اسٹیفن ہاکنگ کی یاد میں

ہاکنگ کا خیال تھا کہ بیشتر ایجادات انسانی نسل کے لیے سم قاتل ہیں اور انسانیت کو اپنی ہی تخلیقات سے خطرات لاحق ہیں۔


[email protected]

برطانیہ کے ماہر طبیعات پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ جہانِ سائنس کی ان نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک تھے جنھوں نے معذور و مفلوج ہونے کے باوجود بلند عزم و ہمت کی مثال قائم کی اورکارہائے نمایاں انجام دیے۔ اسٹیفن ہاکنگ کو بجا طور پر ڈاکٹر البرٹ آئن اسٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے ۔ وہ نظریاتی طبیعات کے سب سے ماہر سائنس دان مانے جاتے تھے جن کے کائنات کے اسرار و رموز وقت اور بلیک ہولز سے متعلق نظریات کو خاص و عام میں مقبولیت حاصل ہوئی۔

ہاکنگ کو بین الاقوامی شہرت 1988 میں منظر عام پر آنے والی ان کی کتاب ''وقت کی مختصر تاریخ'' سے ملی تھی جس کا شمار ایسی مشکل ترین کتابوں میں ہوتا ہے جو اپنے موضوع کی پیچیدگی کے باوجود عوام میں مقبول ہوئیں۔

ہاکنگ کی اس کتاب نے ہی انھیں البرٹ آئن اسٹائن کے بعد نظریاتی طبیعات کی دنیا کا سب سے بڑا نام بنا دیا۔ اس کتاب کی اب تک ایک کروڑ سے زائد جلدیں فروخت ہوچکی ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی نے پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ کو ان کے مشہور مقابلے ''پراپرٹیز آف ایکسپنڈنگ یونیورسز'' مسلسل بڑھنے والی کائناتوں کی خصوصیات پر 1966 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔

اپنے اس مقابلے میں اسٹیفن ہاکنگ نے کائنات کے آغاز اور اس کے مسلسل بڑھنے اور پھیلنے سے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا تھا جو آج بھی مشہور ہے۔ 1974 میں ہاکنگ نے اس بات کو بھی ثابت کردیا کہ بلیک ہول مکمل طور پر بلیک نہیں ہیں، وہ بتدریج شعاعوں کا اخراج کررہے ہیں جس کو اب ''ہاکنگ کی اشعاع'' کہتے ہیں کیونکہ اشعاع بلیک ہول کے ثقلی میدان سے بھی گزر کر نکل سکتی ہیں۔ اس مقابلے نے پہلی دفعہ کوانٹم نظریے کے عملی اظہار کو نظریۂ اضافیت پر برتری حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔

اسٹیفن ہاکنگ محض 21 برس کی عمر میں ایک انتہائی کمیاب اور مہلک بیماری ''موٹر نیورون'' کا شکار ہونے کے بعد عمر بھرکے لیے معذور اور وہیل چیئر تک محدود ہوگئے۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ وہ چند ماہ سے زیادہ نہیں جی پائیںگے لیکن اﷲ کی شان کہ میڈیکل سائنس کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور ہاکنگ نے 76 برس کی عمر پائی، اس سے بڑھ کرعجیب بات یہ کہ اس معجزے کے باوجود ہاکنگ خدا شناس نہیں تھے وہ تمامعمر خالق کائنات کیتصور سے نابلد رہے۔

کائنات کی وسعت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کائنات میں ستارے ہماری کرۂ ارض کے تمام ساحلوں پر موجود ریت کے تمام ذرات سے بھی زیادہ ہیں۔ انسانی آنکھ دنیا کی طاقتور ترین دور بین سے بھی اس وسیع و عریض کائنات کا صرف ایک فی صد بھی دیکھ نہیں پاتی۔

تمام تر ترقی کے باوجود انسانی ذرایع اور علم انتہائی محدود ہے لہٰذا اس تناظر میں ہاکنگ کی نظر اس کائنات میں جہاں تک بھی گئی اس کو خدا نظر نہیں آیا اس کے برعکس البرٹ آئن اسٹائن موحد تھا اور وہ خدا کے بغیر کائنات کے تصور کو ناممکن سمجھتا تھا اور اس بات کا قائل تھا کہ خدا نے اس کائنات کو بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ ہاکنگ کا دور آئن اسٹائن سے زیادہ جدید تھا تاہم افسوس وہ آئن اسٹائن سے آگے نہیں نکل سکا۔

ہاکنگ 55 برس اس بیماری کے ساتھ زندہ رہے اور مسلسل تحقیق کے کام میں مصروف رہے وہ خصوصی طور پر تیار کیے گئے سافٹ ویئر اور مشین کے ذریعے لیکچر دیا اور گفتگوکیا کرتے تھے۔ اپنی المناک بیماری کے بعد ہاکنگ نے خود کو ایک جگہ مرتکز کرلیا اور اضافیت کے مشکل ترین سوالات سے نمٹنا شروع کردیا۔ ہاکنگ آنکھوں کے اشاروں اور سمعی و گویائی آلات کے استعمال سے اپنے خیالات دوسروں تک پہنچاتے رہے۔

