کمر کے درد سے 54 کروڑ افراد متاثر ہیں رپورٹ
یہ درد بڑھتے بڑھتے جسمانی معذوری کی وجہ بھی بن جاتا ہے
طبّی تحقیق کے معتبر جریدے ''دی لینسٹ'' کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے ریسرچ پیپرز میں بتایا گیا ہے کہ کمر کے نچلے حصے کے درد میں مبتلا افراد کی تعداد دنیا بھر میں 54 کروڑ پر پہنچ چکی ہے جبکہ غیرمؤثر تشخیص اور نامناسب علاج کی بناء پر اس کیفیت کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ان تحقیقی مقالہ جات سے معلوم ہوا ہے کہ 1990 سے لے کر 2017 تک کمر کے نچلے حصے میں درد کے مریضوں کی تعداد میں 50 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے جبکہ کئی ممالک میں اس درد کی وجہ سے معذور ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر تشویش کی بات یہ سامنے آئی ہے کہ اکثر لوگ کمر کے نچلے حصے میں درد کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جبکہ اس کی تشخیص اور علاج پر بھی کچھ خاص توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ درد بڑھتا ہی رہتا ہے، جو بالآخر متاثرہ افراد کو چلنے پھرنے سے معذور کردیتا ہے۔
تحقیقی مقالہ جات میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ کمر کے نچلے حصے کا درد ختم کرنے کےلیے عام طور پر ایسی درد کش دوائیں لی جاتی ہیں جو بہت کم اثر کرتی ہیں لیکن استعمال کرنے والے کو اپنا عادی بنادیتی ہیں، یعنی متاثرہ شخص انہیں منشیات کی طرح ساری زندگی استعمال کرنے پر مجبور رہتا ہے۔
ان ریسرچ پیپرز میں تجویز کیا گیا ہے کہ صحیح تشخیص، مناسب دواؤں اور جسمانی ورزش کے ذریعے کمر کے نچلے درد پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن یہی وہ پہلو بھی ہیں جن پر بالعموم کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اکثر لوگ اسی وقت ہوش میں آتے ہیں جب کمر کے نچلے حصے کا درد بڑھتے بڑھتے انہیں چلنے پھرنے سے بھی معذور کردیتا ہے۔
اگرچہ کمر کے نچلے حصے کا درد عمر کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے لیکن یہ ادھیڑ عمر کے ملازمت پیشہ افراد میں زیادہ دیکھا گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں بھی دفتری انتظامیہ کمر کے درد کو معمولی چیز سمجھتی ہے اور متاثرہ افراد کو مناسب سہولیات فراہم نہیں کرتی جس کی وجہ سے یہ درد بتدریج بڑھتا رہتا ہے۔
ان تحقیقی مقالہ جات سے معلوم ہوا ہے کہ 1990 سے لے کر 2017 تک کمر کے نچلے حصے میں درد کے مریضوں کی تعداد میں 50 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے جبکہ کئی ممالک میں اس درد کی وجہ سے معذور ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر تشویش کی بات یہ سامنے آئی ہے کہ اکثر لوگ کمر کے نچلے حصے میں درد کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جبکہ اس کی تشخیص اور علاج پر بھی کچھ خاص توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ درد بڑھتا ہی رہتا ہے، جو بالآخر متاثرہ افراد کو چلنے پھرنے سے معذور کردیتا ہے۔
تحقیقی مقالہ جات میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ کمر کے نچلے حصے کا درد ختم کرنے کےلیے عام طور پر ایسی درد کش دوائیں لی جاتی ہیں جو بہت کم اثر کرتی ہیں لیکن استعمال کرنے والے کو اپنا عادی بنادیتی ہیں، یعنی متاثرہ شخص انہیں منشیات کی طرح ساری زندگی استعمال کرنے پر مجبور رہتا ہے۔
ان ریسرچ پیپرز میں تجویز کیا گیا ہے کہ صحیح تشخیص، مناسب دواؤں اور جسمانی ورزش کے ذریعے کمر کے نچلے درد پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن یہی وہ پہلو بھی ہیں جن پر بالعموم کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اکثر لوگ اسی وقت ہوش میں آتے ہیں جب کمر کے نچلے حصے کا درد بڑھتے بڑھتے انہیں چلنے پھرنے سے بھی معذور کردیتا ہے۔
اگرچہ کمر کے نچلے حصے کا درد عمر کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے لیکن یہ ادھیڑ عمر کے ملازمت پیشہ افراد میں زیادہ دیکھا گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں بھی دفتری انتظامیہ کمر کے درد کو معمولی چیز سمجھتی ہے اور متاثرہ افراد کو مناسب سہولیات فراہم نہیں کرتی جس کی وجہ سے یہ درد بتدریج بڑھتا رہتا ہے۔