یہی ٹھہری جو شرط وصل لیلیٰ
ہرڈکٹیٹر اپنے فتنہ پرور زمانے میں کچھ ایسے فتنے کھڑے کرجاتاہے جو اس کے جانے کے بعدبھی مصیبت کا سامان پیداکرتے رہتےہیں۔
ہر ڈکٹیٹر اپنے فتنہ پرور زمانے میں کچھ ایسے فتنے کھڑے کر جاتا ہے جو اس کے جانے کے بعد بھی مصیبت کا سامان پیدا کرتے رہتے ہیں۔ بظاہر یہ اچھا خیال تھا کہ قومی اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے۔ مگر خیال اچھا ہو اور نیت بد ہو تو وہ اچھا خیال بھی فتنہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور بعد تک مصیبت کا سامان کرتا رہتا ہے۔ دیکھتے نہیں پرویز مشرف نے جو الیکشن لڑنے والوں کے لیے بی اے کی شرط کا شگوفہ چھوڑا تھا وہ اب آ کر کتنی مصیبت بن گیا ہے۔
ہمیں خیال آیا کہ ارے پرویز مشرف سے پہلے بھی تو کسی نے بڑی معصومیت سے یہ کھیل کھیلا تھا۔ بھلا کس نے۔ یہ آپ کو اکبر الٰہ آبادی بتائیں گے۔
کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تو اگر کر لے بی اے پاس
تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے
بلا دقت میں بن جائوں تیری ساس
کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی
کجا عاشق کجا کالج کی بکواس
بڑی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے
ہرن پر لادی جاتی ہے کہیں گھاس
یہ اچھی قدر دانی آپ نے کی
مجھے سمجھا ہے کوئی ہرچرن داس
یہی ٹھہری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفا مرا با حسرت و یاس
ہماری دنیائے سیاست کے کھلاڑیوں سے تو وہ دیوانہ عشق کا مارا مجنوں سمجھدار نکلا۔ لیلیٰ کی ماں کی چال کو بھانپا اور عشق ہی سے توبہ کر لی۔ یہ کیسے کھلاڑی تھے کہ ڈکٹیٹر کے جال میں پھنس گئے۔ جعلی ڈگریاں حاصل کر کے مطمئن ہو گئے کہ لو ہم نے شرط پوری کر دی۔ مگر اب وہ جعلی ڈگریاں ان گھاگھ سیاستدانوں کے لیے جنجال بنی ہوئی ہیں اور نوبت قید و بند تک پہنچ گئی ہے۔
مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ یہ جانِ مجنوں کے لیے خالی ایک مصیت تو نہیں ہے جو جعلی ڈگری کے جال سے بچ نکلے وہ ریٹرننگ افسروں کے کمرۂ امتحان میں آ کر پھنس گئے۔ یہاں مسلمانی کے نرالے امتحان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ تمہیں دعائے قنوت یاد ہے، ذرا کلمہ پڑھ کر تو سنائو، کلام پاک کی کوئی آیت پڑھ کر سنائو۔ امتحان میں کتنے فیل ہو گئے، مگر شاباش ہے مسرت شاہین پر، اس نے پوری آیت الکرسی فر فر پڑھ ڈالی اور سچی مسلمان ہونے کی سند لے لی۔ اسلام کے ممتحن کچے پڑ گئے، مسرت شاہین پاس ہو گئی۔
اس برصغیر کی دنیائے فلم میں اب سے پہلے دو اداکارائیں گریجویٹ بن کر نامور ہوئی تھیں۔ لیلا چٹنس بی اے اور ونمالا بی۔اے، بی ٹی۔ مسرت شاہین ان دونوں سے بڑھ کر نکلیں، وہ بی اے بھی ہیں اور سچی مسلمان ہونے کی سند بھی انھیں الیکشن کمیشن سے مل گئی ہے۔ اب وہ جانے مانے مرد مسلمان مولانا فضل الرحمٰن کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتی ہیں۔
یہ جو ریٹرننگ افسروں نے اپنے جامہ سے نکل کر محتسب اور معلم اخلاق کی حیثیت اختیار کر لی تھی اور جس پر اب روک ٹوک ہو رہی ہے اسے ایک دوسرے ڈکٹیٹر جرنیل ضیاء الحق کا فیض جانو۔ اس ڈکٹیٹر نے بھی اپنے وقت میں اپنے رنگ سے عجیب عجیب گل کھلائے۔ اچانک کیا ہوا کہ خدائے تعالیٰ کا نام اس کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔ اسے حرف غلط سمجھنے لگا۔ اسے مٹانے کے لیے اس نے آغاز اس حکم سے کیا کہ خدا حافظ مت کہو، وہ غلط ہے۔ اللہ حافظ کہو۔ اس پر اللہ کے نیک بندے حیران کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کہ ہر نام کا اپنا تقدس اور اپنی معنویت ہے کیوں کھنڈت ڈالی جاری ہے۔ تب ایک بندے نے گڑگڑا کر فریاد کی کہ؎
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
ایک نرالا مرد مسلمان نمودار ہوا ہے جو خدا کا نام لینے سے منع کرتا ہے۔
اس مرد خدا نے یہ نہ سوچا کہ یہ صدیوں کی روایت ہے۔ گزری صدیوں میں دنیائے اسلام کے کتنے دینی علماء، مفسرین، محققین، معتقدین اور شعرا کی نگارشات میں یہ مقدس نام جلوہ گر ہے۔ تم کیسے کہاں کہاں سے اس نام کو مٹائو گے۔ نام بڑا ہے، تم آمر مطلق ہونے کی باوصف بہت چھوٹی شے ہو۔
لیجیے اس زمانے کا اس ڈکٹیٹر کا دوسرا حکم ملاحظہ فرمائیے۔ یہ خاص طور پر ٹی وی اور ریڈیو کے لیے تھا کہ ان کے کسی پروگرام میں شراب کا اور اس کے متعلقات کا ذکر نہ آئے۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے پروڈیوسر حیران و پریشان کہ ہم موسیقی اور شاعری کے پروگراموں میں کیا کریں گے۔ وہاں تو بقول غالب صورت یہ ہے کہ؎
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
ریڈیو پر ایک ادبی مباحثہ کا پروگرام تھا۔ ہم بھی اس میں مدعو تھے، پروگرام پروڈیوسر شکور بیدل تھے، کہنے لگے کہ عزیزو خیال رہے کہ بحث میں شراب کا حوالہ نہ آئے۔ ہم نے کہا کہ ''شراب معرفت کا بھی نہیں۔ مئے عرفان کا بھی نہیں۔''
بولے ''ہاں ایسی اور اصطلاحوں سے اجتناب ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔''
تب ہمیں علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آیا؎
میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
پروڈیوسر ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ بولا ''یارو کیوں میری نوکری کے پیچھے پڑے ہو۔''
اور ہم کیا کرتے۔ اس عزیز کی نوکری کا پاس تو کرنا ہی تھا۔ کتنی لجاجت سے اس نے یہ التجا کی تھی۔ ہاں لیجیے یاد آیا۔ ایاز امیر صاحب پر ریٹرننگ افسر کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی تو ہوا ہے کہ ان کے کسی کالم میں خانہ خراب شراب کا ذکر ہوا تھا۔ دیکھیے ضیاء الحق کا پاس لحاظ کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ خود ریڈیو اور ٹی وی کے پروڈیوسر حضرات نے اس ڈکٹیٹر کے رخصت ہوتے ہی ان احکامات کو فراموش کر دیا تھا۔ بس اس نسبت سے کتنے لطیفے یاد رہ گئے۔ مگر دیکھیے کتنے ایسے لوگ موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر اس وقت ریٹرننگ افسر ہیں جو ضیاء الحق کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے پر مصر ہیں۔
ویسے لازم نہیں کہ سب ریٹرننگ افسر صدق دل سے یہ سوالات کر رہے ہوں۔ کتنے ایسے ہوں گے کہ چلو اس پالے میں لا کر ان بے دینوں کو خوار کیا جائے۔ مگر انھیں شاید اس کا احساس نہ ہو کہ انھوں نے اپنے آپ کو بھی اس طرح مضحکہ خیز بنا لیا ہے اور اسلامی تعلیمات کو بھی لطیفوں کا موضوع بنا دیا ہے۔ آخر یہ خبریں باہر بھی تو پہنچ رہی ہیں اور دنیا ہمارے آپ کے متعلق خود پاکستان کے متعلق کیا سوچ رہی ہو گی۔ ان آمروں کے ہاتھوں اور ان کے پیروکاروں کے ہاتھوں پاکستان کا امیج کیا سے کیا ہو گیا ہے۔؎
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
ہمیں خیال آیا کہ ارے پرویز مشرف سے پہلے بھی تو کسی نے بڑی معصومیت سے یہ کھیل کھیلا تھا۔ بھلا کس نے۔ یہ آپ کو اکبر الٰہ آبادی بتائیں گے۔
کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تو اگر کر لے بی اے پاس
تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے
بلا دقت میں بن جائوں تیری ساس
کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی
کجا عاشق کجا کالج کی بکواس
بڑی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے
ہرن پر لادی جاتی ہے کہیں گھاس
یہ اچھی قدر دانی آپ نے کی
مجھے سمجھا ہے کوئی ہرچرن داس
یہی ٹھہری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفا مرا با حسرت و یاس
ہماری دنیائے سیاست کے کھلاڑیوں سے تو وہ دیوانہ عشق کا مارا مجنوں سمجھدار نکلا۔ لیلیٰ کی ماں کی چال کو بھانپا اور عشق ہی سے توبہ کر لی۔ یہ کیسے کھلاڑی تھے کہ ڈکٹیٹر کے جال میں پھنس گئے۔ جعلی ڈگریاں حاصل کر کے مطمئن ہو گئے کہ لو ہم نے شرط پوری کر دی۔ مگر اب وہ جعلی ڈگریاں ان گھاگھ سیاستدانوں کے لیے جنجال بنی ہوئی ہیں اور نوبت قید و بند تک پہنچ گئی ہے۔
مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ یہ جانِ مجنوں کے لیے خالی ایک مصیت تو نہیں ہے جو جعلی ڈگری کے جال سے بچ نکلے وہ ریٹرننگ افسروں کے کمرۂ امتحان میں آ کر پھنس گئے۔ یہاں مسلمانی کے نرالے امتحان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ تمہیں دعائے قنوت یاد ہے، ذرا کلمہ پڑھ کر تو سنائو، کلام پاک کی کوئی آیت پڑھ کر سنائو۔ امتحان میں کتنے فیل ہو گئے، مگر شاباش ہے مسرت شاہین پر، اس نے پوری آیت الکرسی فر فر پڑھ ڈالی اور سچی مسلمان ہونے کی سند لے لی۔ اسلام کے ممتحن کچے پڑ گئے، مسرت شاہین پاس ہو گئی۔
اس برصغیر کی دنیائے فلم میں اب سے پہلے دو اداکارائیں گریجویٹ بن کر نامور ہوئی تھیں۔ لیلا چٹنس بی اے اور ونمالا بی۔اے، بی ٹی۔ مسرت شاہین ان دونوں سے بڑھ کر نکلیں، وہ بی اے بھی ہیں اور سچی مسلمان ہونے کی سند بھی انھیں الیکشن کمیشن سے مل گئی ہے۔ اب وہ جانے مانے مرد مسلمان مولانا فضل الرحمٰن کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتی ہیں۔
یہ جو ریٹرننگ افسروں نے اپنے جامہ سے نکل کر محتسب اور معلم اخلاق کی حیثیت اختیار کر لی تھی اور جس پر اب روک ٹوک ہو رہی ہے اسے ایک دوسرے ڈکٹیٹر جرنیل ضیاء الحق کا فیض جانو۔ اس ڈکٹیٹر نے بھی اپنے وقت میں اپنے رنگ سے عجیب عجیب گل کھلائے۔ اچانک کیا ہوا کہ خدائے تعالیٰ کا نام اس کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔ اسے حرف غلط سمجھنے لگا۔ اسے مٹانے کے لیے اس نے آغاز اس حکم سے کیا کہ خدا حافظ مت کہو، وہ غلط ہے۔ اللہ حافظ کہو۔ اس پر اللہ کے نیک بندے حیران کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کہ ہر نام کا اپنا تقدس اور اپنی معنویت ہے کیوں کھنڈت ڈالی جاری ہے۔ تب ایک بندے نے گڑگڑا کر فریاد کی کہ؎
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
ایک نرالا مرد مسلمان نمودار ہوا ہے جو خدا کا نام لینے سے منع کرتا ہے۔
اس مرد خدا نے یہ نہ سوچا کہ یہ صدیوں کی روایت ہے۔ گزری صدیوں میں دنیائے اسلام کے کتنے دینی علماء، مفسرین، محققین، معتقدین اور شعرا کی نگارشات میں یہ مقدس نام جلوہ گر ہے۔ تم کیسے کہاں کہاں سے اس نام کو مٹائو گے۔ نام بڑا ہے، تم آمر مطلق ہونے کی باوصف بہت چھوٹی شے ہو۔
لیجیے اس زمانے کا اس ڈکٹیٹر کا دوسرا حکم ملاحظہ فرمائیے۔ یہ خاص طور پر ٹی وی اور ریڈیو کے لیے تھا کہ ان کے کسی پروگرام میں شراب کا اور اس کے متعلقات کا ذکر نہ آئے۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے پروڈیوسر حیران و پریشان کہ ہم موسیقی اور شاعری کے پروگراموں میں کیا کریں گے۔ وہاں تو بقول غالب صورت یہ ہے کہ؎
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
ریڈیو پر ایک ادبی مباحثہ کا پروگرام تھا۔ ہم بھی اس میں مدعو تھے، پروگرام پروڈیوسر شکور بیدل تھے، کہنے لگے کہ عزیزو خیال رہے کہ بحث میں شراب کا حوالہ نہ آئے۔ ہم نے کہا کہ ''شراب معرفت کا بھی نہیں۔ مئے عرفان کا بھی نہیں۔''
بولے ''ہاں ایسی اور اصطلاحوں سے اجتناب ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔''
تب ہمیں علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آیا؎
میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
پروڈیوسر ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ بولا ''یارو کیوں میری نوکری کے پیچھے پڑے ہو۔''
اور ہم کیا کرتے۔ اس عزیز کی نوکری کا پاس تو کرنا ہی تھا۔ کتنی لجاجت سے اس نے یہ التجا کی تھی۔ ہاں لیجیے یاد آیا۔ ایاز امیر صاحب پر ریٹرننگ افسر کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی تو ہوا ہے کہ ان کے کسی کالم میں خانہ خراب شراب کا ذکر ہوا تھا۔ دیکھیے ضیاء الحق کا پاس لحاظ کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ خود ریڈیو اور ٹی وی کے پروڈیوسر حضرات نے اس ڈکٹیٹر کے رخصت ہوتے ہی ان احکامات کو فراموش کر دیا تھا۔ بس اس نسبت سے کتنے لطیفے یاد رہ گئے۔ مگر دیکھیے کتنے ایسے لوگ موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر اس وقت ریٹرننگ افسر ہیں جو ضیاء الحق کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے پر مصر ہیں۔
ویسے لازم نہیں کہ سب ریٹرننگ افسر صدق دل سے یہ سوالات کر رہے ہوں۔ کتنے ایسے ہوں گے کہ چلو اس پالے میں لا کر ان بے دینوں کو خوار کیا جائے۔ مگر انھیں شاید اس کا احساس نہ ہو کہ انھوں نے اپنے آپ کو بھی اس طرح مضحکہ خیز بنا لیا ہے اور اسلامی تعلیمات کو بھی لطیفوں کا موضوع بنا دیا ہے۔ آخر یہ خبریں باہر بھی تو پہنچ رہی ہیں اور دنیا ہمارے آپ کے متعلق خود پاکستان کے متعلق کیا سوچ رہی ہو گی۔ ان آمروں کے ہاتھوں اور ان کے پیروکاروں کے ہاتھوں پاکستان کا امیج کیا سے کیا ہو گیا ہے۔؎
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا