طاہرہ مظہر علی خان کی یاد میں
23 مارچ 2015 کو موت کا شکار ہوکر ہم سے جدا ہوگئیں گوکہ اس وقت ان کی عمر عزیز 91 برس تھی۔
لینن نے کہا تھا کہ ممکن ہے کہ انقلاب کی جدوجہد شروع کرنے کے پانچ دس یا پندرہ بیس برس بعد انقلاب برپا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے انقلاب یعنی سماجی تبدیلی آپ کی زندگی میں نہ آئے مگر سچائی تو یہی ہے کہ انقلاب آئے گا ضرور، چنانچہ آپ اسی یقین کے ساتھ جدوجہد کرتے رہیں۔
لینن کے قول کی وضاحت اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ ہر سماج کے اپنے اپنے معروضی حالات ہوتے ہیں پھر اس سماج کے تبدیلی پسندوں کی جدوجہد پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ کس قدر جدوجہد کرپائے ہیں یا ان کی حکمت عملی و تعداد کیا ہے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ سماجی تبدیلی یا انقلاب کے لیے زندگی کا کچھ حصہ نہیں بلکہ پوری زندگی یا نسلوں کی زندگیاں درکار ہوتی ہیں، چنانچہ آج کی نشست میں ہم ذکر کریں گے طاہرہ کا جن کی انقلابی جدوجہد 67 برس پر محیط ہے ہمارا مطلب ہے طاہرہ مظہر علی خان جنھوں نے پنجاب کے ایک نامور و آسودہ حال سیاسی خاندان میں 5 جون 1924 کو جنم لیا اور اپنی ابتدائی تعلیم کوئین میری اسکول سے حاصل کی ان کی عمر عزیز فقط 16 برس ہی تھی کہ ان کی شادی نامور صحافی مظہر علی خان سے ہوگئی۔
ان کے شوہر نہ صرف مارکسی نظریات پر یقین رکھتے تھے بلکہ وہ عملی طور پر سوشلزم کے نفاذ کے لیے جدوجہد بھی کررہے تھے اور ان کا شمار انڈین کمیونسٹ پارٹی کے اہم رہنماؤں میں ہوتا تھا چنانچہ 1940 میں طاہرہ جب ان کی زوجیت میں آئیں تو مارکسی تربیت کا آغاز بھی ہوگیا یوں بھی یہ وہ زمانہ تھا جب کہا جاتا تھا کہ جو نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود مارکسی نظریات کی جانب راغب نہیں ہوتا ضروری ہے کہ اس نوجوان کا دماغی علاج کروایا جائے ۔
1947 وہ برس تھا کہ اس برس برصغیر تقسیم ہوا اور دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان نمودار ہوا۔ البتہ ان سات برسوں میں یعنی 1940 سے لے کر 1947 کے درمیانی عرصے میں طاہرہ اپنے انقلابی شوہر سے تربیت پاکر مارکسی نظریات پر مکمل عبور حاصل کرچکی تھیں جب کہ اس وقت ان کی عمر عزیز تھی فقط 23 برس۔ پاکستان چونکہ 14 اگست کو معرض وجود میں آیا تھا چنانچہ 1947 کا ماہ مارچ تو بیت چکا تھا البتہ 1948 میں طاہرہ نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن یوم پاکستان میں منانے کا فیصلہ کیا گوکہ دنیا بھر میں خواتین کا یوم خواتین 8 مارچ 1911 سے منایا جا رہا تھا چنانچہ طاہرہ نے تمام تر ناموافق حالات کے باوجود اس دن کے حوالے سے ایک پروگرام ترتیب دینے میں کامیاب ہوگئیں یوں یہ اعزاز ان کے حصے میں آیا کہ خواتین کا عالمی دن منانے والی پاکستان میں اولین خاتون قرار پائیں۔
یوں پاکستان میں خواتین کا عالمی یوم منانے کا پاکستان میں آغاز ہوا اور یہ دن اب پورے جوش و جذبے کے تحت دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے بہرکیف 1950 میں طاہرہ نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے ایک تنظیم ڈیموکریٹک وومن ایسوسی ایشن قائم کی یہ تنظیم قائم کرنے کا گویا ان کا یہ مقصد سامنے آتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی جبر و استبداد کا شکار انسانوں کے لیے وقف کردی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ تمام عمر خواتین و مزدور طبقات کے لیے اپنی بھرپور جدوجہد جاری رکھی گوکہ 1951میں پنڈی سازش کیس اور 26جولائی 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پابندی کا شکار ہوگئی اور انڈیا میں 1936میں قائم ہونے والی انجمن ترقی پسند مصنفین بھی مگر ان نامساعد حالات کے باوجود طاہرہ نے اپنی قائم کردہ تنظیم ڈیموکریٹک وومن ایسوسی ایشن کے تحت اپنی جدوجہد جاری رکھی تاوقت یہ کہ 1960 میں ایوبی آمریت کے دور میں ان کی قائم کردہ تنظیم بھی پابندی کا شکار ہوگئی۔
