یومِ پاکستان پر قائد اعظم کے پیغامات
قائد اعظم افواجِ پاکستان کو ہمہ وقت دشمن کے مقابلے میں تیار اور چاک وچوبند دیکھنے کے متمنی تھے۔
آج 23مارچ کا پُر مسرت دن ہے۔ پچھلے ایک ہفتے سے کسی نہ کسی حوالے سے یومِ پاکستان کی تاریخی عظمتوں کا ذکر جاری ہے۔ کئی نجی ٹی وی چینلز نے کئی دنوں سے اپنے نام کے لوگوز کا رنگ سبز کررکھا ہے۔ سبز رنگ پاکستان کا رنگ ہے۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ سبزرنگ انسانی نفسیات پر گہرے مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ اِسی لیے تو باغوں اور کھیتوں کی ہریالی دیکھ کر دل و دماغ جھوم اُٹھتے ہیں۔ ہمارے قومی پرچم کا اکثریتی رنگ بھی ہماری پہچان ہے۔
اس رنگ کی بنیاد پر وطنِ عزیز سے قربت ومحبت وارفتگی بن جاتی ہے۔ ایک جاں فزا جذبہ۔ 78برس قبل ہمارے عظیم بزرگ لاہور کے ایک پارک میںاکٹھے ہُوئے تو سارے متحدہ ہندوستان کی نگاہیں اِس میدان پر جم سی گئی تھیں۔
قائداعظم محمد علی جناح کی پُرشکوہ قیادت میں جس تاریخی جذبے اور لازوال جنوں کا اظہار کیا گیا تھا، اسی تُند جذبے نے صرف سات سال کے قلیل عرصے میں ناممکن کو ممکن بنا کر رکھ دیا تھا۔ ایک خواب کو مادی اور جسمانی شکل میں ڈھال دیا گیا اور اس کا نام ''پاکستان'' رکھا گیا۔
واہ، کیا بے مثال کامیابی تھی وہ اور کیا ہی باکمال لوگ تھے وہ!! وہ عظیم المرتبت قائدین جنہوں نے ''قراردادِ لاہور'' ڈرافٹ کی، لکھی، پیش کی اور پھر اکژیتی آوازوں سے منظور بھی کی۔۔۔۔۔یہ سب غیر معمولی لوگ تھے۔ بڑے ہی شاندار اور قوم کے اجتماعی مفادات پر جانیں نچھاور کر دینے والے۔ وہ سب آج بھی ہمارے دلوں اور دماغوں میں بستے ہیں۔
اُن کی یاد کسی انمٹ خوشبو کی طرح رواں لمحوں میں بھی ہماری یادوں میںپوری طرح رچی بسی ہے۔یہ محو ہو سکتی ہے نہ معدوم۔یوم ِپاکستان کے موقع پر قائد اعظم کی یاد تو ایک بار پھر دلوں کو نیا ولاولہ اور جوش دیتی ہی ہے مگر اُن کے ساتھ 23مارچ کے اجتماع میں شریک وہ تمام بانیانِ پاکستان جنہوں نے ''قراردادِ لاہور'' عرف ''قراردادِ پاکستان''کی صورت میں پاکستان کی بنیاد رکھی، ہم سب کو عجب خوشی اور مسرت کے احساس سے ہمکنار کرتے ہیں۔
گویا تئیس مارچ کا یہ دن، جسے ہم ''یومِ پاکستان'' کے نام سے مناتے اور یاد کرتے ہیں،اپنی حیثیت میں بے مثال بھی ہے اور بے نظیر بھی۔تئیس مارچ کا دن ہو یا چودہ اگست کا یا چھ ستمبر کا، سچی بات یہ ہے کہ یہ ایام ہمیں اِک ولولہ تازہ دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ ایک زندہ اور پایندہ قوم کا قوی احساس۔ جن قوموں کے پاس یہ دن نہیں رہتے، وہ خود کو بھی بھلا دیتے ہیں۔ ذرا شامی، لیبیائی اور عراقی مسلمانوں کے دل تو ٹٹول کر دیکھیں!!
سوال مگر یہ ہے کہ کیا ''یومِ پاکستان'' کو اُسی طرح یاد کرکے گزار لیا جائے جس طرح دوسرے قومی ایام آتے ہیں، ہلّا گُلّا ہوتا ہے اور دن گزر جاتا ہے؟ یا اسے بامقصد بھی بنایا جا سکتا ہے؟واقعہ یہ ہے کہ ''یومِ پاکستان'' کا دن مناتے ہُوئے ہم بحثیتِ قوم ایک بار پھر نئے جذبوں سے نئے عہد کر سکتے ہیں۔ اس عہد کے لیے کسی نئے بیانئے اور بنیاد کی ضرورت نہیں ہے۔ قطعی نہیں۔
ہمارے پاس قائد اعظم کے ارشادات کی شکل میں پہلے سے روشن بیانیہ موجود ہے جسے پھر سے سامنے لا کر پاکستان کا چہرہ روشن تر بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے وطن کی مضبوطی واستحکام اور اتحاد و یکجہتی کے لیے اپنے اعمال کا حساب اپنے سامنے رکھنا ہے۔
ہمارے قومی شاعر حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا: ''صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم/ کرتی ہے ہر زماں جو اپنے عمل کا حساب۔''سو، ہمیں بھی اپنے عمل کا حساب رکھنا ہے اور یہ دیکھنا پرکھنا ہے کہ ہم نے اپنے قائد اعظم کی دی گئی ہدایات اور دکھائی گئی روشنی میں اپنے اپنے شعبوں میں کہا ںکہاں اور کیسے کیسے خدمت انجام دی ہے؟
ہماری خوش بختی ہے کہ قائد اعظم نے ہمیں ہر میدان میں عمل کی روشنی دکھائی ہے۔ سیاستدان، طالبعلم، تاجر، عسکری ادارے، سول سروس، مذہبی رہنما۔۔۔۔۔سب اپنی اپنی استعداد کے مطابق قائد کے ارشادات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ نے ایک موقع پر طلبا کے اجتماع سے خطاب کرتے ہُوئے انھیں یوں نصیحت فرمائی: ''یہ تلوار جو آپ نے مجھے عنائیت کی ہے، صرف حفاظت کے لیے اُٹھے گی لیکن فی الحال جو سب سے ضروری امر ہے، وہ تعلیم ہے۔ علم تلوار سے بھی طاقتور ہوتا ہے۔ جائیے اور علم حاصل کیجئے۔''
آپ نے ایک اور جگہ طلبا سے یوں ارشاد فرمایا:''آپ تعلیم پر پورا دھیان دیں۔ اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کریں۔ یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے۔ آپ کی تعلیم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آپ دَورِ حاضر کی سیاست کا بھی مطالعہ کریںاور یہ دیکھیں کہ آپ کے ارد گرد کیا ہورہا ہے؟ ہماری قوم کے لیے تعلیم موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔''
قائد اعظم افواجِ پاکستان کو ہمہ وقت دشمن کے مقابلے میں تیار اور چاک وچوبند دیکھنے کے متمنی تھے۔ وہ نئی نئی بننے والی مملکت، پاکستان، کی افواج کو ایک کامل فوج دیکھنے کے خواہشمند تھے۔
پنجاب مشین گن رجمنٹ (پشاور) سے خطاب کرتے ہُوئے قائد اعظم نے یوں کہا:''الفاظ کی اتنی نہیں جتنی قدروقیمت افعال واعمال کی ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب پاکستان کے دفاع اور قوم کی سلامتی اور حفاظت کے لیے آپکو بلایا جائے گاتو آپ اپنے اسلاف کی روایات کے مطابق شاندار کارناموں کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پاکستان کے ہلالی پرچم کو سربلند رکھیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی عظیم قوم کی عزت ووقار کو برقرار رکھیں گے۔''
بانیِ پاکستان نے ہمیشہ یہی چاہا تھا کہ افواجِ پاکستان دنیا کی آئیڈیل فوج بنے۔ الحمد للہ ہماری جری افواج نے قائد اعظم کے دیے گئے آدرشوں میں اپنے لہو سے رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے۔سیاست اور جمہوریت قائد اعظم کی گھٹی میں پڑی تھی۔ اصولی سیاست وجمہوریت کے وہ ایک عظیم پیکر تھے۔ وہ پاکستان میں ہمیشہ جمہوریت اور جمہوری روایات ہی کا چلن دیکھنا چاہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مسلمان کو تو جمہوریت گھر ہی سے مل جاتی ہے۔
قائد اعظم نے اس سلسلے میں یوں ارشاد فرمایا: ''اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات اس امر کی شاہد ہیں کہ کوئی قوم جمہوریت میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی، جو اپنے مذہب میں بھی جمہوری نکتہ نظر رکھتے ہیں۔''یہ پیغام تو ہمارے سارے سیاستدانوںکو پلّے باندھ لینا چاہیے کہ یومِ پاکستان کے اس موقع پر قائد اعظم اُن سے صرف اور صرف جمہوریت سے وفا چاہتے ہیں۔
اور ہر وہ قوت جو جمہوری اقدار کی دشمن ہے، دراصل قائد اعظم کے خوابوں اور آدرشوں کی دشمن ہے۔ اس ملک کے ناداروں کی بہبود بھی ہمیشہ قائد اعظم کے پیشِ نگاہ رہی۔ آپ نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہُوئے فرمایا:''اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی۔''
کیا یہ حکمنامہ ہمارے اُن مقتدر سیاستدانوں کے سامنے رہتا ہے جنہوں نے قوم کی دولت لُوٹ کر صر ف اپنی اور اپنی آل اولاد ہی کی فلاح و بہبود چاہی ہے؟
ہمارے تاجر اور صنعتکار بھی قائد اعظم کی توجہ بنے۔ آپ نے نَومولود پاکستان کے صنعتکاروں کی ہمت افزائی بھی کی اور اُن سے یہ بھی توقع رکھی کہ وہ دیانتداری کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔ کاش، یومِ پاکستان کے موقع پر ہم سب قائد اعظم کے ان پیغامات کو اپنے دل و دماغ کا حصہ بنائے رکھیں!!
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ سبزرنگ انسانی نفسیات پر گہرے مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ اِسی لیے تو باغوں اور کھیتوں کی ہریالی دیکھ کر دل و دماغ جھوم اُٹھتے ہیں۔ ہمارے قومی پرچم کا اکثریتی رنگ بھی ہماری پہچان ہے۔
اس رنگ کی بنیاد پر وطنِ عزیز سے قربت ومحبت وارفتگی بن جاتی ہے۔ ایک جاں فزا جذبہ۔ 78برس قبل ہمارے عظیم بزرگ لاہور کے ایک پارک میںاکٹھے ہُوئے تو سارے متحدہ ہندوستان کی نگاہیں اِس میدان پر جم سی گئی تھیں۔
قائداعظم محمد علی جناح کی پُرشکوہ قیادت میں جس تاریخی جذبے اور لازوال جنوں کا اظہار کیا گیا تھا، اسی تُند جذبے نے صرف سات سال کے قلیل عرصے میں ناممکن کو ممکن بنا کر رکھ دیا تھا۔ ایک خواب کو مادی اور جسمانی شکل میں ڈھال دیا گیا اور اس کا نام ''پاکستان'' رکھا گیا۔
واہ، کیا بے مثال کامیابی تھی وہ اور کیا ہی باکمال لوگ تھے وہ!! وہ عظیم المرتبت قائدین جنہوں نے ''قراردادِ لاہور'' ڈرافٹ کی، لکھی، پیش کی اور پھر اکژیتی آوازوں سے منظور بھی کی۔۔۔۔۔یہ سب غیر معمولی لوگ تھے۔ بڑے ہی شاندار اور قوم کے اجتماعی مفادات پر جانیں نچھاور کر دینے والے۔ وہ سب آج بھی ہمارے دلوں اور دماغوں میں بستے ہیں۔
اُن کی یاد کسی انمٹ خوشبو کی طرح رواں لمحوں میں بھی ہماری یادوں میںپوری طرح رچی بسی ہے۔یہ محو ہو سکتی ہے نہ معدوم۔یوم ِپاکستان کے موقع پر قائد اعظم کی یاد تو ایک بار پھر دلوں کو نیا ولاولہ اور جوش دیتی ہی ہے مگر اُن کے ساتھ 23مارچ کے اجتماع میں شریک وہ تمام بانیانِ پاکستان جنہوں نے ''قراردادِ لاہور'' عرف ''قراردادِ پاکستان''کی صورت میں پاکستان کی بنیاد رکھی، ہم سب کو عجب خوشی اور مسرت کے احساس سے ہمکنار کرتے ہیں۔
گویا تئیس مارچ کا یہ دن، جسے ہم ''یومِ پاکستان'' کے نام سے مناتے اور یاد کرتے ہیں،اپنی حیثیت میں بے مثال بھی ہے اور بے نظیر بھی۔تئیس مارچ کا دن ہو یا چودہ اگست کا یا چھ ستمبر کا، سچی بات یہ ہے کہ یہ ایام ہمیں اِک ولولہ تازہ دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ ایک زندہ اور پایندہ قوم کا قوی احساس۔ جن قوموں کے پاس یہ دن نہیں رہتے، وہ خود کو بھی بھلا دیتے ہیں۔ ذرا شامی، لیبیائی اور عراقی مسلمانوں کے دل تو ٹٹول کر دیکھیں!!
سوال مگر یہ ہے کہ کیا ''یومِ پاکستان'' کو اُسی طرح یاد کرکے گزار لیا جائے جس طرح دوسرے قومی ایام آتے ہیں، ہلّا گُلّا ہوتا ہے اور دن گزر جاتا ہے؟ یا اسے بامقصد بھی بنایا جا سکتا ہے؟واقعہ یہ ہے کہ ''یومِ پاکستان'' کا دن مناتے ہُوئے ہم بحثیتِ قوم ایک بار پھر نئے جذبوں سے نئے عہد کر سکتے ہیں۔ اس عہد کے لیے کسی نئے بیانئے اور بنیاد کی ضرورت نہیں ہے۔ قطعی نہیں۔
ہمارے پاس قائد اعظم کے ارشادات کی شکل میں پہلے سے روشن بیانیہ موجود ہے جسے پھر سے سامنے لا کر پاکستان کا چہرہ روشن تر بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے وطن کی مضبوطی واستحکام اور اتحاد و یکجہتی کے لیے اپنے اعمال کا حساب اپنے سامنے رکھنا ہے۔
ہمارے قومی شاعر حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا: ''صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم/ کرتی ہے ہر زماں جو اپنے عمل کا حساب۔''سو، ہمیں بھی اپنے عمل کا حساب رکھنا ہے اور یہ دیکھنا پرکھنا ہے کہ ہم نے اپنے قائد اعظم کی دی گئی ہدایات اور دکھائی گئی روشنی میں اپنے اپنے شعبوں میں کہا ںکہاں اور کیسے کیسے خدمت انجام دی ہے؟
ہماری خوش بختی ہے کہ قائد اعظم نے ہمیں ہر میدان میں عمل کی روشنی دکھائی ہے۔ سیاستدان، طالبعلم، تاجر، عسکری ادارے، سول سروس، مذہبی رہنما۔۔۔۔۔سب اپنی اپنی استعداد کے مطابق قائد کے ارشادات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ نے ایک موقع پر طلبا کے اجتماع سے خطاب کرتے ہُوئے انھیں یوں نصیحت فرمائی: ''یہ تلوار جو آپ نے مجھے عنائیت کی ہے، صرف حفاظت کے لیے اُٹھے گی لیکن فی الحال جو سب سے ضروری امر ہے، وہ تعلیم ہے۔ علم تلوار سے بھی طاقتور ہوتا ہے۔ جائیے اور علم حاصل کیجئے۔''
آپ نے ایک اور جگہ طلبا سے یوں ارشاد فرمایا:''آپ تعلیم پر پورا دھیان دیں۔ اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کریں۔ یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے۔ آپ کی تعلیم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آپ دَورِ حاضر کی سیاست کا بھی مطالعہ کریںاور یہ دیکھیں کہ آپ کے ارد گرد کیا ہورہا ہے؟ ہماری قوم کے لیے تعلیم موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔''
قائد اعظم افواجِ پاکستان کو ہمہ وقت دشمن کے مقابلے میں تیار اور چاک وچوبند دیکھنے کے متمنی تھے۔ وہ نئی نئی بننے والی مملکت، پاکستان، کی افواج کو ایک کامل فوج دیکھنے کے خواہشمند تھے۔
پنجاب مشین گن رجمنٹ (پشاور) سے خطاب کرتے ہُوئے قائد اعظم نے یوں کہا:''الفاظ کی اتنی نہیں جتنی قدروقیمت افعال واعمال کی ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب پاکستان کے دفاع اور قوم کی سلامتی اور حفاظت کے لیے آپکو بلایا جائے گاتو آپ اپنے اسلاف کی روایات کے مطابق شاندار کارناموں کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پاکستان کے ہلالی پرچم کو سربلند رکھیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی عظیم قوم کی عزت ووقار کو برقرار رکھیں گے۔''
بانیِ پاکستان نے ہمیشہ یہی چاہا تھا کہ افواجِ پاکستان دنیا کی آئیڈیل فوج بنے۔ الحمد للہ ہماری جری افواج نے قائد اعظم کے دیے گئے آدرشوں میں اپنے لہو سے رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے۔سیاست اور جمہوریت قائد اعظم کی گھٹی میں پڑی تھی۔ اصولی سیاست وجمہوریت کے وہ ایک عظیم پیکر تھے۔ وہ پاکستان میں ہمیشہ جمہوریت اور جمہوری روایات ہی کا چلن دیکھنا چاہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مسلمان کو تو جمہوریت گھر ہی سے مل جاتی ہے۔
قائد اعظم نے اس سلسلے میں یوں ارشاد فرمایا: ''اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات اس امر کی شاہد ہیں کہ کوئی قوم جمہوریت میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی، جو اپنے مذہب میں بھی جمہوری نکتہ نظر رکھتے ہیں۔''یہ پیغام تو ہمارے سارے سیاستدانوںکو پلّے باندھ لینا چاہیے کہ یومِ پاکستان کے اس موقع پر قائد اعظم اُن سے صرف اور صرف جمہوریت سے وفا چاہتے ہیں۔
اور ہر وہ قوت جو جمہوری اقدار کی دشمن ہے، دراصل قائد اعظم کے خوابوں اور آدرشوں کی دشمن ہے۔ اس ملک کے ناداروں کی بہبود بھی ہمیشہ قائد اعظم کے پیشِ نگاہ رہی۔ آپ نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہُوئے فرمایا:''اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی۔''
کیا یہ حکمنامہ ہمارے اُن مقتدر سیاستدانوں کے سامنے رہتا ہے جنہوں نے قوم کی دولت لُوٹ کر صر ف اپنی اور اپنی آل اولاد ہی کی فلاح و بہبود چاہی ہے؟
ہمارے تاجر اور صنعتکار بھی قائد اعظم کی توجہ بنے۔ آپ نے نَومولود پاکستان کے صنعتکاروں کی ہمت افزائی بھی کی اور اُن سے یہ بھی توقع رکھی کہ وہ دیانتداری کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔ کاش، یومِ پاکستان کے موقع پر ہم سب قائد اعظم کے ان پیغامات کو اپنے دل و دماغ کا حصہ بنائے رکھیں!!