جوتے کی سیاست
یہ نازیبا سلسلہ جاری رہا تو پھرکوئی قیادت اس سے محفوظ نہیں رہے گی۔
ملک میں آئے روز سیاست دانوں پر جوتا اچھالنے کے واقعات پیش آرہے ہیں۔کچھ ہی عرصے میں اب تک متعدد سیاسی رہنما ایسے واقعات کی زد میں آچکے ہیں۔
گجرات میں جلسے کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر ایک شخص نے جوتا اچھالا، جو چیئرمین پی ٹی آئی کو نہ لگا، بلکہ ان کے ساتھ کھڑے علیم خان کو جا لگا۔ اس سے پہلے جامعہ نعیمیہ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیر اعظم نوازشریف پر جوتا اچھالا گیا جو ان کے کندھے پر لگا۔ چند روز قبل پریس کانفرنس کے دوران وزیرخارجہ خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکی گئی تھی اور چند ہفتے قبل ایک تقریب کے دوران وزیرداخلہ احسن اقبال پر بھی جوتا اچھالا گیا تھا۔
ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور رہنماؤں نے مختلف سیاسی رہنماؤں پر جوتا اور سیاہی پھینکنے کو گری ہوئی حرکت قرار دیا ہے۔ یہ رویے معاشرے میں پھیلتی عدم برداشت اور انتہا پسندی کی عکاسی کر رہے ہیں۔ غیرمعیاری مخالفت اور توہین کی بوئی فصل کل سب کوکاٹنا ہوگی۔
یہ نازیبا سلسلہ جاری رہا تو پھرکوئی قیادت اس سے محفوظ نہیں رہے گی۔ سیاست دانوں کوکئی دفعہ عدم برداشت کے پہلوؤں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، لیکن بعض اوقات سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان اپنے لیڈروں سے حاصل کی گئی تربیت کی وجہ سے اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر عدم برداشت میں سیخ پا ہوتے ہوئے سیاستدانوں کی طرف جوتے تک اْچھال دیتے ہیں۔
اس قسم کے واقعات پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل بھی پاکستان میں متعدد سیاست دانوں پر ایسے وار ہوچکے ہیں۔ سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم بھی اس گھناؤنے فعل کا نشانہ بن چکے ہیں۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر انٹرویوکے دوران جوتا اچھالا گیا تھا۔
عدم برداشت کا یہ رویہ سیاست اور معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ سیاسی عدم برداشت اور رواداری کا فقدان پاکستانی جمہوریت کی بقا اور سالمیت کے لیے نیک شگون نہیں۔ سیاسی لیڈروں کو ان واقعات کے بعد صرف بیانات تک محدود رہنے کی بجائے، اس بات کا تہیہ کرنا چاہیے کہ وہ سیاسی اختلافات کے اظہار کے لیے اپنے لب و لہجے اور طریقہ کار کے بارے میں بھی از سر نو غورکریں گے، تاکہ تشدد اور انتہاپسندانہ طریقوں سے اختلاف رائے کا اظہار کرنے کی حوصلہ شکنی ہو۔ تمام سیاسی جماعتوں کوایک دوسرے کا تمسخر اْڑانے کی بجائے معاشرے میں عدم برداشت کے خاتمے اور اخلاقیات کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
انتہا پسندی کا رجحان ہمارے سیاسی لیڈروں کی غیر محتاط تقریروں اور بیانات کا نتیجہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، اگر تمام سیاست دانوں کی اپنے مخالفین کے بارے میں لب ولہجے کا تجزیہ کریں تو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملتا، کیونکہ تقریباً سب ہی لیڈر اپنے ہزاروں لاکھوں کارکنوں کے سامنے مدمقابل لیڈروں کے لیے انتہائی نازیبا الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ کوئی سیاسی رہنما مخالف جماعت کے لیڈر کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرتا ہے تو کوئی چوک میں لٹکانے کی بات کرتا ہے۔ کوئی سیاسی رہنما مخالف کو چور اورکوئی کسی کو بے وقوف قرار دیتا ہے۔
کوئی سیاسی رہنما مخالف کو یہودی ایجنٹ قرار دیتا ہے تو کوئی منافق اعظم کہتا ہے۔ جب قومی سیاسی رہنما اپنے کارکنوں کے سامنے مخالف سیاسی رہنماؤں کے لیے ایسے الفاظ بولیں گے تو یقینا کارکنوں پر بھی اس کا اثر ہوگا اور وہ بھی مخالف جماعت کے لیڈروں سے نفرت کا اظہارکریں گے اور ان کو جوتے مارنے سے گریز نہیں کریں گے، جس کی تمام تر ذمے داری سیاسی رہنماؤں پر عاید ہوتی ہے، مگر لگتا یوں ہے کہ سیاسی رہنما مخالف لیڈروں کے لیے ایسے رویوں کو پروان چڑھانے کے لیے خود کوشاں ہوتے ہیں، کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت کا قائد اپنی جماعت کے ان کارکنوں کا کڑا احتساب نہیں کرتا، جو اپنے مخالفین کی مخالفت میں اخلاقی حد ود سے تجاوز کرتے ہیں۔ بعض سیاست دان تو اپنے مخالفین کی مخالفت میں ان کی ذات اورگھروں تک گھس جاتے ہیں۔ اس میں بدقسمتی سے سیاسی عورتوں کو بھی نہیں بخشا جاتا اور یہ سب کچھ سیاسی لیڈر انتہائی ڈھٹائی سے کر رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست جذبات کو برانگیختہ کرنے کے مختلف ہتھکنڈے اختیار کرنے کا ہنر بن چکی ہے۔ سیاست دانوں کو علم ہونا چاہیے کہ یہ ہتھکنڈے حد درجہ خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔ ان کی وجہ سے عوام ایسے گروہوں میں بٹ چکے ہیں ، جنہیں اپنے ممدوح کے سوا باقی سب ملک دشمن اورگناہگار دکھائی دیتے ہیں اور یہ نفرت صرف سیاسی مخالفین کے خلاف ہی نہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر ملک کے اہم اداروں کے خلاف بھی پروان چڑھنے لگی ہے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف کو پاناماکیس میں عدالت کی طرف سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا جاتا، لیکن میاں نوازشریف سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے ڈھکے چھپے الفاظ کے ساتھ عدلیہ مخالف مہم شروع کردی اور مسلم لیگ کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد میاں نوازشریف کی نااہلی کا ذمے دار ملک کے دو اہم اداروں کو ٹھہراتے ہوئے تنقید کرنے لگی ہے۔ظاہر ہے جب قائدین خود ایسے رویے اپنائیں گے، جس سے نہ صرف یہ کہ سیاسی مخالفین نہیں بچ سکیں گے، بلکہ ملک کے ادارے بھی محفوظ نہیں ہوں گے تو پھر کسی سے کیا گلہ کیا جائے؟
پاکستان میں سیاست سے جڑے ہوئے افراد ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں، لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت اور سیاست کی بنیاد اخلاقی اصولوں ، تہذیب ، تمدن ،کلچر، شائستگی، احترام اورایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا سمیت ایک دوسرے کی منفی کردارکشی اور الزامات کی سیاست سے گریزکرکے تعمیری سیاست کو فروغ دینا ہوتا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ مجموعی طور پر ہماری سیاست میں اخلاقیات اور شائستگی کا جنازہ نکل گیا ہے اور اس کی جگہ بدتمیزی، بدتہذیبی اورگھٹیا نوعیت کی ذاتیات پر مبنی الفاظ کی سیاست کو غلبہ ہے۔
ہمارے اہل سیاست اور اہل دانش سیاسی جلسوں ، تقریروں، مجالس، ٹی وی ٹاک شوز سمیت مختلف مجالس میں جو ایک دوسرے کے بارے میں لب ولہجہ اختیار کرتے ہیں وہ ایک مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔ نئی نسل کے مزاج اور ذہنوں میں بھی یہ ہی کچھ بھرا جا رہا ہے کہ ہمیں اپنے مخالف نکتہ نظر کے لوگوں سے مکالمہ کرنا، برداشت کرنا، رواداری پر مبنی سوچ کو اجاگر کرنا، ایک دوسرے کی رائے کا احترام، سیاسی وجود کو تسلیم کرنا، شائستگی اور تہذیب پر مبنی کلچر اور سوچ کو فروغ دینے کی بجائے منفی اندازکو اپنا کر وہی کچھ کرنا چاہیے۔
اہل سیاست یہ شکوہ توکرتے ہیں کہ ملک میں غیرجمہوری قوتیں جمہوریت اور سیاست دانوں کوگالی بناکر پیش کررہے ہیں ، لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اہل سیاست خود وہ تمام مواد اپنے طرز عمل سے پیدا کررہے ہیں، جو غیر جمہوری قوتوں کے حق میں جاتا ہے۔ سیاست دان جب خود ہی اپنے دشمن ہیں تو کسی اور سے شکوہ کیوں کیا جائے۔