گلوکارترن ساگر پاکستان کے دورہ کے بعد بھارت روانہ
فیملی پریشان تھی ،پاکستان آنے سے تمام خدشات اور خوف دورہوگئے‘گلوکار
بھارت کے معروف گلوکارترن ساگرشکارپورمیں پرفارم کرنے کے بعد گزشتہ روزواہگہ بارڈرکے راستے دہلی روانہ ہوگئے۔
پاکستان میں چاردن قیام کے دوران انھوں نے جہاں شکارپورمیں واقعہ ایک آشرم میں منعقدہ محفلوں میں دوپروگراموں میں عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرکاء کوجھومنے پرمجبورکیا، وہیں لاہوریاترا کی خواہش پوری نہ ہونے پرافسردہ بھی دکھائی دیے۔ بھارت روانگی سے قبل ''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے ترن ساگرکا کہنا تھا کہ پاکستان آنے سے پہلے میری فیملی بہت پریشان تھے اورخوفزدہ ہونے کے ساتھ مجھے یہاں آنے سے مسلسل روک رہے تھے۔ لیکن میرے والد میرے پاکستان جانے پرخوش بھی تھے اوران کی وجہ سے ہی میں یہاں آسکا۔
مگریہاں پہنچتے ہی میراسارا خوف دورہوگیا۔ ایک طرف توبہت سے قریبی دوست مجھے ملے اورپھرلاہورسٹیشن سے باہر نکلتے ہی عام شہریوں نے جب مجھے پہچانا تومیں حیران رہ گیا۔ بطورفنکاریہ میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی ۔ کیونکہ میں اس سے پہلے کبھی لاہورنہیں آیا تھا اورمیرا خیال تھا کہ یہاں مجھے بہت کم لوگ ہی پہچان پائیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ شکارپورسے لاہورواپس آتے ہوئے جونہی ٹرین میں سوارلوگوںکو پتہ چلا کہ ہم آرٹسٹ ہیں اوربھارت سے آئے ہیں توپھر کیا تھا۔ کوئی ہمیں کھانے کی دعوت دے رہا تھا توکوئی اپنے گھرمدعو کرنے لگا۔
یہ چاہت اورپیارمجھے کبھی نہیں بھولے گا۔ پاکستان میں گزرے لمحات میری زندگی کا انمول تحفہ ہیں۔ میں یہاں سے ملنے والا پیار، محبت اورامن کا پیغام ہرصورت میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچاؤں گا۔ جہاں تک بات فنکاروں پرپابندی لگانے کی ہے تومیں سمجھتاہوں کہ فن اورفنکارکی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اگرکسی فنکاراوراس کے فن کوقیدکرنے کا رواج ہوتاتومجھے کبھی بھی یہاں وہ پیارنہ ملتا، جومیں اپنے ساتھ لے کرجارہاہوں۔ ایک سوال کے جواب میں ترن ساگرنے کہا کہ مجھے لاہورکی سیرکرنے کا بے حد شوق تھا ۔
کیونکہ میں حضرت داتاگنج بخش علی ہجویری اوربابابلھے شاہ کی درگاہ پرحاضری کے ساتھ ساتھ تاریخی مقامات کی سیر کرنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ میوزک کی دنیا پرراج کرنے والے عظیم فنکاروں سے ملاقات بھی نہیں کرسکا۔ اس لیے میں بہت جلد دوبارہ پاکستان آؤنگا اورزیادہ دیریہاں قیام کرونگا۔ کیونکہ '' لاہورآنے کے بعد میراصرف جنم ہوا اورابھی مجھے اپنا بچپن یہاں گزارنا ہے''۔
پاکستان میں چاردن قیام کے دوران انھوں نے جہاں شکارپورمیں واقعہ ایک آشرم میں منعقدہ محفلوں میں دوپروگراموں میں عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرکاء کوجھومنے پرمجبورکیا، وہیں لاہوریاترا کی خواہش پوری نہ ہونے پرافسردہ بھی دکھائی دیے۔ بھارت روانگی سے قبل ''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے ترن ساگرکا کہنا تھا کہ پاکستان آنے سے پہلے میری فیملی بہت پریشان تھے اورخوفزدہ ہونے کے ساتھ مجھے یہاں آنے سے مسلسل روک رہے تھے۔ لیکن میرے والد میرے پاکستان جانے پرخوش بھی تھے اوران کی وجہ سے ہی میں یہاں آسکا۔
مگریہاں پہنچتے ہی میراسارا خوف دورہوگیا۔ ایک طرف توبہت سے قریبی دوست مجھے ملے اورپھرلاہورسٹیشن سے باہر نکلتے ہی عام شہریوں نے جب مجھے پہچانا تومیں حیران رہ گیا۔ بطورفنکاریہ میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی ۔ کیونکہ میں اس سے پہلے کبھی لاہورنہیں آیا تھا اورمیرا خیال تھا کہ یہاں مجھے بہت کم لوگ ہی پہچان پائیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ شکارپورسے لاہورواپس آتے ہوئے جونہی ٹرین میں سوارلوگوںکو پتہ چلا کہ ہم آرٹسٹ ہیں اوربھارت سے آئے ہیں توپھر کیا تھا۔ کوئی ہمیں کھانے کی دعوت دے رہا تھا توکوئی اپنے گھرمدعو کرنے لگا۔
یہ چاہت اورپیارمجھے کبھی نہیں بھولے گا۔ پاکستان میں گزرے لمحات میری زندگی کا انمول تحفہ ہیں۔ میں یہاں سے ملنے والا پیار، محبت اورامن کا پیغام ہرصورت میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچاؤں گا۔ جہاں تک بات فنکاروں پرپابندی لگانے کی ہے تومیں سمجھتاہوں کہ فن اورفنکارکی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اگرکسی فنکاراوراس کے فن کوقیدکرنے کا رواج ہوتاتومجھے کبھی بھی یہاں وہ پیارنہ ملتا، جومیں اپنے ساتھ لے کرجارہاہوں۔ ایک سوال کے جواب میں ترن ساگرنے کہا کہ مجھے لاہورکی سیرکرنے کا بے حد شوق تھا ۔
کیونکہ میں حضرت داتاگنج بخش علی ہجویری اوربابابلھے شاہ کی درگاہ پرحاضری کے ساتھ ساتھ تاریخی مقامات کی سیر کرنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ میوزک کی دنیا پرراج کرنے والے عظیم فنکاروں سے ملاقات بھی نہیں کرسکا۔ اس لیے میں بہت جلد دوبارہ پاکستان آؤنگا اورزیادہ دیریہاں قیام کرونگا۔ کیونکہ '' لاہورآنے کے بعد میراصرف جنم ہوا اورابھی مجھے اپنا بچپن یہاں گزارنا ہے''۔