سکون کہاں سے آئے

ملک کی حفاظت، اپنے فرائض کی بجا آوری اور خدمت کے جذبے سے سرشاری… فوج کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔


Shirin Hyder April 07, 2013
[email protected]

میں ایک نفسیاتی معالج ہوں اور میرا واسطہ ہر روز ایسے ایسے مریضوں سے پڑتا ہے کہ عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا... مگر آج میری ملاقات جس مریضہ سے ہوئی ہے، اس کے مرض کے باعث میری نیند اڑ گئی ہے!!! اس کا مرض میرا مرض بن گیا ہے۔ چند دن قبل میری ماں نے مجھے بتایا تھا کہ ان کی ایک بہت پرانی سہیلی کی بہو ( اس کا نام ہم کومل فرض کر لیتے ہیں ) ذہنی مریضہ بن چکی تھی اور اماں چاہتی تھیں کہ میں اسے معالج نہیں بلکہ ایک دوست بلکہ ایک بہن کی طرح ملوں اور اس کا مرض جانوں اور اس کے علاج کی کوشش کروں ۔ میں اپنی ماں کے کہنے پر اسے ملنے کو اس کے ہاں جا پہنچی، دوستانہ ماحول میں میری اماں اور اس کی ساس کی موجودگی میں ملاقات ہوئی۔

ان کی ملازمہ جوس کے گلاس لے کر آئی اور سب کے سامنے ایک ایک گلاس رکھ دیا، باتوں باتوں میں گلاس پر نظر پڑی توکومل کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اس کی آنکھیں مند گئیں اور اس کا وجود ڈھیلا سا ہو گیا، اس کے ہاتھ پاؤں مڑ گئے اور لمحوں میں اس کا پورا جسم جھٹکے کھانے لگا، وہ تڑپتی ہوئی زمین پر آ رہی... یہ سب کچھ یوں لمحوں میں ہوا کہ میں اپنے ہاتھ سے گلاس تپائی پر رکھ کر اس تک پہنچ بھی نہ پائی ۔ '' صغری!!!! '' اس کی ساس نے چیخ کر ملازمہ کو آواز دی، '' کیا ہو گیا ہے تمہیں... دماغ کام نہیں کرتا تمہارا؟؟ '' ملازمہ سامنے کھڑی لرز رہی تھی... '' بھول گئی تھی جی!!!'' اس نے کانپتی آواز میں ہی کہا۔

میں نے کومل کے ہاتھ پاؤں ملے، ملازمہ کی مدد سے اسے اٹھا کر صوفے پر لٹایا اور اس کے پہلو میں بیٹھ گئی، اس کا چہرہ ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی بارہ تیرہ برس کی بچی کا ہو۔ '' اسے کیا ہوا ہے اچانک، کیا اسی طرح اس کو دورے پڑتے ہیں اور کتنا وقفہ آتا ہے؟ '' میں نے اپنے طریقے سے سوالات کیے۔

'' ایک برس پہلے تک یہ بھلی چنگی تھی بیٹا!!!! '' انھوں نے بتایا، '' اس کے ہاتھوں سے ابھی تک مہندی کا رنگ گیا تھا نہ خوشبو... اس کا شوہر ، میرا بیٹا، ابھی تو دونوں ایک دوسرے کو جان بھی نہ پائے تھے... دن عید اور راتیں شب برات جیسی تھیں، مجھے اللہ نے اکلوتا بیٹا دیا تھا اور میں ابھی اس کی خوشیوں کے رنگ دیکھ رہی تھی، ان دونوں کو ہنستا کھیلتا دیکھتی تو لگتا کہ زندگی مکمل ہو گئی ہو... میں اپنے گھر آنگن میں نئی خوشیوں کے سپنے بننے لگی۔ میرے بیٹے کی چھٹی کا وقت پر لگا کر اڑ گیا اور وہ لوٹ کر آنے کا وعدہ کرتے ہوئے، اپنی بیوی کو اس بات کی خاص تاکید کر کے گیا کہ اس کی ماں کا خیال رکھے!!!'' ان کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں، '' وہ وعدہ لے کر چلا گیا، اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا...

ہم ماں بیٹیاں اس کے انتظار کے دیپ جلائے آج تک نہ زندوں میں ہیں نہ مردوں میں!!! جن کے جسد خاکی مل گئے اور ان کی ماؤں نے ان کے جیسے بھی مکمل یا ادھورے وجود دیکھ لیے، انھیں اپنی نظروں کے سامنے پورے اعزاز کے ساتھ دھرتی ماں کی گود میں اترتے دیکھ لیا تھا، وہ مائیں تو شاید وقت کے ساتھ سکون پا جائیں گی، ان کی بیویوں کے دل کو بھی یقین ہو جائے گا کہ جانے والے کو کبھی لوٹ کر نہیں آنا ہے مگر ہم کیا کریں... کوئی برف کا نام لے... یا کہیں برف دیکھ لے تو اسے اسی طرح دورہ پڑ جاتا ہے، سردی کا پورا موسم اس نے نہ سویٹر پہنا ہے، نہ کمبل اوڑھا ہے، کہتی ہے میرا شوہر بھی تو برف کی تہوں تلے ہے...'' وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگیں۔ کومل بے ہوش تھی ، کمہلائی ہوئی، نچڑی ہوئی...

''ڈاکٹروں کو اس کے مرض کی کوئی سمجھ نہیں آتی، جب اسے دورہ پڑتا ہے تو چند گھنٹے بے ہوش رہتی ہے ۔ ایک برس ہونے کو ہے، ایک دن کے لیے بھی مجھے تنہا چھوڑ کر نہیں گئی، اپنے شوہر سے کیا ہوا وعدہ نبھاتے نبھاتے اس نے اپنا آپ ختم کر دیا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ یہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی جائے ، اپنی زندگی کو عام انسان کی طرح گزارے مگر یہ اس ایک برس میں نفسیاتی مریضہ بن گئی ہے۔ یہاں ارد گرد کے گھروں میں کتنی ایسی مثالیں ہیں کہ اس علاقے کو عام لوگ شہید کالونی کہتے ہیں، شہیدوں کی بیواؤں کا ایک جہاں آباد ہے... مگر یہ تو خود کو شہید کی بیوہ بھی نہیں کہتی، کہتی ہے کہ جب تک ان کو دیکھوں گی نہیں، جس حال میں بھی ہو، یقین نہیں کر سکتی!!''

اسے دیکھنا، میرے لیے اذیت کا ایک انوکھا تجربہ تھا تو جس پر بیت رہی ہے اس کی اذیت کا کوئی کیا اندازہ کر سکتا ہے ؟ ہم اور آپ کیسے ایک عام انسان کی زندگی گزارتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی تکالیف اور مشکلات پر بلبلاتے ہیں... اور ایک یہ ہیں جن کو اللہ نے بنایا ہی خاص ہے ، ان کی قوت برداشت کتنی خاص ہے، ان کے مسائل جیسے مسائل کسی عام انسان کے نہیں ہیں۔

یہ ہر روز اپنے شوہروں کو اللہ کے حوالے کرتی ہیں اور اس کے لوٹ آنے پر شکر بجا لاتی ہیں، انھیں یہ بھی یقین نہیں ہوتا کہ آج کی شام ان کی ملاقات اپنے شوہر سے ہو گی یا اس کے بارے میں خبر ملے گی!!!! ان کے شوہر ہمارے رکھوالے، جو جاگتے ہیں تو ہم سوتے ہیں... جس ماں کے سینے پر کھیل کر وہ جوان ہوتے ہیں، اپنی جوانی اسے دان کر دیتے ہیں۔ ان کے لہو کی لالی ہے جو میرے وطن کے ایک ایک پھول کے رنگ میں جھلکتی ہے، انھی لوگوں کی مادر وطن سے محبت ہے جو دشمنوں کے ناپاک عزائم کے باوصف اسے دنیا کے نقشے پر قائم و دائم رکھے ہوئے ہے اور انشاء اللہ جب تک یہ دھرتی ایسے لال پیدا کرتی رہے گی تب تک کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ۔

آج سات اپریل ہے... پورے ایک برس قبل، آج ہی کے دن گیاری سیکٹر میں ہونے والا حادثہ کومل کے شوہر سمیت کل ایک سو چالیس افراد کو برفانی تودے تلے دفن کر گیا اور دنیا کے اس مشکل ترین امدادی آپریشن میں، اپنے محدود اور ناکافی وسائل کے باوجود تاحال پاکستانی فوج کے جوانوں نے ایک سو اکیس شہیدوں کے جسد خاکی برف کی بھاری تہوں سے نکال کر مادر وطن کی گود میں اتارے ۔ ایک برس ہو چکا ہے جس میں ہمیں علم ہے کہ کتنے مہینے، ہفتے، دن، گھنٹے ، منٹ اور سیکنڈ ہوتے ہیں۔

جن حالات میں ایک عام انسان چند سیکنڈ نہیں گزار سکتا، وہاں ایک برس سے تیس جوان اور پچاس انجینئر مسلسل امدادی کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں اور باقی ماندہ شہداء کی تلاش کا کام جاری ہے۔ کئی مقامات پر اس بات کا اظہار کیا گیاکہ عوامی رائے سے اس بات کا فیصلہ کیا جائے ، ورثاء سے اجازت لی جائے اور امدادی کارروائیوں کو معطل کر دیا جائے کیونکہ اب کسی کے زندہ ہونے ( یوں تو شہداء زندہ ہیں) کی امید مکمل ختم اور مزید کسی جسد خاکی کے ملنے کی امید بھی مفقود ہوتی جا رہی ہے۔

ملک کی حفاظت، اپنے فرائض کی بجا آوری اور خدمت کے جذبے سے سرشاری... فوج کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں، دشمنوں کی سازشیں کتنی بھی گہری کیوں نہ ہوں، اپنے ہی سربراہان چاہے ملک کی انا اور سلامتی کو داؤ پر لگانے پر تلے ہوں، اندرونی خلفشار کیسا بھی ہو اور عوام کے دلوں میں اپنی ہی فوج کی عزت کی دھجیاں اڑانے کی جتنی بھی مذموم کوشش کی جائے، کچھ لوگ فوج سے جتنی بھی نفرت کریں، فوجی کو ملک اور ملک کے عوام سے محبت کو درس دیا جاتا ہے، ان سے اس محبت کا حلف لیا جاتا ہے اور ہر فوجی مرتے دم تک اس حلف کی پاسداری کرتا ہے۔

کومل... کومل ایک کلی ہے جو کملا گئی ہے، اس ملک میں گنتی کرنے لگیں تو ان کوملوں کا کوئی شمار نہ کر سکے گا، گیاری کے شہداء کی برسی کا دن ہے، انھیں اللہ کے ہاں بلند ترین رتبے پر فائز ہوئے ایک برس بیت گیا ہے، کیا ہم سب دل سے ایک بار اس ملک کی افواج اور ان کے ایک ایک سپاہی کی سلامتی کی دعا کر سکتے ہیں، دل سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ان سے کتنی محبت ہے اور دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالی اس ایک کومل کو اور اس جیسی ہزاروں کوملوں کو سکون سے ہمکنار کرے جن کے شوہر ہم سب کی نظروں سے تو اوجھل ہو گئے ہیں مگر وہ ابدی زندگی پا گئے ہیں!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں