اب مزید وقت نہیں
موجودہ سیاسی صورتحال بھی بڑی حد تک غیر متوقع قرار دی جاسکتی ہے۔
ایم کیو ایم کے مخلص کارکنان، ووٹرز اور ہمدردوں کو پہلے امید تھی کہ سینیٹ انتخابات تک ضرور دونوں دھڑے اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر دوبارہ متحد ہوجائیں گے، سینیٹ میں اپنی نشستیں ضرور برقرار رکھیں گے مگر اس نازک موقعے پر بھی دونوں گروپ اپنی اپنی ''انا'' کے گرفتار رہے ۔
ابھی بھی لوگوں کی امیدوں نے دم نہیں توڑا تھا مگر 34 واں یوم تاسیس بھی جب دو جگہ منایا گیا توگویا کارکنان کے خرمن امید پر بجلی ہی گر گئی ۔ اس پر مستزاد دونوں گروپوں کی جانب سے دو یوم تاسیس منانے کو 'بدقسمتی' اور 'مجبوری' کہا جاتا رہا۔ یوں تو کئی ملک گیر سیاسی جماعتوں پر برا وقت آچکا ہے، وہ ملکی سیاست میں جگہ بنانے یا اپنا مقام قائم رکھنے میں ناکام بھی ہوئی ہیں۔
موجودہ سیاسی صورتحال بھی بڑی حد تک غیر متوقع قرار دی جاسکتی ہے، آج سیاست بے ضمیری، شعبدہ بازی اور ذہنی گراوٹ کا نام ہوکر رہ گئی ہے ، وہی کامیاب سیاستدان ہے جو ان تمام صفات کا حامل ہے۔
بہرحال بات ہو رہی تھی، ایم کیو ایم کی جو آج اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ پہلے بھی ایم کیو ایم کو توڑ پھوڑ کا سامنا کرنا پڑا ہے (حقیقی و حق پرست) مگر وہ اتنی زہر قاتل ثابت نہ ہوئی مگر اب جو ایم کیو ایم دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تو شہرکی نمایندگی کا سورج ہی گہنا گیا ۔کارکنان دل برداشتہ اور وہ خواتین جو برے سے برے وقت میں بھی مرد کارکنوں کی ڈھال بن جاتی تھیں خاموشی سے گوشہ نشین ہوگئیں۔
یوں ''ایم کیو ایم ختم'' کا رومانوی تصور حقیقی شکل اختیار کرتے ہوئے بھی کچھ خوش فہمیوں اور حقائق کو سامنے لانے کا باعث بن کر '' امید پہ دنیا قائم ہے'' کا اعادہ کرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے ۔ ایم کیو ایم کے ختم ہونے سے جن کا مستقبل وابستہ ہے ان کی خوش فہمی کو ایک بار پھر چونکا دیتا ہے کہ کہیں معجزہ عیسویؑ (قم باذن اللہ) رونما نہ ہوجائے ۔
اس کا امکان یوں سامنے آیا کہ سینیٹ چیئرمین، وائس چیئرمین کے انتخاب کے لیے ایم کیو ایم پر ''فاتحہ خوانی'' کے باوجود ہر پارٹی کا وفد آستانۂ ایم کیو ایم پر سرِ نیاز خم کرنے پہنچا حالانکہ اس کے صرف پانچ ووٹ تھے، مگر اس بے سروسامانی کی حالت میں بھی ایم کیو ایم کی ازلی دشمن نہ سہی مخالف ہی سہی پی ٹی آئی شہری سندھ میں قدم رنجہ فرمانے کے خیال اور ایم کیو ایم کے ہمیشہ کے لیے دفن ہوجانے کا مژدۂ جانفزا سنانے والوں (مع اپنے CM کے) علاوہ اداروں سے ٹکرانے والے اور قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں دو چار سیٹیں رکھنے والی جماعتوں کے کئی کئی رکنی وفود کے دوستانہ، ہمدردانہ یا نیاز مندانہ دورے آنے والے وقت میں معجزۂ عیسویؑ کی نوید کے رونما ہونے کی مبہم ہی سہی دلیل تو ضرور ہیں، اگر اب بھی ایم کیو ایم کے بقراط (قائدین) جون ایلیا کے اس شعرکی مکمل تصویر ہی بننا چاہیں تو بات الگ ہے کہ:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
ورنہ ان وفود کی آمد ہی ان کی اہمیت ظاہر کرتی ہے جو ان کو اپنی ہٹ دھرمی سے چونکا کر ان کے اندر زندہ رہنے کی بھرپور رمق اور ولولہ انگیز تحریک پیدا کرنے کے لیے مہمیز ثابت ہوسکتی ہے ، (اب بھی) انھیں اپنے ذاتی اختلاف کو جماعتی اختلاف نہ بنانے میں ذرا دیر نہیں کرنی چاہیے۔
یوم تاسیس پر ایک جانب کہا گیا کہ پارٹی نشان کو آپس کی چھینا جھپٹی میں نقصان نہیں ہونے دیا جائے گا تو دوسری جانب کہا گیا کہ ہم اپنے ووٹ ضایع کردیں گے مگر کسی اور کو نہ دیں گے (یعنی ووٹ صرف ایم کیو ایم کا ہے) گویا دونوں جانب یہ احساس ہے کہ یہ صورتحال نہ صرف پارٹی بلکہ شہر قائد کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
برے سے برے وقت کا سامنا کرنے والے تجربہ کار سیاستدان اب بھی آنے والے وقت کی چاپ نہ سنیں تو اس کو سوائے شہدا کے ورثا کی ''آہ'' کے اور کیا قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر پارٹی کے ذمے دار عقل کے ناخن لیں تو شہر قائد پر ان کی گرفت اب بھی ممکن ہے کیونکہ پارٹی کے مخلص کارکنان اور ووٹر کراچی پر قبضے کے لیے خوفناک جبڑے کھولنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ اس شہر کے ہمدرد نہیں صرف اقتدار کے بھوکے ہیں، ادھر پارٹی کارکنان صرف ایک اشارے کے منتظر ہیں۔
آخر میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ جو وقت عاقبت نااندیشی کے باعث ضایع کردیا گیا ، اس کا ازالہ ممکن ہے مگر یہ ازالہ سربراہی کی جنگ سے نہیں بلکہ اپنی اپنی ''ذات اور انا'' کو پس پشت ڈال کر پارٹی اتحاد ومفاد کو مد نظر رکھ کر ہی ممکن ہے۔ اب مزید وقت برباد کرنے کے لیے نہیں ہے:
''دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا''
ابھی بھی لوگوں کی امیدوں نے دم نہیں توڑا تھا مگر 34 واں یوم تاسیس بھی جب دو جگہ منایا گیا توگویا کارکنان کے خرمن امید پر بجلی ہی گر گئی ۔ اس پر مستزاد دونوں گروپوں کی جانب سے دو یوم تاسیس منانے کو 'بدقسمتی' اور 'مجبوری' کہا جاتا رہا۔ یوں تو کئی ملک گیر سیاسی جماعتوں پر برا وقت آچکا ہے، وہ ملکی سیاست میں جگہ بنانے یا اپنا مقام قائم رکھنے میں ناکام بھی ہوئی ہیں۔
موجودہ سیاسی صورتحال بھی بڑی حد تک غیر متوقع قرار دی جاسکتی ہے، آج سیاست بے ضمیری، شعبدہ بازی اور ذہنی گراوٹ کا نام ہوکر رہ گئی ہے ، وہی کامیاب سیاستدان ہے جو ان تمام صفات کا حامل ہے۔
بہرحال بات ہو رہی تھی، ایم کیو ایم کی جو آج اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ پہلے بھی ایم کیو ایم کو توڑ پھوڑ کا سامنا کرنا پڑا ہے (حقیقی و حق پرست) مگر وہ اتنی زہر قاتل ثابت نہ ہوئی مگر اب جو ایم کیو ایم دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تو شہرکی نمایندگی کا سورج ہی گہنا گیا ۔کارکنان دل برداشتہ اور وہ خواتین جو برے سے برے وقت میں بھی مرد کارکنوں کی ڈھال بن جاتی تھیں خاموشی سے گوشہ نشین ہوگئیں۔
یوں ''ایم کیو ایم ختم'' کا رومانوی تصور حقیقی شکل اختیار کرتے ہوئے بھی کچھ خوش فہمیوں اور حقائق کو سامنے لانے کا باعث بن کر '' امید پہ دنیا قائم ہے'' کا اعادہ کرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے ۔ ایم کیو ایم کے ختم ہونے سے جن کا مستقبل وابستہ ہے ان کی خوش فہمی کو ایک بار پھر چونکا دیتا ہے کہ کہیں معجزہ عیسویؑ (قم باذن اللہ) رونما نہ ہوجائے ۔
اس کا امکان یوں سامنے آیا کہ سینیٹ چیئرمین، وائس چیئرمین کے انتخاب کے لیے ایم کیو ایم پر ''فاتحہ خوانی'' کے باوجود ہر پارٹی کا وفد آستانۂ ایم کیو ایم پر سرِ نیاز خم کرنے پہنچا حالانکہ اس کے صرف پانچ ووٹ تھے، مگر اس بے سروسامانی کی حالت میں بھی ایم کیو ایم کی ازلی دشمن نہ سہی مخالف ہی سہی پی ٹی آئی شہری سندھ میں قدم رنجہ فرمانے کے خیال اور ایم کیو ایم کے ہمیشہ کے لیے دفن ہوجانے کا مژدۂ جانفزا سنانے والوں (مع اپنے CM کے) علاوہ اداروں سے ٹکرانے والے اور قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں دو چار سیٹیں رکھنے والی جماعتوں کے کئی کئی رکنی وفود کے دوستانہ، ہمدردانہ یا نیاز مندانہ دورے آنے والے وقت میں معجزۂ عیسویؑ کی نوید کے رونما ہونے کی مبہم ہی سہی دلیل تو ضرور ہیں، اگر اب بھی ایم کیو ایم کے بقراط (قائدین) جون ایلیا کے اس شعرکی مکمل تصویر ہی بننا چاہیں تو بات الگ ہے کہ:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
ورنہ ان وفود کی آمد ہی ان کی اہمیت ظاہر کرتی ہے جو ان کو اپنی ہٹ دھرمی سے چونکا کر ان کے اندر زندہ رہنے کی بھرپور رمق اور ولولہ انگیز تحریک پیدا کرنے کے لیے مہمیز ثابت ہوسکتی ہے ، (اب بھی) انھیں اپنے ذاتی اختلاف کو جماعتی اختلاف نہ بنانے میں ذرا دیر نہیں کرنی چاہیے۔
یوم تاسیس پر ایک جانب کہا گیا کہ پارٹی نشان کو آپس کی چھینا جھپٹی میں نقصان نہیں ہونے دیا جائے گا تو دوسری جانب کہا گیا کہ ہم اپنے ووٹ ضایع کردیں گے مگر کسی اور کو نہ دیں گے (یعنی ووٹ صرف ایم کیو ایم کا ہے) گویا دونوں جانب یہ احساس ہے کہ یہ صورتحال نہ صرف پارٹی بلکہ شہر قائد کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
برے سے برے وقت کا سامنا کرنے والے تجربہ کار سیاستدان اب بھی آنے والے وقت کی چاپ نہ سنیں تو اس کو سوائے شہدا کے ورثا کی ''آہ'' کے اور کیا قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر پارٹی کے ذمے دار عقل کے ناخن لیں تو شہر قائد پر ان کی گرفت اب بھی ممکن ہے کیونکہ پارٹی کے مخلص کارکنان اور ووٹر کراچی پر قبضے کے لیے خوفناک جبڑے کھولنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ اس شہر کے ہمدرد نہیں صرف اقتدار کے بھوکے ہیں، ادھر پارٹی کارکنان صرف ایک اشارے کے منتظر ہیں۔
آخر میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ جو وقت عاقبت نااندیشی کے باعث ضایع کردیا گیا ، اس کا ازالہ ممکن ہے مگر یہ ازالہ سربراہی کی جنگ سے نہیں بلکہ اپنی اپنی ''ذات اور انا'' کو پس پشت ڈال کر پارٹی اتحاد ومفاد کو مد نظر رکھ کر ہی ممکن ہے۔ اب مزید وقت برباد کرنے کے لیے نہیں ہے:
''دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا''