کوئی تو مجھے سمجھادے

آپ کی ظاہر شدہ بداعمالیاں و بدعنوانیاں اس بات کا مظہر ہیں کہ آپ کو روز آخرت اللہ کے سامنے پیش ہونے سے ڈر نہیں لگتا


خرم علی راؤ March 22, 2018
ہمارے یہ قائدین بڑی بڑی باتیں کرنے میں دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کچھ بے تکلف احباب نے ایک معروف صحافی سے، جو ملک کے سب سے کثیرالاشاعت اخبار میں شاید سب سے زیادہ پڑھا جانے والا کالم لکھتے ہیں، پوچھا کہ آپ کے 90 فیصد کالم سیاست اور سیاست دانوں کے گرد گھومتے ہیں۔ بھائی اور بھی شعبہ ہائے زندگی ہیں، ان پر بھی اپنے قلم کی کاٹ کو اسی طرح استعمال کیجیے! انہوں نے فرمایا کہ سیاست اور سیاست دانوں کا براہ راست تعلق اور اثرات کیونکہ ہر شعبہ زندگی پر مرتب ہوتے ہیں، اس لیے میں ان پر زیادہ سے زیادہ لکھتا ہوں۔

بندے کا بھی یہی حال و خیال ہے گو کہ میں تو ان محترم کالم نگار کے سامنے تو طفل مکتب ہی ہوں۔ تو آج کی اس تحریر میں میرا اپنے پیارے راج دلارے سیاست دانوں، رہبروں، رہنماؤں اور قائدین سے ایک سوال ہے؛ خدارا مجھے اس کا جواب دے دیں تو میں بے فکر ہو کر بہت سے ایسے کام کر ڈالوں گا جو فی الوقت نہیں کر پا رہا ہوں۔

سوال پوچھنے سے پہلے یہ بات عرض کردوں کہ چاہے اسے ایک طالب علمانہ استفسار سمجھیں یا ایک طنز، مگر جواب تو ملنا ہی چاہیے، سوچ سوچ کر میرے سر میں درد ہوا جاتا ہے لیکن جواب سمجھ میں نہیں آتا۔ مجھے امید واثق ہے کہ ہمارے یہ عظیم سمجھے جانے والے لیڈران ضرور اس کا جواب دے کر مجھے شکریہ ادا کرنے کا موقع فراہم کریں گے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے یہ قائدین جو بڑی بڑی باتیں کرنے میں دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، جو ہمارے سامنے اخلاقیات کا ایک مثالی پیکر بن کر جلوہ گر ہوتے ہیں، جو اپنی ذہانت سے (جسے منفی ذہانت کہنا بے جا نہ ہوگا) بڑے بڑے کام چٹکی بجاتے ہی اور بڑے بڑے معمے و مسائل جھٹ پٹ میں حل کرنے کے ہنر سے مالا مال ہیں، یقیناً بحیثیت مسلمان اس بات سے ضرور بالضرور واقف ہوں گے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے اور یہاں کیے گئے ہر کام کا حساب اللہ کے سامنے دینا ہوگا، اور وہاں کا حساب کتاب کامل اور پورا پورا ہوگا۔ اگر آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ ضرور رکھتے ہوں گے، تو پھر آپ کے پاس وہ کون سا گر، وہ کون سی حکمت عملی، وہ کون سی گیڈر سنگھی ہے جس نے آپ کو یوم حساب سے بے پروا بنادیا ہے؛ اور آپ کی ظاہر شدہ بداعمالیاں اور بدعنوانیاں اس بات کا مظہر ہیں کہ آپ کو روز آخرت میں اللہ پاک کے سامنے پیش ہونے اور اپنے اعمال کا حساب دینے کے اعتبار سے کوئی ڈر نہیں لگتا۔

پھر آپ حضرات کا معاملہ کوئی حقوق اللہ کا تو ہے نہیں یعنی عبادات اور فرائض میں کمی وغیرہ۔ اور اگر ہے بھی تو وہ آپ کا اور آپ کے رب کا معاملہ ہے اور روایات بتاتی ہیں کہ حقوق اللہ میں کمی کوتاہی کے معاملات میں اللہ پاک رحمت و مغفرت کے دروازے کھول دیں گے، اور ذرا ذرا سی بات پر یہ کوتاہیاں معاف کردی جائیں گی۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ وہ بڑا نکتہ نواز ہے۔ آپ حضرات تو اپنی ذمے داریوں اور عہدوں کے اعتبار سے حقوق العباد کے جوابدار ہوں گے، جہاں کوئی سفارش نہیں چلے گی، بلکہ ہر دو ظالم و مظلوم، حق کھانے والے اور صاحب حق کو آمنے سامنے کھڑا کردیا جائے گا اور پورا پورا حساب لیا جائے گا۔ تو آپ حضرات کیونکر اپنی کوتاہیوں، غلطیوں، حق تلفیوں، عوامی عہدوں سے ملنے والے اختیارات سے فائدہ اٹھا کر اور انہیں استعمال کرتے ہوئے کی جانے والی بدعنوانیوں کا دفاع اور جواب داری کرسکیں گے؟ لاکھوں لوگوں کی حق تلفیوں کا دفاع کیسے کریں گے؟ میری سمجھ سے باہر ہے۔

بھائی، اگر کوئی گر، کوئی طریقہ، کوئی داؤ ایسا ہے جو آپ کو آخرت میں پیش آمدہ حقوق العباد کی اس عدالت سے بھی بچاسکتا ہو تو چپکے سے مجھے بھی بتا دیجیے تاکہ میں اور مجھ جیسے لاکھوں عام آدمی بھی اس چار دن کی زندگی میں خوب مزے اڑائیں، جہاں جہاں بس چلے خوب کرپشن کریں اور پھر اس کرپشن سے ملنے والی دولت کو استعمال کرکے لذتیں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مزید اونچی سطح کی کرپشن کریں۔ ہم بھی رشوت، سفارش، خوشامد، ناجائز اقرباء پروری اور اس جیسی دوسری منفی صفات کو استعمال کرکے اس دنیا کو اپنے اور اپنی آئندہ نسلوں کےلیے جنت نما بنالیں۔ اپنی آئندہ نسلوں کو اعلی تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانے کے ساتھ ساتھ دنیا اور آخرت میں مکافات عمل سے صاف بچ جانے کا یہ زبردست گر بھی سکھا دیجیے تاکہ وہ اپنی زندگی میں ہم سے زیادہ بہتر طریقے سے بدعنوانی کی اس روایت کو آگے بڑھاسکیں اور خوب مزے اڑا سکیں۔

میں یہ واضح کروں کہ میں یہ قطعاً اور ہرگز نہیں سمجھتا کہ تمام کے تمام موجودہ سیاستدان ایسے ہی کرپٹ، راشی اور بدعنوان ہیں۔ نہیں! قطعاً نہیں۔ اس طبقے میں خوف خدا رکھنے والے اور وطن عزیز سے سچی محبت کرنے والے اور غریب و مظلوم و مجبور و مقہور عوام کےلیے بہتری کا سوچنے والے بھی ہیں۔ مگر معذرت کے ساتھ، ایسی نیک روحوں کی تعداد اس طبقے میں اتنی ہی ہے جتنی آٹے میں نمک کی ہوتی ہے۔ تو آخر میں اپنے ممدوحین اوران مہان کلا کاروں سے ایک بار پھر دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ ذرا یہ تو سمجھا دیں کہ وہ کون سا گر، وہ کون سا سہارا ہے جس نے انہیں یوم حساب سے بے نیاز بنا دیا ہے۔ عین نوازش ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |