کہاں گئے مسافر نواز

ریل گاڑی کا سفر جو ایک زمانے میں ریل رومانس کا درجہ رکھتا تھا اور پھر ایک ضرورت سمجھ کر بلاتوقف اختیار کیا جاتا رہا۔

h.sethi@hotmail.com

ISLAMABAD:
دو ہفتے قبل استنبول سے قونیا' اس سے اگلے روز قونیا سے انقرہ اور پھر وہاں سے واپسی کے لیے تین دن تک طویل عرصہ کے بعد سڑک اور فضائی سفر کے علاوہ ریلوے کا استعمال ہوا تو ریل کے رومانس کی یاد کئی دہائیاں ماضی میں لے گئی جب لوگوں کی اکثریت ایک سے دوسرے شہر جانے کے لیے صرف ٹرین ہی سے سفر کرتی تھی اور اگر پوری فیملی ساتھ ہوتی تو یہ ایک بھرپور پکنک بن جاتی تھی۔

گھر سے ریلوے اسٹیشن پہنچتے ہی دل و دماغ میں پلیٹ فارم پر افراتفری کا ماحول' مسافروں کی دوڑ بھاگ' ریلوے کے سرخ لباس قلیوں کا سامان اٹھائے بوگی میں داخل ہونا یا نکلنا' انجن کی وہسل یا کسی گزرتی ٹرین کی چھک چھک اور چائے پانی بیچنے والوں کی مخصوص آوازیں یہ سب کچھ مل جل کر مسافر کو کسی دوسری دنیا میں گھمانے لے جاتے۔ ٹرین کی روانگی کے لیے انجن وہسل بجاتا ریل کا گارڈ جھنڈی ہلاتا نظر آتا تو مسافر دوڑ کر اپنے ڈبے میں گھستے اور پھر مسافروں کو رخصت کرنے آئے لوگ ہاتھ ہلا کر انھیں دیکھتے اور روانہ کرتے۔

گزشتہ چند روز جب بھی کسی قریبی تعلق والے سے ملاقات ہوتی تو میں اس سے دریافت کرتا رہا کہ اس نے آخری بار کب کب ریل گاڑی سے سفر کیا تھا۔ سخت حیرت ہوئی کہ ہر کسی نے سوچنے کے لیے چند منٹ لیے ان پندرہ کے قریب افراد نے اپنے آخری ریل کے سفر کا عرصہ پندرہ سے بیس سال پرانا بتایا کئی ایک نے تو ذہن پر زور دینے کے بعد معذرت کی کہ انھیں یاد نہیں آ رہا۔ البتہ ایک دو نے اپنے بیرون ملک ریل کے سفر کا عرصہ بتایا جب کہ خود مجھے یاد آتا ہے کہ ساہیوال تعیناتی کے دوران میں دو بار ریل سے لاہور آیا تھا لیکن یہ بھی 37 سال پرانی بات ہے۔

ریل کا سفر کم خرچ اور محفوظ سمجھا جاتا ہے اور آج بھی ریلوے پلیٹ فارم مسافروں سے بھرا ملتا ہے اس کی وجہ آبادی میں اضافہ اور متبادل ذرائع کار بس اور ہوائی جہاز سے سفر کا مہنگا ہونا ہے۔

بیرون ملک کے لیے ہوائی سفر تو ایک مجبوری ہے لیکن ملک کے اندر سستے محفوظ پابند وقت آرام دہ سفر کی سہولت حکومت وقت کی ذمے داری ہوتی ہے جن لوگوں کو ملک کے اندر طویل سفر کرنا ہوتا ان کے لیے ایئرکنڈیشنڈ ہوا کرتا تھا لیکن اب تو ریلوے کا منسٹر اور دیگر وزراء بلکہ وزیراعلیٰ' وزیراعظم' ججز' بیوروکریٹ اور جرنیل بھی ریلوے کے سفر سے پناہ مانگتے ہیں اور وہ جسے ہر کوئی مال گاڑی کے نام سے جانتا تھا مفقود ہوتی جا رہی ہے اور سامان کی ترسیل کے لیے ٹرکوں اور ٹرالوں کے استعمال کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ گورے حکمرانوں کا تحفہ نہری اور ریلوے کا نظام ہم نے بربادی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے لیکن بھارت نے اس کو کافی حد تک ترقی دی ہے۔


ہر کوئی برائی کرنے یا اچھائی اپنانے کے لیے اپنے آپ سے اوپر دیکھتا ہے' پھر اس کی تقلید کرتے ہوئے چور یا صادق و امین بن جاتا ہے۔ پاکستان کی ریلوے یعنی PWR کی حالت دگرگوں ہو چکی تھی۔ اس کے طویل و وسیع ٹریک کی دوطرفہ اراضی ملی بھگت سے ناجائز قبضوں میںجا چکی ہے' اسے واگزار کرانے کی کوشش فی الحال کامیاب نہیں ہو سکی' دو نمبر ریلوے انجن اور بوگیاں امپورٹ ہو کر ریلوے ورکشاپوں اور گوداموں میں چلے جاتے رہے ہیں۔

اسی موضوع پر برسبیل تذکرہ یوں ہے کہ پنجاب میں کم و بیش چھ ہزار رہائشی پلاٹ ریزرو قیمت پر الاٹ کیے تھے جنھوں نے اپنی درخواستوں میں لکھا تھا کہ ''غریب آدمی ہوں، بچے خستہ حالت میں گزر اوقات کر رہے ہیں، اگر CM صاحب مجھے فلاں اسکیم میں پلاٹ نمبر فلاں الاٹ کر دیں تو مکان بنا لوں گا۔ بچوں کے سر پر چھت آ جائے گی اور وہ حضور کو دعا دیں گے''۔

بات ریل گاڑی سے چلی تھی آجکل دو ایک بڑے شہروں کی سڑکوں پر دوڑتی نئی سرخ رنگ کی خوبصورت ایئرکنڈیشنڈ بسوں کا ذکر بھی ہو جائے جن کے پچھلے حصے پر وزیراعلیٰ کی خوبصورت تصاویر ہوتی تھیں جو عدالت عظمیٰ کے سرکاری اشتہاروں پر چھپی تصاویر کا نوٹس لینے پر مٹا دی گئی ہیں لیکن یہ بسیں روز اول سے مسافروں سے خالی بعض اوقات دو یا تین کی تعداد میں بس اسٹاپوں پر سستاتی کھڑی پائی جاتی ہیں ان بسوں کے خالی رہنے کی وجہ یہ ہے ان میں صرف میٹرو بس کارڈ ہولڈر سفر کر سکتے ہیں۔ عام مسافروں کے لیے ان میں داخلہ ممنوع ہے۔

ریل گاڑی کا ذکر کرنے کا خیال مجھے اپنے یار غار اور اسکول کے دنوں کے ساتھی توقیر حسین کا ٹیلیفون سن کر آیا۔ ہم نے ایک ہی کمرے میں رہائش کے دوران مقابلے کے امتحان کی تیاری کی تھی۔ میری ملازمت پاکستان میں رہی جب کہ توقیر فارن سروس میں چلا گیا کئی ملکوں میں تعیناتی کے علاوہ وہ اسپین' برازیل اور جاپان میں سفیر بھی رہا۔ آج کل امریکا میں مقیم اور ایک کالج میں جزوقتی لیکچرر ہے۔ میرے فون کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنی موٹر کار ریلوے اسٹیشن پر پارک کرکے ٹرین کے ذریعے لیکچر دینے کالج روانہ ہو رہا ہے۔

ریل گاڑی کا سفر جو ایک زمانے میں ریل رومانس کا درجہ رکھتا تھا اور پھر ایک ضرورت سمجھ کر بلاتوقف اختیار کیا جاتا رہا' اب اس کا سوچ کر ہی کانوں کو ہاتھ لگا کر ارادہ ترک کر دیا جاتا ہے۔ دراصل یہ ہمارے پردھانوں کی غلط کاریوں کا نتیجہ ہے۔

ریلوے کے نظام کے علاوہ ہم نے اپنی دوسری سفری سہولت جس کا دوسرا نام ''باکمال لوگ لاجواب پرواز'' اور Great Peaple to Fly with تھا۔ اس کے ساتھ بھی بیگانوں والا سلوک کیا گیا ہے۔ ابھی دو ہفتے قبل میں نے دو دن میں تین بار استنبول سے قونیا پھر قونیا سے انقرہ اور اسی شام واپس استنبول تک ٹرین سے سفر کیا جس کا آرام دہ اور پابند وقت ہونا ابھی تک یاد ہے۔ اب زندگی ہے تو سفر تو شرط ہے لیکن مسافر نواز مفقود ہو گئے ہیں جب کہ شجر ہائے سایہ دار کے پتے جھڑ گئے اور وہ گنجے ہو گئے ہیں۔
Load Next Story