بھیا جی
اسٹیج اور اگلی صفوں میں بیٹھے پارٹی کے راہ نما تقریر کے اس حصے کے نتائج سوچ کر لرز رہے تھے۔
''ابے ہاں ۔۔۔بات سُن، کل جگہ خالی رکھیو، لڑکوں کو بول دے رات کو نہ آئیں، سات کے بعد مجھے کوئی نہ دِکھے۔''
کل نازیہ سے طے شدہ ملن کا خیال انور ٹیڑھے کو اچانک اتنی شدت سے آیا کہ اُس کا ہاتھ صابر کالے کی ران پر بج اُٹھا۔
''کسے لارہا ہے؟'' صابر کالے نے اُسی شدت کے ساتھ اُس کے ذرا جُھکے کندھے پر ہاتھ مارا، جس کی وجہ سے انور کی عرفیت ٹیڑھا قرار پائی تھی۔
''تیری بھابھی ہے یار'' صابر کالے کی اندر گھسی آنکھوں سے سیاہ ہونٹوں تک پھیلی کمینگی یک دَم سُکڑ کر غائب ہوگئی۔ چہرے پر شرافت اُتر آئی۔ پتا چل گیا کہ کوئی ''مال'' نہیں، ان لڑکوں کے قانون میں، انور ٹیڑھے کی قانونی محبوبہ ہے، جسے فرصت ملتے ہی وہ بیوی کا اعزاز عطا کردے گا۔ ''لڑکے'' ۔۔۔۔۔انھیں لڑکے بالے نہ سمجھیے، بڑھنے میں سمندر کا مقابلہ کرتے شہر میں جو نئی زبان متعارف ہوئی تھی اس میں ''لڑکے'' گروہ اور گینگ کا مترادف لفظ تھا، شہر پر ان لڑکوں کا راج تھا۔ ''لڑکے آگئے''، ''لڑکے بلالو''، ''لڑکے پہنچ گئے''۔۔۔۔جملہ بتا دیتا تھا کس کا ذکر خیروشر ہے۔
انور ٹیڑھے کی نازیہ سے شادی کی خواہش محبت کے اس آفاقی تصور پر مُہرتصدیق ثبت کرتی تھی کہ محبت جسم سے ماورا ہوتی ہے۔ اس نے اب تک نازیہ کی گلی کے نکڑ پر زیرتعمیر مکان اور پارٹی کے ایک اور ''دوست'' ناصر پگلے کی کار کی پچھلی سیٹ پر ایک دوسرے کو بس چکھ کر تشنہ رہ جانے والی ملاقاتوں کو چھوڑ کر ہونے والے کُل ملاکے تین ملاپوں کے بعد اور غسل سے پہلے پوری سچائی سے کہا تھا،''فکر مت کراکر، شادی تجھ سے ہی کرنی ہے''،''لیکن کب''،''ابے فرصت تو ملے''۔۔۔ مگر فرصت کہاں۔ ایک کے بعد دوسرا مشن، دوسرے کے بعد تیسرا، آج شاہد بھینسا اپنے تھلتھلاتے وجود کے ساتھ دھم سے ساتھ آکر بیٹھا اور سرگوشی میں پیغام دیا،''چمڑا فیکٹری والا چراند کر رہا ہے، رضا بھائی نے بولا ہے آگ لگانی ہے''، اگلے دن ایریا ہیڈ آفس بلاکر حکم دیا گیا۔
''دوست! سینیٹر نوراحمد کی بوری تیار کرلو۔'' پارٹی میں ہر ایک دوسرے کو دوست کہتا تھا، پارٹی کی یہ ہدایت اب رِیت بن چکی تھی۔ ایسے کئی دوست دوستوں کے ہاتھوں شہادت کے منصب پر فائز ہوئے تھے اور ان ہی کے کندھوں سے ہوتے کلمۂ شہادت کے ورد اور پارٹی کے نعروں کی گونج میں پارٹی ہی کے گورستانِ شہداء میں دفنائے گئے۔
فرمان پر عمل کرتے ہی روپوش ہوجانے کا حکم نازل ہوجاتا۔
نازیہ سے اس کی ملاقات یہی چھے مہینے پہلے ہوئی تھی۔ وہ کوئی تین سال کے گرہن کے بعد اس روز گلی میں طلوع ہوا تھا۔ تین برس پہلے وہ موسمی بُرا وقت آیا تھا جو ہر کچھ مدت کے بعد کسی کہانی کی بستی میں جوان خون کی بھینٹ لینے والی بَلا کی طرح اس جماعت پر آیا کرتا تھا۔ جوان پیش کردیے جاتے تھے، وقت ہونٹوں سے بہتی سُرخی خاکی آستین سے پونچھتا چلا جاتا تھا۔ بہت سارے بُرے دنوں کے پار اچھے وقت کی رُت آتی تھی۔ ملک چلانے والوں کو پارٹی کی ضرورت پڑتی تھی، سب ٹھیک ہوجاتا تھا۔ محلے چھوڑنے والے لوٹ آتے تھے، دوردیس جانے والے شہر کے ہوائی اڈے پر اُترنے لگتے تھے۔ اس بار اچھا موسم کہیں زیادہ خوش گوار اور طویل تھا۔ ملک کا معززترین لباس پہنے حکم راں راج گدی پر بیٹھا تھا اور اپنا بوجھ لادنے کی شرط پر پارٹی کے لاڈ اٹھا رہا تھا۔
لاڈلی پارٹی کا بانکا انور ٹیڑھا بڑے ناز سے چلتا گلی میں داخل ہوا۔ نکڑ پر پرچون کی دکان سے آٹا خریدتے بوڑھے نے دکان دار کی آنکھوں کے اشارے کے تعاقب میں اس کی طرف دیکھا، چونکا، پھر اس کے حلق سے جوش کی ملمع کاری کیے ڈری ڈری آواز نکلی، ''السلام علیکم انوربھائی۔''،''کیسے ہو چاچا''، اس نے شاہانہ انداز میں ہاتھ اٹھا دیا، ساتھ نظر بھی اٹھی اور ''چاچا'' کی جُھرّیوں سے گزرتی ایک چہرے پر ٹھہری، رخساروں سے پھسلی، پھر جو جھٹکے سے رُکی تو رکی ہی رہ گئی۔
ٹیڑھے کندھے کو بہ مشکل سیدھا کرنے کی کوشش کرتا وہ دروازے پر پردے کے ساتھ جھولتی لڑکی کے پاس سے اسے یوں نظر بھر کے دیکھتے گزرا جس طرح وہ نظر جما کر سگریٹ میں چرس بھرتا تھا۔ پتا چلا کہ اس کی روپوشی کے دوران گلی میں جو کچھ بدلا تھا اس میں نکڑ سے تیسرے گھر میں اس لڑکی کے خاندان کی آمد بھی شامل تھی۔ پُرانے دوست جبار نے بتایا تھا،''وہ پیس۔۔۔نازیہ نام ہے اس کا، ٹائٹ ہے ناں، نئیں؟'' اگلے چند دن میں شناسائی، آشنائی اور تنہائی کی منزلیں طے پاگئیں۔ پچھلی گلی کے گڈو نے جب نازیہ کو گھورا تو اس گلی کے عامر نے متنبہ کیا،''ابے کیا کر رہا ہے، اس کی سیٹنگ ہے انورٹیڑھے سے۔'' نازیہ پر مہر لگ چکی تھی، اب کون ہے جو اس کی طرف دیکھنے یا رشتہ بھیجنے کی ہمت کرتا۔
نازیہ اپنے سپنوں کا سنجے دت ملنے پر ہواؤں میں اُڑ رہی تھی، کبھی خیالوں میں کبھی انور کی موٹرسائیکل پر۔ ''اتنی تیز چلاتا ہے میری تو چیخ نکل جاتی ہے۔'' وہ بڑے فخر سے سہیلیوں کو بتاتی۔ تفاخر کا یہ دائرہ انور کمر سے لگی چمکتی ٹی ٹی، اس کے نشانے اور ماضی میں اس کے پولیس سے مقابلوں تک دراز تھا، جن کے قصے انور نے مزے لے لے کر سُنائے تھے۔
انور کا رومان سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ بلاوے آنا شروع ہوگئے۔ ''کدھر ہیں دوست! آرام کرلیا۔ بھیا جی کا حکم آگیا ہے، حساب لینا ہے۔'' ایریا ہیڈ نے سرگوشی کی، حالاں کہ ایریا آفس کے کشادہ کمرے میں اُن دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا۔
انور کی ٹولی کو واپسی کے بعد پہلا ''کام'' ایک پولیس افسر کا کام اتارنے کا دیا گیا، جس نے بُرے وقت میں کئی ''دوستوں'' کو مقابلے میں مارا تھا۔ ''بھیا جی کی تصویر پر بھی گولیاں چلائی تھیں سالے نے۔'' رشید نے ریکی کے دوران انور کو بتایا تو اس کا خون کھول اُٹھا۔ بھیا جی کا پیغام بھی اسے مل چکا تھا،''اﷲ کی امانت اﷲ کے حوالے۔'' پولیس افسر کا نام لے کر پیغام رسانی کی گئی تھی۔ اگلے روز پولیس افسر کے نام کے ساتھ مقتول لگ چکا تھا۔
پھر تو ایک کے بعد دوسرا حساب، کام پر کام، مشن پر مشن۔
نازیہ جب ملنے کو کہتی وہ ہاتھوں میں دبی ''خواہش'' مسل کر آنکھیں میچ کر کہتا، ''میں تو خود تڑپ رہا ہوں، مگر کیا کروں بہت مصروف چل رہا ہوں یار۔''
اب بڑے دنوں کے بعد فرصت ہاتھ آئی تھی۔ ملاپ کی راہ میں صرف ایک رات پڑی تھی، بے چینی عروج پر کہ پیغام ملا،''بھیاجی کل ایٹ ون پر جلسہ کریں گے۔ بولا ہے کھانا پانی ساتھ لانا، بہت لمبی تقریر ہوگی۔'' پارٹی کا مرکزی دفتر ایٹ ون کہلاتا تھا، پہلے پہلے دفتر میں نصب فون نمبر کے آخری ہندسوں پر مشتمل یہ نام خفیہ کوڈ تھا، پھر منظرعام پر آکر اس جگہ کی پہچان بن گیا۔
''اس کی ماں کی۔۔۔'' گالی انورٹیڑھا کے حلق اور ہونٹوں کے درمیان کہیں گُم ہوگئی اور ہاتھ کچھ دیر کو رانوں کے درمیان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمارتوں میں گھرا وسیع میدان لوگوں سے چھلکا پڑ رہا تھا۔ فلڈ لائٹس سے آتی روشنی کی تُند لہروں نے رات کے اندھیرے کو دور بھگا دیا تھا۔ اردگرد کی گلیوں سے غول کے غول میدان کی طرف آرہے تھے۔ دھیما سا شور تسلسل سے جاری رہ کر سماعتوں کو اپنا یوں عادی بنا چکا تھا کہ شور نہیں لگ رہا تھا۔ لفظ ایک دوسرے سے گُتھ کر بھنبھناہٹ بن جاتے تھے۔ شور کی اس دبیز تہہ کو ہر کچھ دیر بعد کوئی نعرہ کاٹ ڈالتا۔ ''تقدیر ہماری، بھیا جی''،''یہ جان تمھاری، بھیاجی''۔۔۔۔کوئی پورے جوش اور وارفتگی سے جواب دے رہا تھا، کہیں میکانیکی انداز نمایاں۔۔۔۔ یکایک اعلان کیا گیا کہ بھیاجی خطاب شروع کرنے والے ہیں۔ اطراف لگے اسپیکرز سے آتی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ خاموشی چھاگئی، بازار کا منظر قبرستان کے حال میں بدل گیا۔
''السلام م م م مووووعلیکم م م م م '' بھیا جی کی بَھرائی ہوئی سی آواز گونجی۔ بھنچی ہوئی غراہٹ لیے، اس بھنچاؤ میں اکثر لفظ یوں بھنچتے کے کچل کر مہمل ہوجاتے، ایسا بوڑھی ہوتی آواز کو دھاڑ بنانے کی کوشش میں ہوتا۔ لفظوں کو ربڑ کی طرح کھینچا جاتا، جیسے کوئی گَوَیّا سانس توڑے بغیر سُر کو کھینچ کر اپنی مہارت کا مظاہرہ کرے۔ شاید وہ سمجھتے تھے اس طرح لفظوں کا قد بڑھ جاتا ہے، وہ قابل اعتبار ہوجاتے ہیں۔ مگر ان کے کارکنوں اور چاہنے والوں کو تو ان پر اندھا اعتبار تھا۔
بھیاجی کا نام انوارحسین تھا۔ چھوٹا قد، کوتاہ گردن، سیاہ رنگت۔ مٹاپا طاری ہونے کے بعد سے گوشت کی چھوٹی سی پہاڑی بن گئے تھے، ان کا بڑا سا، تھلتھلاتے گالوں والا بھاری بھرکم چہرہ دیکھ کر ہی باقی کی جسامت کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا تھا۔ انوارحسین میں ایک ایسی خصوصیت تھی جو ان کی گفتاروکردار سے سیاست تک ان کی زندگی کے ہر کونے گوشے سے جھانکتی تھی۔۔۔''مستقل مزاجی'' جونک جیسی، مسلسل سماعت میں سوئیاں چبھوتے جھینگر جیسی۔ جب انھوں نے طلبہ کی سطح پر اپنے ہم لسان طبقے کے نام سے طلبہ تنظیم بنائی تو بے وقت کی راگنی ان کی پہچان بنی۔ جہاں چار لوگ دیکھے تقریر کرنے کھڑے ہوگئے۔
اپنے لسانی طبقے کے مسائل اور حقوق کی تبلیغ وہ اس تواتر سے کرتے کے بے زار ہوجانے والا ان کا سچ بھی رد کرکے آگے بڑھ جاتا۔ وہ پُرانے دور کی بات تھی، اب کوئی مائی کا لعل ان کی سُنی ان سُنی کرکے تو دکھائے۔ طلبہ تنظیم کی سیاست سے اب وہ بہت بڑی جماعت کی قیادت تک پہنچ چکے تھے، جو ملک کے سب سے بڑے شہر کی والی وارث بن گئی تھی۔ انوار حسین اب بھیاجی تھے، بوڑھوں بچوں سب کے بھیا جی، جن کی زبان سے نکلا لفظ اس شہر کا قانون تھا۔ کارکن ان کے ایک حکم پر جان دینے اور لینے کو تیار رہتے تھے، یہ بھیاجی کی رحم دلی تھی کہ انھوں نے جان دینے کا حکم کبھی نہیں دیا۔
''آج میں ں ں ں ں اُن ن ن ن ن ن موضووووووعات پررررر بات کروں گا جن پر کوئی ی ی ی نہیں بولتا۔'' بھیاجی نے تقریر کا آغاز کیا۔
دور دیس سے آتی آواز اسٹیج اور زمین پر بیٹھے لوگ پورے مصنوعی انہماک اور خاموشی سے سُن رہے تھے۔ پارٹی کے راہ نماؤں اور کارکنوں کے ساتھ شہر کے کچھ نام ور دانش ور بھی سَر جھکائے سرتاپا سماعت تھے۔ جبران جیت پوری اور صاحب زادہ عاصم، راہ نماؤں کے پہلو میں بیٹھے بہ ظاہر ہمہ تن گوش بنے اونگھ رہے تھے، اپنی دانش وری کی طرح۔
تقریر تیسرے گھنٹے میں داخل ہوچکی تھی۔ ان تین گھنٹوں میں بھیاجی نے ملکی اور بین الاقوامی واقعات کا تذکرہ اور ان کا تعلق آپس میں جوڑ کر سامعین کو یہ سمجھایا تھا کہ ملک پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنی سچائی اور دانش مندی کی داد چاہی، جس مجمع سے راہ نماؤں اور دانش وروں تک پُرجوش، دبی، سہمی، رسم نبھاتی آوازوں کا ملغوبہ فضا میں بکھرا ''جی بھیاجی۔''
''اور کتنا پیے گا'' ناصر گلزاری کی ہونٹوں میں بھنچی آواز منہہ سے خارج ہوتی ہوا کے ساتھ راجا اسرارالحسن کے کانوں میں گونجی۔
یہ دونوں پارٹی کے ساتھ ایک مُدت سے جُڑے لیڈر اور صوبائی اسمبلی کے رُکن تھے۔ دونوں پارٹی کی بابت سینہ در سینہ پھیلے اس فلسفے کی تصویر تھے کہ جو بھیا جی کے جتنا قریب ہے وہ ان سے اتنا ہی دور ہے۔ بھیاجی کی قُربت ان کے براہ راست غصے، طعنوں اور گالیوں کا نشانہ بناتی تھی اور دور سے اپنے راسخ العقیدہ حامیوں کے لیے وہ ایک بُت تھے، کسی مانے ہوئے مجسمہ ساز کا شاہ کار، ہر خامی سے پاک۔
''آج تو مارے گئے، اس کے سر پر ریکارڈ توڑنے کا بھوت سوار ہے۔''
ناصرگلزاری کی آنکھوں میں سوال اُترا، لیکن راجااسرارالحسن نے ہاتھ اور انگلیوں کی مدد سے ''بعد میں بتاؤں گا'' کا اشارہ کردیا۔
ناصرگلزاری کے لیے بات کی تہہ تک پہنچنا مشکل نہیں تھا، کیوں کہ بھیاجی کو سمجھ لینا بہت آسان تھا۔ وہ لاکھ لفاظی اور اخلاقیات کی خوشبوئیں لپیٹیں سوچ اور شخصیت کے سڑجانے والے زخموں کی بساند چھپا نہیں پاتے تھے۔ وہ ڈھلتی عمر کی اس بدصورت عورت کی طرح تھے جس کے میک اپ سے دھوکا کھاکر کوئی خوبرو مرد مرمٹے، پھر وہ ایک پل بھی میک اپ کے بغیر رہنے کی متحمل نہ ہوسکے۔ وہ خوامخواہ کی نرگسیت کا شکار تھے۔ اس حقیقت سے بے خبر کہ انھوں نے اپنا چہرہ کسی قدرتی چشمے میں نہیں خوشامد کے طلسمی پانی میں دیکھا ہے۔ گول مٹول بھیاجی خود بھی اپنی گولائی کے گرد گھومتے تھے اور اپنے وفاداروں کو بھی اسی طواف میں مگن دیکھنا چاہتے تھے۔ اپنی سیاست کا مقصد، نظریہ، قبلہ۔۔۔سب کچھ وہ خود تھے۔
سیاست میں پے درپے اور حیران کُن کام یابیوں نے انھیں ڈھلان پر دوڑتے اس شخص کی طرح بنادیا تھا جس کے لیے رکنا ممکن نہیں ہوتا۔ کام یابی کا خبط اور عظمت کا جنون، ہار تو انھیں کسی حال میں گوارا نہیں تھی، وہ اپنی جیت کا نشان بھی پچھلی فتح سے آگے لگا دیکھنا چاہتے تھے۔
پارٹی کے راہ نماؤں سے کارکنان تک سب ان کی سوچ سے پھوٹتے اس ایمان میں مبتلا تھے کہ ان کے امیدوار کو الیکشن میں ملنے والے ووٹوں میں کمی نہیں ہونی چاہیے، ہر جلسہ حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے بے مثال ہو، شہر میں ہڑتال کروائیں تو لوگ سانسیں بھی روک لیں، جو ہو عظیم ہو، تاریخی ہو، ریکارڈ بنے۔ جیسے بھی ہو، جیسے بھی بنے۔ پھر بھیاجی کو انفرادیت کا ہیضہ بھی تھا۔ وہ جو تھے اس کے برعکس نظر آنے کی بھی ہر کوشش کرتے تھے۔ اپنی کرختگی کو شگفتی کا چہرہ پہنانے کے لیے وہ تقریر کرتے کرتے گانے لگتے، اپنی ریت سی طبیعت کو شوخی کے گلاب دکھانے کے لیے حتی المقدور ناچنے لگتے۔
آج کی تقریر بھی اسی خبط کے بخار کی کھانسی تھی۔
''تیار ہوجائیں اسرار بھائی، بھیاجی اس بار بیس گھنٹے سے زیادہ بولیں گے۔''
دو دن پہلے دور دیس سے آتی نسیم فرحت کی آواز تمسخر سے بھری تھی۔
''کیا مطلب، یہ پاگل ہوگیا ہے کیا''
راجا اسرارالحسن جو بھیاجی کی تقریروں میں گالیوں، دھمکیوں کی وضاحتیں کر کر کے اکتا چکا تھا، اس نئی مصیبت سے بوکھلا گیا۔
''بھئی ہوا یہ کہ انھوں نے نیٹ پر کسی سیاست داں کے بارے میں پڑھ لیا کہ اس نے مسلسل پندرہ گھنٹے خطاب کیا تھا۔ بس، اب لگے ہیں کہ میں نیا ریکارڈ قائم کروں گا، مجھے حکم دیا ہے کہ سب سے کہہ دو کوئی الو کا پٹھا پوری تقریر سُنے بغیر نہ جائے۔''
راجا اسرارالحسن اپنا مٹھی بھر بالوں سے ڈھکا سر کھجاتے ہوئے بھیاجی کو ان سے بھی بھاری گالیاں دینے لگا۔
تقریر سُنتے ہوئے آٹھ گھنٹے گزر چکے تھے۔ انور ٹیڑھا سَر جھکائے اپنی محبوبہ کے خیالوں میں گُم تھا، جو آج کی ملاقات منسوخ ہونے پر ناراض ہوگئی تھی۔ خیال سلگنے لگا۔ اس نے ٹانگیں آپس میں ملالیں۔
''آج تو تقریر ختم ہی نہیں ہورہی۔''
ساتھ بیٹھا نحیف و نزار رشید ہلکا کہنی مار کر اس کے کان میں گونجا۔
''ابے آج تو بھیاجی نے ماں۔۔۔۔''
انور کی وفا اور عقیدت جسم کی بھڑکتی طلب میں جلنے لگی تھیں۔
بھیاجی حکمرانوں اور مخالف سیاسی جماعتوں پر فی کس بیس سے پچیس منٹ تنقید کرنے کے بعد اب ملک کی اصل مقتدر قوت پر برس رہے تھے۔ اسٹیج اور اگلی صفوں میں بیٹھے پارٹی کے راہ نما تقریر کے اس حصے کے نتائج سوچ کر لرز رہے تھے۔ وہ اپنے اپنے دماغوں میں بھیاجی کے منہہ سے پوپ کارن کی طرح اُچھل اچھل کر گرتے انگاروں کو ٹھنڈا کرکے کوئلہ اور پتھر بنانے کے لیے منطق، دلیلوں اور تاویلوں کا پانی جمع کر رہے تھے۔ تقریر ختم ہوتے ہی ٹی وی چینلوں سے فون آنے کا سلسلہ شروع ہوجانا تھا۔ ان کے موبائلوں پر ایک کال اور بھی آنا تھی، ایسی کال جس کا نمبر بھی کال کرنے والوں کی طرح پردہ پوش ہوتا۔
بھیاجی کی کئی اور حرکتوں کے ساتھ ان کی تیل پر چنگاریاں پھینکتی تقریروں کی ذمے داری بڑی سادگی سے ''بوتل'' پر ڈال دی جاتی تھی۔ یہ بات بس کسی حد تک ہی درست ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ بھیاجی خود نشوں سے بھری بوتل تھے، خودنمائی، خودستائشی، اپنی ذات سے محبت، اپنے ہر مخالف سے نفرت، محفوظ مقام پر بیٹھ کر ایکڑی دکھانے کی لت۔۔۔۔یہ شرابیں جب ملتیں اور ان پر بنت انگور کا تڑکا بھی لگ جاتا، پھر بھیاجی کے انداز اور زبان دیکھنے کے قابل ہوتے تھے۔
وہ ایسے نہ ہوتے تو کیسے ہوتے۔ نچلے متوسط طبقے کے ایک عام سے گھر میں جنم لینے والے بھیا جی درجن بھر بہن بھائیوں کے بیچ میں پھنسے گھر میں بھی توجہ سے محروم تھے۔ بچپن سے جوانی تک چہرے پر پھیلی معصومیت کے علاوہ شخصیت میں کوئی کشش نہ تھی۔ سیاہی میں ڈوبتا سانولا رنگ، پستہ قامت، گردن کے نام پر منہ اور سینے کے درمیان بس ایک ننھا سا جوڑ، اوسط ذہانت جو اچھے نمبروں میں پاس کرواکے مناسب نوکری دلوانے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔ قدرت نے ان کی ساری کمیوں کا ازالہ بولنے کی صلاحیت سے کردیا تھا، وہ کام یاب سیلزمین، انشورنس ایجنٹ، خطیب اور مقرر کی زبان لے کر پیدا ہوئے تھے۔ مگر اپنی اس اکلوتی خوبی پر ناز نے ان کی غیرمتاثرکُن شخصیت کو ناقابل برداشت بھی بنادیا تھا۔ انھیں لگتا کہ ہر سماعت ان کے انتظار میں ہے۔ جہاں کسی کو فارغ دیکھتے پاس جاتے اور بولنا شروع ہوجاتے، یہ لگ بھگ یک طرفہ مکالمہ مخاطب کے صاف صاف بہانے پر مبنی معذرت پر ختم ہوتا۔
ہر نوجوان کی طرح ان کی آنکھوں میں بھی چہرے اُترتے، مگر وہ کسی کے دل میں نہ اُتر سکے، ان کے لیے تو کسی آنکھ کی کھڑکی روشن بھی نہ ہوئی۔ یہ محرومی کا ایک الگ احساس تھا۔
آنکھوں میں ناپسندیدگی، کہیں طنز، کہیں تحقیر۔۔۔۔احساس کمتری آنچ سے آگ بن گیا، خود کو منوانے کی دُھن کا غبارہ پھولتا ہی چلاگیا۔ پھر ذاتی احساس محرومی ایک پورے طبقے کی نارسائی اور حق تلفی کے کرب میں ڈھال دیا گیا۔ ان کی مستقل مزاجی اور شعلہ بیانی دل ودماغ میں شعلے بھڑکانے لگی، تحقیر توجہ اور پھر تعظیم میں بدلی۔ رفتہ رفتہ وہ ناپسندیدہ اور مضحکہ خیز شخص سے مسیحا اور پھر دیوتا کا روپ دھار گئے۔ اپنی جماعت کے جوشیلے اور اسلحہ بردار کارکنوں کے سہارے انھوں نے جماعت کے راہ نماؤں اور منتخب نمائندوں سے کئی شہروں میں پھیلے پورے لسانی طبقے کو مٹھی میں لیا ہوا تھا۔
یہ خوف کی گرفت ہی تھی جس میں جکڑے لوگ اونگھتے ہوئے، بے زاری کی حالت میں آج ان کی تقریر سُن رہے تھے۔
چھٹا گھنٹہ بیت رہا تھا، سُننے والوں کے جسم نڈھال اور سماعتیں شل ہوچکی تھیں۔ مگر تقریر جاری تھی۔ بے ربط بے مقصد لفظ۔ سیاست، تاریخ، اپنی تعریف۔۔۔پھر یکایک کلام نہ جانے کون سا موڑ مُڑ کر جنسی مسائل کے اندھیرے گوشوں میں پہنچ گیا، یہ شاید اوبھ جانے والی طبیعتوں کو مائل کرنے کی کوشش تھی۔ بیچ میں لہک لہک کر کئی گانوں کے بول بھی سُنائے گئے۔ اب مذہبی مسائل پر اپنی علمیت کا مظاہرہ کیا جارہا تھا۔ اس دوران بھیاجی نے جب جب خواص کے حصے میں بیٹھے علماء کو مخاطب کیا جواباً داد اور تائید سے بھرے لفظ سجدے میں گر پڑے۔ زمین پر دور تک گُتھے بیٹھے کارکن تو ایک ایک کرکے ادِھر اُدھر جاکر اپنی تھکن اور بے زاری کا سامان کرتے رہے، لیکن اسٹیج سے صف اول تک جمے راہ نما اور منتخب نمائندے اٹھنے کی جُرأت نہیں کرسکتے تھے۔
بھیاجی کے عقب میں بیٹھے آصف نوید کے موبائل کی اسکرین چمکی۔ ''کچھ کریں آصف بھائی! یہاں سب کی حالت خراب ہے۔''،''یہاں والوں کا بھی یہی حال ہے۔ سوچتے ہیں کیا کرنا ہے۔'' آصف نویدنے راجا اسرارالحسن کے میسج کا جواب دیا۔
''بھیاجی! آپ نے طویل ترین فاصلے سے طویل ترین خطاب کا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔'' آصف نوید کے ہاتھ میں تھمی پرچی پڑھ کر بھیاجی کا چہرے پر پھیلتی سُرخی نے اسے مزید سیاہ کردیا۔ مسکراہٹ کئی لمحوں تک گالوں کا حصار کیے رہی۔
''لیکن وہ ریکارڈ تو پندرہ گھنٹے کا تھا۔'' انھوں نے مائیک سے ہٹ کر آصف نوید کے کان میں سرگوشی کی۔
''جی بھیاجی! لیکن وہاں تو سُننے والے سامنے بیٹھے تھے، آپ کی تقریر تو ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ سُن رہے ہیں۔''
''ہم م م م م م م'' بھیاجی کی غراہٹ نے بتادیا کہ بات معقول ہے۔ وہ خود بھی بُری طرح تھک چکے تھے۔
''آج میں نے آپ کے سامنے جو باتیں ں ں ں ں کی ہیں ں ں ں ں کیا ایسی سچی ی ی ی ی، کھری ی ی ی ی ی باتیں کبھی کسی سیاست داں نے کی ہیں ںںں۔ کیا کسی اور لیڈر نے اس طرح شعور اُجاگر کیااااااا ہے ے ے ے ے ے۔''
الفاظ بتاگئے کہ بھیاجی تقریر ختم کررہے ہیں۔
''نہیں بھیاجی'' مجمع چیخا۔
''کیا کسی اور نے اس طرح پورے ے ے ے سات ت ت ت ت ت گھنٹے تک تقریر کرکے عوام میں عقل و آگہی فہم وفراست بانٹی ہے ے ے ے ے ے۔''
''نہیں بھیاجی'' ایک ایک چیخ۔
''مجھے ابھی آصف نوید بھائی نے بتایا ہے کہ میں نے طویل ترین فاصلے سے طویل ترین خطاب کا ریکارڈ قائم کردیا ہے ے ے ے ے ے۔ ایسے ریکارڈ صرف ہم ہی بنا سکتے ے ے ے ے ہیں ں ں ں ں۔''
تالیاں بج اٹھیں، ''جیوے جیوے بھیاجی، ہم مٹیں رہے سدا۔۔۔۔بھیابھیا'' نعرے کچھ دیر تک بھیاجی کو مسرور کرتے اور فضا کو شور سے بھرتے رہے۔ بھیاجی نے اجازت لی، جس کے ساتھ ہی ''خدا کا شکر'' کی کتنی ہی آوازیں دلوں سے اٹھیں اور ہونٹوں پر دم توڑ گئیں۔ ہزاروں سُن کولہوں، کمروں اور ٹانگوں نے بڑی مشکل سے جُنبش کی۔
انورٹیڑھے نے اٹھتے ہی اپنا موبائل فون آن کیا، اور تیزی سے ''رابطوں'' پر جاکر اپنی محبوبہ کے نام کو چُھوا۔ ''آپ کے مطلوبہ نمبر سے جواب نہیں آرہا'' نسوانی آواز نے اسے مایوس کردیا۔ اُسے نے اسٹیج کی طرف منہہ کرکے زیرلب ایک موٹی سے گالی دی اور تھکے تھکے قدموں سے اپنی موٹرسائیکل کی طرف چل پڑا۔
کل نازیہ سے طے شدہ ملن کا خیال انور ٹیڑھے کو اچانک اتنی شدت سے آیا کہ اُس کا ہاتھ صابر کالے کی ران پر بج اُٹھا۔
''کسے لارہا ہے؟'' صابر کالے نے اُسی شدت کے ساتھ اُس کے ذرا جُھکے کندھے پر ہاتھ مارا، جس کی وجہ سے انور کی عرفیت ٹیڑھا قرار پائی تھی۔
''تیری بھابھی ہے یار'' صابر کالے کی اندر گھسی آنکھوں سے سیاہ ہونٹوں تک پھیلی کمینگی یک دَم سُکڑ کر غائب ہوگئی۔ چہرے پر شرافت اُتر آئی۔ پتا چل گیا کہ کوئی ''مال'' نہیں، ان لڑکوں کے قانون میں، انور ٹیڑھے کی قانونی محبوبہ ہے، جسے فرصت ملتے ہی وہ بیوی کا اعزاز عطا کردے گا۔ ''لڑکے'' ۔۔۔۔۔انھیں لڑکے بالے نہ سمجھیے، بڑھنے میں سمندر کا مقابلہ کرتے شہر میں جو نئی زبان متعارف ہوئی تھی اس میں ''لڑکے'' گروہ اور گینگ کا مترادف لفظ تھا، شہر پر ان لڑکوں کا راج تھا۔ ''لڑکے آگئے''، ''لڑکے بلالو''، ''لڑکے پہنچ گئے''۔۔۔۔جملہ بتا دیتا تھا کس کا ذکر خیروشر ہے۔
انور ٹیڑھے کی نازیہ سے شادی کی خواہش محبت کے اس آفاقی تصور پر مُہرتصدیق ثبت کرتی تھی کہ محبت جسم سے ماورا ہوتی ہے۔ اس نے اب تک نازیہ کی گلی کے نکڑ پر زیرتعمیر مکان اور پارٹی کے ایک اور ''دوست'' ناصر پگلے کی کار کی پچھلی سیٹ پر ایک دوسرے کو بس چکھ کر تشنہ رہ جانے والی ملاقاتوں کو چھوڑ کر ہونے والے کُل ملاکے تین ملاپوں کے بعد اور غسل سے پہلے پوری سچائی سے کہا تھا،''فکر مت کراکر، شادی تجھ سے ہی کرنی ہے''،''لیکن کب''،''ابے فرصت تو ملے''۔۔۔ مگر فرصت کہاں۔ ایک کے بعد دوسرا مشن، دوسرے کے بعد تیسرا، آج شاہد بھینسا اپنے تھلتھلاتے وجود کے ساتھ دھم سے ساتھ آکر بیٹھا اور سرگوشی میں پیغام دیا،''چمڑا فیکٹری والا چراند کر رہا ہے، رضا بھائی نے بولا ہے آگ لگانی ہے''، اگلے دن ایریا ہیڈ آفس بلاکر حکم دیا گیا۔
''دوست! سینیٹر نوراحمد کی بوری تیار کرلو۔'' پارٹی میں ہر ایک دوسرے کو دوست کہتا تھا، پارٹی کی یہ ہدایت اب رِیت بن چکی تھی۔ ایسے کئی دوست دوستوں کے ہاتھوں شہادت کے منصب پر فائز ہوئے تھے اور ان ہی کے کندھوں سے ہوتے کلمۂ شہادت کے ورد اور پارٹی کے نعروں کی گونج میں پارٹی ہی کے گورستانِ شہداء میں دفنائے گئے۔
فرمان پر عمل کرتے ہی روپوش ہوجانے کا حکم نازل ہوجاتا۔
نازیہ سے اس کی ملاقات یہی چھے مہینے پہلے ہوئی تھی۔ وہ کوئی تین سال کے گرہن کے بعد اس روز گلی میں طلوع ہوا تھا۔ تین برس پہلے وہ موسمی بُرا وقت آیا تھا جو ہر کچھ مدت کے بعد کسی کہانی کی بستی میں جوان خون کی بھینٹ لینے والی بَلا کی طرح اس جماعت پر آیا کرتا تھا۔ جوان پیش کردیے جاتے تھے، وقت ہونٹوں سے بہتی سُرخی خاکی آستین سے پونچھتا چلا جاتا تھا۔ بہت سارے بُرے دنوں کے پار اچھے وقت کی رُت آتی تھی۔ ملک چلانے والوں کو پارٹی کی ضرورت پڑتی تھی، سب ٹھیک ہوجاتا تھا۔ محلے چھوڑنے والے لوٹ آتے تھے، دوردیس جانے والے شہر کے ہوائی اڈے پر اُترنے لگتے تھے۔ اس بار اچھا موسم کہیں زیادہ خوش گوار اور طویل تھا۔ ملک کا معززترین لباس پہنے حکم راں راج گدی پر بیٹھا تھا اور اپنا بوجھ لادنے کی شرط پر پارٹی کے لاڈ اٹھا رہا تھا۔
لاڈلی پارٹی کا بانکا انور ٹیڑھا بڑے ناز سے چلتا گلی میں داخل ہوا۔ نکڑ پر پرچون کی دکان سے آٹا خریدتے بوڑھے نے دکان دار کی آنکھوں کے اشارے کے تعاقب میں اس کی طرف دیکھا، چونکا، پھر اس کے حلق سے جوش کی ملمع کاری کیے ڈری ڈری آواز نکلی، ''السلام علیکم انوربھائی۔''،''کیسے ہو چاچا''، اس نے شاہانہ انداز میں ہاتھ اٹھا دیا، ساتھ نظر بھی اٹھی اور ''چاچا'' کی جُھرّیوں سے گزرتی ایک چہرے پر ٹھہری، رخساروں سے پھسلی، پھر جو جھٹکے سے رُکی تو رکی ہی رہ گئی۔
ٹیڑھے کندھے کو بہ مشکل سیدھا کرنے کی کوشش کرتا وہ دروازے پر پردے کے ساتھ جھولتی لڑکی کے پاس سے اسے یوں نظر بھر کے دیکھتے گزرا جس طرح وہ نظر جما کر سگریٹ میں چرس بھرتا تھا۔ پتا چلا کہ اس کی روپوشی کے دوران گلی میں جو کچھ بدلا تھا اس میں نکڑ سے تیسرے گھر میں اس لڑکی کے خاندان کی آمد بھی شامل تھی۔ پُرانے دوست جبار نے بتایا تھا،''وہ پیس۔۔۔نازیہ نام ہے اس کا، ٹائٹ ہے ناں، نئیں؟'' اگلے چند دن میں شناسائی، آشنائی اور تنہائی کی منزلیں طے پاگئیں۔ پچھلی گلی کے گڈو نے جب نازیہ کو گھورا تو اس گلی کے عامر نے متنبہ کیا،''ابے کیا کر رہا ہے، اس کی سیٹنگ ہے انورٹیڑھے سے۔'' نازیہ پر مہر لگ چکی تھی، اب کون ہے جو اس کی طرف دیکھنے یا رشتہ بھیجنے کی ہمت کرتا۔
نازیہ اپنے سپنوں کا سنجے دت ملنے پر ہواؤں میں اُڑ رہی تھی، کبھی خیالوں میں کبھی انور کی موٹرسائیکل پر۔ ''اتنی تیز چلاتا ہے میری تو چیخ نکل جاتی ہے۔'' وہ بڑے فخر سے سہیلیوں کو بتاتی۔ تفاخر کا یہ دائرہ انور کمر سے لگی چمکتی ٹی ٹی، اس کے نشانے اور ماضی میں اس کے پولیس سے مقابلوں تک دراز تھا، جن کے قصے انور نے مزے لے لے کر سُنائے تھے۔
انور کا رومان سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ بلاوے آنا شروع ہوگئے۔ ''کدھر ہیں دوست! آرام کرلیا۔ بھیا جی کا حکم آگیا ہے، حساب لینا ہے۔'' ایریا ہیڈ نے سرگوشی کی، حالاں کہ ایریا آفس کے کشادہ کمرے میں اُن دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا۔
