قانون نافذ کرنیوالے ادارے ’’ نوگوایریاز‘‘ میں آپریشن سے گریزاں نظر آرہے ہیں
سہراب گوٹھ کو1985 سے ہی نوگو ایریا قرار دیا جا چکا ہے یہاں پر سب سے پہلے1986میںبڑا آپریشن ہواتھا
سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں ''نوگو ایریاز'' کو ختم کرنے کی ڈیڈ لائن میں باقی صرف چار دن بچ گئے ہیںتاہم امن وامان قائم کرنے والے ادارے ابھی بھی درجن بھر سے زائد ایسے علاقوں میں آپریشن سے ٹال مٹو ل سے کام لے رہے ہیں جہاں پر آپریشن کی صورت میں انھیں ممکنہ سیاسی اختلاف کا سامنا ہوسکتاہے۔
ان علاقوں میں پولیس کا مکمل فورس کے بغیر داخل ہونا ممکن نہیں، اور ایک عام آدمی کیلیے تو پورے شہر میں کوئی ایسا ''گو ایریا'' نہیں ہے جہاں پر وہ خود کو دہشت گردی سے محفوظ تصور کرسکے۔ شاید امن وا ما ن قائم کرنے کے ادارے اس وجہ سے ان علاقوں کو کلیئر کرنے کا اختیار اور اہلیت نہیں رکھتے کہ مذکورہ علاقوں میں ''باوردی'' بھی نہیں جاسکتے۔ جب آئندہ انتخابات میں صرف35 روز باقی ہیں تو کراچی سٹی ایڈمنسٹریشن ، پولیس اور رینجرز کے اعلیٰ حکام نے اس صورتحال سے باہر نکلنے کیلیے ایک ''گٹھ جوڑ'' پر اتفاق کرلیا ہے ۔
سپریم کورٹ نے دوسری مرتبہ بھی پولیس اور رینجرز کی رپورٹس کو مسترد کردیا ہے ۔اس لیے عین ممکن ہے کہ کراچی انتظامیہ سپریم کورٹ کے سامنے اختیارات نہ ہونے کی اپنی بے بسی کا جواز پیش کرتے ہوئے اپنی ناکامی کا اعتراف کرلے اور سپریم کورٹ کو اس کے مطابق فیصلہ کرنا پڑے ۔ کیونکہ کراچی شہر میں اہلیت اور اختیار بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔سپریم کورٹ کی جانب سے احکاما ت کے بعد گزشتہ دو دنوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صرف محدود علاقوں سہراب گوٹھ اور الآصف اسکوائر میں آپریشن کرکے صرف24ملزمان کو گرفتار کرلیاہے جن میں چند ازبک بھی شامل ہیں۔
اعلیٰ پولیس افسران کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر انھوں نے پورے شہر میں ''نوگو ایریاز '' ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا تو انھیں شدید سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس آپریشن کلین اپ کے دوران انھیں چند سیاسی رہنمائوں کو بھی گرفتار کرنا پڑسکتا ہے ۔ البتہ پولیس اور رینجرز کے پاس کوئی بھی مستند اور صحیح اعدادو شمار نہیں ہیں کہ کتنے دہش تگرد ''محفوظ مقامات'' میں آرام سے رہائش پذیر ہیں لیکن یہ تعداد10ہزار سے بھی زیا دہ بتائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں اسلحے اور گولہ بارود کی بھاری مقدار اور تعداد کی بھی رپورٹس ہیں ۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جن علاقوں میں آپریشن کلین اپ کرنے کی ضرورت ہے ان میں سہراب گوٹھ، لیاری، اورنگی ٹائون، منگھو پیر، کٹی پہاڑی، ڈالمیا، لانڈھی، کورنگی، قائد آباد، نارتھ کراچی کے کچھ حصے شامل ہیں۔ ان تما م علاقوں کی آبادی 10 لاکھ سے اوپر ہے ۔اس کے علاوہ کلفٹن، ڈیفنس ، کے ڈی اے اسکیم نمبر 1، میں بھی 100سے زائد اسٹریٹس میں نو گو ایریاز ہیں، جن میں صرف وی وی آئی پیز اور پولیس داخل ہوسکتی ہے۔مثال کے طور پر بلاول ہائوس کو بھی مکمل طور پر نو گو ایریا قرار دیا جا سکتا ہے جو کہ مکمل طور پر ''تجاوزات'' کے زمرے میں آتا ہے۔مذکورہ نو گو ایریاز میں مبینہ طور پر مجرموں اور دہشتگردوں کو پناہ دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ سہراب گوٹھ کو1985 سے ہی نوگو ایریا قرار دیا جا چکا ہے یہاں پر سب سے پہلے1986میںبڑا آپریشن ہواتھااور یہاں پر مکمل صفایا کردیا گیا تھا لیکن اس کے ردعمل میں قصبہ اور علی گڑھ کالونی میں ایک بہت بڑی خونریزی ہوئی تھی اور 150 افراد کو قتل کرکے ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی تھی۔قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشن کلین اپ کے بعد علاقے کو ''کلیئر '' قراردے دیتے ہیں لیکن یہ سرٹیفکیٹ چند ہفتے یا چند مہینوں کے بعد بے کار ہوجاتا ہے اور پھر وہ علاقے نو گو ایریا ز میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کے عام شہریوں کے لیے یہ شہر کب ''گو ایریا'' بنے گا ۔ بس امید پر دنیا قائم ہے۔
ان علاقوں میں پولیس کا مکمل فورس کے بغیر داخل ہونا ممکن نہیں، اور ایک عام آدمی کیلیے تو پورے شہر میں کوئی ایسا ''گو ایریا'' نہیں ہے جہاں پر وہ خود کو دہشت گردی سے محفوظ تصور کرسکے۔ شاید امن وا ما ن قائم کرنے کے ادارے اس وجہ سے ان علاقوں کو کلیئر کرنے کا اختیار اور اہلیت نہیں رکھتے کہ مذکورہ علاقوں میں ''باوردی'' بھی نہیں جاسکتے۔ جب آئندہ انتخابات میں صرف35 روز باقی ہیں تو کراچی سٹی ایڈمنسٹریشن ، پولیس اور رینجرز کے اعلیٰ حکام نے اس صورتحال سے باہر نکلنے کیلیے ایک ''گٹھ جوڑ'' پر اتفاق کرلیا ہے ۔
سپریم کورٹ نے دوسری مرتبہ بھی پولیس اور رینجرز کی رپورٹس کو مسترد کردیا ہے ۔اس لیے عین ممکن ہے کہ کراچی انتظامیہ سپریم کورٹ کے سامنے اختیارات نہ ہونے کی اپنی بے بسی کا جواز پیش کرتے ہوئے اپنی ناکامی کا اعتراف کرلے اور سپریم کورٹ کو اس کے مطابق فیصلہ کرنا پڑے ۔ کیونکہ کراچی شہر میں اہلیت اور اختیار بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔سپریم کورٹ کی جانب سے احکاما ت کے بعد گزشتہ دو دنوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صرف محدود علاقوں سہراب گوٹھ اور الآصف اسکوائر میں آپریشن کرکے صرف24ملزمان کو گرفتار کرلیاہے جن میں چند ازبک بھی شامل ہیں۔
اعلیٰ پولیس افسران کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر انھوں نے پورے شہر میں ''نوگو ایریاز '' ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا تو انھیں شدید سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس آپریشن کلین اپ کے دوران انھیں چند سیاسی رہنمائوں کو بھی گرفتار کرنا پڑسکتا ہے ۔ البتہ پولیس اور رینجرز کے پاس کوئی بھی مستند اور صحیح اعدادو شمار نہیں ہیں کہ کتنے دہش تگرد ''محفوظ مقامات'' میں آرام سے رہائش پذیر ہیں لیکن یہ تعداد10ہزار سے بھی زیا دہ بتائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں اسلحے اور گولہ بارود کی بھاری مقدار اور تعداد کی بھی رپورٹس ہیں ۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جن علاقوں میں آپریشن کلین اپ کرنے کی ضرورت ہے ان میں سہراب گوٹھ، لیاری، اورنگی ٹائون، منگھو پیر، کٹی پہاڑی، ڈالمیا، لانڈھی، کورنگی، قائد آباد، نارتھ کراچی کے کچھ حصے شامل ہیں۔ ان تما م علاقوں کی آبادی 10 لاکھ سے اوپر ہے ۔اس کے علاوہ کلفٹن، ڈیفنس ، کے ڈی اے اسکیم نمبر 1، میں بھی 100سے زائد اسٹریٹس میں نو گو ایریاز ہیں، جن میں صرف وی وی آئی پیز اور پولیس داخل ہوسکتی ہے۔مثال کے طور پر بلاول ہائوس کو بھی مکمل طور پر نو گو ایریا قرار دیا جا سکتا ہے جو کہ مکمل طور پر ''تجاوزات'' کے زمرے میں آتا ہے۔مذکورہ نو گو ایریاز میں مبینہ طور پر مجرموں اور دہشتگردوں کو پناہ دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ سہراب گوٹھ کو1985 سے ہی نوگو ایریا قرار دیا جا چکا ہے یہاں پر سب سے پہلے1986میںبڑا آپریشن ہواتھااور یہاں پر مکمل صفایا کردیا گیا تھا لیکن اس کے ردعمل میں قصبہ اور علی گڑھ کالونی میں ایک بہت بڑی خونریزی ہوئی تھی اور 150 افراد کو قتل کرکے ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی تھی۔قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشن کلین اپ کے بعد علاقے کو ''کلیئر '' قراردے دیتے ہیں لیکن یہ سرٹیفکیٹ چند ہفتے یا چند مہینوں کے بعد بے کار ہوجاتا ہے اور پھر وہ علاقے نو گو ایریا ز میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کے عام شہریوں کے لیے یہ شہر کب ''گو ایریا'' بنے گا ۔ بس امید پر دنیا قائم ہے۔