کانگریس کے آسمان کا نیا ستارہ

یہ وقت آنے پر پتہ چلے گا کہ راہول اپنی جماعت میں خامیوں کو کس حد تک دور کرسکے گا۔


کلدیپ نئیر March 23, 2018

راہول گاندھی کانگریس کے آسمان کا نیا ستارہ ہے۔ اس کی والدہ سونیا گاندھی نے پارٹی کے صدر کا عہدہ اپنے بیٹے کے سپرد کردیا اور اب پارٹی کی سربراہی راہول کے ہاتھ آگئی۔ راہول جواہر لعل نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کا نواسا ہے۔ لہٰذا اگر یہ پارٹی اقتدار میں آگئی تو وزارت عظمیٰ کا منصب خاندان میں ہی رہے گا۔ اس میں مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ملک کے لیے یک جہتی کا ایک پیغام مضمر ہے۔

راہول اتنا کم عمر نہیں، وہ اڑتالیس سال کا ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود وہ کانگریس کا سب سے کم عمر صدر ہوگیا ہے۔ کیا وہ ملک کو درپیش پیچیدہ مسائل کا کوئی حل رکھتا ہے۔ اس کا تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا لیکن اسے بہت منہ پھٹ سمجھا جاتا ہے۔

اس نے حکمران بی جے پی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس کو درست طور پر ملک کی تقسیم در تقسیم کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ جہاں تک وزیراعظم نریندر مودی پر راہول کی تنقید کا تعلق ہے تو وہ حق بجانب ہے کہ مودی پر کرپشن کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ تاہم جن پارٹیوں نے حکومت پر 39 بھارتی شہریوں کے اجتماعی قتل کا الزام لگایا ہے وہ درست نہیں۔

ان لوگوں کو 4 سال پہلے عراق میں اغوا کیا گیا تھا اور پھر ہلاک کردیا گیا۔ کاش کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو مغربی ممالک پر دباؤ ڈال کر متذکرہ بھارتی شہریوں کو رہائی دلانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔

مغربی ممالک کا طرز عمل بھی قابل فہم نہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی اس قتل عام کی مذمت نہیں کی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سفید فام ملکوں کو تیسری دنیا کے عوام کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں، جہاں سیاہ فام یا دوسرے رنگدار لوگ رہتے ہیں۔ اسی طرح کانگریس نے قتل عام کا سارا الزام بی جے پی کی حکومت پر لگایا ہے جس نے اتنے بڑے قتل عام کا اعلان کرنے میں اتنی تاخیر کر دی۔

کانگریس کے ایک رہنما سشی تھرور نے حکومت پر تنقید کی ہے کہ اس نے یرغمال بنائے جانیوالوں کے اہل خانہ کے لیے جھوٹی امیدیں قائم کرنے کی کوشش کی۔ یہ ہر بھارتی باشندے کے لیے انتہائی دکھ کا مقام ہے اور میں پھر پوچھوں گا کہ حکومت نے اس اطلاع کو اس دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں کے اہل خانہ سے اتنا لمبا عرصہ تک چھپانے کی کیوں کوشش کی۔ انھیں بتایا جانا چاہیے تھا کہ ان بے چاروں کے ساتھ کیا ہوا اور وہ کیسے ہلاک ہوئے۔

علاوہ ازیں ان کے اہل خانہ کو جھوٹی امید دلانے کی کوشش کی گئی۔ ابھی تک تو جہاں تک پارلیمنٹ کا تعلق ہے تو اس کا مؤقف بھی بودا نکلا اور پارلیمنٹ میں اس موضوع پر جو بحث مباحثہ کروایا گیا اس میں کانگریس اور بی جے پی کے مؤقف میں گہرا تضاد نظر آیا۔

اگرچہ دونوں پارٹیوں میں بُعد المشرقین ہے لیکن بیرون ملک میں بھارتی شہریوں کا قتل عام ایک ایسا معاملہ تھا جس پر دونوں پارٹیوں کو اکٹھا ہو جانا چاہیے تھا۔ سشما سوراج کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کے تمام پہلوؤں پر بخوبی غور و فکر کرنا چاہتے تھے جس وجہ سے اس کا اعلان کرنے میں اتنی دیر ہوگئی۔ اگر ایسی ہی بات تھی تو بھارتی وزیر خارجہ کو یہ اعلان کرنا چاہیے تھا کہ حکومت نے کیا ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

وقتی طور پر تو ایسا لگتا ہے جیسے حکومت ان ہلاکتوں پر ہونیوالے عوامی غیظ و غضب کو روکنے کی تگ و دو کررہی ہے۔ جہاں تک سشما سوراج کا یہ کہنا کہ بھارت کسی ردعمل کے اظہار سے پہلے پورے معاملے کے ہر پہلو کا جائزہ لے کر حقائق تک پہنچنا چاہتا تھا۔

تو یہ بات سشما کی درست ہے کہ یقین تک پہنچے بغیر حکومت ہلاکتوں کا اعلان نہیں کرنا چاہتی تھی اور یہ ہر ذمے دار حکومت کا فرض ہے کہ اس وقت تک کسی کی موت کا اعلان نہ کرے جب تک تصدیق نہ ہوجائے۔ سشما سوراج نے کہا ''میں بھلا کیسے کسی کی موت کا اعلان کرسکتی ہوں، جب تک کہ تصدیق نہ کرلوں۔ کیا ہم لاشوں پر سیاست کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟۔

یہ بات میں کانگریس سے پوچھنا چاہتا ہوں جس نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں ہنگامہ آرائی کرکے اسے معطل کرا دیا حالانکہ پارلیمنٹ میں بہت اہم موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ میں کانگریس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ سشما سوراج نے کہا ''میں بہت دکھی دل کے ساتھ لوک سبھا میں گئی تھی لیکن اس سے بھی زیادہ دکھی اور مایوس ہوکر واپس آئی ہوں۔'' اس بات کا اعلان سشما نے ایک پریس کانفرنس میں کیا کیونکہ پارلیمنٹ میں سشما کی تقریر کے دوران ہنگامہ ہوگیا تھا۔

جہاں تک راہول گاندھی کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کی آمد سے سیاست میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔ ہلاکتوں کے بارے میں اعلان کے حوالے سے تنقید کا توڑ کرنے کے لیے بے لاگ ہوکر حقائق بیان کیے جانے چاہئیں لیکن حکومت نے ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اسلامی ممالک کو اس قتل عام کی مذمت میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے پڑوسی ملکوں پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی اس قتل عام کی مذمت کے لیے اکٹھا کرنا چاہیے۔

دریں اثناء سونیا گاندھی کی طرف سے اپوزیشن رہنماؤں کو عشائیے پر دعوت دینا درست سمت میں ایک قدم ہے۔ سونیا کو چاہیے کہ بی جے پی کے علاوہ تمام پارٹیوں کو اکٹھا کر لے۔ کانگریس کے اہم ترجمان سرجیولا نے کہا ہے کہ عشائیے کا مقصد سیاسی نہیں تھا بلکہ اپوزیشن پارٹیوں میں قربت اور دوستی کو فروغ دینا تھا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ اس وقت قوم بے شمار مشکل مسائل کی زد میں ہے۔ ملک بھر کے کسانوں میں شدید بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔

سرجیولا نے کہا کہ کانگریس پارلیمنٹ کو کام کرنے کی اجازت نہیں دے رہی لہٰذا دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما باہم ملاقاتوں میں ملکی مسائل پر تفصیلی بات چیت کرسکتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ اپنے ذاتی اختلافات کو وقتی طور پر طاق نسیاں پر رکھ دیں تاکہ 2019ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کو شکست سے دوچار کیا جا سکے۔

سونیا گاندھی نے یقین سے کہا کہ انتخابات میں نریندر مودی اقتدار میں واپس ہرگز نہیں آئے گا۔ بظاہر تو یہ بی جے پی کے خلاف دیگر پارٹیوں کے اتحاد کی ابتدا ہے۔ لیکن کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر محمد سلیم نے کہا ہے کہ جلد ہی اپوزیشن پارٹیوں کا زیادہ جامع اجلاس منعقد کیا جائے گا جو اسی ماہ کے اختتام پر ہوگا۔

سونیا گاندھی کے عشائیے کے بعد بی جے پی نے کانگریس پر تنقید شروع کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ سونیا اور راہول کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ وہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ جمہوریت کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں جمہوریت پر عمل نہیں کرتے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ جنیاتی طور پر جمہوریت سے نابلد ہیں۔ اس کا اعلان پارلیمانی امور کے وزیر آنند کمار نے کیا۔

پارلیمنٹ کے عام اجلاس میں کانگریس کے صدر نے بی جے پی حکومت پر نکتہ چینی کا کوئی موقع ضایع نہیں کیا اور کہا کہ مودی حکومت نے ملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور ان کی پارٹی سرمایہ داروں کی آواز بن گئی ہے جب کہ ملکی عوام کی صحیح آواز کانگریس پارٹی ہے۔ لیکن انھوں نے تسلیم کیا کہ من موہن سنگھ حکومت اپنے اقتدار کے آخری برسوں میں عوامی امنگوں پر پورا نہ اترسکی۔

اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ آخر میں ہم سب انسان ہیں اور انسان ہی غلطیاں کرتے ہیں لیکن وزیراعظم مودی سمجھتا ہے کہ وہ انسان نہیں بلکہ بھگوان کا روپ ہے۔ راہول نے اپنی تقریر کے اختتامی کلمات میں کہا کہ کانگریس ملک کو آگے لے کر جائے گی۔ ہم ملک کے تمام نوجوانوں کو کانگریس میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔ کانگریس آپ کی جماعت ہے اور ہم آپ کے جوہر قابل کے لیے اپنے دروازے کھول رہے ہیں۔ ہم آپ کی بہادری اور توانائی کے مداح ہیں۔ یہ ملک جدوجہد کی منزل میں ہے اور اسے آپ کی ضرورت ہے۔

یہ وقت آنے پر پتہ چلے گا کہ راہول اپنی جماعت میں خامیوں کو کس حد تک دور کرسکے گا۔ ملک میں عوام اس کا عمل اور کارکردگی دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اولین مسئلہ روزگار کا ہے کیا ہم ایک سال میں دو لاکھ ملازمتیں پیدا کرکے اپنے جی ڈی پی کو 11% تک بڑھا سکتے ہیں تاکہ ملکی معیشت آگے بڑھے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں