور بنتے دیکھا ہے۔ اکثر ان کا غصہ خلوص کا رنگ لیے ہوتا تھا۔ جہاں رنجیدہ ہوئے، بول اٹھے اور دل کا بوجھ ہلکا کرلیا۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو بات بات پر سوخت ہوتے رہتے ہیں اور دل میں گرہ لگالیتے ہیں۔
ان سے میرے تعلقات کی ابتدا خط و کتابت کے ذریعے ہوئی اور اتفاق کہ وہ پہلے ہی خط پر بگڑ بیٹھے۔ میں نے ان سے وجہی کے ایک ممدوح سے متعلق کچھ معلوم کیا تھا۔ انھوں نے نہایت محبت سے دو تین صفحوں کا خط لکھا اور تمام ضروری معلومات فراہم کردیں۔ میں بوجوہ شکریے کا خط لکھ سکا، نہ رسید سے مطلع کرسکا۔ تین چار مہینے کے بعد دہلی میں ان سے ملاقات ہوئی تو پہلا سوال طنزاً انھوں نے یوں داغا:
''اچھا تو آپ ہی نے وہ خط لکھا تھا۔''
میں نے اقرار کیا۔ وہ دور ایک صوفے پر جاکے بیٹھ گئے۔ پاندان کھولا، گلوری منہ میں رکھی، انگلیوں کو ہتھیلی پر مسلا اور اس کے بعد جو انھوں نے نوجوانوں کی بد تمیزی، آداب سے ناواقفیت اور بے پروائی پر وعظ دینا شروع کیا تو مجھے سر جھکائے سنتے ہی بنی، لیکن
مجھے کیا برا تھا ''سننا'' اگر ایک بار ہوتا!
دوسرا واقعہ اس سے بھی سخت گزرا۔
چند ماہ بعد زور صاحب کا پھر دہلی آنا ہوا، میں نے سوچا چلو اپنے گناہ بخشوالیں۔ جگن ناتھ آزاد، حسن نعیم اور میں زور صاحب کے ساتھ پارلیمنٹ اسٹریٹ سے نکل کے کناٹ پیلس آئے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کافی ہاؤس میں نشست رہی۔ اس کے بعد زور صاحب نے گھر کے لیے کچھ سامان اور بچوں کے لیے ٹکٹوں اور چمک دار کاغذ کے دو رول خریدے۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ زور صاحب کو یونیورسٹی واپس پہنچنا تھا۔ قرار پایا کہ زور صاحب ناحق ٹیکسی پر روپیہ کیوں برباد کریں، اس وقت بس آسانی سے مل جائے گی۔ چناں چہ تھوڑی دیر کے انتظار کے بعد ہم تینوں نے بڑے اہتمام سے زور صاحب کو بس میں سوار کیا اور ان کا سامان بھی احتیاط سے ان کے ساتھ کردیا۔ جگن ناتھ آزاد اور حسن نعیم کی تو خیریت رہی، یونیورسٹی میں دوسرے دن میری زور صاحب سے مڈ بھیڑ ہوگئی اور میری شامت آئی تو مزاج پرسی کے بعد پوچھ بیٹھا:
''کل رات واپس پہنچنے میں کوئی دقت تو نہیں ہوئی؟''
اس پر بڑے سخت لہجے میں بولے: ''آپ سب نا اہل ہیں، بالکل نکمے! میرے بار بار منع کرنے پر بھی آپ لوگوں نے مجھے بس میں بٹھا دیا۔ یونیورسٹی کا ہے کو ہے، جنگل ہے۔ مجھے کیا معلوم مکان کہاں ہے۔ رات کے بارہ بجے تک ڈھونڈھتا پھرا۔'' ایک لمحہ رک کر پھر بولے۔ ''اور بچوں کے لیے جو سامان خریدا تھا وہ بھی کہیں رہ گیا۔ یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا۔''
بعد میں یہ معلوم ہوا تو مجھے افسوس ہوا کہ زور صاحب نوابانہ آن بان سے زندگی بسر کرنے کے عادی تھے۔ ہوا خوری کو نکلتے تو بھی موٹر پر، شہری بس سے سفر کرنے کا شاید پہلا اتفاق تھا۔
اس واقعے کے بعد میں نے سوچ لیا کہ اب زور صاحب سے ملاقات تو کیا ہوگی لیکن چند ہی مہینوں کے بعد ان کا خط ملا کہ فلاں تاریخ کو آرہا ہوں اور حیدرآباد ہاؤس میں ملاقات ہوگی۔ اس کے بعد جو سلسلہ شروع ہوا ہے تو آخری دم تک ان کی وضع داری میں فرق نہیں آیا۔
جب بھی آتے ضرور اطلاع کرتے اور زیادہ تر وقت ساتھ ہی گزرتا۔ وزارت کے کاموں اور ادارے کی مصروفیتوں سے لے کر دہلی کے گرد و غبار اور جن پتھ کی جلوہ سامانیوں تک ہر موضوع پر گفتگو ہوتی، اور نہایت بے تکلف۔
( ممتاز ادیب، شاعر اور نقاد سید محی الدین قادری زورؔ سے متعلق ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی یادیں)
ان سے میرے تعلقات کی ابتدا خط و کتابت کے ذریعے ہوئی اور اتفاق کہ وہ پہلے ہی خط پر بگڑ بیٹھے۔ میں نے ان سے وجہی کے ایک ممدوح سے متعلق کچھ معلوم کیا تھا۔ انھوں نے نہایت محبت سے دو تین صفحوں کا خط لکھا اور تمام ضروری معلومات فراہم کردیں۔ میں بوجوہ شکریے کا خط لکھ سکا، نہ رسید سے مطلع کرسکا۔ تین چار مہینے کے بعد دہلی میں ان سے ملاقات ہوئی تو پہلا سوال طنزاً انھوں نے یوں داغا:
''اچھا تو آپ ہی نے وہ خط لکھا تھا۔''
میں نے اقرار کیا۔ وہ دور ایک صوفے پر جاکے بیٹھ گئے۔ پاندان کھولا، گلوری منہ میں رکھی، انگلیوں کو ہتھیلی پر مسلا اور اس کے بعد جو انھوں نے نوجوانوں کی بد تمیزی، آداب سے ناواقفیت اور بے پروائی پر وعظ دینا شروع کیا تو مجھے سر جھکائے سنتے ہی بنی، لیکن
مجھے کیا برا تھا ''سننا'' اگر ایک بار ہوتا!
دوسرا واقعہ اس سے بھی سخت گزرا۔
چند ماہ بعد زور صاحب کا پھر دہلی آنا ہوا، میں نے سوچا چلو اپنے گناہ بخشوالیں۔ جگن ناتھ آزاد، حسن نعیم اور میں زور صاحب کے ساتھ پارلیمنٹ اسٹریٹ سے نکل کے کناٹ پیلس آئے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کافی ہاؤس میں نشست رہی۔ اس کے بعد زور صاحب نے گھر کے لیے کچھ سامان اور بچوں کے لیے ٹکٹوں اور چمک دار کاغذ کے دو رول خریدے۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ زور صاحب کو یونیورسٹی واپس پہنچنا تھا۔ قرار پایا کہ زور صاحب ناحق ٹیکسی پر روپیہ کیوں برباد کریں، اس وقت بس آسانی سے مل جائے گی۔ چناں چہ تھوڑی دیر کے انتظار کے بعد ہم تینوں نے بڑے اہتمام سے زور صاحب کو بس میں سوار کیا اور ان کا سامان بھی احتیاط سے ان کے ساتھ کردیا۔ جگن ناتھ آزاد اور حسن نعیم کی تو خیریت رہی، یونیورسٹی میں دوسرے دن میری زور صاحب سے مڈ بھیڑ ہوگئی اور میری شامت آئی تو مزاج پرسی کے بعد پوچھ بیٹھا:
''کل رات واپس پہنچنے میں کوئی دقت تو نہیں ہوئی؟''
اس پر بڑے سخت لہجے میں بولے: ''آپ سب نا اہل ہیں، بالکل نکمے! میرے بار بار منع کرنے پر بھی آپ لوگوں نے مجھے بس میں بٹھا دیا۔ یونیورسٹی کا ہے کو ہے، جنگل ہے۔ مجھے کیا معلوم مکان کہاں ہے۔ رات کے بارہ بجے تک ڈھونڈھتا پھرا۔'' ایک لمحہ رک کر پھر بولے۔ ''اور بچوں کے لیے جو سامان خریدا تھا وہ بھی کہیں رہ گیا۔ یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا۔''
بعد میں یہ معلوم ہوا تو مجھے افسوس ہوا کہ زور صاحب نوابانہ آن بان سے زندگی بسر کرنے کے عادی تھے۔ ہوا خوری کو نکلتے تو بھی موٹر پر، شہری بس سے سفر کرنے کا شاید پہلا اتفاق تھا۔
اس واقعے کے بعد میں نے سوچ لیا کہ اب زور صاحب سے ملاقات تو کیا ہوگی لیکن چند ہی مہینوں کے بعد ان کا خط ملا کہ فلاں تاریخ کو آرہا ہوں اور حیدرآباد ہاؤس میں ملاقات ہوگی۔ اس کے بعد جو سلسلہ شروع ہوا ہے تو آخری دم تک ان کی وضع داری میں فرق نہیں آیا۔
جب بھی آتے ضرور اطلاع کرتے اور زیادہ تر وقت ساتھ ہی گزرتا۔ وزارت کے کاموں اور ادارے کی مصروفیتوں سے لے کر دہلی کے گرد و غبار اور جن پتھ کی جلوہ سامانیوں تک ہر موضوع پر گفتگو ہوتی، اور نہایت بے تکلف۔
( ممتاز ادیب، شاعر اور نقاد سید محی الدین قادری زورؔ سے متعلق ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی یادیں)