یہ پابندی فقط ایوبی و یحییٰ خان کے آمرانہ ادوار میں رہی بلکہ 1971 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی برقرار رہی گوکہ اس دور کو عوامی دور حکومت کا نام دیا جاتا ہے پھر بھی اس قسم کی عوامی تنظیم پر پابندی سمجھ سے بالا تر ہے۔
بہرکیف ضیا الحق کے آمرانہ دور میں طاہرہ نے 1981 میں ایک تنظیم وومن ایکشن فورم کے نام سے قائم کی، اس تنظیم کے قائم کرنے کا ان کا مقصد یہی تھا کہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ضیا الحق کے خودساختہ حدود آرڈیننس کے خلاف مزاحمت کی جائے گوکہ اس وقت اس جابرانہ آرڈیننس کے خلاف آواز اٹھانے پر طاہرہ و ان کے ساتھ دیگر شریک خواتین کو بدترین تشدد کا بارہا سامنا کرنا پڑا اور یہ تشدد لاہور کی شاہراہوں پر خواتین پر لاٹھیاں برسا کر کیا گیا یوں بھی اس دور میں ریاستی اہلکار عوام پر اس قسم کا تشدد کرنے میں مکمل آزاد تھے مگر اس کے باوجود طاہرہ نے اپنا انسان دوست مشن جاری رکھا۔
البتہ بعد ازاں طاہرہ نیشنل ورکرز پارٹی میں شریک ہوگئیں اور مرکزی کمیٹی کے طور پر متحرک رہیں اور یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ طاہرہ تاحیات اپنے آدرشوں پر قائم رہیں اور سماجی تبدیلی کے لیے عملی جدوجہد بھی کرتی رہیں البتہ موت ایسی حقیقت ہے جس سے انحراف ممکن نہیں چنانچہ طاہرہ بھی 23 مارچ 2015 کو موت کا شکار ہوکر ہم سے جدا ہوگئیں گوکہ اس وقت ان کی عمر عزیز 91 برس تھی چنانچہ آج 23 مارچ 2018 کو طاہرہ مظہر علی خان کی تیسری برسی و اپنے انقلابی آدرشوں پر 24 برس کی عمر میں قربان ہونے والے کامریڈ بھگت سنگھ کی 87 برسی پر ہم ان دونوں رہنماؤں کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اس عزم کے ساتھ کہ سماجی جبر استحصال جہالت بھوک ننگ کے خاتمے تک جدوجہد جاری رہے گی پوری قوت سے۔
لینن کے قول کی وضاحت اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ ہر سماج کے اپنے اپنے معروضی حالات ہوتے ہیں پھر اس سماج کے تبدیلی پسندوں کی جدوجہد پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ کس قدر جدوجہد کرپائے ہیں یا ان کی حکمت عملی و تعداد کیا ہے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ سماجی تبدیلی یا انقلاب کے لیے زندگی کا کچھ حصہ نہیں بلکہ پوری زندگی یا نسلوں کی زندگیاں درکار ہوتی ہیں، چنانچہ آج کی نشست میں ہم ذکر کریں گے طاہرہ کا جن کی انقلابی جدوجہد 67 برس پر محیط ہے ہمارا مطلب ہے طاہرہ مظہر علی خان جنھوں نے پنجاب کے ایک نامور و آسودہ حال سیاسی خاندان میں 5 جون 1924 کو جنم لیا اور اپنی ابتدائی تعلیم کوئین میری اسکول سے حاصل کی ان کی عمر عزیز فقط 16 برس ہی تھی کہ ان کی شادی نامور صحافی مظہر علی خان سے ہوگئی۔
ان کے شوہر نہ صرف مارکسی نظریات پر یقین رکھتے تھے بلکہ وہ عملی طور پر سوشلزم کے نفاذ کے لیے جدوجہد بھی کررہے تھے اور ان کا شمار انڈین کمیونسٹ پارٹی کے اہم رہنماؤں میں ہوتا تھا چنانچہ 1940 میں طاہرہ جب ان کی زوجیت میں آئیں تو مارکسی تربیت کا آغاز بھی ہوگیا یوں بھی یہ وہ زمانہ تھا جب کہا جاتا تھا کہ جو نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود مارکسی نظریات کی جانب راغب نہیں ہوتا ضروری ہے کہ اس نوجوان کا دماغی علاج کروایا جائے ۔
1947 وہ برس تھا کہ اس برس برصغیر تقسیم ہوا اور دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان نمودار ہوا۔ البتہ ان سات برسوں میں یعنی 1940 سے لے کر 1947 کے درمیانی عرصے میں طاہرہ اپنے انقلابی شوہر سے تربیت پاکر مارکسی نظریات پر مکمل عبور حاصل کرچکی تھیں جب کہ اس وقت ان کی عمر عزیز تھی فقط 23 برس۔ پاکستان چونکہ 14 اگست کو معرض وجود میں آیا تھا چنانچہ 1947 کا ماہ مارچ تو بیت چکا تھا البتہ 1948 میں طاہرہ نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن یوم پاکستان میں منانے کا فیصلہ کیا گوکہ دنیا بھر میں خواتین کا یوم خواتین 8 مارچ 1911 سے منایا جا رہا تھا چنانچہ طاہرہ نے تمام تر ناموافق حالات کے باوجود اس دن کے حوالے سے ایک پروگرام ترتیب دینے میں کامیاب ہوگئیں یوں یہ اعزاز ان کے حصے میں آیا کہ خواتین کا عالمی دن منانے والی پاکستان میں اولین خاتون قرار پائیں۔
یوں پاکستان میں خواتین کا عالمی یوم منانے کا پاکستان میں آغاز ہوا اور یہ دن اب پورے جوش و جذبے کے تحت دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے بہرکیف 1950 میں طاہرہ نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے ایک تنظیم ڈیموکریٹک وومن ایسوسی ایشن قائم کی یہ تنظیم قائم کرنے کا گویا ان کا یہ مقصد سامنے آتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی جبر و استبداد کا شکار انسانوں کے لیے وقف کردی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ تمام عمر خواتین و مزدور طبقات کے لیے اپنی بھرپور جدوجہد جاری رکھی گوکہ 1951میں پنڈی سازش کیس اور 26جولائی 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پابندی کا شکار ہوگئی اور انڈیا میں 1936میں قائم ہونے والی انجمن ترقی پسند مصنفین بھی مگر ان نامساعد حالات کے باوجود طاہرہ نے اپنی قائم کردہ تنظیم ڈیموکریٹک وومن ایسوسی ایشن کے تحت اپنی جدوجہد جاری رکھی تاوقت یہ کہ 1960 میں ایوبی آمریت کے دور میں ان کی قائم کردہ تنظیم بھی پابندی کا شکار ہوگئی۔
یہ پابندی فقط ایوبی و یحییٰ خان کے آمرانہ ادوار میں رہی بلکہ 1971 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی برقرار رہی گوکہ اس دور کو عوامی دور حکومت کا نام دیا جاتا ہے پھر بھی اس قسم کی عوامی تنظیم پر پابندی سمجھ سے بالا تر ہے۔
بہرکیف ضیا الحق کے آمرانہ دور میں طاہرہ نے 1981 میں ایک تنظیم وومن ایکشن فورم کے نام سے قائم کی، اس تنظیم کے قائم کرنے کا ان کا مقصد یہی تھا کہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ضیا الحق کے خودساختہ حدود آرڈیننس کے خلاف مزاحمت کی جائے گوکہ اس وقت اس جابرانہ آرڈیننس کے خلاف آواز اٹھانے پر طاہرہ و ان کے ساتھ دیگر شریک خواتین کو بدترین تشدد کا بارہا سامنا کرنا پڑا اور یہ تشدد لاہور کی شاہراہوں پر خواتین پر لاٹھیاں برسا کر کیا گیا یوں بھی اس دور میں ریاستی اہلکار عوام پر اس قسم کا تشدد کرنے میں مکمل آزاد تھے مگر اس کے باوجود طاہرہ نے اپنا انسان دوست مشن جاری رکھا۔
البتہ بعد ازاں طاہرہ نیشنل ورکرز پارٹی میں شریک ہوگئیں اور مرکزی کمیٹی کے طور پر متحرک رہیں اور یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ طاہرہ تاحیات اپنے آدرشوں پر قائم رہیں اور سماجی تبدیلی کے لیے عملی جدوجہد بھی کرتی رہیں البتہ موت ایسی حقیقت ہے جس سے انحراف ممکن نہیں چنانچہ طاہرہ بھی 23 مارچ 2015 کو موت کا شکار ہوکر ہم سے جدا ہوگئیں گوکہ اس وقت ان کی عمر عزیز 91 برس تھی چنانچہ آج 23 مارچ 2018 کو طاہرہ مظہر علی خان کی تیسری برسی و اپنے انقلابی آدرشوں پر 24 برس کی عمر میں قربان ہونے والے کامریڈ بھگت سنگھ کی 87 برسی پر ہم ان دونوں رہنماؤں کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اس عزم کے ساتھ کہ سماجی جبر استحصال جہالت بھوک ننگ کے خاتمے تک جدوجہد جاری رہے گی پوری قوت سے۔