انٹرنیٹ اور موبائل کا بے تحاشا استعمال نہایت مضر ہے
بے شک انٹرنیٹ وار موبائل وغیرہ نے ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کردی ہیں۔
موجودہ صدی کو ہم بجا طور پر کمپیوٹر کی صدی کہہ سکتے ہیں۔ اس دوران کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور دیگر برقی آلات بہت تیزی سے ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کا استعمال زندگی میں ناگزیر عنصر کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
بڑا ہو یا چھوٹا سبھی ان کے سحر میں مبتلا ہیں۔ اب تو گویا ان کے بغیر زندگی ادھوری محسوس ہوتی ہے۔ موبائل فون تو تقریباً ہر ایک کے پاس نظر آتا ہے، حتیٰ کہ بہت چھوٹے بچے بھی ٹچ موبائل سے کھیلنا ہی پسند کرتے ہیں اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ بچے بڑی تیزی اور ہنر مندی کے ساتھ موبائل چلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ در اصل بچوں کے کھیلنے کی ہر چیز کا تعلق برقی آلات سے جڑا ہوا ہے۔ جیسے کمپیوٹر گیمز، پلے اسٹیشن، ایکس باکس، آئی پوڈ وغیرہ، پھر بچوں اسکولنگ کی ابتدا میں ہی انھیں کمپیوٹر سے آشنا کرادیا جاتا ہے۔
نرسری کلاسز میں بچوں کو نظمیں سکھانے کے لیے سی ڈی کے ذریعے ٹی وی پر نظمیں دکھائی جاتی ہیں۔ کھیل کھیلنے کے لیے بھی وہ کمپیوٹر گیمز کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر پلے اسٹیشن کا استعمال کرتے ہوئے اپنی پسند کے وڈیو گیم کھیلتے ہیں، یعنی آؤٹ ڈور گیم تو اب بچے کھیلتے ہی نہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدائی عمر میں ہی جو بچے بال وغیرہ سے کھیلتے ہیں، وہ ذہنی اور جسمانی طور پر بہت صحت مند رہتے ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ اب تو ڈیجیٹل قرآن بھی متعارف ہوچکا ہے، بچے، بڑے سب قرآن کریم کی تلاوت سننے کے لیے ڈیجیٹل قرآن (ای قرآن) کا استعمال کررہے ہیں۔ یہ ان کے لیے بالکل نئی اور انوکھی چیز ہے۔ ان سب کے علاوہ موبائل فونز کا بے تحاشا استعمال بڑے اور بچے نہایت فیاضی سے کررہے ہیں۔ در اصل اس چھوٹی سی چیز میں ایک پورا جہان آباد ہے۔
انٹرنیٹ نے اسے مزید ایک پاور فل چیز بنادیا ہے۔ اسے بہت سارے کاموں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، نہ صرف فون پر بات کرنے کے لیے، بلکہ ایف ایم سننے، ایس ایم ایس کرنے کے لیے، آن لائن چیٹنگ کرنے کے لیے، تصویر بنانے، ویڈیو بنانے کے لیے اور یوٹیلٹی بلز بھی موبائل فونز کے ذریعے جمع کروائے جاسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اب تو آن لائن شاپنگ بھی کی جارہی ہے۔ یوں موبائل فون کو ان گنت طریقوں سے کام میں لایا جارہا ہے۔
بے شک انٹرنیٹ وار موبائل وغیرہ نے ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کردی ہیں، لیکن یہاں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے ضرورت سے زیادہ اور بے جا استعمال نے ہمیں سست اور کاہل بنادیا ہے۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے، یہی بات انٹرنیٹ اور موبائل کے استعمال پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ موبائل فون نے ہماری زندگیوں کو بہت آسان بنادیا ہے، یہ رابطے کا بہترین ذریعہ ہے اور ہر وقت، ہر جگہ ساتھ بھی رہتا ہے۔
اس کے استعمال کے کیے فوائد بھی ہیں، لیکن یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے، ہمیں تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے، اس کے بے جا استعمال سے نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے، بلکہ پیسے اور بجلی کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ پھر بچوں کے لیے بھی موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال مضر ثابت ہوتا ہے۔ انھیں بہت زیادہ دیر تک موبائل فون کے نزدیک نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ ماہرین کے مطابق موبائل فون سے خارج ہونے والی ریڈیائی شعاعیں اور لہریں بچوں کے دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جن سے بچوں کی نظر یعنی ان کی بینائی کم زور ہوجاتی ہے۔
بچے ہوں یا بڑے، موبائل اور انٹرنیٹ پر بہت زیادہ وقت گزارنے سے دوسری تعمیری سرگرمیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں اور بچوں کی تعلیم پر اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے۔ ان کی وجہ سے آؤٹ ڈور کھیلوں میں دل چسپی کم ہوجاتی ہے، جو بہت ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کی بدولت بچے چاق چوبند، چست اور پھرتیلے رہتے ہیں۔
ماؤں کو اس وقت زیادہ خو زدہ ہونے کی ضرورت ہے جب ان کا بچہ انٹرنیٹ اور موبائل کا بہت زیادہ استعمال کررہا ہو، اور یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ ایک وسیع دنیا ہے جہاں ہر طرح کی معلومات پر مشتمل ویب سائٹس موجود ہیں۔ یہ ویب سائٹس عمر اور رجحان کے مطابق ہوتی ہیں۔ خطرہ اس وقت ہوتا ہے جب بچہ ایک ایسی ویب سائٹس کھول کر دیکھتا ہے جو اس کی عمر کے حساب سے اس کے لیے موزوں نہیں ہوتی، لیکن وہ اسے دیکھنے پر بہ ضد ہو تو یہ خطرے کی نشان دہی ہے۔
ایک ماں ہونے کی حیثیت سے آپ اتنا تو کرسکتی ہیں کہ موبائل اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال سے خود بھی بچیں اور اپنے بچوں کو بھی بچائیں۔ بچوں کے لیے کمپیوٹر اور موبائل فون استعمال کرنے کا وقت مقرر کردیں۔ زیادہ وقت گزرنے پر انہیں روکیے، ان کی حوصلہ شکنی کیجیے۔ بچے کو مطالعہ کرنے کا عادی بنالیں، اسے اچھی اور معلوماتی کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔ کتاب پڑھنے کے بعد اس سے کتاب کے مواد کے حوالے سے بات کریں۔
دوسری تعمیری مشاغل اپنانے کی طرف راغب کریں۔ بچہ جن ویب سائٹس پر جارہا ہے، ان پر نظر رکھیں، خود چیک کریں کہ آپ کا بچہ کیا ڈاؤن لوڈ کررہا ہے اور کہاں سے کررہا ہے۔ ویسے بچوں کو موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بارے میں معلومات ہونی چاہیے، تاکہ وہ بالکل الگ تھلگ اور اپنے دوستوں اور معاشرے سے کٹ کر نہ رہ جائیں، البتہ محدود وقت کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دیں۔ ساتھ ہی ان پر نظر بھی رکھیں، یعنی ان کی نگرانی کریں۔
بچوں کو رشتے داروں سے جوڑ کر رکھیں، کبھی کبھی بچوں کو لے کر رشتے داروں سے ملنے چلی جائیں اور کبھی رشتے داروں کو اپنے گھر پر مدعو کرلیں، اس طرح بچے اپنے ہم عمر کزنز وغیرہ سے ملتے ہیں تو اچھا ماحول بن جاتا ہے۔ آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے، بچوں کو رشتوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بہت زیادہ موبائل فون اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بچوں اور محدود وقت تک استعمال کرنے والے بچوں کے رویوں پر غور کریں تو نمایاں فرق نظر آئے گا۔
زیادہ وقت برقی آلات استعمال کرنے والے بچے پر تشدد، بد تمیز، خود سر اور جارحیت پسند ہوجاتے، ہیں جب کہ کم وقت استعمال کرنے والے بچے کم از کم ان برائیوں سے قدرے دور ہوتے ہیں۔ یہ بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ انھیں آج ہی سے موبائل فون کے بے جا استعمال سے روکیں ۔
بڑا ہو یا چھوٹا سبھی ان کے سحر میں مبتلا ہیں۔ اب تو گویا ان کے بغیر زندگی ادھوری محسوس ہوتی ہے۔ موبائل فون تو تقریباً ہر ایک کے پاس نظر آتا ہے، حتیٰ کہ بہت چھوٹے بچے بھی ٹچ موبائل سے کھیلنا ہی پسند کرتے ہیں اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ بچے بڑی تیزی اور ہنر مندی کے ساتھ موبائل چلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ در اصل بچوں کے کھیلنے کی ہر چیز کا تعلق برقی آلات سے جڑا ہوا ہے۔ جیسے کمپیوٹر گیمز، پلے اسٹیشن، ایکس باکس، آئی پوڈ وغیرہ، پھر بچوں اسکولنگ کی ابتدا میں ہی انھیں کمپیوٹر سے آشنا کرادیا جاتا ہے۔
نرسری کلاسز میں بچوں کو نظمیں سکھانے کے لیے سی ڈی کے ذریعے ٹی وی پر نظمیں دکھائی جاتی ہیں۔ کھیل کھیلنے کے لیے بھی وہ کمپیوٹر گیمز کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر پلے اسٹیشن کا استعمال کرتے ہوئے اپنی پسند کے وڈیو گیم کھیلتے ہیں، یعنی آؤٹ ڈور گیم تو اب بچے کھیلتے ہی نہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدائی عمر میں ہی جو بچے بال وغیرہ سے کھیلتے ہیں، وہ ذہنی اور جسمانی طور پر بہت صحت مند رہتے ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ اب تو ڈیجیٹل قرآن بھی متعارف ہوچکا ہے، بچے، بڑے سب قرآن کریم کی تلاوت سننے کے لیے ڈیجیٹل قرآن (ای قرآن) کا استعمال کررہے ہیں۔ یہ ان کے لیے بالکل نئی اور انوکھی چیز ہے۔ ان سب کے علاوہ موبائل فونز کا بے تحاشا استعمال بڑے اور بچے نہایت فیاضی سے کررہے ہیں۔ در اصل اس چھوٹی سی چیز میں ایک پورا جہان آباد ہے۔
انٹرنیٹ نے اسے مزید ایک پاور فل چیز بنادیا ہے۔ اسے بہت سارے کاموں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، نہ صرف فون پر بات کرنے کے لیے، بلکہ ایف ایم سننے، ایس ایم ایس کرنے کے لیے، آن لائن چیٹنگ کرنے کے لیے، تصویر بنانے، ویڈیو بنانے کے لیے اور یوٹیلٹی بلز بھی موبائل فونز کے ذریعے جمع کروائے جاسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اب تو آن لائن شاپنگ بھی کی جارہی ہے۔ یوں موبائل فون کو ان گنت طریقوں سے کام میں لایا جارہا ہے۔
بے شک انٹرنیٹ وار موبائل وغیرہ نے ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کردی ہیں، لیکن یہاں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے ضرورت سے زیادہ اور بے جا استعمال نے ہمیں سست اور کاہل بنادیا ہے۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے، یہی بات انٹرنیٹ اور موبائل کے استعمال پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ موبائل فون نے ہماری زندگیوں کو بہت آسان بنادیا ہے، یہ رابطے کا بہترین ذریعہ ہے اور ہر وقت، ہر جگہ ساتھ بھی رہتا ہے۔
اس کے استعمال کے کیے فوائد بھی ہیں، لیکن یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے، ہمیں تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے، اس کے بے جا استعمال سے نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے، بلکہ پیسے اور بجلی کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ پھر بچوں کے لیے بھی موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال مضر ثابت ہوتا ہے۔ انھیں بہت زیادہ دیر تک موبائل فون کے نزدیک نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ ماہرین کے مطابق موبائل فون سے خارج ہونے والی ریڈیائی شعاعیں اور لہریں بچوں کے دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جن سے بچوں کی نظر یعنی ان کی بینائی کم زور ہوجاتی ہے۔
بچے ہوں یا بڑے، موبائل اور انٹرنیٹ پر بہت زیادہ وقت گزارنے سے دوسری تعمیری سرگرمیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں اور بچوں کی تعلیم پر اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے۔ ان کی وجہ سے آؤٹ ڈور کھیلوں میں دل چسپی کم ہوجاتی ہے، جو بہت ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کی بدولت بچے چاق چوبند، چست اور پھرتیلے رہتے ہیں۔
ماؤں کو اس وقت زیادہ خو زدہ ہونے کی ضرورت ہے جب ان کا بچہ انٹرنیٹ اور موبائل کا بہت زیادہ استعمال کررہا ہو، اور یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ ایک وسیع دنیا ہے جہاں ہر طرح کی معلومات پر مشتمل ویب سائٹس موجود ہیں۔ یہ ویب سائٹس عمر اور رجحان کے مطابق ہوتی ہیں۔ خطرہ اس وقت ہوتا ہے جب بچہ ایک ایسی ویب سائٹس کھول کر دیکھتا ہے جو اس کی عمر کے حساب سے اس کے لیے موزوں نہیں ہوتی، لیکن وہ اسے دیکھنے پر بہ ضد ہو تو یہ خطرے کی نشان دہی ہے۔
ایک ماں ہونے کی حیثیت سے آپ اتنا تو کرسکتی ہیں کہ موبائل اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال سے خود بھی بچیں اور اپنے بچوں کو بھی بچائیں۔ بچوں کے لیے کمپیوٹر اور موبائل فون استعمال کرنے کا وقت مقرر کردیں۔ زیادہ وقت گزرنے پر انہیں روکیے، ان کی حوصلہ شکنی کیجیے۔ بچے کو مطالعہ کرنے کا عادی بنالیں، اسے اچھی اور معلوماتی کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔ کتاب پڑھنے کے بعد اس سے کتاب کے مواد کے حوالے سے بات کریں۔
دوسری تعمیری مشاغل اپنانے کی طرف راغب کریں۔ بچہ جن ویب سائٹس پر جارہا ہے، ان پر نظر رکھیں، خود چیک کریں کہ آپ کا بچہ کیا ڈاؤن لوڈ کررہا ہے اور کہاں سے کررہا ہے۔ ویسے بچوں کو موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بارے میں معلومات ہونی چاہیے، تاکہ وہ بالکل الگ تھلگ اور اپنے دوستوں اور معاشرے سے کٹ کر نہ رہ جائیں، البتہ محدود وقت کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دیں۔ ساتھ ہی ان پر نظر بھی رکھیں، یعنی ان کی نگرانی کریں۔
بچوں کو رشتے داروں سے جوڑ کر رکھیں، کبھی کبھی بچوں کو لے کر رشتے داروں سے ملنے چلی جائیں اور کبھی رشتے داروں کو اپنے گھر پر مدعو کرلیں، اس طرح بچے اپنے ہم عمر کزنز وغیرہ سے ملتے ہیں تو اچھا ماحول بن جاتا ہے۔ آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے، بچوں کو رشتوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بہت زیادہ موبائل فون اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بچوں اور محدود وقت تک استعمال کرنے والے بچوں کے رویوں پر غور کریں تو نمایاں فرق نظر آئے گا۔
زیادہ وقت برقی آلات استعمال کرنے والے بچے پر تشدد، بد تمیز، خود سر اور جارحیت پسند ہوجاتے، ہیں جب کہ کم وقت استعمال کرنے والے بچے کم از کم ان برائیوں سے قدرے دور ہوتے ہیں۔ یہ بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ انھیں آج ہی سے موبائل فون کے بے جا استعمال سے روکیں ۔