لیاری ایکسپریس وے کی داستان پہلا حصہ
یہ منصوبہ مختلف مشکلات کا شکار رہا ، تکنیکی مشکلات بھی تھیں، تجاوزات بھی تھیں۔
اتوار 28 جنوری 2018ء کا دن تھا ۔ صبح 10بجے سے شام 5 بجے تک لیاری ایکسپریس وے پر ہر قسم کی ٹریفک بند تھی، ٹر یفک پولیس کی جانب سے عوام الناس سے گزارش کی گئی تھی کہ وہ ان اوقات میں نادرن بائی پاس یا شاہراہ پاکستان استعمال کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود کی جانب جا سکتے ہیں۔اس روز وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کراچی آئے اور لیاری ایکسپریس وے منصوبے کے شمالی حصے کا افتتاح کیا۔
اس موقعے پر گورنر سندھ محمد زبیر ، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ، وفاقی وزراء اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے ۔اس موقع پر وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی پاکستان کے لیے دل کی حیثیت رکھتا ہے ، یہ ہمارا کمرشل سینٹر ہے ۔ اگرکراچی ترقی نہیں کرے گا تو پاکستان بھی ترقی نہیں کرے گا۔
بلاشبہ کراچی ملک کا اقتصادی اور تجارتی حب ہے جس کے سیاسی استحکام اور امن و امان کے تسلسل سے ملکی معیشت کی شہ رگ جڑی ہوئی ہے ، تاہم شہرقائد کو جس رفتار سے ترقی کرنا چاہیے تھی وہ خواب کراچی کے داخلی مصائب، بیڈ پلاننگ ، سیاسی جماعتوں کی باہمی کشیدگی اور خون ریز وارداتوں کے باعث تشنہ تعبیر رہا جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسٹیک ہولڈرز نے دعوے تو بہت کیے لیکن کسی نے کراچی کو اپنا نہیں سمجھا ، حالانکہ یہ شہر ملک بھر کے لاکھوں ہم وطنوں کے روٹی و روزگارکا وسیلہ بن چکا ہے ، جسے اون کرنے کی ضرورت ہے ۔ بات ہورہی تھی لیاری ایکسپریس وے کی جو کہ ایک داستان ہے ۔
گزشتہ 15سال سے لیاری ایکسپریس وے کا منصوبہ زیر تکمیل رہا ہے جو اب مکمل کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ مختلف مشکلات کا شکار رہا ، تکنیکی مشکلات بھی تھیں، تجاوزات بھی تھیں۔ لیاری ایکسپریس وے کے میگا پروجیکٹ کے شمالی حصے کا افتتاح اس اعتبار سے خوش آیند ہے کہ کراچی کے دن پھرنے لگے ہیں، اس کی بندر گاہ سے ملحقہ سڑکوں پر رش کم ہونے کے ساتھ ساتھ ایکسپریس وے سے منسلک علاقوں اور شہر کی اہم شاہراہوں پر ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کے بے ہنگم دباؤ میں نمایاں کمی آئے گی، تجارتی گڈزکی نقل و حمل دگنی ہوگی اور روزگار کے کئی مواقعے پیدا ہوںگے۔
علاوہ ازیں ماری پور روڈ، گلبائی اسٹیٹ ایونیو ، ٹاور ، ہاکس بے سمیت دیگر شاہراہوں پر ٹریفک جام سے پیدا شدہ گمبھیر صورتحال بھی نسبتا بہتر ہوجائے گی ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے اگرچہ منصوبے کا مین الائمنٹ مکمل کیا گیا ہے جب کہ لیاری ایکسپریس وے کے جنوبی و شمالی حصوں پر اسٹریٹ لائٹس کا کام بدستور التواء کا شکار ہے اور رواں سال ان کی تنصیب شروع کی جائے گی ۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی لیاری ایکسپریس وے کے دونوں اطراف سروس روڈکی تعمیر میں بھی ناکام ہے ، سروس روڈ پر قائم تجاوزات ہٹانا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے تاہم سروس روڈکے مختلف حصوں کو تجاوزات سے پاک کرکے اراضی این ایچ اے کے حوالے کی گئی لیکن وہ اس کی حفاظت نہ کرسکے ، اب کئی مقامات پر مکینوں نے اراضی پر قبضہ کرکے گھر دوبارہ تعمیر کرلی ے ہیں۔ سروس روڈ 5 تا6 میٹر پر محیط ہے ، یہ لیاری ایکسپریس وے منصوبے کا حصہ ہے ، سروس روڈپر جو بھی گھر آرہا ہے کہا جاتا ہے کہ ان کے مکینوں کو زرتلافی کردی گئی ہے ، اس لیے سندھ حکومت فوری طور پر تجاوزات کا خاتمہ کرے اور این ایچ اے اس پر روڈ تعمیرکرے ، بصورت دیگر یہ منصوبہ اپنی افادیت قائم نہیں رکھ سکے گا ۔
خدا نخواستہ اگر لیاری ایکسپریس وے کے مین الائمنٹ پر کوئی حادثہ یا آگ لگتی ہے تو فائر بریگیڈ اور دیگر ریسکیوں ٹیمیں سروس روڈ کے ذریعے با آسانی امدادی کام انجام دے سکیں گی ۔ علاوہ ازیں شہریوں کو کئی علاقوں میں جانے کے لیے متبادل راستہ سروس روڈ سے میسر آئے گا جس سے شہر کے ٹریفک جام میںبھی کمی آئے گی ، لیاری ایکسپریس وے پر اسٹریٹ لائٹس کی بھی فوری تنصیب ہونی چاہیے تاکہ رات کے اوقات میں ٹریفک کی روانی قائم رہے اور حادثات سے بچا جاسکے ۔ ان تمام ایشوز کے ساتھ منصوبے کا مین الائمنٹ 14سال کی تاخیر کے بعد مکمل ہوا ہے جو خوش آیند بات ہے اور اس حوالے سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی مبارکبادکے مستحق ہیں ۔
سہراب گوٹھ تا ماری پور روڈ دو طرفہ ٹریفک کے لیے لیاری ایکسپریس وے منصوبے کا آغاز 11مئی 2002ء میں ہوا جس کی تکمیل کی مدت 8نومبر 2004ء تھی ، منصوبے کے آغازکے موقعے پر منظور کردہ پی سی ون 5.08ارب روپے تھی ، غیر معمولی تاخیر اور ڈیزائن میں تبدیلی کی وجہ سے اب اس کی نظر ثانی شدہ پی سی ون 11.52ارب روپے ہوگئی ہے ، منصوبے کے آغاز پر متاثرین کی تعداد 14ہزار 811 تھی جن کو نو آبادکاری کے لیے لاگت 2.8ارب روپے لگائی گئی تھی جب کہ آخری مرحلے میں متاثرین کی تعداد 25ہزار 745ہوگئی اور ان کی ری سیٹلمنٹ پر 6.68روپے لاگت آئی ہے ۔ یاد رہے کہ اس وقت کے چیف ایگزیکٹوجنرل پرویز مشرف کی ہدایت کی روشنی میں قومی اقتصادی کونسل نے عرصہ دراز سے زیر التوا منصوبہ لیاری ایکسپریس وے کی منظوری دی تھی ۔
واضح رہے کہ 1984ء میں کے ڈی اے کے ماسٹر پلان میں شامل ہونے والا منصوبہ لیاری ایکسپریس وے کے لیے نومبر 1994ء کو حکومت سندھ نے لیاری ندی کے علاقے کا لینڈ کنٹرول کے ایم سی کو دیا تھا اور تعمیرکی بولی یکم اکتوبر 1995ء کو بین الاقوامی سطح پر 3ارب22 کروڑ50لاکھ روپے میں زائد لگی تھی اور منصوبے کا تکمیل عرصہ سائٹ اینڈ اوورکرنے کی تاریخ سے36 ماہ عرصہ لگایا گیا تھا جب کہ ندی کی رخ بندی کے لیے مزید ایک ارب 85کروڑروپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، اس وقت کی حکومت سندھ نے لیاری ایکسپریس وے اور لیاری ندی کی چینالائزیشن کے لیے ایک ارب روپے کی منظوری دی تھی، اس ضمن میں کے ایم سی نے فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن سے رجوع کیا تھا ۔
جس نے علاقے کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے فضائی ٹیکنیکل سروے کرلیا تھا۔ قبل ازیں غیر قانونی قابضین بشمول لینڈ مافیا اور سیاست نے ملکر اس عظیم منصوبہ کی راہ میں رکا وٹیںکھڑی کیں۔1984ء کے منصوبے کا آغاز1994ء میں کیا گیا تو حکومت سندھ نے ایک آپریشن کے تحت لیاری ندی کے کنارے آباد غیر قانونی قابضین کو ہٹایا گیا اس وقت تقریبا 1500تجاوزات ندی کے اردگرد سے ہٹائی گئی تھی منصوبہ التواء کا شکار ہونے کے سبب ایک بار پھر قابضین نے اپنا کام کر دکھایا تھا ۔
ذرایع کے مطابق لسبیلہ اور تین ہٹی پل کے درمیان آٹھ سے دس ہزار کی آبادی تھی جوکہ غیر پاکستانی تھے جہنوں نے غیر قانونی طور پر شناختی کارڈ حاصل کر رکھے تھے دیگر علاقوں میں قابضین ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ان قابضین کا موقف رہا ہے کہ حکومت پہلے انھیں متبادل جگہ فراہم کرے اس کے بعد ہمیں ہٹایا جائے۔ اس وقت حکومت نے کسی کو متبادل جگہ فراہم کی تو کسی کو معاوضہ دیا ، نئے اور پرانے قابضین کا یہی مشترکہ مطالبہ رہا ہے ماضی میں ایک حلقع کی جانب سے ماحولیاتی آلودگی کے نام پر لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر پر مخالفت کی جاتی رہی ہے۔
یاد رہے کہ لیاری ایکسپریس وے کی تعمیرکے خلاف ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے والی کچھ این جی اوز نے مہم چلائی تھی جس کا مقصد ایک کمپنی کے لیے اس منصوبے کا ٹینڈر نہ ملنا تھا ۔ان مخالفین میں لیاری سے وابستہ کچھ سماجی ادارے اور کچھ سماجی شخصیات وابستہ تھے جو آج ایک مقام رکھتے ہیں جن کی سر پرستی ایک بین الاقوامی سماجی ادارہ کررہا تھا مختلف سطح کی مخالفت سے عاجز آنے والے اس وقت کے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایڈ منسٹریٹر فہیم الزمان صدیقی نے کہا تھا کہ چاہے میری جان چلی جائے لیاری ایکسپریس وے بن کر رہے گا ۔
لیکن حکومت ختم ہونے سے پہلے پہلے ان کی نوکری ختم کردی گئی وہ امریکا چلے گئے ۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت آئی جس نے پھر کپیٹن فہیم الزمان صدیقی کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر مقررکیا اس طرح ایک بار پھر فہیم الزمان صدیقی نے لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کا خواب دیکھا تو تعبیر سے پہلے ان کی چھٹی ہوگئی۔ (جاری ہے )
اس موقعے پر گورنر سندھ محمد زبیر ، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ، وفاقی وزراء اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے ۔اس موقع پر وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی پاکستان کے لیے دل کی حیثیت رکھتا ہے ، یہ ہمارا کمرشل سینٹر ہے ۔ اگرکراچی ترقی نہیں کرے گا تو پاکستان بھی ترقی نہیں کرے گا۔
بلاشبہ کراچی ملک کا اقتصادی اور تجارتی حب ہے جس کے سیاسی استحکام اور امن و امان کے تسلسل سے ملکی معیشت کی شہ رگ جڑی ہوئی ہے ، تاہم شہرقائد کو جس رفتار سے ترقی کرنا چاہیے تھی وہ خواب کراچی کے داخلی مصائب، بیڈ پلاننگ ، سیاسی جماعتوں کی باہمی کشیدگی اور خون ریز وارداتوں کے باعث تشنہ تعبیر رہا جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسٹیک ہولڈرز نے دعوے تو بہت کیے لیکن کسی نے کراچی کو اپنا نہیں سمجھا ، حالانکہ یہ شہر ملک بھر کے لاکھوں ہم وطنوں کے روٹی و روزگارکا وسیلہ بن چکا ہے ، جسے اون کرنے کی ضرورت ہے ۔ بات ہورہی تھی لیاری ایکسپریس وے کی جو کہ ایک داستان ہے ۔
گزشتہ 15سال سے لیاری ایکسپریس وے کا منصوبہ زیر تکمیل رہا ہے جو اب مکمل کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ مختلف مشکلات کا شکار رہا ، تکنیکی مشکلات بھی تھیں، تجاوزات بھی تھیں۔ لیاری ایکسپریس وے کے میگا پروجیکٹ کے شمالی حصے کا افتتاح اس اعتبار سے خوش آیند ہے کہ کراچی کے دن پھرنے لگے ہیں، اس کی بندر گاہ سے ملحقہ سڑکوں پر رش کم ہونے کے ساتھ ساتھ ایکسپریس وے سے منسلک علاقوں اور شہر کی اہم شاہراہوں پر ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کے بے ہنگم دباؤ میں نمایاں کمی آئے گی، تجارتی گڈزکی نقل و حمل دگنی ہوگی اور روزگار کے کئی مواقعے پیدا ہوںگے۔
علاوہ ازیں ماری پور روڈ، گلبائی اسٹیٹ ایونیو ، ٹاور ، ہاکس بے سمیت دیگر شاہراہوں پر ٹریفک جام سے پیدا شدہ گمبھیر صورتحال بھی نسبتا بہتر ہوجائے گی ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے اگرچہ منصوبے کا مین الائمنٹ مکمل کیا گیا ہے جب کہ لیاری ایکسپریس وے کے جنوبی و شمالی حصوں پر اسٹریٹ لائٹس کا کام بدستور التواء کا شکار ہے اور رواں سال ان کی تنصیب شروع کی جائے گی ۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی لیاری ایکسپریس وے کے دونوں اطراف سروس روڈکی تعمیر میں بھی ناکام ہے ، سروس روڈ پر قائم تجاوزات ہٹانا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے تاہم سروس روڈکے مختلف حصوں کو تجاوزات سے پاک کرکے اراضی این ایچ اے کے حوالے کی گئی لیکن وہ اس کی حفاظت نہ کرسکے ، اب کئی مقامات پر مکینوں نے اراضی پر قبضہ کرکے گھر دوبارہ تعمیر کرلی ے ہیں۔ سروس روڈ 5 تا6 میٹر پر محیط ہے ، یہ لیاری ایکسپریس وے منصوبے کا حصہ ہے ، سروس روڈپر جو بھی گھر آرہا ہے کہا جاتا ہے کہ ان کے مکینوں کو زرتلافی کردی گئی ہے ، اس لیے سندھ حکومت فوری طور پر تجاوزات کا خاتمہ کرے اور این ایچ اے اس پر روڈ تعمیرکرے ، بصورت دیگر یہ منصوبہ اپنی افادیت قائم نہیں رکھ سکے گا ۔
خدا نخواستہ اگر لیاری ایکسپریس وے کے مین الائمنٹ پر کوئی حادثہ یا آگ لگتی ہے تو فائر بریگیڈ اور دیگر ریسکیوں ٹیمیں سروس روڈ کے ذریعے با آسانی امدادی کام انجام دے سکیں گی ۔ علاوہ ازیں شہریوں کو کئی علاقوں میں جانے کے لیے متبادل راستہ سروس روڈ سے میسر آئے گا جس سے شہر کے ٹریفک جام میںبھی کمی آئے گی ، لیاری ایکسپریس وے پر اسٹریٹ لائٹس کی بھی فوری تنصیب ہونی چاہیے تاکہ رات کے اوقات میں ٹریفک کی روانی قائم رہے اور حادثات سے بچا جاسکے ۔ ان تمام ایشوز کے ساتھ منصوبے کا مین الائمنٹ 14سال کی تاخیر کے بعد مکمل ہوا ہے جو خوش آیند بات ہے اور اس حوالے سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی مبارکبادکے مستحق ہیں ۔
سہراب گوٹھ تا ماری پور روڈ دو طرفہ ٹریفک کے لیے لیاری ایکسپریس وے منصوبے کا آغاز 11مئی 2002ء میں ہوا جس کی تکمیل کی مدت 8نومبر 2004ء تھی ، منصوبے کے آغازکے موقعے پر منظور کردہ پی سی ون 5.08ارب روپے تھی ، غیر معمولی تاخیر اور ڈیزائن میں تبدیلی کی وجہ سے اب اس کی نظر ثانی شدہ پی سی ون 11.52ارب روپے ہوگئی ہے ، منصوبے کے آغاز پر متاثرین کی تعداد 14ہزار 811 تھی جن کو نو آبادکاری کے لیے لاگت 2.8ارب روپے لگائی گئی تھی جب کہ آخری مرحلے میں متاثرین کی تعداد 25ہزار 745ہوگئی اور ان کی ری سیٹلمنٹ پر 6.68روپے لاگت آئی ہے ۔ یاد رہے کہ اس وقت کے چیف ایگزیکٹوجنرل پرویز مشرف کی ہدایت کی روشنی میں قومی اقتصادی کونسل نے عرصہ دراز سے زیر التوا منصوبہ لیاری ایکسپریس وے کی منظوری دی تھی ۔
واضح رہے کہ 1984ء میں کے ڈی اے کے ماسٹر پلان میں شامل ہونے والا منصوبہ لیاری ایکسپریس وے کے لیے نومبر 1994ء کو حکومت سندھ نے لیاری ندی کے علاقے کا لینڈ کنٹرول کے ایم سی کو دیا تھا اور تعمیرکی بولی یکم اکتوبر 1995ء کو بین الاقوامی سطح پر 3ارب22 کروڑ50لاکھ روپے میں زائد لگی تھی اور منصوبے کا تکمیل عرصہ سائٹ اینڈ اوورکرنے کی تاریخ سے36 ماہ عرصہ لگایا گیا تھا جب کہ ندی کی رخ بندی کے لیے مزید ایک ارب 85کروڑروپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، اس وقت کی حکومت سندھ نے لیاری ایکسپریس وے اور لیاری ندی کی چینالائزیشن کے لیے ایک ارب روپے کی منظوری دی تھی، اس ضمن میں کے ایم سی نے فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن سے رجوع کیا تھا ۔
جس نے علاقے کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے فضائی ٹیکنیکل سروے کرلیا تھا۔ قبل ازیں غیر قانونی قابضین بشمول لینڈ مافیا اور سیاست نے ملکر اس عظیم منصوبہ کی راہ میں رکا وٹیںکھڑی کیں۔1984ء کے منصوبے کا آغاز1994ء میں کیا گیا تو حکومت سندھ نے ایک آپریشن کے تحت لیاری ندی کے کنارے آباد غیر قانونی قابضین کو ہٹایا گیا اس وقت تقریبا 1500تجاوزات ندی کے اردگرد سے ہٹائی گئی تھی منصوبہ التواء کا شکار ہونے کے سبب ایک بار پھر قابضین نے اپنا کام کر دکھایا تھا ۔
ذرایع کے مطابق لسبیلہ اور تین ہٹی پل کے درمیان آٹھ سے دس ہزار کی آبادی تھی جوکہ غیر پاکستانی تھے جہنوں نے غیر قانونی طور پر شناختی کارڈ حاصل کر رکھے تھے دیگر علاقوں میں قابضین ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ان قابضین کا موقف رہا ہے کہ حکومت پہلے انھیں متبادل جگہ فراہم کرے اس کے بعد ہمیں ہٹایا جائے۔ اس وقت حکومت نے کسی کو متبادل جگہ فراہم کی تو کسی کو معاوضہ دیا ، نئے اور پرانے قابضین کا یہی مشترکہ مطالبہ رہا ہے ماضی میں ایک حلقع کی جانب سے ماحولیاتی آلودگی کے نام پر لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر پر مخالفت کی جاتی رہی ہے۔
یاد رہے کہ لیاری ایکسپریس وے کی تعمیرکے خلاف ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے والی کچھ این جی اوز نے مہم چلائی تھی جس کا مقصد ایک کمپنی کے لیے اس منصوبے کا ٹینڈر نہ ملنا تھا ۔ان مخالفین میں لیاری سے وابستہ کچھ سماجی ادارے اور کچھ سماجی شخصیات وابستہ تھے جو آج ایک مقام رکھتے ہیں جن کی سر پرستی ایک بین الاقوامی سماجی ادارہ کررہا تھا مختلف سطح کی مخالفت سے عاجز آنے والے اس وقت کے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایڈ منسٹریٹر فہیم الزمان صدیقی نے کہا تھا کہ چاہے میری جان چلی جائے لیاری ایکسپریس وے بن کر رہے گا ۔
لیکن حکومت ختم ہونے سے پہلے پہلے ان کی نوکری ختم کردی گئی وہ امریکا چلے گئے ۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت آئی جس نے پھر کپیٹن فہیم الزمان صدیقی کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر مقررکیا اس طرح ایک بار پھر فہیم الزمان صدیقی نے لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کا خواب دیکھا تو تعبیر سے پہلے ان کی چھٹی ہوگئی۔ (جاری ہے )