کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ بندوق سے ہم پراپنے فیصلےمسلط کرلےگااختر مینگل
ہم نےاپنا خون اقتدارکےلیےنہیں بہایا اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ بندوق سے ہم پراپنےفیصلےمسلط کرے گا، اختر مینگل
بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے لیکن جمہوریت کےعلمبرداروں کی جانب سےبھی ہمیں لاشوں کےسوا کچھ نہیں ملا ۔
کوئٹہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 4 سال کی جلا وطنی کی زندگی کسی غذاب سے کم نہیں تھی، جلاوطنی کادوربہت مشکل تھا لیکن وہ اپنی سرزمین اور وطن کو نہیں بھولے، 4سال سے وہ کارکنوں کی محبت کےلئے ترس رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بلوچ قوم نے 65 سال کیسےگزارے۔ سب سےپہلےپاکستان کہنےوالوں نےبھی بلوچستان کوخون میں نہلایا اور جمہوریت کےعلمبرداروں کی جانب سےبھی ہمیں لاشوں کےسواکچھ نہیں ملا۔ بلوچستان میں گزشتہ 5 سال میں لاشیں ہی ملتی رہیں اور انہیں اب بھی اپنے لوگوں کے لہو کی مہک آرہی ہے۔ کیا بلوچستان میں امن خراب کرنےوالوں کو کہڑے میں لایاگیا؟۔ کیاحکومت ضمانت دیگی کہ ووٹ دینے کے لئے گھر سے نکلنے والا زندہ گھر واپس آئے گا۔ جب ان کی پارٹی کا رکن اسمبلی ہی اپنے علاقےمیں محفوظ نہ ہو تو وہ پارلیمنٹ کیسےجائیں گے۔اگر حکومت ہمارے تحفظات دور کرسکتی ہے تو ہی ہم پارلیمنٹ کا راستہ اختیار کریں گے۔
اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کو کمزور کرنے کےلیے ہر طریقہ اپنایا گیا، اس سے ہمارےحوصلےپست نہیں ہوئےاورنہ ہی ہوں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت بلوچستان کا نام دنیا کے نقشےسےختم نہیں کرسکتی، جب تک بلوچستان ہے بی این پی قائم رہے گی۔ پاکستانی اداروں نے ہمیں مایوسی کےسواکچھ نہیں دیا۔ کارکنوں کی جدوجہد سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے کارکنوں کےجذبےجوان رہے تو منزل دور نہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہم نےاپنا خون اقتدارکےلیےنہیں بہایا اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ بندوق سے ہم پراپنےفیصلےمسلط کرے گا، بندوق کی نوک سےکسی کو وفادار نہیں بنایا جاسکتا نہ ہی اس کا نظریہ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ہم کسی بھی انسان کا خون بلوچستان میں بہنے کے حق میں نہیں۔ ایسا بلوچستان چاہتے ہیں جہاں ہر نسل، مذہب اور فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص محفوظ ہو۔
کوئٹہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 4 سال کی جلا وطنی کی زندگی کسی غذاب سے کم نہیں تھی، جلاوطنی کادوربہت مشکل تھا لیکن وہ اپنی سرزمین اور وطن کو نہیں بھولے، 4سال سے وہ کارکنوں کی محبت کےلئے ترس رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بلوچ قوم نے 65 سال کیسےگزارے۔ سب سےپہلےپاکستان کہنےوالوں نےبھی بلوچستان کوخون میں نہلایا اور جمہوریت کےعلمبرداروں کی جانب سےبھی ہمیں لاشوں کےسواکچھ نہیں ملا۔ بلوچستان میں گزشتہ 5 سال میں لاشیں ہی ملتی رہیں اور انہیں اب بھی اپنے لوگوں کے لہو کی مہک آرہی ہے۔ کیا بلوچستان میں امن خراب کرنےوالوں کو کہڑے میں لایاگیا؟۔ کیاحکومت ضمانت دیگی کہ ووٹ دینے کے لئے گھر سے نکلنے والا زندہ گھر واپس آئے گا۔ جب ان کی پارٹی کا رکن اسمبلی ہی اپنے علاقےمیں محفوظ نہ ہو تو وہ پارلیمنٹ کیسےجائیں گے۔اگر حکومت ہمارے تحفظات دور کرسکتی ہے تو ہی ہم پارلیمنٹ کا راستہ اختیار کریں گے۔
اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کو کمزور کرنے کےلیے ہر طریقہ اپنایا گیا، اس سے ہمارےحوصلےپست نہیں ہوئےاورنہ ہی ہوں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت بلوچستان کا نام دنیا کے نقشےسےختم نہیں کرسکتی، جب تک بلوچستان ہے بی این پی قائم رہے گی۔ پاکستانی اداروں نے ہمیں مایوسی کےسواکچھ نہیں دیا۔ کارکنوں کی جدوجہد سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے کارکنوں کےجذبےجوان رہے تو منزل دور نہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہم نےاپنا خون اقتدارکےلیےنہیں بہایا اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ بندوق سے ہم پراپنےفیصلےمسلط کرے گا، بندوق کی نوک سےکسی کو وفادار نہیں بنایا جاسکتا نہ ہی اس کا نظریہ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ہم کسی بھی انسان کا خون بلوچستان میں بہنے کے حق میں نہیں۔ ایسا بلوچستان چاہتے ہیں جہاں ہر نسل، مذہب اور فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص محفوظ ہو۔