قتل ہون ای کیوں جے ملک اچ انصاف ہووے
خاتون نے کہا میں یتیموں کی وارث ہوں، میری بات سن لیں! مگر جج صاحب نے اس دکھیاری کو بولنے کی اجازت نہیں دی
عدالت عظمی میں قتل کے مقدمہ کی سماعت ختم ہوئی، باپ بن کر پالنے والی پریشان بہن نے دو بھائیوں کے قاتل بری ہونے کا فیصلہ بحال ہونے پر پنجابی زبان میں کہا: ''قتل ہون ای کیوں، جے ملک اچ انصاف ہووے'' (قتل ہو ہی کیوں، اگرملک میں انصاف ہو) یہ الفاظ اس وقت نور حبیب نامی خاتون کی زبان سے نکلے جب عدالت کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے علاقے نوکریاں میں قتل کے مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ مقدمہ میں ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران وکیل مظہر اقبال سدھو کہتے رہے کہ مجھے ریکارڈ میں سے کچھ پڑھنے دیں، لیکن اجازت نہ ملی۔
اپنے سگے بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھنے کے باوجود کچھ نہ کرسکنے والی بے بس بہن پہلے تو کیس کی سماعت کے دوران خاموش ہو کر اپنے وکیل کے مفصل جامع دلائل سنتی رہی۔ عدالت کا کوئی سوال ایسا نہ تھا فاضل وکیل نے جس کا جواب نہ دیا ہو۔ وکیل نے کہا کہ اس درخواست گزار خاتون نے والدہ اور والد کی وفات کے بعد اپنے بھائیوں کو باپ بن کر پالا، شادی تک نہیں کی؛ حتیٰ کہ زمینداری بھی خود کرتی تھی۔ 2008 میں ملزمان نے اپنے ڈیرے پر بلا کر دونوں بھائیوں کو قتل کیا، بہن کے علاوہ ایک گواہ بھی موجود تھا۔ موقع سے کلاشنکوف کی گولیوں کے 52 خول برآمد ہوئے لیکن فورینزک معائنے کے لیے نہیں بھجوائے گئے۔ پولیس نے مقدمہ تو درج کر لیا مگر ڈیڑھ سال تک ایک بھی ملزم گرفتار نہیں کیا۔ کیونکہ ایس پی تو خود با اثر ملزمان کے گھر میں موجود ہوتا تھا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس جانبدار تھی۔
پولیس کے رویے سے مایوس خاتون نے پرائیویٹ کمپلینٹ دائر کی جس پر ٹرائل کورٹ نے آٹھ میں سے دوملزمان کو بری کیا جبکہ پانچ کو سزائے موت سنائی تھی، لیکن پھر انہیں بھی ہائیکورٹ نے بری کر دیا۔عدالتی سوالات پر وکیل نے بتایا کہ جائے وقوعہ پر گاڑی نہیں جاسکتی تھی، اس لیے مقتول زمین دیکھنے تھوڑی دور گاڑی پارک کرنے کے بعد براستہ پگڈنڈی پیدل گئے، اور قتل ہونے پر ان کی لاشیں بھی اس لیے ٹرالی پر لے جائی گئیں۔ کیونکہ چارپائیوں پر ڈالی گئی لاشوں کو گاڑی میں لے کر جانا ممکن نہیں تھا۔
جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ جہاں گاڑی نہیں جاسکتی تھی وہاں ٹریکٹر ٹرالی کیسے چلی گئی؟ کیا ٹریکٹر ٹینک کی طرح چین والا تھا یا اس ٹینک جیسا ٹریکٹر تھا جو سمندر پار کرجاتا ہے؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ وقوعہ کے بعد خاندان اکٹھا ہوکر جھوٹے گواہ بناتا ہے، ان گواہان کی گواہی جھوٹی ثابت ہونے پر اصل ملزمان چھوٹ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں پولیس بھی اصل ملزمان تک پہنچ جاتی ہے، لیکن گواہان جھوٹے ہونے پر شک کا فائدہ ملزمان کو ملتا ہے اور الزام عدالت پر آجاتا ہے کہ ملزم چھوڑ دیئے۔ اپنا جرم کوئی نہیں دیکھتا کہ گواہ جھوٹے تھے۔
جب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید دلائل سننے سے انکار کرتے ہوئے فیصلہ لکھوانا شروع کیا تو دکھیاری بہن فرط جذبات سے آنسو بہاتی پچھلی قطار سے اٹھ کر روسٹرم پر کھڑے وکیل کے پیچھے پہنچی۔ اس دوران فاضل جج نے وکیل کے معاون اور خاتون کو بیٹھنے کا حکم دیا، حالانکہ معاون تو پوری سماعت کے دوران کھڑا رہا تھا۔ خاتون نے کہا کہ میں یتیموں کی وارث ہوں، میری بات سن لیں۔ لیکن جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے بولنے کی اجازت نہیں دی تو خاتون کے ساتھ آنے والے نوجوان نے خاتون کو ایک نشست پر بٹھا دیا۔
جب عدالت عظمیٰ استغاثہ کی ناکامی و عدم شواہد کی بنیاد پرملزمان کی بریت کا فیصلہ لکھوا چکی، اور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تو آبدیدہ بہن کی آنکھوں کے آنسو سوکھ گئے؛ اور عدالت سے باہر نکلتے ہوئے اس نے منہ ہی منہ میں اس نظام اور پورے معاشرے سے ایک تلخ سوال کیا کہ" قتل ہون ای کیوں؟ جے ملک اچ انصاف ہووے۔"
ملزمان الطاف، سلیم، اختر، شوزب اور سخی تو بری ہوگئے، لیکن مرنے والے دونوں بھائیوں کی بہن کو انصاف کس نے دینا ہے، آخر دو قتل کسی نے تو کیے تھے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اپنے سگے بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھنے کے باوجود کچھ نہ کرسکنے والی بے بس بہن پہلے تو کیس کی سماعت کے دوران خاموش ہو کر اپنے وکیل کے مفصل جامع دلائل سنتی رہی۔ عدالت کا کوئی سوال ایسا نہ تھا فاضل وکیل نے جس کا جواب نہ دیا ہو۔ وکیل نے کہا کہ اس درخواست گزار خاتون نے والدہ اور والد کی وفات کے بعد اپنے بھائیوں کو باپ بن کر پالا، شادی تک نہیں کی؛ حتیٰ کہ زمینداری بھی خود کرتی تھی۔ 2008 میں ملزمان نے اپنے ڈیرے پر بلا کر دونوں بھائیوں کو قتل کیا، بہن کے علاوہ ایک گواہ بھی موجود تھا۔ موقع سے کلاشنکوف کی گولیوں کے 52 خول برآمد ہوئے لیکن فورینزک معائنے کے لیے نہیں بھجوائے گئے۔ پولیس نے مقدمہ تو درج کر لیا مگر ڈیڑھ سال تک ایک بھی ملزم گرفتار نہیں کیا۔ کیونکہ ایس پی تو خود با اثر ملزمان کے گھر میں موجود ہوتا تھا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس جانبدار تھی۔
پولیس کے رویے سے مایوس خاتون نے پرائیویٹ کمپلینٹ دائر کی جس پر ٹرائل کورٹ نے آٹھ میں سے دوملزمان کو بری کیا جبکہ پانچ کو سزائے موت سنائی تھی، لیکن پھر انہیں بھی ہائیکورٹ نے بری کر دیا۔عدالتی سوالات پر وکیل نے بتایا کہ جائے وقوعہ پر گاڑی نہیں جاسکتی تھی، اس لیے مقتول زمین دیکھنے تھوڑی دور گاڑی پارک کرنے کے بعد براستہ پگڈنڈی پیدل گئے، اور قتل ہونے پر ان کی لاشیں بھی اس لیے ٹرالی پر لے جائی گئیں۔ کیونکہ چارپائیوں پر ڈالی گئی لاشوں کو گاڑی میں لے کر جانا ممکن نہیں تھا۔
جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ جہاں گاڑی نہیں جاسکتی تھی وہاں ٹریکٹر ٹرالی کیسے چلی گئی؟ کیا ٹریکٹر ٹینک کی طرح چین والا تھا یا اس ٹینک جیسا ٹریکٹر تھا جو سمندر پار کرجاتا ہے؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ وقوعہ کے بعد خاندان اکٹھا ہوکر جھوٹے گواہ بناتا ہے، ان گواہان کی گواہی جھوٹی ثابت ہونے پر اصل ملزمان چھوٹ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں پولیس بھی اصل ملزمان تک پہنچ جاتی ہے، لیکن گواہان جھوٹے ہونے پر شک کا فائدہ ملزمان کو ملتا ہے اور الزام عدالت پر آجاتا ہے کہ ملزم چھوڑ دیئے۔ اپنا جرم کوئی نہیں دیکھتا کہ گواہ جھوٹے تھے۔
جب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید دلائل سننے سے انکار کرتے ہوئے فیصلہ لکھوانا شروع کیا تو دکھیاری بہن فرط جذبات سے آنسو بہاتی پچھلی قطار سے اٹھ کر روسٹرم پر کھڑے وکیل کے پیچھے پہنچی۔ اس دوران فاضل جج نے وکیل کے معاون اور خاتون کو بیٹھنے کا حکم دیا، حالانکہ معاون تو پوری سماعت کے دوران کھڑا رہا تھا۔ خاتون نے کہا کہ میں یتیموں کی وارث ہوں، میری بات سن لیں۔ لیکن جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے بولنے کی اجازت نہیں دی تو خاتون کے ساتھ آنے والے نوجوان نے خاتون کو ایک نشست پر بٹھا دیا۔
جب عدالت عظمیٰ استغاثہ کی ناکامی و عدم شواہد کی بنیاد پرملزمان کی بریت کا فیصلہ لکھوا چکی، اور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تو آبدیدہ بہن کی آنکھوں کے آنسو سوکھ گئے؛ اور عدالت سے باہر نکلتے ہوئے اس نے منہ ہی منہ میں اس نظام اور پورے معاشرے سے ایک تلخ سوال کیا کہ" قتل ہون ای کیوں؟ جے ملک اچ انصاف ہووے۔"
ملزمان الطاف، سلیم، اختر، شوزب اور سخی تو بری ہوگئے، لیکن مرنے والے دونوں بھائیوں کی بہن کو انصاف کس نے دینا ہے، آخر دو قتل کسی نے تو کیے تھے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