چیخنا چلانا بند کیجیے
آپ کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ سب خود آپ کی مرضی کے مطابق ہورہا ہے۔
ISLAMABAD:
روسی شاعر اور فلسفی الیگزینڈر سول نیٹ سین نے کہا تھا ''آپ اس وقت تک لوگوں پر پاور کے حامل ہوسکتے ہیں جب آپ ان سے ہر چیز نہیں چھین لیتے، لیکن جب آپ کسی شخص کو ہر ایک چیز سے محروم کردیتے ہیں، اس کی ہر ایک چیز کو لوٹ لیتے ہیں، تب وہ آپ کی پاور میںنہیں رہتا، وہ دوبارہ آزاد ہوجاتا ہے''۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم سب دوبارہ آزاد ہورہے ہیں، کیونکہ ہم سب کی تقریباً تمام کی تمام چیزوں کو لوٹ لیا گیا ہے، نہ ہمارے پاس کسی بھی قسم کا کوئی حق ہے، نہ روزگار، نہ ذاتی گھر اور نہ ہی گاڑی۔ ایک وقت بڑی ہی مشکل سے گھر میں چولہا جلتا ہے، باقی سارا وقت بجھا رہتا ہے، نہ سارا دن ساری رات بجلی اور گیس ہوتی ہے اور نہ ہی نلکوں میں پانی آتا ہے، نہ ہم کبھی اسکول جاسکے اور نہ ہی ہمارے بچے اسکول جارہے ہیں۔
بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کی عمر عرصہ دراز پہلے غربت اور افلاس کی وجہ سے آکر نجانے کہاں چلی گئی ہے کہ اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی، ووٹ دے دے کر تھک گئے لیکن نہ ملک کے حالات بدلے اور نہ ہی ہمارے حالات بدلے اور اگر کچھ بدلا تو ان کے حالات بدلے جنھیں ہم نے ووٹ دیے تھے، جو اپنے حالات بدل کر نجانے کہاں جا کر چھپ گئے ہیں۔
مزے کی بات ہے کہ ہمیں لوٹنے والے ہمارا سب کچھ لوٹ کر بھی خوش نہیں ہیں۔ ہم تو اس لیے خوش نہیں ہیں کہ ہمارے پاس تو خوش ہونے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ وہ جو اب ہماری سب چیزوں کے مالک بن گئے ہیں وہ ہم سے زیادہ اداس، غمگین اور فکرمند ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا وہ خوش کیو ں نہیں ہیں، ہمارے پاس اب تو باقی ایسا کچھ نہیں بچا ہے جسے لوٹ لینے کی فکر میں وہ گھلے جارہے ہوں، اب ہمارے پاس تو لوٹے جانے کے لیے صرف غربت، افلاس، بھوک، بیماریاں، ذلتیں، گالیاں اور دھکے باقی بچے ہیں، جنھیں دیکھ کر جن، بھوت اور چڑیلیں بھاگ جاتی ہیں، انسانوں کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
ہاں یاد آیا، ایک اور چیز ابھی تک ہمارے پاس موجود ہے اور وہ ہے ہماری یہ سوچ کہ کیا خدا اور اس کا نظام انصاف ناکام ہوچکے ہیں؟ کیا خدا نے ہماری طرف توجہ دینا ہی بند کردی ہے؟ کیا ہم خدا کے ناپسندیدہ ترین بندے بن گئے ہیں؟ آخر ہمارے نصیب بدلتے کیوں نہیں ہیں؟ دنیا بھر کی تمام ذلتیں ہماری قسمت میں کیوں لکھ دی گئی ہیں؟ اگر یہ باقی بچی چیز لوٹ سکتے ہو تو اسے بھی لوٹ لو۔ لیکن یاد رکھنا تم اس سے زیادہ ہمیں غمگین نہیں کرسکو گے جتنے کہ ابھی ہم ہیں۔
ماہر نفسیات ہال اربن لکھتا ہے ''جب میں کالج میں پڑھتا تھا ایک بار میری کلاس میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے زندگی کو مختلف انداز میں دیکھنے کے قابل بنادیا۔ میں نے یونیورسٹی آف سان فرانسیسکو میں داخلہ لیا جو کہ ایک جیسوٹ (Jesuit) تعلیمی ادارہ تھا اور ہر سیمسٹر میں فلسفہ کا مضمون لینا لازمی تھا۔
''جیسوٹ'' جو کہ کیتھولک پادریوں کا ایک عالمانہ فرقہ ہے اور وہ فلسفے کے زبردست ماہر ہوتے ہیں، ہمارے جیسوٹ اساتذہ نے ہمیں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے دنیا میں جانے سے پہلے وہ ہمیں سوچنا سکھا دیں۔ انھوں نے ایسا ہی کیا، ہمیں روزانہ خداوند، زندگی، دنیا اور اس میں ہمارے مقام کے بارے میں سوچنے کا چیلنج دیا جاتا تھا۔ ہم پر لازم تھا کہ زندگی کے معنی اور ہمارے وجود کے اسباب پر مقالے لکھیں۔ ہم حق و باطل اور خیر و شر کے حوالے سے مباحثے بھی کیا کرتے تھے۔ گو کہ یہ موضوعات بہت بوجھل تھے اس کے باوجود ان پر مباحثے کرنے اور مقالے لکھنے سے ہماری خوب تربیت ہوئی اور ہم نے حقیقت میں سوچنا سیکھا۔ ایک روز ہم خدا کے وجود پر مباحثہ کررہے تھے، جب کافی دیر ہوگئی تو میرے ایک ہم جماعت نے استاد سے سوال کیا 'اگر خدا بہت اچھا اور بہت طاقتور ہے تو پھر ہماری زندگیوں میں دکھ کیوں ہوتے ہیں؟ اس نے ہمیں ہمیشہ کے لیے صحت مند اور مسرور کیوں نہیں بنایا؟' ایسا لگتا تھا کہ ہمارا استاد اس سوال کا منتظر تھا، میں اس کے جواب کو کبھی نہیں بھلا پاؤں گا، اس نے کہا 'اگر خدا ہمیں اس طرح سے بناتا تو ہم محض کٹھ پتلیاں ہوتے۔ وہ رسیاں کھینچتا رہتا اور ہمارے پاس کوئی اختیار ہی نہ ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ ہمیں دکھ اور تکلیفیں کبھی نہ سہنی پڑتیں لیکن ان کے بغیر ہم زندگی کی حقیقی مسرتوں اور فتوحات سے بھی کبھی واقف نہ ہوتے۔ ہمیں اپنے لیے کوئی معنی یا مقصد ڈھونڈنے کی ضرورت نہ ہوتی، ہم شعور سے عاری روبوٹوں کے سوا کچھ نہ ہوتے، تاہم خدا اس سے کہیں بہتر کرنے پر قادر ہے، اس نے ہمیں آزاد ارادے کے ساتھ تخلیق کیا، اس نے ہمیں زندگی دی اور پھر ہمیں خود فیصلہ کرنے کی آزادی دی کہ ہم اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں اس نے ہمیں اپنا راستہ خود منتخب کرنے کی صلاحیت دی'۔''
ڈاکٹر وکٹر فرینکل کہتے ہیں کہ ''ہم حالات کے مارے ہوئے بھی بن سکتے ہیں اور ہم ان کو فتح بھی کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے رحجان کا خود انتخاب کرتے ہیں، ہم جو کچھ بنتے ہیں وہ ایک داخلی فیصلے کا نتیجہ ہوتا ہے''۔ ذہن میں رہے دنیا ہمیں خوش کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف نہیں کرتی ہے اور نہ ہی وہ ہماری ضرورتوں اور خواہشوں کے مطابق ڈھلتی ہے، یہ ہمارے ہی فیصلے ہوتے ہیں کہ ہم ساری زندگی خوش رہیں گے یا غمگین۔ دنیا ہر وقت لٹیروں سے بھری رہتی ہے، جو ہر وقت آپ کو لوٹنے کی پلاننگ کررہے ہوتے ہیں، آپ پر یہ منحصر ہے کہ آپ انھیں خود کو لوٹنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔
اگر آپ انھیں لوٹ لینے کی اجازت دے چکے ہیں تو پھر آپ کا چیخنا چلانا، رونا دھونا سب بے معنی ہے، اس لیے آپ کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ سب خود آپ کی مرضی کے مطابق ہورہا ہے۔ اس لیے خدارا چیخنا چلانا بند کردیجئے اور اگر کوئی چیز ابھی بھی آپ کے پاس لٹنے سے بچ گئی ہے تو وہ بھی لٹیروں کے حوالے کردیجئے تاکہ انھیں سکون حاصل ہوسکے۔
روسی شاعر اور فلسفی الیگزینڈر سول نیٹ سین نے کہا تھا ''آپ اس وقت تک لوگوں پر پاور کے حامل ہوسکتے ہیں جب آپ ان سے ہر چیز نہیں چھین لیتے، لیکن جب آپ کسی شخص کو ہر ایک چیز سے محروم کردیتے ہیں، اس کی ہر ایک چیز کو لوٹ لیتے ہیں، تب وہ آپ کی پاور میںنہیں رہتا، وہ دوبارہ آزاد ہوجاتا ہے''۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم سب دوبارہ آزاد ہورہے ہیں، کیونکہ ہم سب کی تقریباً تمام کی تمام چیزوں کو لوٹ لیا گیا ہے، نہ ہمارے پاس کسی بھی قسم کا کوئی حق ہے، نہ روزگار، نہ ذاتی گھر اور نہ ہی گاڑی۔ ایک وقت بڑی ہی مشکل سے گھر میں چولہا جلتا ہے، باقی سارا وقت بجھا رہتا ہے، نہ سارا دن ساری رات بجلی اور گیس ہوتی ہے اور نہ ہی نلکوں میں پانی آتا ہے، نہ ہم کبھی اسکول جاسکے اور نہ ہی ہمارے بچے اسکول جارہے ہیں۔
بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کی عمر عرصہ دراز پہلے غربت اور افلاس کی وجہ سے آکر نجانے کہاں چلی گئی ہے کہ اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی، ووٹ دے دے کر تھک گئے لیکن نہ ملک کے حالات بدلے اور نہ ہی ہمارے حالات بدلے اور اگر کچھ بدلا تو ان کے حالات بدلے جنھیں ہم نے ووٹ دیے تھے، جو اپنے حالات بدل کر نجانے کہاں جا کر چھپ گئے ہیں۔
مزے کی بات ہے کہ ہمیں لوٹنے والے ہمارا سب کچھ لوٹ کر بھی خوش نہیں ہیں۔ ہم تو اس لیے خوش نہیں ہیں کہ ہمارے پاس تو خوش ہونے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ وہ جو اب ہماری سب چیزوں کے مالک بن گئے ہیں وہ ہم سے زیادہ اداس، غمگین اور فکرمند ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا وہ خوش کیو ں نہیں ہیں، ہمارے پاس اب تو باقی ایسا کچھ نہیں بچا ہے جسے لوٹ لینے کی فکر میں وہ گھلے جارہے ہوں، اب ہمارے پاس تو لوٹے جانے کے لیے صرف غربت، افلاس، بھوک، بیماریاں، ذلتیں، گالیاں اور دھکے باقی بچے ہیں، جنھیں دیکھ کر جن، بھوت اور چڑیلیں بھاگ جاتی ہیں، انسانوں کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
ہاں یاد آیا، ایک اور چیز ابھی تک ہمارے پاس موجود ہے اور وہ ہے ہماری یہ سوچ کہ کیا خدا اور اس کا نظام انصاف ناکام ہوچکے ہیں؟ کیا خدا نے ہماری طرف توجہ دینا ہی بند کردی ہے؟ کیا ہم خدا کے ناپسندیدہ ترین بندے بن گئے ہیں؟ آخر ہمارے نصیب بدلتے کیوں نہیں ہیں؟ دنیا بھر کی تمام ذلتیں ہماری قسمت میں کیوں لکھ دی گئی ہیں؟ اگر یہ باقی بچی چیز لوٹ سکتے ہو تو اسے بھی لوٹ لو۔ لیکن یاد رکھنا تم اس سے زیادہ ہمیں غمگین نہیں کرسکو گے جتنے کہ ابھی ہم ہیں۔
ماہر نفسیات ہال اربن لکھتا ہے ''جب میں کالج میں پڑھتا تھا ایک بار میری کلاس میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے زندگی کو مختلف انداز میں دیکھنے کے قابل بنادیا۔ میں نے یونیورسٹی آف سان فرانسیسکو میں داخلہ لیا جو کہ ایک جیسوٹ (Jesuit) تعلیمی ادارہ تھا اور ہر سیمسٹر میں فلسفہ کا مضمون لینا لازمی تھا۔
''جیسوٹ'' جو کہ کیتھولک پادریوں کا ایک عالمانہ فرقہ ہے اور وہ فلسفے کے زبردست ماہر ہوتے ہیں، ہمارے جیسوٹ اساتذہ نے ہمیں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے دنیا میں جانے سے پہلے وہ ہمیں سوچنا سکھا دیں۔ انھوں نے ایسا ہی کیا، ہمیں روزانہ خداوند، زندگی، دنیا اور اس میں ہمارے مقام کے بارے میں سوچنے کا چیلنج دیا جاتا تھا۔ ہم پر لازم تھا کہ زندگی کے معنی اور ہمارے وجود کے اسباب پر مقالے لکھیں۔ ہم حق و باطل اور خیر و شر کے حوالے سے مباحثے بھی کیا کرتے تھے۔ گو کہ یہ موضوعات بہت بوجھل تھے اس کے باوجود ان پر مباحثے کرنے اور مقالے لکھنے سے ہماری خوب تربیت ہوئی اور ہم نے حقیقت میں سوچنا سیکھا۔ ایک روز ہم خدا کے وجود پر مباحثہ کررہے تھے، جب کافی دیر ہوگئی تو میرے ایک ہم جماعت نے استاد سے سوال کیا 'اگر خدا بہت اچھا اور بہت طاقتور ہے تو پھر ہماری زندگیوں میں دکھ کیوں ہوتے ہیں؟ اس نے ہمیں ہمیشہ کے لیے صحت مند اور مسرور کیوں نہیں بنایا؟' ایسا لگتا تھا کہ ہمارا استاد اس سوال کا منتظر تھا، میں اس کے جواب کو کبھی نہیں بھلا پاؤں گا، اس نے کہا 'اگر خدا ہمیں اس طرح سے بناتا تو ہم محض کٹھ پتلیاں ہوتے۔ وہ رسیاں کھینچتا رہتا اور ہمارے پاس کوئی اختیار ہی نہ ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ ہمیں دکھ اور تکلیفیں کبھی نہ سہنی پڑتیں لیکن ان کے بغیر ہم زندگی کی حقیقی مسرتوں اور فتوحات سے بھی کبھی واقف نہ ہوتے۔ ہمیں اپنے لیے کوئی معنی یا مقصد ڈھونڈنے کی ضرورت نہ ہوتی، ہم شعور سے عاری روبوٹوں کے سوا کچھ نہ ہوتے، تاہم خدا اس سے کہیں بہتر کرنے پر قادر ہے، اس نے ہمیں آزاد ارادے کے ساتھ تخلیق کیا، اس نے ہمیں زندگی دی اور پھر ہمیں خود فیصلہ کرنے کی آزادی دی کہ ہم اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں اس نے ہمیں اپنا راستہ خود منتخب کرنے کی صلاحیت دی'۔''
ڈاکٹر وکٹر فرینکل کہتے ہیں کہ ''ہم حالات کے مارے ہوئے بھی بن سکتے ہیں اور ہم ان کو فتح بھی کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے رحجان کا خود انتخاب کرتے ہیں، ہم جو کچھ بنتے ہیں وہ ایک داخلی فیصلے کا نتیجہ ہوتا ہے''۔ ذہن میں رہے دنیا ہمیں خوش کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف نہیں کرتی ہے اور نہ ہی وہ ہماری ضرورتوں اور خواہشوں کے مطابق ڈھلتی ہے، یہ ہمارے ہی فیصلے ہوتے ہیں کہ ہم ساری زندگی خوش رہیں گے یا غمگین۔ دنیا ہر وقت لٹیروں سے بھری رہتی ہے، جو ہر وقت آپ کو لوٹنے کی پلاننگ کررہے ہوتے ہیں، آپ پر یہ منحصر ہے کہ آپ انھیں خود کو لوٹنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔
اگر آپ انھیں لوٹ لینے کی اجازت دے چکے ہیں تو پھر آپ کا چیخنا چلانا، رونا دھونا سب بے معنی ہے، اس لیے آپ کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ سب خود آپ کی مرضی کے مطابق ہورہا ہے۔ اس لیے خدارا چیخنا چلانا بند کردیجئے اور اگر کوئی چیز ابھی بھی آپ کے پاس لٹنے سے بچ گئی ہے تو وہ بھی لٹیروں کے حوالے کردیجئے تاکہ انھیں سکون حاصل ہوسکے۔