سیاستدان آرٹیکل 6263 کی نااہلی برداشت نہ کریں عاصمہ جہانگیر
اسٹیبلشمنٹ یہ ہتھیار ’’مخالفین ‘‘کیخلاف استعمال کر رہی ہے، سابق صدر سپریم کورٹ بار
سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہا نگیر ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ انتخابات میں ایک منٹ کی تاخیر بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔
الیکشن سیاسی عمل ہے عدالتی نہیں، اسٹیبلشمنٹ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر آرٹیکل62 اور63کا ہتھیار ''مخالفین'' کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کوریٹرننگ افسرانسے خطاب کا کوئی حق نہیں، وہ ایسے خطاب کر رہے ہیں جیسے ملک کا صدر خطاب کر رہا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سیاستدان آرٹیکل 62 اور63 کو برداشت نہ کریں، آمریت کے ان آرٹیکلز کو ختم ہونا چاہیے تھا۔جعلی ڈگریوں اور نادہندگان کے خلاف کارروائی کے نام پر احتساب کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے جو کسی بھی صورت درست نہیں۔
عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ عدلیہ سمیت تمام اداروں کوآئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور الیکشن کمیشن کو آزادی کیساتھ کام کرنے دیا جائے۔انتخابات میں صرف چند ہفتے باقی ہیں ،کبھی ریاست بچائو اور کبھی سیاست بچائو کے ڈرامے رچائے جا رہے ہیں اور اب جعلی ڈگریوں کا معاملہ چھیڑ کر ایک نیا ناٹک رچایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہاکہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، سپریم کورٹ یا کسی اور کا نہیں۔ جمہوریت کے درخت کو نہ کاٹا جائے کیونکہ اگر جمہوریت کا درخت نہ رہا تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔ میں پوچھتی ہوں کہ آج آرٹیکل 62 اور63پر عمل کی بات کرنے والے بتائیں کہ کیا 1985، 1993 اور1999کی اسمبلیوں میں فرشتے تھے؟۔
الیکشن سیاسی عمل ہے عدالتی نہیں، اسٹیبلشمنٹ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر آرٹیکل62 اور63کا ہتھیار ''مخالفین'' کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کوریٹرننگ افسرانسے خطاب کا کوئی حق نہیں، وہ ایسے خطاب کر رہے ہیں جیسے ملک کا صدر خطاب کر رہا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سیاستدان آرٹیکل 62 اور63 کو برداشت نہ کریں، آمریت کے ان آرٹیکلز کو ختم ہونا چاہیے تھا۔جعلی ڈگریوں اور نادہندگان کے خلاف کارروائی کے نام پر احتساب کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے جو کسی بھی صورت درست نہیں۔
عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ عدلیہ سمیت تمام اداروں کوآئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور الیکشن کمیشن کو آزادی کیساتھ کام کرنے دیا جائے۔انتخابات میں صرف چند ہفتے باقی ہیں ،کبھی ریاست بچائو اور کبھی سیاست بچائو کے ڈرامے رچائے جا رہے ہیں اور اب جعلی ڈگریوں کا معاملہ چھیڑ کر ایک نیا ناٹک رچایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہاکہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، سپریم کورٹ یا کسی اور کا نہیں۔ جمہوریت کے درخت کو نہ کاٹا جائے کیونکہ اگر جمہوریت کا درخت نہ رہا تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔ میں پوچھتی ہوں کہ آج آرٹیکل 62 اور63پر عمل کی بات کرنے والے بتائیں کہ کیا 1985، 1993 اور1999کی اسمبلیوں میں فرشتے تھے؟۔