انور کی ٹولی کو واپسی کے بعد پہلا ''کام'' ایک پولیس افسر کا کام اتارنے کا دیا گیا، جس نے بُرے وقت میں کئی ''دوستوں'' کو مقابلے میں مارا تھا۔ ''بھیا جی کی تصویر پر بھی گولیاں چلائی تھیں سالے نے۔'' رشید نے ریکی کے دوران انور کو بتایا تو اس کا خون کھول اُٹھا۔ بھیا جی کا پیغام بھی اسے مل چکا تھا،''اﷲ کی امانت اﷲ کے حوالے۔'' پولیس افسر کا نام لے کر پیغام رسانی کی گئی تھی۔ اگلے روز پولیس افسر کے نام کے ساتھ مقتول لگ چکا تھا۔
پھر تو ایک کے بعد دوسرا حساب، کام پر کام، مشن پر مشن۔
نازیہ جب ملنے کو کہتی وہ ہاتھوں میں دبی ''خواہش'' مسل کر آنکھیں میچ کر کہتا، ''میں تو خود تڑپ رہا ہوں، مگر کیا کروں بہت مصروف چل رہا ہوں یار۔''
اب بڑے دنوں کے بعد فرصت ہاتھ آئی تھی۔ ملاپ کی راہ میں صرف ایک رات پڑی تھی، بے چینی عروج پر کہ پیغام ملا،''بھیاجی کل ایٹ ون پر جلسہ کریں گے۔ بولا ہے کھانا پانی ساتھ لانا، بہت لمبی تقریر ہوگی۔'' پارٹی کا مرکزی دفتر ایٹ ون کہلاتا تھا، پہلے پہلے دفتر میں نصب فون نمبر کے آخری ہندسوں پر مشتمل یہ نام خفیہ کوڈ تھا، پھر منظرعام پر آکر اس جگہ کی پہچان بن گیا۔
''اس کی ماں کی۔۔۔'' گالی انورٹیڑھا کے حلق اور ہونٹوں کے درمیان کہیں گُم ہوگئی اور ہاتھ کچھ دیر کو رانوں کے درمیان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمارتوں میں گھرا وسیع میدان لوگوں سے چھلکا پڑ رہا تھا۔ فلڈ لائٹس سے آتی روشنی کی تُند لہروں نے رات کے اندھیرے کو دور بھگا دیا تھا۔ اردگرد کی گلیوں سے غول کے غول میدان کی طرف آرہے تھے۔ دھیما سا شور تسلسل سے جاری رہ کر سماعتوں کو اپنا یوں عادی بنا چکا تھا کہ شور نہیں لگ رہا تھا۔ لفظ ایک دوسرے سے گُتھ کر بھنبھناہٹ بن جاتے تھے۔ شور کی اس دبیز تہہ کو ہر کچھ دیر بعد کوئی نعرہ کاٹ ڈالتا۔ ''تقدیر ہماری، بھیا جی''،''یہ جان تمھاری، بھیاجی''۔۔۔۔کوئی پورے جوش اور وارفتگی سے جواب دے رہا تھا، کہیں میکانیکی انداز نمایاں۔۔۔۔ یکایک اعلان کیا گیا کہ بھیاجی خطاب شروع کرنے والے ہیں۔ اطراف لگے اسپیکرز سے آتی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ خاموشی چھاگئی، بازار کا منظر قبرستان کے حال میں بدل گیا۔
''السلام م م م مووووعلیکم م م م م '' بھیا جی کی بَھرائی ہوئی سی آواز گونجی۔ بھنچی ہوئی غراہٹ لیے، اس بھنچاؤ میں اکثر لفظ یوں بھنچتے کے کچل کر مہمل ہوجاتے، ایسا بوڑھی ہوتی آواز کو دھاڑ بنانے کی کوشش میں ہوتا۔ لفظوں کو ربڑ کی طرح کھینچا جاتا، جیسے کوئی گَوَیّا سانس توڑے بغیر سُر کو کھینچ کر اپنی مہارت کا مظاہرہ کرے۔ شاید وہ سمجھتے تھے اس طرح لفظوں کا قد بڑھ جاتا ہے، وہ قابل اعتبار ہوجاتے ہیں۔ مگر ان کے کارکنوں اور چاہنے والوں کو تو ان پر اندھا اعتبار تھا۔
بھیاجی کا نام انوارحسین تھا۔ چھوٹا قد، کوتاہ گردن، سیاہ رنگت۔ مٹاپا طاری ہونے کے بعد سے گوشت کی چھوٹی سی پہاڑی بن گئے تھے، ان کا بڑا سا، تھلتھلاتے گالوں والا بھاری بھرکم چہرہ دیکھ کر ہی باقی کی جسامت کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا تھا۔ انوارحسین میں ایک ایسی خصوصیت تھی جو ان کی گفتاروکردار سے سیاست تک ان کی زندگی کے ہر کونے گوشے سے جھانکتی تھی۔۔۔''مستقل مزاجی'' جونک جیسی، مسلسل سماعت میں سوئیاں چبھوتے جھینگر جیسی۔ جب انھوں نے طلبہ کی سطح پر اپنے ہم لسان طبقے کے نام سے طلبہ تنظیم بنائی تو بے وقت کی راگنی ان کی پہچان بنی۔ جہاں چار لوگ دیکھے تقریر کرنے کھڑے ہوگئے۔
اپنے لسانی طبقے کے مسائل اور حقوق کی تبلیغ وہ اس تواتر سے کرتے کے بے زار ہوجانے والا ان کا سچ بھی رد کرکے آگے بڑھ جاتا۔ وہ پُرانے دور کی بات تھی، اب کوئی مائی کا لعل ان کی سُنی ان سُنی کرکے تو دکھائے۔ طلبہ تنظیم کی سیاست سے اب وہ بہت بڑی جماعت کی قیادت تک پہنچ چکے تھے، جو ملک کے سب سے بڑے شہر کی والی وارث بن گئی تھی۔ انوار حسین اب بھیاجی تھے، بوڑھوں بچوں سب کے بھیا جی، جن کی زبان سے نکلا لفظ اس شہر کا قانون تھا۔ کارکن ان کے ایک حکم پر جان دینے اور لینے کو تیار رہتے تھے، یہ بھیاجی کی رحم دلی تھی کہ انھوں نے جان دینے کا حکم کبھی نہیں دیا۔
''آج میں ں ں ں ں اُن ن ن ن ن ن موضووووووعات پررررر بات کروں گا جن پر کوئی ی ی ی نہیں بولتا۔'' بھیاجی نے تقریر کا آغاز کیا۔
دور دیس سے آتی آواز اسٹیج اور زمین پر بیٹھے لوگ پورے مصنوعی انہماک اور خاموشی سے سُن رہے تھے۔ پارٹی کے راہ نماؤں اور کارکنوں کے ساتھ شہر کے کچھ نام ور دانش ور بھی سَر جھکائے سرتاپا سماعت تھے۔ جبران جیت پوری اور صاحب زادہ عاصم، راہ نماؤں کے پہلو میں بیٹھے بہ ظاہر ہمہ تن گوش بنے اونگھ رہے تھے، اپنی دانش وری کی طرح۔
تقریر تیسرے گھنٹے میں داخل ہوچکی تھی۔ ان تین گھنٹوں میں بھیاجی نے ملکی اور بین الاقوامی واقعات کا تذکرہ اور ان کا تعلق آپس میں جوڑ کر سامعین کو یہ سمجھایا تھا کہ ملک پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنی سچائی اور دانش مندی کی داد چاہی، جس مجمع سے راہ نماؤں اور دانش وروں تک پُرجوش، دبی، سہمی، رسم نبھاتی آوازوں کا ملغوبہ فضا میں بکھرا ''جی بھیاجی۔''
''اور کتنا پیے گا'' ناصر گلزاری کی ہونٹوں میں بھنچی آواز منہہ سے خارج ہوتی ہوا کے ساتھ راجا اسرارالحسن کے کانوں میں گونجی۔
یہ دونوں پارٹی کے ساتھ ایک مُدت سے جُڑے لیڈر اور صوبائی اسمبلی کے رُکن تھے۔ دونوں پارٹی کی بابت سینہ در سینہ پھیلے اس فلسفے کی تصویر تھے کہ جو بھیا جی کے جتنا قریب ہے وہ ان سے اتنا ہی دور ہے۔ بھیاجی کی قُربت ان کے براہ راست غصے، طعنوں اور گالیوں کا نشانہ بناتی تھی اور دور سے اپنے راسخ العقیدہ حامیوں کے لیے وہ ایک بُت تھے، کسی مانے ہوئے مجسمہ ساز کا شاہ کار، ہر خامی سے پاک۔
''آج تو مارے گئے، اس کے سر پر ریکارڈ توڑنے کا بھوت سوار ہے۔''
ناصرگلزاری کی آنکھوں میں سوال اُترا، لیکن راجااسرارالحسن نے ہاتھ اور انگلیوں کی مدد سے ''بعد میں بتاؤں گا'' کا اشارہ کردیا۔
ناصرگلزاری کے لیے بات کی تہہ تک پہنچنا مشکل نہیں تھا، کیوں کہ بھیاجی کو سمجھ لینا بہت آسان تھا۔ وہ لاکھ لفاظی اور اخلاقیات کی خوشبوئیں لپیٹیں سوچ اور شخصیت کے سڑجانے والے زخموں کی بساند چھپا نہیں پاتے تھے۔ وہ ڈھلتی عمر کی اس بدصورت عورت کی طرح تھے جس کے میک اپ سے دھوکا کھاکر کوئی خوبرو مرد مرمٹے، پھر وہ ایک پل بھی میک اپ کے بغیر رہنے کی متحمل نہ ہوسکے۔ وہ خوامخواہ کی نرگسیت کا شکار تھے۔ اس حقیقت سے بے خبر کہ انھوں نے اپنا چہرہ کسی قدرتی چشمے میں نہیں خوشامد کے طلسمی پانی میں دیکھا ہے۔ گول مٹول بھیاجی خود بھی اپنی گولائی کے گرد گھومتے تھے اور اپنے وفاداروں کو بھی اسی طواف میں مگن دیکھنا چاہتے تھے۔ اپنی سیاست کا مقصد، نظریہ، قبلہ۔۔۔سب کچھ وہ خود تھے۔
سیاست میں پے درپے اور حیران کُن کام یابیوں نے انھیں ڈھلان پر دوڑتے اس شخص کی طرح بنادیا تھا جس کے لیے رکنا ممکن نہیں ہوتا۔ کام یابی کا خبط اور عظمت کا جنون، ہار تو انھیں کسی حال میں گوارا نہیں تھی، وہ اپنی جیت کا نشان بھی پچھلی فتح سے آگے لگا دیکھنا چاہتے تھے۔
پارٹی کے راہ نماؤں سے کارکنان تک سب ان کی سوچ سے پھوٹتے اس ایمان میں مبتلا تھے کہ ان کے امیدوار کو الیکشن میں ملنے والے ووٹوں میں کمی نہیں ہونی چاہیے، ہر جلسہ حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے بے مثال ہو، شہر میں ہڑتال کروائیں تو لوگ سانسیں بھی روک لیں، جو ہو عظیم ہو، تاریخی ہو، ریکارڈ بنے۔ جیسے بھی ہو، جیسے بھی بنے۔ پھر بھیاجی کو انفرادیت کا ہیضہ بھی تھا۔ وہ جو تھے اس کے برعکس نظر آنے کی بھی ہر کوشش کرتے تھے۔ اپنی کرختگی کو شگفتی کا چہرہ پہنانے کے لیے وہ تقریر کرتے کرتے گانے لگتے، اپنی ریت سی طبیعت کو شوخی کے گلاب دکھانے کے لیے حتی المقدور ناچنے لگتے۔
آج کی تقریر بھی اسی خبط کے بخار کی کھانسی تھی۔
''تیار ہوجائیں اسرار بھائی، بھیاجی اس بار بیس گھنٹے سے زیادہ بولیں گے۔''
دو دن پہلے دور دیس سے آتی نسیم فرحت کی آواز تمسخر سے بھری تھی۔
''کیا مطلب، یہ پاگل ہوگیا ہے کیا''
راجا اسرارالحسن جو بھیاجی کی تقریروں میں گالیوں، دھمکیوں کی وضاحتیں کر کر کے اکتا چکا تھا، اس نئی مصیبت سے بوکھلا گیا۔
''بھئی ہوا یہ کہ انھوں نے نیٹ پر کسی سیاست داں کے بارے میں پڑھ لیا کہ اس نے مسلسل پندرہ گھنٹے خطاب کیا تھا۔ بس، اب لگے ہیں کہ میں نیا ریکارڈ قائم کروں گا، مجھے حکم دیا ہے کہ سب سے کہہ دو کوئی الو کا پٹھا پوری تقریر سُنے بغیر نہ جائے۔''
راجا اسرارالحسن اپنا مٹھی بھر بالوں سے ڈھکا سر کھجاتے ہوئے بھیاجی کو ان سے بھی بھاری گالیاں دینے لگا۔
تقریر سُنتے ہوئے آٹھ گھنٹے گزر چکے تھے۔ انور ٹیڑھا سَر جھکائے اپنی محبوبہ کے خیالوں میں گُم تھا، جو آج کی ملاقات منسوخ ہونے پر ناراض ہوگئی تھی۔ خیال سلگنے لگا۔ اس نے ٹانگیں آپس میں ملالیں۔
''آج تو تقریر ختم ہی نہیں ہورہی۔''
ساتھ بیٹھا نحیف و نزار رشید ہلکا کہنی مار کر اس کے کان میں گونجا۔
''ابے آج تو بھیاجی نے ماں۔۔۔۔''
انور کی وفا اور عقیدت جسم کی بھڑکتی طلب میں جلنے لگی تھیں۔
بھیاجی حکمرانوں اور مخالف سیاسی جماعتوں پر فی کس بیس سے پچیس منٹ تنقید کرنے کے بعد اب ملک کی اصل مقتدر قوت پر برس رہے تھے۔ اسٹیج اور اگلی صفوں میں بیٹھے پارٹی کے راہ نما تقریر کے اس حصے کے نتائج سوچ کر لرز رہے تھے۔ وہ اپنے اپنے دماغوں میں بھیاجی کے منہہ سے پوپ کارن کی طرح اُچھل اچھل کر گرتے انگاروں کو ٹھنڈا کرکے کوئلہ اور پتھر بنانے کے لیے منطق، دلیلوں اور تاویلوں کا پانی جمع کر رہے تھے۔ تقریر ختم ہوتے ہی ٹی وی چینلوں سے فون آنے کا سلسلہ شروع ہوجانا تھا۔ ان کے موبائلوں پر ایک کال اور بھی آنا تھی، ایسی کال جس کا نمبر بھی کال کرنے والوں کی طرح پردہ پوش ہوتا۔
بھیاجی کی کئی اور حرکتوں کے ساتھ ان کی تیل پر چنگاریاں پھینکتی تقریروں کی ذمے داری بڑی سادگی سے ''بوتل'' پر ڈال دی جاتی تھی۔ یہ بات بس کسی حد تک ہی درست ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ بھیاجی خود نشوں سے بھری بوتل تھے، خودنمائی، خودستائشی، اپنی ذات سے محبت، اپنے ہر مخالف سے نفرت، محفوظ مقام پر بیٹھ کر ایکڑی دکھانے کی لت۔۔۔۔یہ شرابیں جب ملتیں اور ان پر بنت انگور کا تڑکا بھی لگ جاتا، پھر بھیاجی کے انداز اور زبان دیکھنے کے قابل ہوتے تھے۔
وہ ایسے نہ ہوتے تو کیسے ہوتے۔ نچلے متوسط طبقے کے ایک عام سے گھر میں جنم لینے والے بھیا جی درجن بھر بہن بھائیوں کے بیچ میں پھنسے گھر میں بھی توجہ سے محروم تھے۔ بچپن سے جوانی تک چہرے پر پھیلی معصومیت کے علاوہ شخصیت میں کوئی کشش نہ تھی۔ سیاہی میں ڈوبتا سانولا رنگ، پستہ قامت، گردن کے نام پر منہ اور سینے کے درمیان بس ایک ننھا سا جوڑ، اوسط ذہانت جو اچھے نمبروں میں پاس کرواکے مناسب نوکری دلوانے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔ قدرت نے ان کی ساری کمیوں کا ازالہ بولنے کی صلاحیت سے کردیا تھا، وہ کام یاب سیلزمین، انشورنس ایجنٹ، خطیب اور مقرر کی زبان لے کر پیدا ہوئے تھے۔ مگر اپنی اس اکلوتی خوبی پر ناز نے ان کی غیرمتاثرکُن شخصیت کو ناقابل برداشت بھی بنادیا تھا۔ انھیں لگتا کہ ہر سماعت ان کے انتظار میں ہے۔ جہاں کسی کو فارغ دیکھتے پاس جاتے اور بولنا شروع ہوجاتے، یہ لگ بھگ یک طرفہ مکالمہ مخاطب کے صاف صاف بہانے پر مبنی معذرت پر ختم ہوتا۔
ہر نوجوان کی طرح ان کی آنکھوں میں بھی چہرے اُترتے، مگر وہ کسی کے دل میں نہ اُتر سکے، ان کے لیے تو کسی آنکھ کی کھڑکی روشن بھی نہ ہوئی۔ یہ محرومی کا ایک الگ احساس تھا۔
آنکھوں میں ناپسندیدگی، کہیں طنز، کہیں تحقیر۔۔۔۔احساس کمتری آنچ سے آگ بن گیا، خود کو منوانے کی دُھن کا غبارہ پھولتا ہی چلاگیا۔ پھر ذاتی احساس محرومی ایک پورے طبقے کی نارسائی اور حق تلفی کے کرب میں ڈھال دیا گیا۔ ان کی مستقل مزاجی اور شعلہ بیانی دل ودماغ میں شعلے بھڑکانے لگی، تحقیر توجہ اور پھر تعظیم میں بدلی۔ رفتہ رفتہ وہ ناپسندیدہ اور مضحکہ خیز شخص سے مسیحا اور پھر دیوتا کا روپ دھار گئے۔ اپنی جماعت کے جوشیلے اور اسلحہ بردار کارکنوں کے سہارے انھوں نے جماعت کے راہ نماؤں اور منتخب نمائندوں سے کئی شہروں میں پھیلے پورے لسانی طبقے کو مٹھی میں لیا ہوا تھا۔
یہ خوف کی گرفت ہی تھی جس میں جکڑے لوگ اونگھتے ہوئے، بے زاری کی حالت میں آج ان کی تقریر سُن رہے تھے۔
چھٹا گھنٹہ بیت رہا تھا، سُننے والوں کے جسم نڈھال اور سماعتیں شل ہوچکی تھیں۔ مگر تقریر جاری تھی۔ بے ربط بے مقصد لفظ۔ سیاست، تاریخ، اپنی تعریف۔۔۔پھر یکایک کلام نہ جانے کون سا موڑ مُڑ کر جنسی مسائل کے اندھیرے گوشوں میں پہنچ گیا، یہ شاید اوبھ جانے والی طبیعتوں کو مائل کرنے کی کوشش تھی۔ بیچ میں لہک لہک کر کئی گانوں کے بول بھی سُنائے گئے۔ اب مذہبی مسائل پر اپنی علمیت کا مظاہرہ کیا جارہا تھا۔ اس دوران بھیاجی نے جب جب خواص کے حصے میں بیٹھے علماء کو مخاطب کیا جواباً داد اور تائید سے بھرے لفظ سجدے میں گر پڑے۔ زمین پر دور تک گُتھے بیٹھے کارکن تو ایک ایک کرکے ادِھر اُدھر جاکر اپنی تھکن اور بے زاری کا سامان کرتے رہے، لیکن اسٹیج سے صف اول تک جمے راہ نما اور منتخب نمائندے اٹھنے کی جُرأت نہیں کرسکتے تھے۔
بھیاجی کے عقب میں بیٹھے آصف نوید کے موبائل کی اسکرین چمکی۔ ''کچھ کریں آصف بھائی! یہاں سب کی حالت خراب ہے۔''،''یہاں والوں کا بھی یہی حال ہے۔ سوچتے ہیں کیا کرنا ہے۔'' آصف نویدنے راجا اسرارالحسن کے میسج کا جواب دیا۔
''بھیاجی! آپ نے طویل ترین فاصلے سے طویل ترین خطاب کا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔'' آصف نوید کے ہاتھ میں تھمی پرچی پڑھ کر بھیاجی کا چہرے پر پھیلتی سُرخی نے اسے مزید سیاہ کردیا۔ مسکراہٹ کئی لمحوں تک گالوں کا حصار کیے رہی۔
''لیکن وہ ریکارڈ تو پندرہ گھنٹے کا تھا۔'' انھوں نے مائیک سے ہٹ کر آصف نوید کے کان میں سرگوشی کی۔
''جی بھیاجی! لیکن وہاں تو سُننے والے سامنے بیٹھے تھے، آپ کی تقریر تو ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ سُن رہے ہیں۔''
''ہم م م م م م م'' بھیاجی کی غراہٹ نے بتادیا کہ بات معقول ہے۔ وہ خود بھی بُری طرح تھک چکے تھے۔
''آج میں نے آپ کے سامنے جو باتیں ں ں ں ں کی ہیں ں ں ں ں کیا ایسی سچی ی ی ی ی، کھری ی ی ی ی ی باتیں کبھی کسی سیاست داں نے کی ہیں ںںں۔ کیا کسی اور لیڈر نے اس طرح شعور اُجاگر کیااااااا ہے ے ے ے ے ے۔''
الفاظ بتاگئے کہ بھیاجی تقریر ختم کررہے ہیں۔
''نہیں بھیاجی'' مجمع چیخا۔
''کیا کسی اور نے اس طرح پورے ے ے ے سات ت ت ت ت ت گھنٹے تک تقریر کرکے عوام میں عقل و آگہی فہم وفراست بانٹی ہے ے ے ے ے ے۔''
''نہیں بھیاجی'' ایک ایک چیخ۔
''مجھے ابھی آصف نوید بھائی نے بتایا ہے کہ میں نے طویل ترین فاصلے سے طویل ترین خطاب کا ریکارڈ قائم کردیا ہے ے ے ے ے ے۔ ایسے ریکارڈ صرف ہم ہی بنا سکتے ے ے ے ے ہیں ں ں ں ں۔''
تالیاں بج اٹھیں، ''جیوے جیوے بھیاجی، ہم مٹیں رہے سدا۔۔۔۔بھیابھیا'' نعرے کچھ دیر تک بھیاجی کو مسرور کرتے اور فضا کو شور سے بھرتے رہے۔ بھیاجی نے اجازت لی، جس کے ساتھ ہی ''خدا کا شکر'' کی کتنی ہی آوازیں دلوں سے اٹھیں اور ہونٹوں پر دم توڑ گئیں۔ ہزاروں سُن کولہوں، کمروں اور ٹانگوں نے بڑی مشکل سے جُنبش کی۔
انورٹیڑھے نے اٹھتے ہی اپنا موبائل فون آن کیا، اور تیزی سے ''رابطوں'' پر جاکر اپنی محبوبہ کے نام کو چُھوا۔ ''آپ کے مطلوبہ نمبر سے جواب نہیں آرہا'' نسوانی آواز نے اسے مایوس کردیا۔ اُسے نے اسٹیج کی طرف منہہ کرکے زیرلب ایک موٹی سے گالی دی اور تھکے تھکے قدموں سے اپنی موٹرسائیکل کی طرف چل پڑا۔