اس عرصے میں ہاکنگ نے لا تعداد تحقیقی مقالہ جات اور کتابیں لکھیں اور بے شمار لیکچر دینے کے ساتھ ساتھ تقریبات سے خطاب بھی کیا۔ 2014 میں ان کی زندگی پر فلم ''دی تھیوری آف ایوری تھنگ'' بنائی گئی جس میں مرکزی کردار ایڈی ریڈ می نے ادا کیا گزشتہ سال کیمبرج یونیورسٹی نے پروفیسر ہاکنگ کا مشہور مقابلہ ''پراپرٹیز آف ایکسپنڈنگ یونیورسز'' مسلسل بڑھنے والی کائناتوں کی خصوصیات اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا تھا جس پر انھیں 1966 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی یہ مقالہ اپ لوڈ ہوتے ہی لگ بھگ 60 ہزار افراد نے اسے پڑھنے کی کوشش کی جس کے باعث کیمبرج یونیورسٹی کی ویب سائٹ بیٹھ گئی لوگوں کے مسلسل رش کے باعث پورا دن یونیورسٹی کی ویب سائٹ بار بار بند ہوتی رہی۔

''اے بریف ہسٹری آف ٹائم کے علاوہ ''بلیک ہول اینڈ بے بی یونیورس، دی یونیورس ان اے لٹ شیل، دی گرینڈ ڈیزائن'' ہاکنگ کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابیں رہیں۔ اس کے علاوہ اس کی مزید کتابوں میں جارج سیکریٹ کی ٹودی یونیورس، مائی بریف ہسٹری، آن دی شولڈر آف جائنٹس، جارج کاسمک ٹریژ ہنٹ، جارج اینڈ دی بک بینگ، دی نیچر آف اسپیس اینڈ ٹائم، گاڈ کری اپٹڈدی انٹیجرز،دی لارج اسکیل اسکثر آف اسپیس ٹائم، جارج اینڈ دی ان بریک ایبل کوڈ اسٹیفن ہاکنگ لائف ورکس، جنرل ریٹیویٹی، این آئن اسٹائن سینٹیزی سروے، کمپیوٹر ریسورسز فار پیپل ورڈس ایبلٹیز، دی السٹریند تھیوری آف ایوری تھنگ، ہاکنگ آن دی بگ بینگ اینڈ بلیک ہولز قابل ذکر ہیں۔ ہاکنگ کو کئی ایوارڈز دیے گئے۔ بڑی بڑی تقاریب میں اس کے کام کو سراہا گیا۔

اسٹیفن ہاکنگ کا موقف تھا کہ مصنوعی ذہانت، نسل انسانی کا خاتمہ کردے گی، اس لیے سائنس دانوں کو اس سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایک ایسے ارتقائی عمل کا آغاز ہوگا جس کو روکنا سائنس دانوں کے بس کی بات نہ ہوگا۔ ہاکنگ فطرت کے حامی سائنس دان تھے اور کسی بھی ایسی تخلیق یا سائنسی تجربے کے سخت خلاف تھے جو فطرت، مقاصد، ماحول سے متصادم ہوتے ہوں۔

ہاکنگ کا خیال تھا کہ بیشتر ایجادات انسانی نسل کے لیے سم قاتل ہیں اور انسانیت کو اپنی ہی تخلیقات سے خطرات لاحق ہیں۔ ہاکنگ کے مطابق زمین کے قدرتی ذرایع کا بے دریغ استعمال اور انسان کے ہاتھوں ماحول کی تباہی کے علاوہ دیگر کئی خطرات ایسے ہیں جن کے ہاتھوں مستقبل میں نسل انسانی مکمل طور پر فنا ہوسکتی ہے۔

لہٰذا نسل انسانی کو تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہئیں۔ یعنی انسان کو محض ایک ہی سپارے تک محدود نہیں رہنا چاہیے لہٰذا لمبے عرصے تک اپنی بقا کے لیے ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ہم صرف زمین تک ہی خود کو محدود نہ رکھیں بلکہ خلا اور دیگر مقامات پر بھی اپنی آبادیاں بنائیں۔ کیونکہ بنی نوع انسان مستقبل میں ایسے بہت سے خطرات کا سامنا کرے گی جس سے اس کی بقا خطرے میں پڑسکتی ہے۔

ہم اپنی تاریخ کے مزید خطرناک دوراہے میں داخل ہورہے ہیں، انسان کو حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے کہ اس کا سامنا کسی خلائی مخلوق یعنی ریلینز سے نہ ہو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اور ایسی مخلوق بنی نوع انسان کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ ہاکنگ کا کہناتھا کہ اگر انسان نے خلا میں بستیاں نہ بسائیں اور اپنی فطرت مخالف روش نہ چھوڑی تو ایک ہزار سال بعد زمین پر انسانی وجود ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔

قوت گویائی سے محروم وہیل چیئر پر مقید، عزم و ہمت کی علامت، عظیم سائنسی خدمات، انسانی جد وجہد اور کبھی شکست تسلیم نہ کرنے کا یہ استعارہ 14 مارچ کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوا۔ مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اظہار تعزیت کیا۔ اسٹیفن ہاکنگ نے ہزاروں افراد کے سامنے کمپیوٹر کے ذریعے لیکچر دیتے ہوئے تاریخی جملہبولاتھا کہ ''میرے جیسا انسان جو ہر لحاظ سے معذور ہے، صرف پلکوں کے ذریعے اتنا کام کرسکتا ہے تو آپ کے تو ہاتھ پائوں ہیں، چل پھر سکتے ہیں، بول سکتے ہیں، اتنے اعضا کے مالک ہیں تو آپ کیوں نہیں بڑے کام کرسکتے؟ کرسکتے ہیں بس عزم و ہمت ہونی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں