لکھا ہے ان کے چہروں پر
عدل و انصاف کی اس عملی صورت حال کی وجہ سے سب سے زیادہ مشکلات ، پریشانیوں اور تکلیف کا شکار ایک عام آدمی ہے۔
یہ قول ہر عام وخاص کی زبان پرہے کہ ریاست کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہے، مگر ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی ۔انصاف کی ضد ظلم ہے جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہاں ظلم پنپتا اور مضبوط ہوتا ہے۔
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ عدل وانصاف کے بغیر نہ ترقی ممکن ہے اور نہ ہی ذہنی و معاشی آسودگی حاصل ہوسکتی ہے اس حقیقت سے بھی کوئی آنکھ نہیں چرا سکتا کہ معاشرے کے اندرآج بھی ضرورت کی جو چیز سب سے زیادہ نایاب اور مہنگی ہے وہ ہے عدل و انصاف۔ سماج میں اس کا وجودآج بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو انتہائی مہنگا ہے۔
پاکستان میںانصاف کتنا نایاب ہے اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ''صرف سپریم کورٹ میں 38 ہزار 71 مقدمات زیرِ التواء ہیں جب کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 16 ہزار 244 ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 1 لاکھ 47 ہزار 6 سو 33، سندھ ہائی کورٹ میں 93 ہزار 4 سو 4، پشاور ہائی کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 29 ہزار 5 سو 25 اور بلوچستان ہائی کورٹ میں 6 ہزار 5 سو 10 مقدمات زیر التواء ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ان لاکھوں زیر التواء مقدمات کے مقابلے میں ضلع عدالتوں میں صورت حال اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔
پنجاب کی ضلع عدالتوں میں 11لاکھ 87 ہزار 76 مقدمات کے فیصلے ہونا باقی ہیں۔ سندھ کی ضلع عدالتوں میں فی الوقت 99 ہزار 820 مقدمات کے فیصلے ہونا باقی ہیں۔خیبر پختونخوا کی ضلع عدالتوں میں 2 لاکھ 4 ہزار 950مقدمات کے فیصلے ہونا باقی ہیں ۔ بلوچستان کی ضلع عدالتوں میں 13ہزار 9مقدمات زیر التوا ہیں۔
اسلام آباد کی ضلع عدالتوں میں مقدمات کی تعداد 37ہزار 5ہے۔ لاکھوں اور کروڑوں لوگ انصاف کی بھیک مانگنے کے لیے تھانوں، جیلوں اورکچہریوں میں دربدر ہورہے ہیں انھیں کون انصاف دے گا؟ انھیں کب انصاف ملے گا۔ ایک نہیں سیکڑوں بلکہ ہزاروں ایسے انصاف کے طالب ہوں گے جوکہ اپنی جوانی اور بڑھاپا گذارنے کے بعد اپنی اپنی قبروں میں جاچکے، مگر انھیں انصاف نہ مل سکا۔
عدل و انصاف کی اس عملی صورت حال کی وجہ سے سب سے زیادہ مشکلات ، پریشانیوں اور تکلیف کا شکار ایک عام آدمی ہے، اگر عدالتی نظام میں سب اچھا ہوتا اور وہ واقعی اس قدر بہتر ہوتا جیسا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستانجسٹس انور ظہیر جمالی نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ'' ریاست سستے انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹیں دور کرے، ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں، وہاں خوف خدا کا فقدان ہے، معاشرے میں سچ جھوٹ اور حلال و حرام کا فرق ختم ہوچکا ہے۔
ملک میں رائج عدالتی نظام میں کوئی خرابی نہیں، یہ بہترین اورآزمودہ نظام ہے، جس کی دوسرے ممالک بھی تقلید کرتے ہیں''۔ مشاہدے کی بات یہ ہے کہ عام آدمی قدم قدم اور لمحہ لمحہ ظلم و نا انصافی کی چکی میں پس رہا ہے، طرہ یہ کہ اس پر وہداد رسی کی امید بھی نہیں رکھتا، جس سے یہ حقیقت از خود واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارا نظام عدل کردار کے آئینے میں کوئی قابل رشک تاثر نہیں رکھتا، اگر ہمارا نظام درست اور مثالی انداز میں بہ روئے کارآتا، تو اول تو لوگوں کو ظلم و نا انصافی کا کبھی سامنا ہی نہ کرنا پڑتا اور اگر پھر بھی کوئی ایسی صورت حال سے دوچار ہوجاتا تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ زنجیر عدل ہلا کر نہایت آسانی سے انصاف پاتا۔
جدید ریاستی نظام کے تصور کے مطابق عدلیہ ریاست کے تین ستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے، اس کا کام ریاست کے باقی دو ستونوں اور ان سے منسلک تمام اداروں میں نزاعات کا فیصلہ کرنا اور ان کو اپنی آئینی حدود کا پابند بنانا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس کے کاندھوں پر ریاست کے تمام باشندوں کوآئین میں طے شدہ حقوق کی روشنی میں عدل و انصاف فراہم کرنے کی بھاری ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔
ریاستی اداروں کے تئیں عدلیہ کا کردار ایک غیر جانبدار اور کھرے نگران کا سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ عدل و انصاف معاشرے کے ہر ہر فرد یہاں تک کہ اجتماعی طور پر معاشرے کی بھی ضرورت ہے۔ کسی بھی معاشرے اور انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں عدل و انصاف کو اتنی ہی اہمیت حاصل ہے، جتنی جینے کے لیے پانی اور ہوا کی ہے، چنانچہ عدل و انصاف کا پانی کی طرح سستا اور ہوا کی طرح عام اور بلا امتیاز ہر فرد کی دسترس میں ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔
ہمارے ججز اپنے فیصلوں اور اْس سے بھی زیادہ اپنی Observation یعنی ریمارکس کی وجہ سے اخباروں کی شہ سرخیاں اور بریکنگ نیوزکا حصہ بن جاتے ہیں ۔ ممتاز قانون دان چوہدری اعتزاز احسن کا یہ بیانیہ بھی قابلِ غور ہے کہ ''وکلا تحریک اور جوڈیشل ایکٹیوزم'' نے وکلا کو متشدد بنا دیا ہے۔'' اورجبیہ شعر پڑھا جائے۔
تو اِدھر اْدھر کی نہ بات کر
یہ بتا کہ قافلہ کیوں لْٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں
تیری رہبری کا سوال ہے
جواب میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ''مجھے کیوں نکالا؟'' جیسے سوال کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ میرے خلاف کیا فیصلہ آئے گا۔میاں صاحب اب تو شاعری میںاپنا حال دل سنارہے ہیں۔ایک جلسہ میں انھوں نے اقبال کا یہ شعر پڑھا
میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
میاں صاحب کے ادبی ذوق کو دیکھتے ہوئے ہم بھی شاعر عوام حبیب جالب کا ایک شعر ان کی نذر کررہے ہیں ۔یہ شعر جالب صاحب نے حیدرآباد سازش کیس کے دوران حیدرآباد جیل کے اندر لگی خصوصی عدالت کے سامنے پڑھا تھا۔
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے
لکھا ہے ان کے چہروں پر ہمیں جو فیصلہ دیں گے