ناطقہ سر بہگریباں ہے اسے کیا کہیے

پاکستان میں آئین کی مختلف شقوں، حکمرانی کے قواعد وضوابط اور سیاسی عمل میں بیشمار تضادات پائے جاتے ہیں۔

muqtidakhan@hotmail.com

اگلے انتخابات میں اب تقریباً ایک ماہ باقی رہ گیا ہے۔ نگراں سیٹ اپ کی تکمیل اور الیکشن کمیشن میں تیز رفتار سرگرمیوں کے سبب انتخابات کے التواکے لیے گنجائش کم سے کمتر ہوگئی ہے۔لیکن انتخابی عمل کے بارے میں بڑے پیمانے پر شکوک وشبہات بھی پیدا ہورہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مرتبہ امیدواروں کو مختلف نوعیت کے کڑے امتحانات کاسامناہے۔

ایک طرف انھیں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے پل صراط سے گذرنا پڑرہاہے، تو دوسری طرف انکم ٹیکس کے گوشوارے اور یوٹیلٹی بلوں کی عدم ادائیگی کی تلوار ان کے سروں پر لٹک رہی ہے۔تیسری طرف تعلیمی اسنادکی عدم تصدیق کی صورت میں صرف نامزدگی فارم مسترد ہونے کے خدشات ہی نہیں ہیں،بلکہ جیل کی ہوا کھانے کے خطرات بھی لاحق ہیں۔اس کے بعد کہیں جاکر وہ عوام کا سامنا کرسکیں گے ،جنھیں ان کے مقدر کا فیصلہ کرنا ہے۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت رائے عامہ جمہوریت نوازوںاور اصلاح پسندوں میں منقسم ہوگئی ہے۔ایک طرف اصلاح پسند ہیں،جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک سیاسی جماعتیں اور انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کسی سفاک اور بے رحم جانچ پڑتال کے عمل سے نہیں گزرتے، انتخابی عمل میں کسی قسم کی بہتری اور ملک کو اچھی قیادت ملنے کی توقع عبث ہے۔اس لیے نظم حکمرانی کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لیے انتخابات سے قبل یہ عمل انتہائی ضروری ہے۔

اس کے برعکس جمہوریت نواز طبقہ یہ سمجھتاہے کہ پاکستان کی 65برس کی تاریخ میں جمہوریت جن مشکلات اور خطرات کا شکار رہی ہے، اسے مدنظر رکھتے ہوئے امیدواروں کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے کسی حد تک لچک کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ اس حلقے کا یہ بھی موقف ہے کہ امیدواروں کے لیے جن کڑی شرائط کا اطلاق کیاجارہاہے اور جس طرح ریٹرننگ افسران کی سطح پر ان کی تذلیل وتحقیر کی جارہی ہے،اس کے بعد تو صرف فرشتے ہی انتخابی عمل میں حصہ لے سکیں گے۔ دونوں طرف کے دلائل اپنے اندر وزن رکھتے ہیں۔لیکن جس انداز میں امیدواروں کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے ،اس کی وجہ سے پورا انتخابی عمل بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہوگیاہے اور انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں۔

جمہوریت اور جمہوری عمل کے تسلسل پر یقین رکھنے والے وہ حلقے جو انتخابات کی شفافیت کے ساتھ اہل اور اچھے کردار کے حامل امیدواروں کے انتخاب کی خواہش بھی رکھتے،الیکشن کمیشن کے حالیہ بعض اقدامات کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار بھی کررہے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ قانون ساز ادارے میں نمایندگی کے لیے امیدوار کاکردار ہرلحاظ سے مثالی ہوناچاہیے مگرجو طریقہ کار اختیار کیا جارہاہے، وہ کسی بھی طورپرحقیقت پسندی اور جمہوری اقدار کے مطابق نہیں ہے۔

ان حلقوں کی رائے میںنامزدگی فارم ضرورت سے زیادہ ضخیم اور پیچیدہ بنادیاگیاہے۔اس میں اثاثوں کی تفصیل کے ساتھ ٹیکس گوشواروںاور یوٹیلٹی بل منسلک کرنے کی شرط اپنی جگہ درست ہے۔ مگرجب دہری شہریت کے حامل افراد کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہے تو ایک کالم میں دہری شہریت کے بارے میں ''ہاں یا نہیں'' پرنشان لگانے سے مقصد پورا ہوسکتاتھا۔اس کے بعد دوسرے ملک کے پاسپورٹ کی تفصیلات معلوم کرناغیراہم اور غیر ضروری ہے۔

اس کے علاوہ امیدواروں کی جانچ پڑتال کا عمل بھی محض خانہ پری سے زیادہ کچھ نہیںہے۔خاص طورپر ریٹرننگ افسران امیدواروں سے جس انداز میں جس قسم کے سوالات کررہے ہیں،ان سے قطعی یہ اندازہ نہیں ہورہاہے کہ ہم قانون ساز اسمبلیوں کے لیے مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے دیانتدار ماہرین کاچنائو کرنے کے خواہشمند ہیں۔بلکہ ایسا محسوس ہورہاہے جیسے پرائمری اسکولوں کی سطح پراسلامیات اورمطالعہ پاکستان کے اساتذہ کی بھرتی کے لیے انٹرویو کیے جارہے ہیں۔


اس میں شک نہیں کہ روزہ، نماز اورتقویٰ اعلیٰ انسانی اوصاف ہیں، لیکن ان کی بنیاد پر کسی امیدوار کی پیشہ ورانہ اہلیت اور قانون سازی کی صلاحیت کا تعین نہیں کیاجاسکتا۔اس کے علاوہ پیشہ وارانہ دیانتداری کا تعلق بھی کسی طورپر راسخ العقیدگی سے نہیں ہے۔راسخ العقیدگی اورمذہبی فرائض کی باقاعدگی کے ساتھ ادائیگی ایک اضافی خصوصیت تو ہوسکتی ہے،نظم حکمرانی کے لیے کلی قابلیت قرار نہیں دی جاسکتی۔چونکہ ہمارے معاشرے میں ذاتی اوصاف اور اجتماعی امور کے حل کے لیے درکار اہلیت میں تمیز کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے،اس لیے ہم ذاتی اوصاف اور اجتماعی خصوصیات کو گڈمڈ کررہے ہیں۔

یہاں متحدہ ہندوستان میں ہونے والے ایک الیکشن کی مثال دینا بے محل نہ ہوگا۔ایک موقعے پر چند احباب نے جید عالم علامہ نیازفتح پوری مرحوم سے استفسار کیا کہ ان کے حلقے میں ایک انتہائی نیک و صالح اور پابندِ صوم وصلوۃ مسلمان کے مقابلے میں ایک اعلیٰ تعلیمیافتہ، دیانتداراورپیشہ ورانہ اہلیت کا حامل ہندو کھڑاہوا ہے۔آپ ہمیں بتائیں کہ کیا کریں؟ علامہ نے ان احباب سے الٹا سوال کردیا کہ آپ صاحبان کسی مبلغ کا انتخاب کرنے جارہے ہیں یا قانون ساز اسمبلی کے لیے کسی ماہر کا؟ اگر آپ حکمرانی میں بہتری کے خواہشمندہیں تو لازمی طورپر آپ کو اس شعبے سے متعلق علم وآگہی اور تجربہ رکھنے والے دیانت دار شخص کو قانون ساز اسمبلی میںپہنچانا چاہیے۔

آئین کے آرٹیکل 62اور63میں پارلیمان کی نمایندگی کے لیے امیدواروں کے جو اوصاف بیان کیے ہیں ،وہ بلاشبہ اہمیت کے حامل ہیں، مگر حتمی نہیں ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے کچھ مخصوص جماعتوں اورسیاسی شخصیات کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کے لیے یہ شقیں آئین میں شامل کی تھیں،جو نیک نیتی سے زیادہ بدنیتی پر مبنی سوچ کو ظاہر کرتی ہیں۔مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم ان اوصاف کو بیک جنبش قلم رد کردیں۔ ان کی اپنی اہمیت اور افادیت ضرور ہے، مگر یہ حرف آخر نہیں ہیں۔

دوسری طرف چکوال کے ریٹرننگ افسر نے مسلم لیگ(ن) کے رہنما ایاز امیر کا نامزدگی فارم ان کے کالم نظریہ پاکستان سے متصادم ہونے کی بنیاد پر مسترد کردیا ۔یہ ایک انتہائی مضحکہ خیزاقدام ہے،جس نے کئی سوالات کو جنم دیاہے۔اس کے علاوہ اس پر بحث ایک نیا پنڈورابکس کھول سکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں انتخابات کا موجودہ شیڈول متاثرہوسکتا ہے،جو نئے سیاسی انتشارکو پیدا کرنے کا سبب بن سکتاہے۔اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ اس وقت اس بحث کو نہ چھیڑاجائے تو بہترہے۔الیکشن کمیشن اور ان کے مقررکردہ ریٹرننگ افسران کی جانب سے کیے جانے والے اس قسم کے غیر ضروری اقدامات سے اس شک کو تقویت حاصل ہورہی ہے کہ کچھ مخصوص حلقے جن میں میڈیا کاایک خاطرخواہ حصہ بھی شامل ہے۔

آرٹیکل 62 اور63 کے حوالے سے جن خیالات کا پرچار کررہاہے اور ان پر عمل درآمد کے لیے جس انداز میں اصرار کررہاہے،اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ایک مخصوص سیاسی فکر کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ وہی رویہ اور رجحان ہے جسے1970ء میںجنرل یحییٰ کے وزیر اطلاعات نوابزادہ شیر علی خان نے پروان چڑھانے کی کوشش کی اور بعد میں جنرل ضیاء الحق نے سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل کو معتوب کرنے کے لیے ہتھیار کے طورپر استعمال کیا۔ اب امیدواروں کی توہین وتحقیرکے ذریعے سیاسی عمل کوبے توقیراور عوامی نمایندگی کے تصور کو محدود کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ،تاکہ اپنی پسند کے نتائج حاصل کیے جاسکیں۔

پاکستان میں اس وقت ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے، جو ملکی معیشت کو درست سمت دے سکے۔ امن وامان کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوںپر حل کرسکے۔ خارجہ پالیسی میں جرأت مندانہ تبدیلیاں کرکے ملک کو شدت پسندی اور دہشت گردی کی عفریت سے نجات دلاسکے۔ توانائی کے بحران کا طویل المدتی مگر فوری حل تلاش کرسکے تاکہ صنعتکاری کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہ سکے۔تعلیم، صحت اور سماجی شعبے کوعالمی تناظر میں ترقی دے سکے اور کرپشن اور بدعنوانیوں کا قلع قمع کیا جاسکے۔

ایک ایسی قیادت جو ان امور کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ،اگر وہ صوم وصلوۃ کی پابند ہے تو یہ اس کی اضافی قابلیت توہوگی، مگر حتمی نہیں۔اس کے برعکس ایک ایسی قیادت جو پاکبازی اور راسخ العقیدگی کے تمام معیارات پرتو پوری اترتی ہو، مگر اس میںپیشہ ورانہ اہلیت اور دیانت کافقدان ہو اوروہ اس سیاسی عزم سے عاری ہو،جو ملکی مسائل کے حل کے لیے درکار ہوتی ہے،تو اس کے اعلیٰ انسانی اوصاف ملک و قوم کے لیے بے مقصداوربے مصرف ہوں گے۔اس لیے چھان پھٹک کا معیار صرف ذاتی اوصاف تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ امیدوار کی پیشہ ورانہ اہلیت کو مدنظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔

وقت اورحالات ثابت کررہے ہیں کہ پاکستان میں آئین کی مختلف شقوں، حکمرانی کے قواعد وضوابط اور سیاسی عمل میں بیشمار تضادات پائے جاتے ہیں، جو تیزی کے ساتھ ابھر کر سامنے آرہے ہیں ۔اگر ان تضادات کو دور کرنے اور ریاستی ڈھانچے کو صحیح سمت دینے کی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو وقت گزرنے کے ساتھ معاملات ومسائل پیچیدہ تر ہوتے چلے جائیں گے ،جس کے براہ راست اثرات ریاستی ڈھانچے پر مرتب ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔اس کے علاوہ یہ دعوے بھی درست محسوس ہورہے ہیں کہ کسی خاص فکری رجحان کو پروان چڑھانے یا پھرکوئی NRO2ہواہے،جس کی تکمیل کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے۔
Load Next Story