نئے دکھ
انسان اپنی زندگی کی سب سے بڑی لڑائی اپنے آپ سے لڑتا ہے اور ہمیشہ ہی ہارتا ہے
سنتے آرہے ہیں کہ انسان مسلسل تبدیل ہو رہا ہے لیکن اگر ہم اس کا بغور مکمل جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس کی ہر چیز تبدیل ہو رہی ہے، ماسوائے خود انسان کے۔ وہ پہلے روز سے لے کر آج تک وہ ہی کا وہی ہے اس نے اپنے آس پاس و اردگرد کی ہر چیز کو بدل ڈالا لیکن وہ خود کو تبدیل کرنے میں مکمل ناکامی سے دو چار ہوا۔
انسان کے جو حالات و واقعات ہم تک پہنچے ہیں چاہے وہ بابل کے زمانے کے ہوں چاہے وہ حضرت موسیٰ کے دور کے ہوں یا سقراط سے پہلے، سقراط کے زمانے کے ہوں یا موجودہ زمانے کے ہوں ان سب ادوار میں انسان ایک ہی جیسا دکھائی اور سنائی دیتا ہے وہ ہی لالچی، ضدی، حیوانی جبلتوں کا مالک، من مانی کرنے کا دلدادہ، صبر و شکر و سکون سے پاک، موقع ملتے ہی بگاڑ پیدا کرنے والا، خود پسند، بھوکا، خود سر، پابندیوں سے مبرا، اخلاقیات کا دشمن، معاشرے بننے سے پہلے پہلے تک اس نے خوب من مانی کی، اس کا جو جی چاہتا تھا کرگزر تا تھا لیکن جب معاشروں کا وجود عمل میں آیا اور جب اسے اخلاقی و قانونی ضابطوں اور تقاضوں کے تحت زندگی گزارنی پڑی تو وہاں سے اس کا نئے دکھوں سے پالا پڑنا شروع ہوا۔
کیونکہ اس کی مکمل آزادی پر قدغن لگادی گئی، ان نئے دکھوں سے پہلے اس کے دکھوں کی نوعیت بالکل الگ تھی جن کا وہ عادی ہو چکا تھا اور اسے اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ ہوگیا تھا کہ ان دکھوں کے بغیر زندگی نہیں گزاری جاسکتی ہے، اس لیے اس نے ان دکھوں کو اپنی زندگی کے ایک حصے کے طور پر تسلیم کرلیا تھا جن میں بھوک، موسم اورخونخوار جانوروں کے دکھ شامل تھے لیکن ان معاشروں کے نئے دکھوں کو اسے جبرا برداشت کرنا پڑ رہا تھا جنہیں برداشت کرنا اسے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
برداشت کرنے کی انسانوں میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں ایک وہ قسم جو نا چاہتے ہوئے بھی مجبوراً اپنی حدیں تسلیم کر لیتی ہے اور اس کے سامنے اپنے ہتھیار پھینک دیتی ہے لیکن دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو اپنی حدیں تسلیم اور ماننے کے لیے کبھی تیار ہی نہیں ہوتی ہے اور جب جب جیسے جیسے انھیںمواقعے ملتے رہتے ہیں یا وہ مواقعے بناتے رہتے ہیں وہ برداشت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتے ہیں اپنے اپنے خیالوں میں انسانوں کی یہ دونوں قسمیں سب سے بڑے مجرم ہوتے ہیں۔ پہلی قسم صرف خیالوں میں ہی ساری زندگی مجرم رہتی ہے جبکہ دوسری قسم خیالوں کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں بھی مجرم بننے سے اپنے آپ کو روک نہیں پاتی ہے۔
انسان اپنی زندگی کی سب سے بڑی لڑائی اپنے آپ سے لڑتا ہے اور ہمیشہ ہی ہارتا ہے، اس لیے کہ وہ اس لڑائی کو جیتنا ہی نہیں چاہتا ہے۔ انسان بنیای طور پر دکھی مخلوق ہے وہ دکھی مخلوق اس لیے ہے کہ وہ ازل سے چاہتا ہے کہ اسے اپنی من مانی کی مکمل آزادی حاصل ہو، اس کا جو جی چاہے وہ کرے اسے کسی بھی قسم کی اور کہیں سے بھی ممانعت نہ ہو۔ ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت، ہمارے بیوروکریٹس، ہمارے جاگیر دار، سرمایہ دار، بڑے بڑے بزنس مین، ملاؤں سے لے کر عام انسانوں تک سب کے سب دکھی مخلوق ہیں۔ عام انسانوں کے دکھ انتہائی مہذب، شریف، بااخلاق، باکردار اور قانونی ہوتے ہیں جیسے کہ دو روٹی، چھوٹا سا گھر، چھوٹی سی نوکری، تن ڈھانپنے کے لیے صاف کپڑے، معمولی تعلیم کا حصول، ٹرانسپورٹ کی سہولیات، بجلی، گیس کے بل کی با آسانی آدائیگی، چھوٹے موٹے ڈاکٹر یا اسپتال تک آرام سے رسائی، معمولی جان پہچان شامل ہیں۔
جبکہ بااختیار، طاقتور، امیرو کبیر بڑے بڑے عہدوں اور منصبوں پر بیٹھے انسانوں کے دکھ انتہائی، بد معاش، بدکردار، بداخلاق اور غیر قانونی ہوتے ہیں۔ جیسے کہ اربوں روپوں کی لوٹ مار، ہر چیز میں کمیشن، اپنے سے چھوٹوں کی ہر بات میں بے عزتی کرنا، ملک اور غیر ممالک میں ہر جگہ ذاتی گھرکا حصول، خوبصورت اور قیمتی چیزوں کو دیکھتے ہی رال کا ٹپکنا، ہر قیمتی چیز پر قابض ہوجانا۔ ہر بات میں صرف اپنا فائدہ دیکھنا اور رکھنا ہر دستخط پر نوٹوں کی بہار چاہنا شامل ہے۔
یہ سب اس وقت اپنے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں جب انھیں اپنی من مانی اور جو جی میں آئے کرنے سے منع کیا جاتا ہے یہ اس وقت آسمان سر پراٹھا لیتے ہیں غصے سے پاگل ہو جاتے ہیں ہر چیزکو برباد کرنے پر تل جاتے ہیں ہر ایک کو برا بھلا کہنے بیٹھ جاتے ہیں اصل میں ان سب کہنا یہ ہے کہ قانون، آئین، پابندی، اخلاقی ضابطے اور تقاضے عام چھوٹے چھوٹے انسانوں کے لیے ہوتے ہیں او ہم جیسے امیر وکبیر، طاقتور اور با اختیار ان تمام خرافات سے بالاتر ہیں ہم صرف اپنی من مانی کرنے کے لیے ہی پیدا کیے گئے ہیں۔
دوسری طرف عام انسان جتنا اپنے دکھوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے اس کے دکھ اور بڑھ جاتے ہیں وہ اور کوشش کرتا ہے کہ اس کے دکھ اور بڑھ جاتے ہیں پھر وہ ہراساں ہوکر حقیر گوشے میں چھپ جاتا ہے اور ان الفاظ کے نیچے زندگی سے لاتعلقی ڈھونڈتا ہے ہزاروں رد عمل ہجوم کی صورت میں اس کے ذہن میں آتے رہتے ہیں اوروہ روز ان دکھوں کے بوجھ تلے دبتا رہتا ہے اور پھر ایک روز وہ ان کے بوجھ تلے کچل کر مرجاتا ہے۔
دوسری طرف امیر وکبیر، بڑے بڑے عہدے و منصب پر بیٹھے کا حال بھی کچھ کچھ ایسا ہی ہے، اس کے دکھ بھی اس کو جینے نہیں دیتے ہیں، ہر وقت اس کو نوچتے اور کاٹتے رہتے ہیں وہ ہر وقت اپنے روپوں کو گنتا رہتا ہے۔ اس کے قبضے سے باقی رہ جانے والی خوبصورت اور قیمتی چیزوں کو حسرت بھری نگاہوں سے گھورتا رہتا ہے، ہر وقت اس کی رال ایسے ٹپکتی رہتی ہے جیسے کسی نے پانی کا نلکا کھلا چھوڑ دیا ہو پھر ایک روز وہ اپنے نوٹوں اور قیمتی چیزوں کے بوجھ تلے دب کر مر جاتا ہے، ذہن میں رہے عام انسان کے دکھ بھی اس کے ساتھ قبر میں جاتے ہیں اور خاص انسان کے دکھ بھی، اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے ہیں وہ بھی اسی کے ساتھ ساتھ اس کی قبر میں جاتے ہیں اور اسی وقت کہیں نزدیک اور کہیں دور نئے عام اور خاص انسان دنیا میں آرہے ہوتے ہیں اور وہ ہی شریف، باکردار، مہذب، بااخلاق اور بد معاش، بدکردار، بد اخلاق دکھ ان کے پاس ہی کھڑے ہوئے ہوتے ہیںان کو دبوچنے کے لیے۔