جمہوریت اور آمریت
جمہوریت کا تقاضا تھا کہ نگراں حکومت کے لوگوں کی تقرری اور اہلیت پر بات کی جاتی۔
جمہوریت پاکستان کا ایک ''نرم گرم'' ایشو ہے۔ انتخابات آتے ہی ذرایع ابلاغ پر بھی بس یہی ایک ایشو ہے، فیس بک اور دیگر سوشل نیٹ ورکس پر بھی اس کے چرچے ہیں۔ اسی قسم کی صورت حال راقم کو گزشتہ ہفتے ایک سیمینار میں نظر آئی جہاں جمہوریت کے گیت گائے جارہے تھے مگر اس جمہوریت سے عوام کو کیا ملا، اس پر کسی کے پاس جواب نہ تھا۔ سیمینار کا اہتمام شعبہ ابلاغ عامہ اور شعبہ جنرل ہسٹری نے جامعہ کراچی کی سماعت گاہ کلیہ فنون میں کیا تھا۔
مقررین میں دائیں اور بائیں بازو کے معروف افراد شامل تھے تاہم ان میں سابق سینیٹر اور وزیر اطلاعات جاوید جبار بھی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے کو لازمی بنایا جائے۔ دنیا کے 30 ممالک میں ووٹ نہ ڈالنے پر جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے بعض ممالک میں شناختی کارڈ منسوخ کردیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ بات بہت اچھی، مگر عجیب سی ہے کیونکہ مغرب جمہوریت کو شخصی آزادی سے منسوب کرتا ہے یعنی ہر شخص آزاد ہے جسے چاہے ووٹ دے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ جمہوری نظام سے یا ان میں حصہ لینے والوں سے متفق نہ ہو اور ووٹ نہ ڈال کر احتجاج کا طریقہ اپنائیں تو یہ کون سی جمہوریت ہے کہ ایسے لوگوں پر جرمانہ عائد کردیا جائے اور شناختی کارڈ منسوخ کردیا جائے؟ کیا یہ انفرادی یا اظہار رائے کے خلاف نہ ہوگا؟ بہر کیف۔۔۔۔ جاوید جبار کا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات اور جمہوری کلچر کی کمی ہے، ان کے نزدیک جماعت اسلامی سرفہرست وہ واحد جماعت ہے کہ جس میں باقاعدہ انتخابات تو ہوتے ہی ہیں لیکن کوئی خود سے اپنے آپ کو امیدوار کے لیے پیش نہیں کرسکتا۔
جاوید جبار نے جمہوریت کے کلچر کی یہ مثال تو بہت خوب بیان کی لیکن افسوس کا تو مقام یہی ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کلچر ہی ناپید ہے، پھر ہر امیدوار نہ صرف اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کرتا ہے بلکہ ''لابنگ'' کرنے کے لیے لوگوں سے ملاقاتیں کرنا اور خوب مال خرچ کرنا قابل فخر سمجھتا ہے۔ یہ عمل محض قومی سطح کی سیاسی جماعتوں میں ہی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی تنظیموں کے انتخابات میں بھی نظر آتا ہے، اور ایک معقول اور باکردار آدمی اس میں حصہ لینے کا متحمل نہیں ہوسکتا بلکہ بقول شیخ رشید کسی جماعت میں کوئی معقول اور ٹیلنٹیڈ شخص نظر آئے تو پہلی فرصت میں اس کو پارٹی سے نکالنے کی کوشش ہوتی ہے۔
ایک اہم مسئلہ اس ملک کو اسلامی جمہوری یا سیکولر جمہوریت بنانے کا بھی ہے۔ اس سیمینار میں بھی مقررین نے اپنے تئیں اس ملک کو قائداعظم کے حوالے سے سیکولر یا اسلامی بنانے پر زور دیا۔ ایک صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم قائداعظم کی تقریر کے 41 الفاظ لے کر بیان کرتے ہیں، اگر مکمل تقریر کا حوالہ دیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قائداعظم بھی سیکولر ریاست کے حامی تھے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ عموماً عوام کو سیکولر اور مذہبی ریاست کے دائروں میں گھما تو دیا جاتا ہے لیکن ملکی مفادات کے بنیادی معاملات اور ایشوز کو کسی کونے میں چھپا کر رکھ دیا جاتا ہے۔
مگر قائداعظم جیسا بھی ملک چاہتے ہوں، کیا انھوں نے اپنے لیے تنخواہ ایک روپیہ مقرر نہیں کی تھی؟ لیاقت علی خان کیسے بھی نظریات کے حامی ہوں، کیا ان کے انتقال کے بعد ان کے کپڑے پیوند والے نہیں تھے اور نواب خاندان سے ہونے کے باوجود ان کا بینک بیلنس ایک عام مزدور سے بھی کہیں کم نہ تھا؟ کیا قائداعظم جیسے روشن و جمہوری خیالات کا ہم پرچار کرسکتے ہیں کہ جس میں وہ مسلم لیگ پر ہی تنقید کے مضامین کو نہ صرف ڈان بلکہ دیگر اخبارات میں بھی شایع کرنے کی اجازت بخوشی دیتے۔
بائیں بازو کے نظریات سے تعلق رکھنے والے ایک مقرر کا کہنا تھا کہ اسلامی نعرے کے پیچھے درحقیقت زمینداروں کے مفادات کا تحفظ ہوتا تھا اسی لیے تقسیم ہند سے آج تک یہ طبقہ اسی نعرے کے پس پشت رہا، اس قسم کے دیگر مزید حقائق کے باعث پاکستان میں جمہوریت درست معنوں میں پنپ نہ سکی۔ دائیں بازو کے ایک مقرر نے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب تک سیاست میں اخلاقیات داخل نہیں ہوگی ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، کرپشن ختم نہیں ہوسکتی۔ انھوں نے اقبال کے شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب سیاست سے دین کو جدا کردیا جائے تو پھر چنگیزی باقی رہ جاتی ہے۔
الہائیت کے بغیر نظام نہیں چل سکتا اسی لیے ہماری جمہوریت کو کرپشن کی دیمک لگ چکی ہے اور ہم کیکر کے درخت سے انگور حاصل کرنے کی خواہش رکھے ہوئے ہیں۔ اس موقعے پر جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کا کہنا تھا کہ جب تک جز درست نہ ہو کُل کی اصلاح بھی ممکن نہیں۔ فرد کے کردار کو درست کرتے ہوئے ریاست کے پورے نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، ہم نصف صدی میں بھی ملک کو سیکولر یا اسلامی نہیں بناسکے کیونکہ ہم اپنی ذات میں اچھے مسلمان اور انسان بھی نہیں بنے۔ جمہوریت بنیادی طور پر رویے کا نام ہے، جس میں اختلاف رائے کو برداشت کرنا اور دلائل کے ذریعے طے کرنا ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا دلائل اپنی جگہ ضرور وزن رکھتے ہیں تاہم ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ جمہوریت ہو یا آمریت، اصل ایشوز کو تہہ خانوں میں دبا دیا جاتا ہے اور غیر ضروری ایشوز کو ''بریکنگ نیوز'' بناکر عوام کا دھیان بھی کسی اور طرف لے جایا جاتا ہے مثلاً تازہ ترین ایشو دیکھ لیجیے، آج کل بریکنگ نیوز اس قسم کی ہیں ''امیدوار دوسرا کلمہ نہ سنا سکے، فلاں امیدوار سے اذان فجر سنی گئی''۔
قوم کی قسمت کا فیصلہ سر پر آن کھڑا ہے اور ہم مذکورہ بالا نان ایشوز پر ذہن کو الجھا رہے ہیں۔ اس وقت جمہوریت کا تقاضا تھا کہ نگراں حکومت کے لوگوں کی تقرری اور اہلیت پر بات کی جاتی، نیز کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں کے بینک بیلنس، خفیہ اکاؤنٹس، بیرون ملک اکاؤنٹس، گزشتہ دس برسوں میں کمائی گئی دولت کی تفصیل اور ٹیکس کی ادائیگی کی تفصیل بیان کی جاتی اور ان کے فرائض منصبی سے متعلق بات کی جاتی تاکہ 63-62 کی شق پر پورا نہ اترنے والوں کو فوری طور پر روکا جاسکتا اور عوام کو بھی ان کے کردار کا پتہ چلتا اور آگاہی ہوتی کہ انھوں نے پہلے کس قدر ایماندار اور فرض شناس افراد کو ووٹ دیے اور اب انھیں کس کس صاحب کردار کو ووٹ دینا چاہیے۔ ذرایع ابلاغ میں بیٹھے لوگوں کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو صحیح رائے دہی کے امتحان کے لیے تمام امیدواروں کے کردار کو کھول کر سامنے رکھ دیں تاکہ عوام صاحب کردار لوگوں کو منتخب کریں، کیونکہ صاحب کردار لوگوں کے بغیر جمہوریت، آمریت سے مختلف نہیں۔
مقررین میں دائیں اور بائیں بازو کے معروف افراد شامل تھے تاہم ان میں سابق سینیٹر اور وزیر اطلاعات جاوید جبار بھی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے کو لازمی بنایا جائے۔ دنیا کے 30 ممالک میں ووٹ نہ ڈالنے پر جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے بعض ممالک میں شناختی کارڈ منسوخ کردیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ بات بہت اچھی، مگر عجیب سی ہے کیونکہ مغرب جمہوریت کو شخصی آزادی سے منسوب کرتا ہے یعنی ہر شخص آزاد ہے جسے چاہے ووٹ دے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ جمہوری نظام سے یا ان میں حصہ لینے والوں سے متفق نہ ہو اور ووٹ نہ ڈال کر احتجاج کا طریقہ اپنائیں تو یہ کون سی جمہوریت ہے کہ ایسے لوگوں پر جرمانہ عائد کردیا جائے اور شناختی کارڈ منسوخ کردیا جائے؟ کیا یہ انفرادی یا اظہار رائے کے خلاف نہ ہوگا؟ بہر کیف۔۔۔۔ جاوید جبار کا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات اور جمہوری کلچر کی کمی ہے، ان کے نزدیک جماعت اسلامی سرفہرست وہ واحد جماعت ہے کہ جس میں باقاعدہ انتخابات تو ہوتے ہی ہیں لیکن کوئی خود سے اپنے آپ کو امیدوار کے لیے پیش نہیں کرسکتا۔
جاوید جبار نے جمہوریت کے کلچر کی یہ مثال تو بہت خوب بیان کی لیکن افسوس کا تو مقام یہی ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کلچر ہی ناپید ہے، پھر ہر امیدوار نہ صرف اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کرتا ہے بلکہ ''لابنگ'' کرنے کے لیے لوگوں سے ملاقاتیں کرنا اور خوب مال خرچ کرنا قابل فخر سمجھتا ہے۔ یہ عمل محض قومی سطح کی سیاسی جماعتوں میں ہی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی تنظیموں کے انتخابات میں بھی نظر آتا ہے، اور ایک معقول اور باکردار آدمی اس میں حصہ لینے کا متحمل نہیں ہوسکتا بلکہ بقول شیخ رشید کسی جماعت میں کوئی معقول اور ٹیلنٹیڈ شخص نظر آئے تو پہلی فرصت میں اس کو پارٹی سے نکالنے کی کوشش ہوتی ہے۔
ایک اہم مسئلہ اس ملک کو اسلامی جمہوری یا سیکولر جمہوریت بنانے کا بھی ہے۔ اس سیمینار میں بھی مقررین نے اپنے تئیں اس ملک کو قائداعظم کے حوالے سے سیکولر یا اسلامی بنانے پر زور دیا۔ ایک صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم قائداعظم کی تقریر کے 41 الفاظ لے کر بیان کرتے ہیں، اگر مکمل تقریر کا حوالہ دیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قائداعظم بھی سیکولر ریاست کے حامی تھے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ عموماً عوام کو سیکولر اور مذہبی ریاست کے دائروں میں گھما تو دیا جاتا ہے لیکن ملکی مفادات کے بنیادی معاملات اور ایشوز کو کسی کونے میں چھپا کر رکھ دیا جاتا ہے۔
مگر قائداعظم جیسا بھی ملک چاہتے ہوں، کیا انھوں نے اپنے لیے تنخواہ ایک روپیہ مقرر نہیں کی تھی؟ لیاقت علی خان کیسے بھی نظریات کے حامی ہوں، کیا ان کے انتقال کے بعد ان کے کپڑے پیوند والے نہیں تھے اور نواب خاندان سے ہونے کے باوجود ان کا بینک بیلنس ایک عام مزدور سے بھی کہیں کم نہ تھا؟ کیا قائداعظم جیسے روشن و جمہوری خیالات کا ہم پرچار کرسکتے ہیں کہ جس میں وہ مسلم لیگ پر ہی تنقید کے مضامین کو نہ صرف ڈان بلکہ دیگر اخبارات میں بھی شایع کرنے کی اجازت بخوشی دیتے۔
بائیں بازو کے نظریات سے تعلق رکھنے والے ایک مقرر کا کہنا تھا کہ اسلامی نعرے کے پیچھے درحقیقت زمینداروں کے مفادات کا تحفظ ہوتا تھا اسی لیے تقسیم ہند سے آج تک یہ طبقہ اسی نعرے کے پس پشت رہا، اس قسم کے دیگر مزید حقائق کے باعث پاکستان میں جمہوریت درست معنوں میں پنپ نہ سکی۔ دائیں بازو کے ایک مقرر نے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب تک سیاست میں اخلاقیات داخل نہیں ہوگی ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، کرپشن ختم نہیں ہوسکتی۔ انھوں نے اقبال کے شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب سیاست سے دین کو جدا کردیا جائے تو پھر چنگیزی باقی رہ جاتی ہے۔
الہائیت کے بغیر نظام نہیں چل سکتا اسی لیے ہماری جمہوریت کو کرپشن کی دیمک لگ چکی ہے اور ہم کیکر کے درخت سے انگور حاصل کرنے کی خواہش رکھے ہوئے ہیں۔ اس موقعے پر جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کا کہنا تھا کہ جب تک جز درست نہ ہو کُل کی اصلاح بھی ممکن نہیں۔ فرد کے کردار کو درست کرتے ہوئے ریاست کے پورے نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، ہم نصف صدی میں بھی ملک کو سیکولر یا اسلامی نہیں بناسکے کیونکہ ہم اپنی ذات میں اچھے مسلمان اور انسان بھی نہیں بنے۔ جمہوریت بنیادی طور پر رویے کا نام ہے، جس میں اختلاف رائے کو برداشت کرنا اور دلائل کے ذریعے طے کرنا ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا دلائل اپنی جگہ ضرور وزن رکھتے ہیں تاہم ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ جمہوریت ہو یا آمریت، اصل ایشوز کو تہہ خانوں میں دبا دیا جاتا ہے اور غیر ضروری ایشوز کو ''بریکنگ نیوز'' بناکر عوام کا دھیان بھی کسی اور طرف لے جایا جاتا ہے مثلاً تازہ ترین ایشو دیکھ لیجیے، آج کل بریکنگ نیوز اس قسم کی ہیں ''امیدوار دوسرا کلمہ نہ سنا سکے، فلاں امیدوار سے اذان فجر سنی گئی''۔
قوم کی قسمت کا فیصلہ سر پر آن کھڑا ہے اور ہم مذکورہ بالا نان ایشوز پر ذہن کو الجھا رہے ہیں۔ اس وقت جمہوریت کا تقاضا تھا کہ نگراں حکومت کے لوگوں کی تقرری اور اہلیت پر بات کی جاتی، نیز کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں کے بینک بیلنس، خفیہ اکاؤنٹس، بیرون ملک اکاؤنٹس، گزشتہ دس برسوں میں کمائی گئی دولت کی تفصیل اور ٹیکس کی ادائیگی کی تفصیل بیان کی جاتی اور ان کے فرائض منصبی سے متعلق بات کی جاتی تاکہ 63-62 کی شق پر پورا نہ اترنے والوں کو فوری طور پر روکا جاسکتا اور عوام کو بھی ان کے کردار کا پتہ چلتا اور آگاہی ہوتی کہ انھوں نے پہلے کس قدر ایماندار اور فرض شناس افراد کو ووٹ دیے اور اب انھیں کس کس صاحب کردار کو ووٹ دینا چاہیے۔ ذرایع ابلاغ میں بیٹھے لوگوں کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو صحیح رائے دہی کے امتحان کے لیے تمام امیدواروں کے کردار کو کھول کر سامنے رکھ دیں تاکہ عوام صاحب کردار لوگوں کو منتخب کریں، کیونکہ صاحب کردار لوگوں کے بغیر جمہوریت، آمریت سے مختلف نہیں۔