ملک کے نوجوانوں کے نام
آرمی چیف کی سوچ کے برعکس ان کے ماتحت کام کرنے والے کچھ ادارے سیاست میں حصہ لے رہے ہیں
عزیزنوجوانو! وہ معاشرے جہاں علم دولت اور منصب کے مقابلے میں حقیر اور عالم بے توقیر ہوں۔ انھیں دنیاکی ساری طاقتیں اکٹھی ہو کر بھی ذلت اور زوال سے نہیں بچاسکتیں۔ ا یسے معاشروں میں ہیجان ،جذباتیت، بازاری پن، موج مستی، حرام خوری، فراڈ، جعل سازی، جرائم اورگروہی تعصبات پھلتے پھولتے ہیں اور جمود اور جہالت کو فروغ ملتا ہے۔
علم، دلیل اور مکالمے کو جنم دیتا ہے۔علم سے ناتا کمزور ہو جائے تومعاشرہ تعصب اورا نتہاپسندی کے اندھیروں میںگھِر جاتا ہے۔دلیل کا کلچر پروان چڑھنا چاہیے۔ مکالمے کو فروغ ملناچاہیے۔ اس لیے اپنے علم میں اضافہ کریں۔ اس کے لیے کتابوں سے رِشتہ استوارکریں۔ یہ سو فیصد درست ہے کہ کتاب بہترین ساتھی ہے،کتابیںپڑھنے سے آپ کی فکرونظر میں وسعت آئے گی، آپ ہمارا مستقبل ہیں،کسی ایک پارٹی یاگروہ کا نہیں پورے ملک کا! پوری قوم کا مستقبل! اس لیے ہم آپ کے بارے میں فکرمند ہیں۔
آپ کو پورا حق پہنچتاہے کہ کسی پار ٹی کو پسندکریں اور کسی بھی سیاسی لیڈر کی تقلید کریں، مگر آپ پارٹی کو پسند کریں تو دلیل کے ساتھ! کسی سے اختلاف کریں تو بھی دلیل کے ساتھ کسی سیاستدان کی ہر بات اور ہر عمل کو صحیح اور درست کہنا دلیل نہیں تعصب ہے اورکسی سیاستدان کی ہر چیز اور ہر فعل کو غلط اور ملک دشمنی قرار دینا منطق نہیں جہالت ہے۔
پیارے نوجوانو! لائبریری سے دوستی کرلیں آپ کے علم میں اضافہ ہو گا تو آپکی شخصیت میں توازن برداشت، فراخدلی اور حسن پیداہوگا۔ آپ کتاب سے لاتعلق رہیں گے تو آپ کے ذہن میں شدت پسندی اور عدم برداشت کے کانٹے اُگ آئیں گے ،آپکا دماغ تعصب اور تنگ نظری کا جنگل بن جائے گا، متعصب اور تنگ نظرشخص کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے اور دلوںپر مہر لگ جاتی ہے۔
پاکستان کے نوجوانوں کی شان یہ ہے کہ وہ پڑھے لکھے اور باعلم لوگوں کیطرح حالات کا تجزیہ کیاکریں،اس وقت سیاسی مارکیٹ میں جتنے بھی سیاستدان موجود ہیںان میں سے ہر ایک میں کچھ خوبیاں بھی ہیںاورکچھ خامیاں بھی کوئی بھی بے داغ نہیںکوئی بھی محمد علی جناح نہیں۔مگر کوئی بھی خوبیوں اور اوصاف سے مکمل طور پر محر وم نہیں ۔ پاکستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ سیا ستدا نوں یا لیڈروںکی خوبیوں کا بھی ادراک اور اعتراف کیا کریں اور اُن کی خامیوں کو بھی پیشِ نظر رکھاکریں۔
پیپلزپارٹی کے اصلی سربراہ آصف علی زرداری صاحب کا عمومی تاثر بہت منفی ہے۔ ان پرکرپشن اور خریدوفروخت کے بہت الزاما ت ہیں مگر یہ ماننا پڑے گاکہ زرداری صاحب نے ہمیشہ قومی سیاست کی ہے،علاقائی تعصبات ابھارنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے علاوہ ان کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دوستوں کا مشکل وقت میں ساتھ نہیں چھوڑتے۔
تحریک اِنصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب کے مخالفوں کوبھی یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ عمران خان نے کرکٹ کے ذریعے دنیا بھر میں ملک کو متعارف کرایا اور اس کے بعد سوشل سروس میں انھوں نے شوکت خانم کینسر اسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے ادارے بناکر بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔ان میں کمزوریاں بھی ہیں، اُن پر اخلاقی کرپشن کے الزامات بھی لگتے ہیں مگر ان کمزوریوں کی وجہ سے ان کے کار ناموں کو مکمل طور پر نظرانداز کر دینا درست نہیں ہے۔
اسی طرح میاں نواز شریف صاحب نے ایٹمی دھماکے کرکے ملک کو ناقابلِ تسخیر بنایا،اس کے علاوہ ملک میں موٹرویز کا جال پھیلا نا،انرجی کے بحران پر قابو پانا اور دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی فورسزکے ذریعے بھرپور آپریشن کراکے امن بحال کرناان کے بڑے کارنامے ہیں۔ اُن پرکئی الزامات بھی لگتے ہیں وہ مقدمات کا سامنا بھی کررہے ہیں مگر ان کے یہ کارنامے کسی صورت نظراندازنہیں کیے جاسکتے۔
شہباز شریف صاحب چند بیوروکریٹس کو بے تحاشا نوازتے ہیں جو نامناسب ہے مگر وہ میدانِ سیاست کے سب سے متحرک اور محنتی شخص ہیں ، انھوں نے پنجاب میں بڑے بڑے ترقیاتی کام کم سے کم وقت میں مکمل کرکے ملک کے اندر اور باہر لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ میرٹ کو فروغ دینے میں، انھوں نے دوسرے تمام وزرائے اعلیٰ سے بہتر کردار اداکیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان صاحب پر الزام ہے کہ وہ ہر حکومت میں حصے داربن جاتے ہیں مگر وہ ایک زیرک سیاستدان ہیں، انتہائی سلجھی ہوئی اور مدلل گفتگوکرتے ہیں جو بہت بڑی خوبی ہے اور سیاسی کارکنوں کو ان سے یہ وصف سیکھنا چایئے۔
ایم کیوایم نے نچلے اور متوسط درجے کے کارکنوں کو اسمبلیوں تک پہنچایا، دوسری پارٹیوں کو بھی یہ بات اپنانی چاہیے۔ اگرچہ سیاست میں دہشتگردی اور فاشزم کو بھی انھوں نے ہی متعارف کرایا مگر ان کی مثبت چیزوں کوبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب کا معیارِ زندگی امیرانہ نہیں فقیرانہ ہے۔ پرانی تربیت کے نتیجے میں جماعت اسلامی کے سینئر اور پرانے رہنماء کردار میں بہت بہترہیں۔اگرچہ جماعت کی قیادت پر الزام آتا ہے کہ وہ اب اصولوں کے بجائے مفادات کی سیاست کرنے لگی ہے، مگر یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ ان پرمالی یا اخلاقی کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ اے این پی کے قائدین پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں مگر جمہوریت کے ساتھ ان کی وابستگی قابلِ ستائش ہے۔
اس لیے پاکستان کے نوجوانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ان کے پسندیدہ لیڈر نہ فرشتے ہیں اور نہ ہی ان کے مخالف شیطان ہیں ۔کوئی بھی خوبیوں سے خالی نہیں اور کوئی بھی خامیوں سے مبری ٰ نہیں،سیاست کے بارے میں آپکی رائے مدلل اور سلجھی ہوئی ہونی چاہیے۔سیاسی کارکنو ں کونوابزادہ نصراللہ خان مرحوم ومغفور کا اندازاپنانے کی کوشش کرنی چائیے،وہ اپنے سب سے بڑے مخالف کا نام بھی انتہائی احترام سے لیتے تھے اور نام کے ساتھ صاحب ضرور لگاتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہر پارٹی اور ہر طبقہ فکرکے لوگ ان کا دل سے احترام کرتے تھے۔
نوجوانو!آپ کی یہ شان یہ ہونی چاہیے کہ آپ حالات کا غیرجذباتی اندازمیںتجزیہ کر سکیں مخالفین کی رائے بھی کھلے دل سے سن سکیں اور اپنے لیڈرکی خامیوں اور کوتاہیوں کو بھی تسلیم کریں۔مخالفین کے ساتھ سیاسی اختلاف کو لڑائی یا دشمنی میں تبدیل نہ کریں ۔یاد رکھیں کہ زیادہ تر بڑے لیڈر ایک دوسرے کے ساتھ سماجی تعلقات ختم نہیں کرتے وہ ایک دوسرے کے ساتھ گلے ملتے ہیں اور ایک دوسرے کی خوشی غمی میں بھی شریک ہوتے ہیں ،آپ بھی اسی پرعمل کیجیے۔
آپ پارٹی کے سیاسی کارکن بنیں،کسی کے اندھے پیروکار نہ بنیں۔کسی کے دیوانے یا پروانے بنناایک پڑھے لکھے سیاسی کارکن کو زیب نہیں دیتا۔کسی سیاسی لیڈر کوگالی دینا یا اس کے بار ے میں بدزبانی کر نا جاہلانہ طرزِ عمل ہے۔ یاد رکھیںآپ نوجوان ہیں اور تمام پارٹیوں کے سربراہ اور لیڈر آپ سے عمر میں بڑے ہیں ، اسلامی تعلیمات کے مطابق عمر میں بڑے شخص کا احترام آپ پرواجب ہے۔آپ کسی بھی لیڈرکا ذکر کریں تو اس کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا کریں ، آپ کے رویے اور لہجے میںتلخی کے بجائے نرمی شدت پسندی کے بجائے اعتدال اوردشنام طرازی کے بجائے شائستگی آنی چاہیے۔ ایساکر کے تودیکھیں، ملک کے سیاسی ماحول میں انتہائی خوشگوار تبدیلی رونما ہونے لگے گی۔
مختلف ٹی وی چینلوں پر بیٹھے ہوئے کئی نام نہاد تجزیہ کار اور دانشور جہالت اور تعصب کا مرقع نظر آتے ہیں ، صاف لگتا ہے کہ انھیں ٹاسک دیا گیا ہے کہ سوال کچھ بھی ہو تم نے جمہوری اداروںکواور ایک مخصوص شخصیت کو برابھلاکہنا ہے۔ عزیزنوجوانو ! گالی دینا ، بدزبانی کرنا کسی پر جوتا یا سیاہی پھینکنا بد ترین قسم کا گھٹیا اور جاہلانہ فعل ہے، ایسا کام کوئی نارمل شخص ہرگز نہیں کرسکتا۔ایسی حرکت صرف وہ کرے گا جس کی شخصیت میں محرومیوں کی وجہ سے تشدد اور انتہاپسندی پیدا ہوچکی ہے۔یاد رکھیں اسطرح کے جاہلانہ اقدام کرنے والے کو پورا معاشرہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ،حتی کہ جنھیں خوش کرنے کے لیے ایسے اقدام کیے جاتے ہیں وہ بھی انھیں دل سے گھٹیا سمجھتے ہیں اور ان سے لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں۔
پیارے نوجوانو !حضورنبی کریم ﷺکی ذات کے بعد آپ کی محبتوں کا مرکز اور محور آپ کا ملک پاکستان اور آپ کی عقیدتوں کے محور بانیانِ پاکستان ہونے چاہیں، آپ سیاسی لیڈرو ں کے ووٹراور سپورٹرضرور بنیں مگر کسی کے لیے مرنے مارنے پر تُل جانا ، مخالف کوگالی دینا، کسی کا جیالا یا متوالا بن جانا یا کسی کا غلامی کی حد تک پیروکار بن جاناآپ کے شایانِ شان نہیں ہے ۔آپ کے طرزِعمل سے ایک باعلم، اعتدال پسند اور باوقار سیاسی کارکن کی غمازی ہونی چاہیے۔اس لیے آپ اپنے طرزِعمل میں توازن اور وقار پیدا کیجیے۔ آپ نے ایسا کر لیا تو پھر ہماری سیاست میں ایسا حسن اورنکھار پیداہوگا، جس کے چرچے پوری دنیامیں ہونگے ۔
باجوہ ڈاکٹرائن
آج آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کی اہم قومی اور بین الاقوامی معاملات کے بارے میں سوچ کو اخبارات میں باجوہ ڈاکٹرائن کے نام سے چھپوایا گیا، جس پر یقیناً لوگ رائے زنی کریں گے۔ دوسری طرف ممتازصحافی سلیم صافی کے کالم نے ہر باشعور پاکستانی کو گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
سلیم صافی جنرل باجوہ صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں ''وہ نجی اور آف دی ریکارڈ محفلوں میں حلفاً اور قسماً کہتے رہتے ہیں کہ وہ جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں'' مزید لکھتے ہیں''بد قسمتی سے آج بھی عملاً گراؤنڈ پر جو کچھ ہورہا ہے وہ بسا اوقات جنرل صاحب کی مذکورہ سوچ کا عکاس نہیں ہوتا، وہ فوج کو سیاست سے لاتعلق کرنا چاہتے ہیں لیکن تعلقات عامہ سے متعلق ایک اہم محکمے میں بیٹھے بعض لوگ اسکول کے مانیٹر کی طرح میڈیا کو ہدایات دیتے رہتے ہیں، انھیں ہندوستان کے پاکستان کے خلاف زہریلے پراپیگنڈے کی کم لیکن پرویز رشید کے انٹرویو کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔
جنرل صاحب سیاست کو گند سے صاف کرنے کے متمنی ہیں لیکن سینیٹ انتخابات کے دوران آصف زرداری صاحب بلوچستان سے کراچی اور اسلام آباد سے پشاور تک جو گند کر رہے تھے انھیں اس عمل میں بعض اداروں کی سرپرستی بھی حاصل رہی'' سلیم صافی چونکہ عسکری حلقوں کے قریب سمجھے جاتے ہیں اس لیے اُس ادارے کی سوچ اورعمل کے بارے میں زیادہ باخبر ہیں۔ ان کی تحریر نے بعض حلقوں کے خدشات کی تصدیق کی ہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ آرمی چیف کی سوچ کے برعکس ان کے ماتحت کام کرنے والے کچھ ادارے سیاست میں حصہ لے رہے ہیں، وہ صحافیوں کو ہدایات دیتے ہیں اور سینیٹ کے انتخابات میں ملوث رہے ہیں۔ یہ جان کر ہر باشعور پاکستانی گہری تشویش میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اس وقت جب کہ بھارت کا آرمی چیف پاکستانی سر زمین کے اندر آنے کی دھمکیاں دے رہاہے،ہمارے کچھ محافظین ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو ملک اور فوج دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔
کیا آرمی چیف انکوائری کرکے صحافیوں کو ہدایت دینے اور سیاست میں حصہ لینے والے افسروں کے خلاف موثرکاروائی کرکے اپنی اگلی ڈاکٹرائن کے ذریعے قوم کو آگاہ کریں گے؟