چینی سفیر YAO JING سے ایک مکالمہ
چین نے گزشتہ پانچ سو سال میں کبھی کسی ملک پر قبضہ نہیں کیا۔ یہ ہماری پالیسی نہیں ہے۔ ہم پاکستان کے دوست ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی پر ہمیشہ سوالات رہے ہیں۔ امریکا کی دوستی پر سوال رہے ہیں۔ حتیٰ کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر بھی سوالیہ نشان پیدا ہوتے رہے ہیں۔ لیکن چین کی دوستی میں ابہام نہیں رہا۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ چین وہ واحد ملک ہے جس کے ساتھ ہماری دوستی مستحکم رہی ہے۔
پاکستان میں سول حکومتیں بھی رہی ہیں اور مارشل لاء کے ادوار بھی لیکن پاک چین دوستی مستحکم رہی ہے۔ شاید چین وہ واحد ملک ہے جس نے کبھی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور نہ ہی پاکستان کے اندرونی حالات تعلقات پر اثر انداز ہوئے ہیں۔
سی پیک نے پاک چین تعلقات کو ایک نئی جہت دی ہے۔ پاک چین تعلقات میں ایک نئی روح پھونک دی گئی ہے۔ نیا جوش ولولہ پیدا ہو گیا ہے۔ نئی گرمجو شی آگئی ہے۔ خوبصورت بات یہ ہے کہ یہ جوش یہ ولولہ یہ گرمجوشی یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے۔ پاک چین تعلقات میں بلاشبہ یہ ایک حسین اور دلفریب منظر ہے۔ تا ہم پھر بھی پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے خدشات اور تحفظات کی باتیں سنائی دیتی ہیں۔
پاکستان میں چین کے تعینات ہونے والے نئے سفیر جناب YAO JING سے گزشتہ دنوں ایک ملاقات ہوئی۔ ملاقات اس حوالے سے منفرد تھی اس میں انھوں نے تمام سوالات کے جواب دیے۔ جناب YAO JING کی یہ پاکستان میں پہلی تعیناتی نہیں ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی بطور جونیئر ڈپلومیٹ پاکستان میں رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ہندوستان اور افغانستان میں بھی تعینات رہ چکے ہیں۔ اس لیے وہ نہ صرف پاکستان سے بخوبی واقف ہیں بلکہ خطہ کی صورتحال سے بھی بخوبی واقف ہیں۔
ان سے جب سی پیک کے حوالے سے تحفظات پر بات ہوئی اور اس مفروضہ پر بات ہوئی کہ مغربی قوتیں جو سی پیک کی کامیابی سے خائف ہیں پاکستان میں سی پیک کے بارے میں خدشات پیدا کر رہی ہیں۔ تو محترم سفیر مسکرائے اور انھوں نے کہا کہ چین سمجھتا ہے کہ پاکستان کے لیے سب سے اہم پاکستان ہے۔ پاکستان میں رہنے والے تمام پاکستانیوں کے لیے پاکستان کا مفاد ہی سب سے مقدم ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ کوئی پاکستانی کسی مغربی ایجنڈے کے لیے کام کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کوئی پاکستانی مغربی ایجنڈے کی تکمیل پر سی پیک کی مخالفت کر رہا ہے۔ یہ بات تو پاکستانیوں کے اپنے سوچنے کی ہے۔ چین اس میں کیا کر سکتا ہے۔
اسی طرح جب مغربی اور مشرقی روٹ کے تنازعہ کے حوالہ سے بات ہوئی ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ چین کسی مغربی اور مشرقی روٹ کو نہیں جانتا۔ ہم تو سی پیک کے حوالہ سے ایک ہی نیشنل کوریڈور کو جانتے ہیں۔ چین کے نزدیک نہ تو کوئی روٹ ترجیحی ہے اور نہ ہی کسی کی کم ترجیح۔ ہم سی پیک کو ایک ہی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک محفوظ اور کم سے کم مدت میں سامان کی ترسیل کو ممکن بنانا ہے۔ اور سب کام اسی ہدف کو سامنے رکھ کر ہو رہے ہیں۔
اسی طرح اس سوال پر کہ چین نے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔ کیوں چین خاموش رہا۔ میرے خیال تھا یہ ایک ٹیڑھا سوال ہے۔ تا ہم وہ مسکرائے اور پھر انھوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف میں چین کی خاموشی کا یہ مطلب نہیں کہ چین نے پاکستان کی مخالفت کی ہے۔ یہ چین کی سفارتی حکمت عملی تھی۔جسے پاکستان کو سمجھنا چاہیے۔ جیسے کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ایسے ہی پاکستان بھی سفارتکاری میں کافی دھوکے کھا چکا ہے۔ کبھی ہم امریکا کے ہردلعزیز ہوتے ہیں اور کبھی امریکا ہم پر پابندیاں لگانے کے درپے ہوتا ہے۔ ابھی ماضی قریب میں ہم امریکا کے سب سے بڑے اتحادی تھے اور اب وہی امریکا ہم پر ایف اے ٹی ایف میں پابندیاں لگوانے کے لیے کوشاں تھا۔
اسی تناظر میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہم کب تک چین کے ہر دلعزیز رہیں گے اور چین کی ترجیحات بدلنے کے کتنے امکانات ہیں۔ چینی سفیر کا کہنا تھا کہ چین اس وقت چھ مختلف قسم کے اکنا مک کارویڈورز پر کام کر رہا ہے لیکن اس میں سی پیک واحد ہے جو دو طرفہ ہے۔باقی سب میں مختلف ممالک مل کر ایک کارویڈور بنا رہے ہیں۔ جیسے ایک چین روس اور منگولیا کے درمیان ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میانمر، بھارت اور چین کے درمیان بھی ایک کاریڈور ہے۔ اس طرح ان سب میں تین یا زائد ممالک ہیں۔ جب کہ سی پیک میں صرف چین اور پاکستان ہیں۔
ویسے تو پاکستان اور چین کی دوستی کا ماضی اتنا شاندار ہے کہ کسی بھی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ سی پیک نے پاکستان اور چین کو ایک اٹوٹ رشتہ میں باندھ دیا ہے۔ دونوں ممالک اگلی کئی دہائیوں کے لیے ایکدوسرے کے ساتھ بندھ گئے ہیں۔ چین سمجھتا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی اس سی پیک کی وجہ سے لاوزال ہو گئی ہے۔ اس لیے جو لوگ سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اب اس دوستی نے دن بدن مضبوط ہی ہونا ہے۔
جیسے جیسے سی پیک مکمل ہو گا۔ دوستی مزید مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے گی۔ سی پیک پر اب تک کیا کام ہو چکا ہے اور کیا کام کی رفتار سے چین مطمئن ہے۔چینی سفیر کا کہنا تھا کہ چین اب تک سی پیک کے مختلف منصوبوں پر کام کی رفتار سے مطمئن ہے۔ چین اب تک سی پیک کے مختلف منصوبوں پر انیس ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کر چکا ہے۔
سی پیک کے تحت پاکستان میں چالیس سے زائد منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ جن میں سے ابھی صرف سات مکمل ہوئے ہیں۔ جب تمام منصوبوں پر کام مکمل ہو گا تب ہی یہ پتہ چلے گا کہ سی پیک کے تحت بننے والے ان منصوبوں کی کل لاگت کیا ہے۔ ابھی تک تو صرف تخمینے ہیں۔ چینی سفیر نے کہا جب یہ سب کام مکمل ہو جائے گا تو پاکستان میں سی پیک کے تحت ہی بیس اکنامک زون بھی بنیں گے۔
اس سوال پر کہ کیا چین نے سی پیک کے تحت دیامر بھاشا ڈیم پر سرمایہ کاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چینی سفیر نے کہا کہ یہ تاثر بھی مکمل طور پر غلط ہے چین نے دیامر بھاشا ڈیم پر سرمایہ کاری سے اس لیے انکار کیا ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ سی پیک کے تحت پہلے ہی چالیس سے زائد منصوبوں پر کام چل رہا ہے۔ پھر دیامر بھاشا ڈیم شروع میں شامل نہیں تھا۔ پاکستان نے یہ معاملہ بعد میں اٹھایا ہے۔ چین نے کہا ہے اس پر بعد میں غور کریں گے۔ انکار نہیں کیا ہے۔
یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ ایسا تاثر ہے کہ سی پیک کے چکر میں چین پاکستان پر قبضہ کر رہا ہے۔ چینی سفیر مسکرائے انھوں نے کہا کہ چین نے گزشتہ پانچ سو سال میں کبھی کسی ملک پر قبضہ نہیں کیا۔ یہ ہماری پالیسی نہیں ہے۔ ہم پاکستان کے دوست ہیں۔
پاکستان میں سول حکومتیں بھی رہی ہیں اور مارشل لاء کے ادوار بھی لیکن پاک چین دوستی مستحکم رہی ہے۔ شاید چین وہ واحد ملک ہے جس نے کبھی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور نہ ہی پاکستان کے اندرونی حالات تعلقات پر اثر انداز ہوئے ہیں۔
سی پیک نے پاک چین تعلقات کو ایک نئی جہت دی ہے۔ پاک چین تعلقات میں ایک نئی روح پھونک دی گئی ہے۔ نیا جوش ولولہ پیدا ہو گیا ہے۔ نئی گرمجو شی آگئی ہے۔ خوبصورت بات یہ ہے کہ یہ جوش یہ ولولہ یہ گرمجوشی یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے۔ پاک چین تعلقات میں بلاشبہ یہ ایک حسین اور دلفریب منظر ہے۔ تا ہم پھر بھی پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے خدشات اور تحفظات کی باتیں سنائی دیتی ہیں۔
پاکستان میں چین کے تعینات ہونے والے نئے سفیر جناب YAO JING سے گزشتہ دنوں ایک ملاقات ہوئی۔ ملاقات اس حوالے سے منفرد تھی اس میں انھوں نے تمام سوالات کے جواب دیے۔ جناب YAO JING کی یہ پاکستان میں پہلی تعیناتی نہیں ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی بطور جونیئر ڈپلومیٹ پاکستان میں رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ہندوستان اور افغانستان میں بھی تعینات رہ چکے ہیں۔ اس لیے وہ نہ صرف پاکستان سے بخوبی واقف ہیں بلکہ خطہ کی صورتحال سے بھی بخوبی واقف ہیں۔
ان سے جب سی پیک کے حوالے سے تحفظات پر بات ہوئی اور اس مفروضہ پر بات ہوئی کہ مغربی قوتیں جو سی پیک کی کامیابی سے خائف ہیں پاکستان میں سی پیک کے بارے میں خدشات پیدا کر رہی ہیں۔ تو محترم سفیر مسکرائے اور انھوں نے کہا کہ چین سمجھتا ہے کہ پاکستان کے لیے سب سے اہم پاکستان ہے۔ پاکستان میں رہنے والے تمام پاکستانیوں کے لیے پاکستان کا مفاد ہی سب سے مقدم ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ کوئی پاکستانی کسی مغربی ایجنڈے کے لیے کام کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کوئی پاکستانی مغربی ایجنڈے کی تکمیل پر سی پیک کی مخالفت کر رہا ہے۔ یہ بات تو پاکستانیوں کے اپنے سوچنے کی ہے۔ چین اس میں کیا کر سکتا ہے۔
اسی طرح جب مغربی اور مشرقی روٹ کے تنازعہ کے حوالہ سے بات ہوئی ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ چین کسی مغربی اور مشرقی روٹ کو نہیں جانتا۔ ہم تو سی پیک کے حوالہ سے ایک ہی نیشنل کوریڈور کو جانتے ہیں۔ چین کے نزدیک نہ تو کوئی روٹ ترجیحی ہے اور نہ ہی کسی کی کم ترجیح۔ ہم سی پیک کو ایک ہی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک محفوظ اور کم سے کم مدت میں سامان کی ترسیل کو ممکن بنانا ہے۔ اور سب کام اسی ہدف کو سامنے رکھ کر ہو رہے ہیں۔
اسی طرح اس سوال پر کہ چین نے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔ کیوں چین خاموش رہا۔ میرے خیال تھا یہ ایک ٹیڑھا سوال ہے۔ تا ہم وہ مسکرائے اور پھر انھوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف میں چین کی خاموشی کا یہ مطلب نہیں کہ چین نے پاکستان کی مخالفت کی ہے۔ یہ چین کی سفارتی حکمت عملی تھی۔جسے پاکستان کو سمجھنا چاہیے۔ جیسے کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ایسے ہی پاکستان بھی سفارتکاری میں کافی دھوکے کھا چکا ہے۔ کبھی ہم امریکا کے ہردلعزیز ہوتے ہیں اور کبھی امریکا ہم پر پابندیاں لگانے کے درپے ہوتا ہے۔ ابھی ماضی قریب میں ہم امریکا کے سب سے بڑے اتحادی تھے اور اب وہی امریکا ہم پر ایف اے ٹی ایف میں پابندیاں لگوانے کے لیے کوشاں تھا۔
اسی تناظر میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہم کب تک چین کے ہر دلعزیز رہیں گے اور چین کی ترجیحات بدلنے کے کتنے امکانات ہیں۔ چینی سفیر کا کہنا تھا کہ چین اس وقت چھ مختلف قسم کے اکنا مک کارویڈورز پر کام کر رہا ہے لیکن اس میں سی پیک واحد ہے جو دو طرفہ ہے۔باقی سب میں مختلف ممالک مل کر ایک کارویڈور بنا رہے ہیں۔ جیسے ایک چین روس اور منگولیا کے درمیان ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میانمر، بھارت اور چین کے درمیان بھی ایک کاریڈور ہے۔ اس طرح ان سب میں تین یا زائد ممالک ہیں۔ جب کہ سی پیک میں صرف چین اور پاکستان ہیں۔
ویسے تو پاکستان اور چین کی دوستی کا ماضی اتنا شاندار ہے کہ کسی بھی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ سی پیک نے پاکستان اور چین کو ایک اٹوٹ رشتہ میں باندھ دیا ہے۔ دونوں ممالک اگلی کئی دہائیوں کے لیے ایکدوسرے کے ساتھ بندھ گئے ہیں۔ چین سمجھتا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی اس سی پیک کی وجہ سے لاوزال ہو گئی ہے۔ اس لیے جو لوگ سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اب اس دوستی نے دن بدن مضبوط ہی ہونا ہے۔
جیسے جیسے سی پیک مکمل ہو گا۔ دوستی مزید مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے گی۔ سی پیک پر اب تک کیا کام ہو چکا ہے اور کیا کام کی رفتار سے چین مطمئن ہے۔چینی سفیر کا کہنا تھا کہ چین اب تک سی پیک کے مختلف منصوبوں پر کام کی رفتار سے مطمئن ہے۔ چین اب تک سی پیک کے مختلف منصوبوں پر انیس ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کر چکا ہے۔
سی پیک کے تحت پاکستان میں چالیس سے زائد منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ جن میں سے ابھی صرف سات مکمل ہوئے ہیں۔ جب تمام منصوبوں پر کام مکمل ہو گا تب ہی یہ پتہ چلے گا کہ سی پیک کے تحت بننے والے ان منصوبوں کی کل لاگت کیا ہے۔ ابھی تک تو صرف تخمینے ہیں۔ چینی سفیر نے کہا جب یہ سب کام مکمل ہو جائے گا تو پاکستان میں سی پیک کے تحت ہی بیس اکنامک زون بھی بنیں گے۔
اس سوال پر کہ کیا چین نے سی پیک کے تحت دیامر بھاشا ڈیم پر سرمایہ کاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چینی سفیر نے کہا کہ یہ تاثر بھی مکمل طور پر غلط ہے چین نے دیامر بھاشا ڈیم پر سرمایہ کاری سے اس لیے انکار کیا ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ سی پیک کے تحت پہلے ہی چالیس سے زائد منصوبوں پر کام چل رہا ہے۔ پھر دیامر بھاشا ڈیم شروع میں شامل نہیں تھا۔ پاکستان نے یہ معاملہ بعد میں اٹھایا ہے۔ چین نے کہا ہے اس پر بعد میں غور کریں گے۔ انکار نہیں کیا ہے۔
یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ ایسا تاثر ہے کہ سی پیک کے چکر میں چین پاکستان پر قبضہ کر رہا ہے۔ چینی سفیر مسکرائے انھوں نے کہا کہ چین نے گزشتہ پانچ سو سال میں کبھی کسی ملک پر قبضہ نہیں کیا۔ یہ ہماری پالیسی نہیں ہے۔ ہم پاکستان کے دوست ہیں۔