وقت کی آواز۔۔۔ نئی پارٹی کا قیام
قائد اعظم افواجِ پاکستان کو ہمہ وقت دشمن کے مقابلے میں تیار اور چاک وچوبند دیکھنے کے متمنی تھے۔
SAINT-ÉTIENNE, FRANCE:
جنرل ضیا الحق کی حکومت کو گزرے ہوئے ایک طویل عرصہ گزر گیا، اگر یہ کہا جائے کہ ان کی حکومت کے اثرات نصف صدی سے کچھ کم وقت پر اثرانداز رہے، اسلام کے مقدس نام کو ذاتی بالادستی کو مضبوط تر کرنے کا عمل جاری ہے۔ گوکہ درمیان میں ایک مختصر وقت کے لیے محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت رہی مگر آنے والے وقت پر ذوالفقار علی بھٹو کی طرز حکومت کے اثرات کے بجائے جنرل ضیا الحق اور ان کی سیاسی باقیات کے اثرات ملک کے طول وعرض پر سایہ فگن رہے۔
ملک کی سیاسی صورتحال بھی وہی تھی جو جنرل ضیا الحق کے بعد تھی، افغان جہاد کے نام پر فرسودہ حکمت عملی پر پاکستانی لیڈر کام کرتے رہے اور ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ تحریک طالبان کے رہبروں سے (ن) لیگ بات چیت پر تیار ہوچکی تھی مگر فوج کی بروقت کارروائی اور ضرب عضب کی وجہ سے پاکستان پر طالبان کی حکومت نہ آسکی۔ ورنہ صوبہ خیبر پختونخوا میں صورتحال مجموعی طور پر طالبان کے حق میں جاچکی تھی۔
ہم کچھ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پاکستان کے ابتدائی رہنماؤں نے بھی قائد اعظم کی دستور ساز اسمبلی کے لیے جو آئینی حدود 11 اگست 1947ء کو مقرر کیے تھے اس کو رد کرکے قرارداد مقاصد شامل کردی، جب کہ قائد اعظم نے واضح طور پر یہ فرمایا تھا کہ آج آپ لوگ آزاد ہیں آپ اپنی مساجد،گرجا گھروں اور مندروں میں بے خوف وخطر جائیں آپ پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں، آپ سب پاکستانی شہری ہیں، اس طرح قائد اعظم نے پاکستان کا واضح چہرہ دنیا کے روبرو پیش کیا، مگر جنرل ضیاالحق نے دستورکو اپنی سوچ کے مطابق سمیٹ لیا اور انھی دنوں طلبا یونینوں پر پابندی عائد کی گئی جو آج تک باقی ہے اور ملک کو لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیا۔
جنرل ضیا الحق نے کراچی کو اپنے نشانے پر لے کر خصوصی اہمیت دی اور اس کو سیاسی طور پر منقسم کرنے کا عمل تیز ترکیا۔ سندھ میں اردو سندھی تنازعہ کا ازسر نو جال بچھایا جو غلطی کبھی پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو سے ہوچکی تھی اور انھوں نے اردو کو سندھ بدر کرنے کی ٹھانی تھی حالانکہ یہ کم لوگوں کو معلوم ہے یا یہ سمجھیے کہ اکثریت کو معلوم نہیں کہ صوبہ سندھ میں ایوبی حکومت میں سندھی زبان کی تعلیم بند کردی گئی تھی تو اس کو اردو زبان کے نوجوان شاعر یونس شرر جو این ایس ایف کے سرگرم رکن تھے انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے تحریک کا آغاز کیا اور کثیر سندھی داں طبقے کی قیادت کی تھی اور سندھی مہاجر اتفاق اور یگانگت پیدا کی جس کو ممتاز بھٹو اور ضیا الحق نے مشترکہ طور پر ضرب لگائی اور کوٹہ سسٹم جو بھٹو نے دس برس کے لیے نافذ کیا تھا۔
پیپلز پارٹی نے تا قیامت نافذ کرکے شہری اور دیہاتی سندھی میں تقسیم کردیا جس نے جئے سندھ اور مہاجر قومی تحریک کو ایک دوسرے کی مخالف قوت بنادیا جس نے ان نعروں کی بیخ کنی کی کہ ''مزدور مزدور بھائی بھائی'' ہاری حقدار اور سندھی مہاجر بھائی بھائی۔ اس موقعے پر مرحوم کاوش رضوی کو بھی یاد رکھنا ہوگا جنھوں نے اردو سندھی سنگت قائم کی اور 1960ء کے وسط سے لے کر 1970ء تک انمول پروگرام کیے تاکہ دونوں لسانی اور ثقافتی گروپ آپس میں قریب تر آجائیں۔
اس موقعے پر کامریڈ جام ساقی کو بھی یاد کرنا ہوگا جو اردو ادب کے بے نظیر قاری تھے اور پاک باز ہاری رہنما جنھوں نے اپنے بڑے بیٹے کا نام اردو ادب کے نامور ادیب اور کمیونسٹ رہنما کے نام پر سجاد ظہیر رکھا، مگر اس وقت جو لوگ پاکستان کے لیڈر ہیں اور غریبوں کی کشتی کو پار لگانے کے دعویدار بنے ہیں ان کا غریبوں کی حالت زار سے کوئی تعلق نہیں بلکہ انھوں نے غریبوں کو معاشی منجدھار میں ڈال دیا ہے۔
آخر اس قومی اسمبلی کو کیا کہا جائے جو لاکھوں روپیہ ماہانہ اعزازیہ لیتے ہیں اور کام صفر۔ قومی اسمبلی کا کورم پورا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی اہم مسئلے پر قانون سازی ممکن ہے۔ البتہ اپنی مراعات میں کمی نہ آئے اس پر سب متفق ہیں اور عوام کی کمائی پر عیش پرستی جاری ہے۔
بینک اور سپر مارکیٹوں پر کوئی قانون نہیں، پہلے بینکوں میں کارکنوں سے آدھے دن کام لیا جاتا تھا اور اب عام لوگ جو بینک کی ملازمت پر ہیں صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک کام پر مامور ہیں اور مراعات ناپید۔ یہی حال بلکہ اس سے بدتر سپر مارکیٹوں کا حال ہے جس پر الگ سے قلم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اسکولوں کی فیس سندھ میں بڑی سرعت سے بڑھ رہی ہے اور پرائیویٹ اسکولوں میں بچوں سے چھ چھ ماہ کی فیسیں لی جا رہی ہیں مگر لیڈر خاموش۔ تیل کی قیمت تقریباً ہر ماہ بڑھ رہی ہے مگر لیڈر کو معلوم نہیں۔ ڈالرکے مقابل روپے کی قدر میں کمی مگر اس کو پرواہ نہیں یہ بوجھ تو عوام اٹھائیں گے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کسی قاعدے اور قانون اصول ضابطے کے تحت نہیں۔
ٹی وی پر مباحثہ ایسے ہو رہا ہے جیسے کسی علاقے کی جاہل عورتیں فساد میں مبتلا ہیں، بس مار دھاڑ ہونے کو ہے، مباحثوں اور تجزیوں میں صداقت ضروری نہیں۔ ہمارے لیڈروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ بعض پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں کلرک حضرات کو دس ہزار روپے ماہانہ بھی تنخواہ نہیں اور مناسب اسکولوں کی فیس ماہانہ دس ہزارکے قریب ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کلرک کا بیٹا پڑھ نہ سکے گا یا بچپن میں نوکری پر مجبور ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر ٹیکسی ڈرائیور حضرات وہ ہیں جو گورنمنٹ ملازم یا ایسے ہی اداروں کے کلرک ہیں جو صبح سے 4، 5 بجے تک ملازمت پر اور پھر 6 بجے شام سے رات ایک بجے دوسری شفٹ پر پرائیوٹ کام کر رہے ہیں، ان کی صحت اور مستقبل کیا ہے؟
نہ کسی چینل پر ایسے موضوعات ہیں اور نہ لیڈر کی زبان پر، لہٰذا آنے والے وقت میں اچانک ملک خونی انقلاب کی طرف بڑھ سکتا ہے کیونکہ ان حالات کا بوجھ براہ راست خواتین پر پڑ رہا ہے کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کوکھانا پروستی ہیں اور اب یہی ان کی ذمے داری بنتی جا رہی ہے۔
اس لیے اس بات کا خدشہ ہے کہ خواتین جس طرح میڈیکل کالجوں میں 80 فیصد سے زائد ہیں سیاسی پارٹیوں کا پرچم اٹھائیں تاکہ موجودہ سیاسی پارٹیاں عوام کو دھوکا دینے کی سیاست سے باز آجائیں اور اپنی ترقی کے علاوہ عوام کی ترقی پر نظر ڈالیں، مگر موجودہ اقتدار کی حامل تینوں بڑی پارٹیاں عوام کی امنگوں کی آئینہ دار نہیں کیونکہ انھوں نے دستور میں کوئی ایسی شق نہ ڈالی جو عوام کے مفاد میں ہو اور نہ ہی کراچی کی وہ پارٹی جو غریبوں کے نام پر اقتدار میں آئی مگر غریب غریب تر ہوتا گیا اور کراچی کی زمین پر غریبوں کو صرف قبر کی زمین بھی مشکل سے مل رہی ہے اور لوگ ندی نالوں کا رخ کر رہے ہیں۔
لے دے کر عوامی ورکرز پارٹی پر ہی تکیہ کیا جاسکتا ہے مگر اس پارٹی کے میرکارواں عابد حسن منٹو اب اتنے پرجوش نہیں جو 1953ء میں تھے فکری محاذ اور منشور میں وہ آج بھی اول ہیں مگر وہ عوامی اجتماع میں اب اس للکار سے محروم ہیں جو انھوں نے 70ء کی دہائی میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لگائی۔
وہ عمر کی قید میں ہیں ورنہ وہ ضرور عوام دشمن قوتوں پر کاری ضرب لگاتے۔ برسر اقتدار پارٹیوں کو غریبوں کو ووٹ دینے اور جلسوں میں تالیاں بجانے کے لیے استعمال کرتی ہیں لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے عوامی ورکرز پارٹی عوام دشمن لیڈروں کا پردہ چاک کرے اور کسی نئی روح کو منظر نامے میں پیش کریں یا وہ لوگ ان حالات میں اٹھ کھڑے ہوں جو ذوالفقار علی بھٹو کو میدان سیاست میں لائے اور قبروں میں جانے سے قبل ملک کے عوام کی قسمت بدلنے کے لیے کھڑے ہوں اور ان کا ٹارگٹ اول خواتین میں سیاسی بیداری پیدا کریں کیونکہ معاشی پریشانی کا اصل بوجھ آخر میں خواتین پر پڑتا ہے۔
بچوں کی تعلیم تربیت اور نسل کو مرد میداں بنانا صرف مردوں کا کام نہیں بلکہ عورتوں کے دست و بازو کی بھی ضرورت ہے جن گھروں کا بوجھ صرف مردوں پر ہے آزردگی نے ان کو مزید گھیر رکھا ہے لہٰذا اگر عوامی ورکرز پارٹی نئے چیلنج میں پیش پیش نہیں تو وقت کی آواز نئی سیاسی پارٹی کا قیام ہے اور تمام عوام دوست پارٹیوں کو ملاکر ایک وسیع تر محاذ ہی عوامی دکھ کا مداوا ہے، اگر غریب نے ایسا نہ کیا تو وہ امیر ترین حکمرانوں کے لیے تالیاں بجاتا رہے گا۔