جالبؔ کا بے لوث دوست نہ رہا
جالب صاحب کی آمد پرکچھ محفلوں اور مشاعروں کا اہتمام مجاہد بریلوی بھی کرتے۔
بہت سارے افراد بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنا وطن چھوڑ دیتے ہیں اور بہت ساروں کوکسی مجبوری کے تحت ایسا کرنا پڑتا ہے لیکن عمرکے آخری حصے میں دونوں طبقوں کے لیے وطن کی دوری قیامت سے کم نہیں ہوتی۔ ادبی، سماجی اور ثقافتی محفلوں کے روح رواں اور پاک بھارت دوستی کے علمبردار ایس ایم انعام بھی کسی ذاتی پریشانی کی وجہ سے اپنی جنم بھومی چھوڑکر اٹھارہ سال قبل برطانیہ جا بسے تھے۔
یہ وہی ایس ایم انعام تھے جن کے مالی تعاون اور ادب دوستی کی وجہ سے مختلف اداروں میں ادبی اور سماجی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا اور سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے پہلے صدر ہونے کی حیثیت سے وہ ساؤتھ ایشیاء میں تجارتی رابطے بڑھانے کے لیے مختلف سیمینار بھی منعقد کرواتے رہتے۔
نوے کی دہائی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے پلیٹ فارم سے منعقدہ ایک پروگرام کے بعد انھوں نے اپنے قریبی دوستوں کے لیے پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا تو ہماری ان سے دوسری یا تیسری ملاقات ہوئی۔ اس دعوت میں علی سردار جعفری، ڈاکٹر محمدعلی صدیقی، حسن عابدی، کشور ناہید اورعبدالحمید چھاپرا کے علاوہ دو تین دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔
تین چار گھنٹوں تک جاری رہنے والی یادگار محفل میں علی سردار جعفری نے اپنی نظمیں بھی سنائیں اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے ساتھ جڑے پاک وہند کے ادیبوں اور شاعروں کی یادوں سے بھی ماحول کو خوشگوار بنایا۔ تقریب میں شامل ہونے والے افراد میں ہم سب سے چھوٹے تھے، مگر انعام صاحب ہمارے ساتھ بھی اسی محبت اور شفقت سے پیش آرہے تھے جس طرح اپنے ہم عمر دوستوں سے مل رہے تھے۔
سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ہونے کی حیثیت سے پاکستان اور انڈیا کے تعلقات پر ان کی گہری نظر رہتی اور جب بھی حالات خراب رخ اختیارکرتے وہ قیام امن اور دونوں ممالک کے درمیان گفت و شنید بڑھانے کے لیے کوئی نہ کوئی ادبی یا سماجی کھڑکی کھولنے کی کوشش ضرور کرتے۔
بھارت کے وزیراعظم اندرکمارگجرال کے ساتھ ایس ایم انعام کی گہری دوستی تھی۔ اس دوستی اور پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے انھوں نے اندرکمار گجرال کی کتاب ''مضامین گجرال'' کے نام سے چھپوا کرکراچی میں اس کی تقریب بھی منعقد کروائی تھی۔ اس تقریب میں گجرال صاحب تو نہ آسکے ہاں پاکستان میں بھارت کے سفیر نے خاص طور پر شرکت کی تھی۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایس ایم انعام نہ صرف ادب دوست شخصیت تھے بلکہ خود بھی پنجابی اور اردو میں بہت اچھی نظمیں لکھتے تھے۔ انھوں نے اندرکمارگجرال کی بیوی اور انگریزی، ہندی، پنجابی کی معروف شاعرہ شیلا گجرال کی کتاب چھپوانے کارادہ کیا تو ہمیشہ کی طرح فون کرکے کہنے لگے کہ دوپہرکا کھانا میرے ساتھ ہی کھانا ایک ضروری کام ہے۔ معلوم ہوا کہ شیلا گجرال کی کتاب گورمکھی میں ہے جسے فوراً شاہ مکھی میں ڈھالنا ہے اور اس کا دیباچہ لکھنے کے بعد دہلی میں اس پر منعقد ہونے والی تقریب میں مضمون بھی پڑھنا ہے۔
دس پندرہ دن کے بعد تمام کام مکمل ہوا توہمارے علاوہ بابا نجمی اور کراچی میں پہلے ہفت روزہ پنجابی اخبارکے ایڈیٹر نیئربٹ کے پاسپورٹ ویزے کے لیے روانہ کردیے گئے۔ بعض وجوہات کی بنا پر ہم تو دہلی نہ جا سکے مگر انعام صاحب دوسرے دوستوں کوساتھ لے کر دہلی پہنچے اور وہاں پر اس کتاب کی تقریب منعقد ہوئی جس میں پاکستان اور بھارت کے عوام میں قربت کے علاوہ ادب و ثقافت اور باہمی تجارت پر بھی کھل کر گفتگو ہوئی۔
ایس ایم انعام اور حبیب جالب کی آپس میں بہت گہری دوستی تھی۔ جالب صاحب جب بھی کراچی آتے ان کی خدمت کے تمام اسباب انتظامات ایس ایم انعام کے ہاتھوں میں ہی ہوتے۔ جالب صاحب کی آمد پرکچھ محفلوں اور مشاعروں کا اہتمام مجاہد بریلوی بھی کرتے جن میں فاضل جمیلی، ن م دانش، اسرار حسین، بابا نجمی اور مجھے ضرور دعوت دی جاتی۔
مجاہد بریلوی اپنی کتاب ''جالب جالب'' میں لکھتے ہیں کہ ''جالب صاحب کی طرح انعام صاحب بھی ایک معصوم آدمی تھے ائیر پورٹ سے جالب صاحب کو لینے، اپنے گھر بلکہ اپنے بیڈ روم میں رکھنے، ان کے کپڑے دھلوانے اور پھر ساری شاموں کا ذمہ انعام بھائی نہ صرف پہلے سے طے کر دیتے بلکہ ہم سب کو شامل کرنا بھی لازمی سمجھتے۔''
لندن میں کئی برسوں بعد ایس ایم انعام سے ملاقات ہوئی تو ان کے چہرے پر وہی دل موہ لینے والی مسکراہٹ اور آنکھوں میں شفقت بھری چمک نظر آئی، مگر ہر وقت دوستوں میں گھرے رہنے والے ایس ایم انعام کہیں کھو چکے تھے۔ انھوں نے مجھے فون کر کے اپنے ہاں کھانے پر بلایا تھا اور اس بات پر بہت خوش تھے کہ میں وقت مقررہ پر ان کے پاس موجود تھا، مگر ان کے پاس کوئی بھی موجود نہیں تھا۔
چھڑی کے سہارے چلتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے کھانا گرم کرنے لگے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بٹھا دیا اور ٹیبل پر کھانا لگانے کے بعد سہارا دے کر ڈائنگ چیئر پر بٹھایا تو ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ جب واپس آنے لگا تو مجھ سے کہنے لگے ''یار چغتائی کبھی کبھی آجایا کرو اس شہر میں بہت تنہا ہوں'' میں پھر ملنے کا وعدہ کر کے واپس آگیا جس کے بعد ان سے تین چار ملاقاتیں ہوئیں اور پھر یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔
پاکستان واپس آیا تو صبح وشام ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، ان کی دعوتوں سے لطف اندوز ہونے والے اور ان کی بے لوث محبت سے فائدہ اٹھانے والے دوسرے دوستوں کی طرح میں نے بھی انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ انھیں فراموش کر دیا اور حالات نے بھی کچھ ایسے کھیل کھیلے کہ لندن تو کیا پاکستان کے دوستوں سے بھی میرا رابطہ نہ رہا۔
چند دن پہلے کسی کام کے سلسلے میں ان کے دفتر کے سامنے سے گزر ہوا تو پورا نقشہ ہی بدلا ہوا پایا۔ دفتر کی جگہ ایک نئی عمارت تعمیر ہو چکی تھی اور وہ سائن بورڈ بھی نظروں سے اوجھل تھا جس پر ان کی کمپنی کا نام درج تھا۔ قریبی دکاندار سے ان کے بارے میں پوچھا تو اس نے حیرت سے میری جانب تکتے ہوئے کہا کہ وہ تو تین سال قبل لندن میں انتقال کرگئے تھے اور انھیں وہیں پر ہی دفن کر دیا گیا تھا۔